لوگوں کو پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا ہے چیف جسٹس
سیکریٹری پیٹرولیم و وزارت توانائی اور چیئرمین ایف بی آر کو پیش ہونے کا حکم
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت اور ان پر اضافی ٹیکس کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ لوگوں کو پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل یعقوب ستار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مختلف ادارے پی ایس او کے 300 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300 ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔ جس پر یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ پی ایس او نے بینکوں سے 95 ارب روپےقرض لے رکھا ہے، ہر سال اس پر سود کی مد میں 7 ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا ہے، یہ کس بات کا ٹیکس ہے سارا حساب دینا ہوگا، پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل بھی مشکوک لگتا ہے، کس قانون اور طریقہ کار کے تحت 62.8 روپے فی لیٹر کا تعین کیا گیا؟
سپریم کورٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات، گزشتہ 6 ماہ کے آکشنز (بولی) اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے سیکریٹری پیٹرولیم، سیکریٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل یعقوب ستار نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مختلف ادارے پی ایس او کے 300 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300 ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔ جس پر یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ پی ایس او نے بینکوں سے 95 ارب روپےقرض لے رکھا ہے، ہر سال اس پر سود کی مد میں 7 ارب روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ڈپٹی ایم ڈی پاکستان اسٹیٹ آئل کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کردیا ہے، یہ کس بات کا ٹیکس ہے سارا حساب دینا ہوگا، پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل بھی مشکوک لگتا ہے، کس قانون اور طریقہ کار کے تحت 62.8 روپے فی لیٹر کا تعین کیا گیا؟
سپریم کورٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات، گزشتہ 6 ماہ کے آکشنز (بولی) اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے سیکریٹری پیٹرولیم، سیکریٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔