لاہورحمزہ شہبازاوراس کے باپ کی جاگیرنہیں زعیم قادری
حمزہ شہباز شریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا، زعیم قادری
مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما زعیم قادری نے کہا ہے کہ حمزہ شہباز سن لو لاہور تمہارے اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں جبکہ میں تمہارے بوٹ پالش نہیں کرسکتا۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما زعیم قادری نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو سابق وزیر سعد رفیق نے زعیم قادری سے ملاقات کرکے انہیں منانے کی کوشش کی تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سعد رفیق سے ملاقات کے بعد زعیم قادری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، میرے خون میں مسلم لیگ تھی ہے اور رہے گی، پانچ مرتبہ قید کاٹی، 8 سال تک نواز شریف کا ترجمان رہا، جو لوگ آج عہدوں پر بیٹھے ہیں ہمیں بے وقوف کہتے تھے اور کہتے تھے کہ کس دیوار سے ٹکر مار رہے ہو، 2002 کے الیکشن میں کلثوم نواز اور نواز شریف کا کورنگ امیدوار تھا، میری جگہ کچھ اور لوگوں کو آگے کردیا گیا، لیکن میں نے ایک لفظ نہیں کہا، مسلم لیگ تھا ہوں اور رہوں گا۔
زعیم قادری نے کہا کہ مجھے شہباز شریف نے 2008 کے اوائل میں فون کرکے کہا کہ پنجاب کے صدر کو تمہاری شکل پسند نہیں اس لیے سیکرٹری جنرل کا عہدہ چھوڑ دو، میں نے حکم کی تعمیل کی، ناپسند ہونے کی وجہ سے میری خدمت اور قربانی کو فراموش کرکے تبدیل کردیا گیا اور عہدوں سے ہٹادیا گیا، میں نے بہت کچھ برداشت کیا، جو لوگ پارٹی میں نہیں تھے انہیں وزرا بنادیا گیا، 10 سال میں پارٹی میں کسی نے ن لیگ کا دفاع نہیں کیا جتنا میں نے کیا، جان تو دے سکتا ہوں، عزت نہیں دے سکتا اور نہ ہی دوں گا۔
زعیم قادری نے حمزہ شہباز کو الیکشن کیلئے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ اپنے نوکروں، مالیشیوں اور بوٹ پالیشیوں کا یونٹ لاؤ اور الیکشن لڑو، میرا الیکشن تمہارے ساتھ ہے، تم نے 10 سال صوبے پر حکومت کی، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے، سر نہیں جھکائوں گا، حمزہ شہباز کی نوکری نہیں کروں گا، نوکری کروں گا تو کارکنوں کی کروں گا، میں حمزہ شہباز شریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا، اور حمزہ شہباز سن لو لاہور تمہارے اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں، میں تمہیں سیاست کرکے دکھاؤں گا، این اے 133 میں جیت کر دکھاؤں گا، آج سے الیکشن اور جنگ اکٹھی ہوگی، حمزہ شہباز 10 سال میں کسی سے نہیں ملے میں ہر کارکن کے ساتھ کھڑا ہوں گا، حمزہ تم نہیں بلکہ میں ہی مسلم لیگ ہوں۔
زعیم قادری کا کہنا تھا کہ میں مالیشیا نہیں ہوں، تمہارے لئے جان، مال دیا اور جیل کاٹیں، جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو ضائع نہیں کیا جاتا لیکن انہیں ضائع کیا گیا، شہباز شریف سے گلہ ہے انہیں نے دس سال مجھے نہیں پوچھا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ پارٹی میں کچھ لوگوں کو تمھاری شکل پسند نہیں، یہ مجھے سیاسی یتیم سمجھتے ہیں، لیکن سیاسی یتیم ہونے کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔
زعیم قادری نے بتایا کہ میری اہلیہ نے کہا ہے کہ وہ نوکرانیوں، چائے پلانے والوں کی بیویوں اور ذاتی ملازماؤں کی لسٹ میں نہیں رہنا چاہتیں، اس لیے انہوں نے ن لیگ کی خواتین کی مخصوص نشستوں سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق زعیم قادری نے عام انتخابات کو لے کر نہ صرف اپنے لیے این اے 133 کا ٹکٹ مانگا، بلکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی من پسند امیدواروں کو ٹکٹیں دلوانا چاہتے تھے مگر پارٹی نے ان کی بات نہیں مانی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون زعیم قادری کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے پر راضی تھی معاملہ اس وقت بگڑا جب پارٹی نے این اے 133 کا ٹکٹ وحید عالم خان کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ زعیم قادری پی پی 160 سے توصیف شاہ کو بھی ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر پارٹی نے ایک نہ سنی۔
زعیم قادری کا معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب لیگی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کےلیے توصیف شاہ پلٹ گئے اور انہوں نے زعیم قادری کی ایک ریکارڈ شدہ فون کال پارٹی قیادت کو سنادی جس میں زعیم قادری نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے خفیہ سروے سے معلوم ہوا کہ این اے 133 میں زعیم قادری کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں، ضعیم قادری وزارت نہ ملنے پر بھی پارٹی قیادت سے نالاں تھے جبکہ انہیں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ ضعیم قادری پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا ذمہ دار حمزہ شہباز کو سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس ضمن میں ضعیم قادری کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وحید عالم خان کو حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے درمیان صلح میں معاونت پر ٹکٹ سے نوازا گیا ہے۔
زعیم قادری کی بغاوت پر لیگی رہنما رانا مشہود کا کہنا ہے کہ زعیم قادری نے جلد بازی کی، مسائل گھر بیٹھ کر حل ہوسکتے تھے پارٹی کا حق ہے کہ وہ امیدوار کو جہاں مناسب سمجھے وہاں ٹکٹ دے سمجھ نہیں آرہا کہ زعیم قادری نے حمزہ کو کیوں ٹارگٹ کیا۔ زعیم قادری کی علیحدگی کا افسوس ہے اسے منانے کی کوشش کریں گے۔
دوسری جانب سابق وزیرتعلیم پنجاب رانا مشہود نے زعیم قادری کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا حق ہوتا ہے وہ جس امیدوار کو جہاں مناسب سمجھے اسے وہاں سے الیکشن لڑائے اور زعیم قادری کی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ میں کوئی ابہام نہیں تھا لیکن وہ این اے کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کی خواہش رکھتے تھے۔
رانا مشہور کا کہنا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم حمزہ شہباز نے نہیں پارلیمانی بورڈ نے کی، سمجھ نہیں آئی انہوں نے حمزہ کو کیوں ٹارگٹ کیا جب کہ سارے معاملات گھر بیٹھ کر حل ہوسکتے تھے، انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی، زعیم قادری نے جلد بازی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے زعیم قادری کو سمجھایا بھی تھا کہ شہبازشریف کو انے دیں مسئلہ حل کرلیں گے جب کہ زعیم قادری کی پارٹی کیلئے خدمات اور وابستگی تھی ان کئی علیحدگی بہت افسوسناک بات ہے۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما زعیم قادری نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 133 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو سابق وزیر سعد رفیق نے زعیم قادری سے ملاقات کرکے انہیں منانے کی کوشش کی تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سعد رفیق سے ملاقات کے بعد زعیم قادری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 12 اکتوبر 1999 میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی، میرے خون میں مسلم لیگ تھی ہے اور رہے گی، پانچ مرتبہ قید کاٹی، 8 سال تک نواز شریف کا ترجمان رہا، جو لوگ آج عہدوں پر بیٹھے ہیں ہمیں بے وقوف کہتے تھے اور کہتے تھے کہ کس دیوار سے ٹکر مار رہے ہو، 2002 کے الیکشن میں کلثوم نواز اور نواز شریف کا کورنگ امیدوار تھا، میری جگہ کچھ اور لوگوں کو آگے کردیا گیا، لیکن میں نے ایک لفظ نہیں کہا، مسلم لیگ تھا ہوں اور رہوں گا۔
زعیم قادری نے کہا کہ مجھے شہباز شریف نے 2008 کے اوائل میں فون کرکے کہا کہ پنجاب کے صدر کو تمہاری شکل پسند نہیں اس لیے سیکرٹری جنرل کا عہدہ چھوڑ دو، میں نے حکم کی تعمیل کی، ناپسند ہونے کی وجہ سے میری خدمت اور قربانی کو فراموش کرکے تبدیل کردیا گیا اور عہدوں سے ہٹادیا گیا، میں نے بہت کچھ برداشت کیا، جو لوگ پارٹی میں نہیں تھے انہیں وزرا بنادیا گیا، 10 سال میں پارٹی میں کسی نے ن لیگ کا دفاع نہیں کیا جتنا میں نے کیا، جان تو دے سکتا ہوں، عزت نہیں دے سکتا اور نہ ہی دوں گا۔
'' حمزہ شہباز شریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا ''
زعیم قادری نے حمزہ شہباز کو الیکشن کیلئے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ حمزہ اپنے نوکروں، مالیشیوں اور بوٹ پالیشیوں کا یونٹ لاؤ اور الیکشن لڑو، میرا الیکشن تمہارے ساتھ ہے، تم نے 10 سال صوبے پر حکومت کی، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے، سر نہیں جھکائوں گا، حمزہ شہباز کی نوکری نہیں کروں گا، نوکری کروں گا تو کارکنوں کی کروں گا، میں حمزہ شہباز شریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا، اور حمزہ شہباز سن لو لاہور تمہارے اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں، میں تمہیں سیاست کرکے دکھاؤں گا، این اے 133 میں جیت کر دکھاؤں گا، آج سے الیکشن اور جنگ اکٹھی ہوگی، حمزہ شہباز 10 سال میں کسی سے نہیں ملے میں ہر کارکن کے ساتھ کھڑا ہوں گا، حمزہ تم نہیں بلکہ میں ہی مسلم لیگ ہوں۔
زعیم قادری کا کہنا تھا کہ میں مالیشیا نہیں ہوں، تمہارے لئے جان، مال دیا اور جیل کاٹیں، جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو ضائع نہیں کیا جاتا لیکن انہیں ضائع کیا گیا، شہباز شریف سے گلہ ہے انہیں نے دس سال مجھے نہیں پوچھا، انہوں نے مجھ سے کہا کہ پارٹی میں کچھ لوگوں کو تمھاری شکل پسند نہیں، یہ مجھے سیاسی یتیم سمجھتے ہیں، لیکن سیاسی یتیم ہونے کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔
زعیم قادری نے بتایا کہ میری اہلیہ نے کہا ہے کہ وہ نوکرانیوں، چائے پلانے والوں کی بیویوں اور ذاتی ملازماؤں کی لسٹ میں نہیں رہنا چاہتیں، اس لیے انہوں نے ن لیگ کی خواتین کی مخصوص نشستوں سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔
زعیم قادری کی (ن) لیگ سے ناراضی کی اندرونی کہانی
ذرائع کے مطابق زعیم قادری نے عام انتخابات کو لے کر نہ صرف اپنے لیے این اے 133 کا ٹکٹ مانگا، بلکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی من پسند امیدواروں کو ٹکٹیں دلوانا چاہتے تھے مگر پارٹی نے ان کی بات نہیں مانی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون زعیم قادری کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے پر راضی تھی معاملہ اس وقت بگڑا جب پارٹی نے این اے 133 کا ٹکٹ وحید عالم خان کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ زعیم قادری پی پی 160 سے توصیف شاہ کو بھی ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر پارٹی نے ایک نہ سنی۔
زعیم قادری کا معاملہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب لیگی قیادت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کےلیے توصیف شاہ پلٹ گئے اور انہوں نے زعیم قادری کی ایک ریکارڈ شدہ فون کال پارٹی قیادت کو سنادی جس میں زعیم قادری نے حمزہ شہباز اور شہباز شریف کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی۔
وحید عالم کو حمزہ اور عائشہ احد کے درمیان صلح میں معاونت پر ٹکٹ سے نوازا گیا
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے خفیہ سروے سے معلوم ہوا کہ این اے 133 میں زعیم قادری کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں، ضعیم قادری وزارت نہ ملنے پر بھی پارٹی قیادت سے نالاں تھے جبکہ انہیں مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ ضعیم قادری پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کا ذمہ دار حمزہ شہباز کو سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں حمزہ شہباز کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس ضمن میں ضعیم قادری کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وحید عالم خان کو حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے درمیان صلح میں معاونت پر ٹکٹ سے نوازا گیا ہے۔
زعیم قادری کی بغاوت پر لیگی رہنما رانا مشہود کا کہنا ہے کہ زعیم قادری نے جلد بازی کی، مسائل گھر بیٹھ کر حل ہوسکتے تھے پارٹی کا حق ہے کہ وہ امیدوار کو جہاں مناسب سمجھے وہاں ٹکٹ دے سمجھ نہیں آرہا کہ زعیم قادری نے حمزہ کو کیوں ٹارگٹ کیا۔ زعیم قادری کی علیحدگی کا افسوس ہے اسے منانے کی کوشش کریں گے۔
'' زعیم قادری نے جلد بازی کی معاملات حل ہوسکتے تھے ''
دوسری جانب سابق وزیرتعلیم پنجاب رانا مشہود نے زعیم قادری کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا حق ہوتا ہے وہ جس امیدوار کو جہاں مناسب سمجھے اسے وہاں سے الیکشن لڑائے اور زعیم قادری کی صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ میں کوئی ابہام نہیں تھا لیکن وہ این اے کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کی خواہش رکھتے تھے۔
رانا مشہور کا کہنا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم حمزہ شہباز نے نہیں پارلیمانی بورڈ نے کی، سمجھ نہیں آئی انہوں نے حمزہ کو کیوں ٹارگٹ کیا جب کہ سارے معاملات گھر بیٹھ کر حل ہوسکتے تھے، انتہائی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی، زعیم قادری نے جلد بازی کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے زعیم قادری کو سمجھایا بھی تھا کہ شہبازشریف کو انے دیں مسئلہ حل کرلیں گے جب کہ زعیم قادری کی پارٹی کیلئے خدمات اور وابستگی تھی ان کئی علیحدگی بہت افسوسناک بات ہے۔