بلوچستان میں سیاسی بے گانگی اور اجتماعی شعور

یہ لوگ شدت پسندوں سے ’’ڈیل‘‘ کرنے میں ذرا بھی نہیں گھبراتے مگر قوم پرست منتخب سیاستدانوں سے بات کرنے میں خائف ہوتے ہیں

khanabadosh81@gmail.com

بلوچستان میں سیاسی رہنماؤں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پس منظر میں یہ سوال بجا طور پرشدت اختیارکرگیا ہے کہ بلوچستان کے سیاسی رویوں سے متعلق یہاں کا اجتماعی سیاسی شعور کیا سوچ رہا ہے؟ بلوچستان کی تقریباََ تمام اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان اور اب اس کی بھرپور تیاریوں کے بعد مزاحمتی قوتیں بھی ان کے خلاف متحد ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ بلوچ سیاسی و مزاحمتی قوتوں کے مابین جو خلیج نواب اکبر خان کی وفات کے بعد بڑھنا شروع ہوئی تھی، وہ اب کھلی دشمنی کی حد تک جا پہنچی ہے۔

بلوچستان میں سیاسی قیادت پر اس طرح منظم اور کھلے حملے پہلی بار ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل یہ اختلاف سیاسی نکتہ نظر کی حد تک تھا، جس میں ایک دوسرے کو دشنام اور دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ مکران میں نیشنل پارٹی کے رہنما اور پارٹی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے مولابخش دشتی کے قتل کا الزام گو کہ پارٹی قیادت کالعدم مزاحمتی تنظیم بی ایل ایف پر ڈالتی رہی، گو کہ عمومی تاثر بھی یہی پایا جاتا تھا، لیکن ایک اخباری بیان میں اس کی وضاحت کی گئی کہ وہ سیاسی اختلاف کی بنا پر کسی کو قتل کرنے کے حق میں نہیں ۔

گو کہ آج سیاسی قیادت جس خطرناک صورت حال کا شکار ہے، اس کی کچھ ذمے داری خود ان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اکبر خان کے قتل کے خلاف احتجاجاََ پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کے بعد قوم پرست قیادت کی عوام میں بھی پذیرائی ہوئی تھی اور مزاحمتی حلقوں نے بھی انہیں دشنام دینا کم کر دیا تھا۔ یہ وقت تھا جب ان دونوں قوتوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے تھا اور ایک ایسی مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے تھی جو دیرپا بھی ہوتی اور بلوچستان کے عوام کے لیے سود مند بھی۔لیکن دونوں قوتوں نے اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کو فوقیت دی، اپنے اپنے طرزِ عمل کو ہی حرفِ آخر جانا...نتیجہ یہ ہے کہ آج ان کی باہمی چقلشوں اور تصادم کاخراج عوام ادا کر رہے ہیں۔ اور مقتدرہ جس نے ان برسوں میں سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، وہ تو اس باہمی تصاد م پہ بغلیں بجا رہی ہے ۔

یہ تصادم اب اس قدر خونی رنگ اختیار کر چکا ہے کہ عام آدمی اب اس کے نتیجے میں سیاسی عمل سے ہی بیزاری کا اظہار کرنے لگا ہے۔ سیاست دانوں، خواہ جمہوری ہوں یا غیر جمہوری نے تو انہیں کبھی کچھ نہ دیا لیکن غیرپارلیمانی سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلسل ہڑتالوں کے سلسلے نے بھی عام آدمی کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بالخصوص اندرونِ بلوچستان کے ایسے علاقے جہاں متبادل آمدن کے ذرائع ناپید ہوں، مارکیٹ انتہائی محدود ہو، وہاں بازاروں اور مارکیٹوں کا ہفتوں بند رہنا، یا ہفتے میں تین سے چار دن تسلسل سے بند رہنا، عام آدمی کے لیے ناقابل ِبرداشت ہوجاتا ہے۔

دوسری طرف سیاسی عمل کے جواب میں آپ طاقت کا راستہ اختیار کر لیں ، اور عوام کی ترجمانی کے دعوے کے باوجود ،عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار تک نہ دیں، تو عوام میں آپ کی حیثیت اور عمل کا مشکوک ہوجانا یقینی ہوجاتا ہے۔ لوگ اس شک کا اظہار بھی اس لیے نہیں کر سکتے، کہ اس کا جواب بھی دلیل کے بجائے طاقت سے دیے جانے کا امکان ہوتا ہے۔جس کے نتیجے میں ناگزیر طور پر عوام سیاسی لاتعلقی یا بے گانگی اختیار کرنا شروع کر دیتے ہیں، جوکسی بھی متحرک سماج کو جامد کر دینے کا سبب بن سکتا ہے۔


رہی بات بلوچستان کے اجتماعی سیاسی شعورکی ، تو اس کے حوالے کے بطور میں اپنے ایک محبی کا ایک فکر انگیز ای میل یہاں نقل کرتا ہوں، جو مذکورہ موضوع پر گفت گو میں انہوں نے لکھا۔ ان کے متعلق یہ بتادوں کا ان کا خمیر بلوچستان کی مٹی سے ہے، بلوچستان کے رمز آشنا لوگوں میں سے ہیں۔ اِن دنوں اسلام آباد میں ایک بڑے ادارے سے وابستہ ہیں۔ان کی معروضات اور خدشات میں بلوچستان کے اجتماعی سیاسی شعور کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

لکھتے ہیں؛'' سنجیدہ خوف جو میرے دل میں جاگزیں ہے، یہ ہے کہ ہماری سرزمین کی اہمیت قدرتی وسائل کے منبع اور ان کی گزرگاہ کے طور پر مسلمہ ہے اور مستقبل کے منظر نامے میں اس کی اہمیت نمایاں تر ہوتی جا رہی ہے۔ زود یا بدیر ان وسائل کی دنیا کی اقتصادی قوتوں کو ضرورت پڑے گی اور اس کے لیے ضرور سودے بازی ہو گی۔ یہ سوچنا تو محض دیوانے کا خواب ہے کہ ہم خود اتنی اہلیت پیدا کرلیں کہ ان وسائل کو نکال کر انہیں اپنی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔

اگر اس صلاحیت کے مستقبل بعید میں پیدا ہونے کے کچھ موہوم امکانات تھے بھی، تو ان کا قلع قمع کر دیا گیا ہے۔عملی صورت یہی ہو گی کہ باہر سے لوگ آکر ان وسائل کو بروے کار لائیں گے اور مقامی لیڈر شپ سے اس کے بدلے میں کچھ مراعات پر سودے بازی چلے گی۔آپ سوچیے کہ اگر ایسے میں میز کے اِس جانب قوم پرست نقطہ نظر کے حامل' نسبتاً صاف ستھرے، جہاں دیدہ لوگ بیٹھے ہوں تو مذاکرات کی نوعیت کیا ہو گی اور اگر اس کے مقابلے میں کوئی اور ہو تو سودا کس قدر ارزاں طے ہوگا۔

یہ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ قوم پرست جمہوری قیادت کو راستے سے ہٹانے کا مطلب موخر الذکر کے لیے جگہ خالی کرنا ہے۔(یہاں اختلاف کی گنجائش موجود ہے)یہ سوچ بھی محض دیوانے کا خواب ہے کہ قوم پرست جمہوری قیادت اگر راستے سے ہٹ جائے تو شدت پسند اس خلا کو پر کر سکیں گے۔اگر بالفرض محال ایسا ہو بھی جائے تو، شدت پسندوں کی قیادت کے علمی، سیاسی اور مالی پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کن نکات پر عالمی اقتصادی قوتوں سے سودا چکائیں گے۔

میرا جو محدود سا واسطہ عالمی اقتصادی قوتوں اور ان کے مقامی دلالوں کے ادنیٰ اہلکاروں سے پڑتا ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ شدت پسندوں سے ''ڈیل'' کرنے میں ذرا بھی نہیں گھبراتے مگر قوم پرست منتخب سیاستدانوں سے بات کرنے میں خائف ہوتے ہیں چونکہ اول الذکر کی جہالت، نا تجربہ کاری اور مفاد پرستی خود بخود ان کی قیمت کم کر دیتی ہے جب کہ موخر الذکر کا شمار گرگ باراں دیدہ طبقے میں ہوتا ہے اور وہ اجتماعی فائدے کی بات کرتے ہیں۔ اجتماعی مفاد کے کام عالمی سوداگروں کو مہنگے پڑتے ہیں اور ان کے مقامی گماشتوں کو بھی بوجوہ پسند نہیں۔''

بس اختلافی نکتہ (بلکہ خواب اور خواہش )یہی ایک ہے کہ اگر بلوچستان کی سیاسی قیادت واقعی گرگ باراں دیدہ اور اجتماعی فائدے کی بات کرنے والی بن جائے تو بلوچستان میں کم از کم بڑھتی ہوئی سیاسی بے گانگی کا تدارک توہو سکتا ہے۔
Load Next Story