شمشاد بیگم آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ شمشاد بیگم کی آواز کا موازنہ کسی اور گلوکارہ سے کیا ہی نہیں جاسکتا۔
منگل 23 اپریل اس بلبل کی سریلی آواز موت کی بے انت وادیوں میں ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی جسے سنتے سنتے ہم نے اپنے شعورکی آنکھ کھولی تھی۔آواز کا شاید یہ طویل ترین سفر تھا جو 94 برس کی حدوں کوچھو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ اس سفر کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ہماری عمر بمشکل دوسال کی تھی۔ پھر اب ہم نے شعور کی آوازکھولی تو اس وقت یہ آواز ہندوستان کے کونے کونے میں گونج رہی تھی اور سننے والوں کے کانوں میں امرت رس انڈیل رہی تھی۔ یہ تھی شمشاد بیگم کی جادو جگاتی ہوئی آواز جنہوں نے امرتسر میں جنم لیا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ریڈیو کا ہی طوطی بولتا تھا یا پھر فلم نگری تھی۔ چناں چہ دیگر گلوکاروں کی طرح شمشاد بیگم نے بھی اپنی گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہی کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آواز پورے برصغیر پر چھاگئی۔ ممتاز سارنگی نواز استاد حسین بخشو اے صاحب وہ پہلے موسیقار تھے جو اس اچھوتی آواز کی سحرانگیزی سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اس ابھرتی ہوئی گلوکارہ کو اپنی شاگردی کے سائے میں لے لیا۔ شمشاد بیگم اور میڈم نورجہاں وہ منفرد گلوکارائیں ہیں جن کے جوہر کو دریافت کرنے اور نکھارنے کا سہرا نابغہ روزگار موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے۔ ان ہی نے بالترتیب 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں جوہر شناسی کا یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ لتا منگیشکر جیسی سریلی مغنیہ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی میں بھی ان ہی کا ہاتھ ہے۔
وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اپنے جوہر قابل کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے مخلص و مہربان اساتذہ میسر آتے ہیں۔ شمشاد بیگم، نورجہاں اور لتا منیگشکر کا شمار ان ہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔
کے ایل سہگل، شمشاد بیگم، ثریا، میڈم نورجہاں، محمد رفیع، طلعت محمود، مکیش، لتا منگیشتر،کشور کمار، ہیمنت کمار اور مناڈے وہ عظیم گلوکار ہیں جن کا شمار لیجنڈز میں ہوتا ہے۔ ان میں سے دوگلوکاروں، لتامنگیشکر اور مناڈے کو بجا طور پر Living Legends کہاجاتا ہے۔ اللہ انھیں تادیر سلامت رکھے۔ مناڈے بھی اب 90 کی عمر پارکرچکے ہیں جب کہ ہمارے پاکستان کے عظیم گلوکار مہدی حسن اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ یہ تمام فنکار ایسے ہیں کہ جن کا کسی سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
ثریا اور نورجہاں نے گلوکاری کے علاوہ اداکاری کے میدان میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے مگر شمشاد بیگم نے اپنے آپ کو صرف آواز کی دنیا تک ہی محدود رکھا۔ وہ کیمرے کی آنکھ سے بہت شرماتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے والدین کی بھی بہت فرماں بردار تھیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ انھیں اداکاری کی پیشکش بھی ہوئی تھی جسے انھوں نے اپنے والد کے کہنے پر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے زندگی بھر صرف اپنی گلوکاری ہی کے جوہر دکھائے۔
کے ایل سہگل کی طرح شمشاد بیگم کی گائیکی کا بھی ایک مخصوص انداز تھا جو فلمسازوں کو اتنا پسند تھا کہ وہ نئے آنے والوں سے بھی اسی انداز میں گانے کا اصرار کرتے تھے۔ چناں چہ لتا اور اس کے بعد ان کی چھوٹی بہن گلوکارہ آشا بھوسلے سے بھی بڑے بڑے فلم سازوں نے یہی اصرار کیا کہ وہ شمشاد بیگم کا راستہ اختیار کریں۔ دراصل فلم سازوں کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ شمشاد بیگم کی آواز کا سحر اور کمال تھا جس کا اعتراف خود لتا نے بھی کئی مرتبہ کیا ہے۔
سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ شمشاد بیگم کی آواز کا موازنہ کسی اور گلوکارہ سے کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ ان کی آواز کا لوچ اور رچاؤ دیگر تمام گلوکاروں اور گلوکاراؤں سے بالکل مختلف تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے موسیقی کے بڑے بڑے استادوں اور سنگیت پنڈتوں کو ہمیشہ یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ شمشاد بیگم کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ بڑے بڑے موسیقار وں نے ان کی بے مثل اور منفرد گائیکی کا لوہا مانا ہے اور انھیں بڑھ چڑھ کر خراج تحسین وعقیدت پیش کیا ہے۔
شمشاد بیگم کی آواز کی رینج بھی دیگر گلوکاروں اور گلوکاراؤں سے بہت مختلف تھی جو ایک عطیہ خداوندی تھا۔ لوک گائیکی کے میل کے چاشنی نے ان کی گلوکاری کی اثرانگیزی کو دو آتشہ کردیا تھا۔ ان کے گانوں کو سن کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی کانوں میں رس انڈیل رہا ہو۔ سننے والے کا جی بس یہی چاہتا تھا کہ وہ مسلسل سنتا ہی رہے اور یہ سلسلہ کبھی بھی اپنے اختتام کو نہ پہنچے۔
ہم نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو ہر طرف ان کے سدابہار نغمے گونج رہے تھے۔ ''بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا'' اور ''میرے پیا گئے رنگون'' جیسے لافانی نغمے اپنی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ اس کے علاوہ اداکارہ وجینتی مالا پر فلمائے گئے لازوال نغمے ''سیاں دل میں آنا رے' آکے پھر نہ جانا رے'' نے بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تھا۔ ''بوجھ میرا کیا نام رے'' ان کا گایا ہوا ایک اور بے حد مقبول نغمہ تھا جو اداکارہ مینو ممتاز پر فلمایا گیا تھا۔ موسیقی کے متوالے آج بھی جب ان لازوال ولافانی نغمات کو سنتے ہیں تو بے ساختہ جھومنے لگتے ہیں۔ عظیم انگریزی شاعر جان کیٹس نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ حسن کا کوئی بھی موقع ابدی سرخوشی و سرشاری کا سرچشمہ ہوتا ہے جس کی دلکشی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ شمشاد بیگم کو محض روایتی اور عام فلمی گائیکی پر ہی عبور حاصل نہیں تھا بلکہ ان سے کوئی بھی گانا نہایت آسانی کے ساتھ اور کمال مہارت سے گوایا جاسکتا تھا۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ ممتاز موسیقار سی۔رام چندر نے مغربی پاپ میوزک پر سب سے پہلا گانا ان ہی سے گوایا تھا جس کے خوبصورت بول ہمارے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں ''مری جان سنڈے کے سنڈے''۔
شمشاد بیگم کی عظمت کا ایک اور بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ 40 کی دہائی میں مدن موہن اور کشور کمار جیسے مستقبل کے درخشندہ ستارے ان کے کورسوں میں مہمان گلوکاروں کی حیثیت سے اپنی آوازیں شامل کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق شمشاد بیگم نے مدن موہن سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جب وہ میوزک ڈائریکٹر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کریں گے تو وہ بہت کم معاوضے کے عوض ان کی دھنوں کو اپنی آواز سے سجائیں گی۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن وہ آئے گا جب کشور کمار کے ڈنکے بجیں گے۔
یہ شمشاد بیگم ہی تھیں جنہوں نے عظیم موسیقار نوشاد کی لافانی دھنوں کو فلم مدر انڈیا اور مغل اعظم میں اپنی مدھر اور مدھ بھری آواز سے سجایا تھا۔ ان کے گائے ہوئے ان نغمات کے سریلے بول ''گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک رے'' اور ''تری محفل میں قسمت آزماکر ہم بھی دیکھیں گے'' تابہ ابد سننے والوں کے کانوں میں امرت رس گھولتے رہیں گے۔ نوشاد نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کی کامیابی میں شمشاد بیگم کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ دو دیگر عظیم موسیقاروں اوپی نیر اور ایس ڈی برمن نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی کامیابی اور مقبولیت میں شمشاد بیگم کی آواز نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔
شمشاد بیگم کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر گانے والوں کو آگے بڑھانے میں ان کے موسیقاروں کا ہاتھ تھا جب کہ نام ور موسیقاروں کو مقبول بنانے والی خود شمشاد بیگم تھیں۔ شمشاد بیگم نے 1940 کے اوائل سے موسیقی، خصوصاً ہندوستان کی فلمی موسیقی پر راج کیا۔ ان کی منفرد آواز کے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔''
یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ریڈیو کا ہی طوطی بولتا تھا یا پھر فلم نگری تھی۔ چناں چہ دیگر گلوکاروں کی طرح شمشاد بیگم نے بھی اپنی گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہی کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آواز پورے برصغیر پر چھاگئی۔ ممتاز سارنگی نواز استاد حسین بخشو اے صاحب وہ پہلے موسیقار تھے جو اس اچھوتی آواز کی سحرانگیزی سے متاثر ہوئے اور انھوں نے اس ابھرتی ہوئی گلوکارہ کو اپنی شاگردی کے سائے میں لے لیا۔ شمشاد بیگم اور میڈم نورجہاں وہ منفرد گلوکارائیں ہیں جن کے جوہر کو دریافت کرنے اور نکھارنے کا سہرا نابغہ روزگار موسیقار ماسٹر غلام حیدر کے سر ہے۔ ان ہی نے بالترتیب 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں جوہر شناسی کا یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ لتا منگیشکر جیسی سریلی مغنیہ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی میں بھی ان ہی کا ہاتھ ہے۔
وہ لوگ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں اپنے جوہر قابل کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے مخلص و مہربان اساتذہ میسر آتے ہیں۔ شمشاد بیگم، نورجہاں اور لتا منیگشکر کا شمار ان ہی خوش نصیبوں میں ہوتا ہے۔
کے ایل سہگل، شمشاد بیگم، ثریا، میڈم نورجہاں، محمد رفیع، طلعت محمود، مکیش، لتا منگیشتر،کشور کمار، ہیمنت کمار اور مناڈے وہ عظیم گلوکار ہیں جن کا شمار لیجنڈز میں ہوتا ہے۔ ان میں سے دوگلوکاروں، لتامنگیشکر اور مناڈے کو بجا طور پر Living Legends کہاجاتا ہے۔ اللہ انھیں تادیر سلامت رکھے۔ مناڈے بھی اب 90 کی عمر پارکرچکے ہیں جب کہ ہمارے پاکستان کے عظیم گلوکار مہدی حسن اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ یہ تمام فنکار ایسے ہیں کہ جن کا کسی سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
ثریا اور نورجہاں نے گلوکاری کے علاوہ اداکاری کے میدان میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے مگر شمشاد بیگم نے اپنے آپ کو صرف آواز کی دنیا تک ہی محدود رکھا۔ وہ کیمرے کی آنکھ سے بہت شرماتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے والدین کی بھی بہت فرماں بردار تھیں۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ انھیں اداکاری کی پیشکش بھی ہوئی تھی جسے انھوں نے اپنے والد کے کہنے پر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے زندگی بھر صرف اپنی گلوکاری ہی کے جوہر دکھائے۔
کے ایل سہگل کی طرح شمشاد بیگم کی گائیکی کا بھی ایک مخصوص انداز تھا جو فلمسازوں کو اتنا پسند تھا کہ وہ نئے آنے والوں سے بھی اسی انداز میں گانے کا اصرار کرتے تھے۔ چناں چہ لتا اور اس کے بعد ان کی چھوٹی بہن گلوکارہ آشا بھوسلے سے بھی بڑے بڑے فلم سازوں نے یہی اصرار کیا کہ وہ شمشاد بیگم کا راستہ اختیار کریں۔ دراصل فلم سازوں کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا بلکہ یہ شمشاد بیگم کی آواز کا سحر اور کمال تھا جس کا اعتراف خود لتا نے بھی کئی مرتبہ کیا ہے۔
سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ شمشاد بیگم کی آواز کا موازنہ کسی اور گلوکارہ سے کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ ان کی آواز کا لوچ اور رچاؤ دیگر تمام گلوکاروں اور گلوکاراؤں سے بالکل مختلف تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے موسیقی کے بڑے بڑے استادوں اور سنگیت پنڈتوں کو ہمیشہ یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ شمشاد بیگم کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ بڑے بڑے موسیقار وں نے ان کی بے مثل اور منفرد گائیکی کا لوہا مانا ہے اور انھیں بڑھ چڑھ کر خراج تحسین وعقیدت پیش کیا ہے۔
شمشاد بیگم کی آواز کی رینج بھی دیگر گلوکاروں اور گلوکاراؤں سے بہت مختلف تھی جو ایک عطیہ خداوندی تھا۔ لوک گائیکی کے میل کے چاشنی نے ان کی گلوکاری کی اثرانگیزی کو دو آتشہ کردیا تھا۔ ان کے گانوں کو سن کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی کانوں میں رس انڈیل رہا ہو۔ سننے والے کا جی بس یہی چاہتا تھا کہ وہ مسلسل سنتا ہی رہے اور یہ سلسلہ کبھی بھی اپنے اختتام کو نہ پہنچے۔
ہم نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو ہر طرف ان کے سدابہار نغمے گونج رہے تھے۔ ''بڑی مشکل سے دل کی بے قراری کو قرار آیا'' اور ''میرے پیا گئے رنگون'' جیسے لافانی نغمے اپنی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ اس کے علاوہ اداکارہ وجینتی مالا پر فلمائے گئے لازوال نغمے ''سیاں دل میں آنا رے' آکے پھر نہ جانا رے'' نے بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تھا۔ ''بوجھ میرا کیا نام رے'' ان کا گایا ہوا ایک اور بے حد مقبول نغمہ تھا جو اداکارہ مینو ممتاز پر فلمایا گیا تھا۔ موسیقی کے متوالے آج بھی جب ان لازوال ولافانی نغمات کو سنتے ہیں تو بے ساختہ جھومنے لگتے ہیں۔ عظیم انگریزی شاعر جان کیٹس نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ حسن کا کوئی بھی موقع ابدی سرخوشی و سرشاری کا سرچشمہ ہوتا ہے جس کی دلکشی کبھی ماند نہیں پڑتی۔ شمشاد بیگم کو محض روایتی اور عام فلمی گائیکی پر ہی عبور حاصل نہیں تھا بلکہ ان سے کوئی بھی گانا نہایت آسانی کے ساتھ اور کمال مہارت سے گوایا جاسکتا تھا۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ ممتاز موسیقار سی۔رام چندر نے مغربی پاپ میوزک پر سب سے پہلا گانا ان ہی سے گوایا تھا جس کے خوبصورت بول ہمارے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں ''مری جان سنڈے کے سنڈے''۔
شمشاد بیگم کی عظمت کا ایک اور بہت بڑا ثبوت یہ ہے کہ 40 کی دہائی میں مدن موہن اور کشور کمار جیسے مستقبل کے درخشندہ ستارے ان کے کورسوں میں مہمان گلوکاروں کی حیثیت سے اپنی آوازیں شامل کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق شمشاد بیگم نے مدن موہن سے یہ وعدہ کیا تھا کہ جب وہ میوزک ڈائریکٹر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کریں گے تو وہ بہت کم معاوضے کے عوض ان کی دھنوں کو اپنی آواز سے سجائیں گی۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن وہ آئے گا جب کشور کمار کے ڈنکے بجیں گے۔
یہ شمشاد بیگم ہی تھیں جنہوں نے عظیم موسیقار نوشاد کی لافانی دھنوں کو فلم مدر انڈیا اور مغل اعظم میں اپنی مدھر اور مدھ بھری آواز سے سجایا تھا۔ ان کے گائے ہوئے ان نغمات کے سریلے بول ''گاڑی والے گاڑی دھیرے ہانک رے'' اور ''تری محفل میں قسمت آزماکر ہم بھی دیکھیں گے'' تابہ ابد سننے والوں کے کانوں میں امرت رس گھولتے رہیں گے۔ نوشاد نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ ان کی کامیابی میں شمشاد بیگم کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ دو دیگر عظیم موسیقاروں اوپی نیر اور ایس ڈی برمن نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کی کامیابی اور مقبولیت میں شمشاد بیگم کی آواز نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔
شمشاد بیگم کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر گانے والوں کو آگے بڑھانے میں ان کے موسیقاروں کا ہاتھ تھا جب کہ نام ور موسیقاروں کو مقبول بنانے والی خود شمشاد بیگم تھیں۔ شمشاد بیگم نے 1940 کے اوائل سے موسیقی، خصوصاً ہندوستان کی فلمی موسیقی پر راج کیا۔ ان کی منفرد آواز کے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز۔''