کم جونگ اور ٹرمپ ملاقات نئے دور کا آغاز
65 برس بعد شمالی کوریا امریکاکے سربراہان کا مصافحہ، سنگاپور سمٹ میں کیا ہوا، آگے کیا ہوگا؟
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس کی نظریں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑی ملاقات پر نہ جمی ہوں اور جس نے دونوں رہنماؤں کی ایک ایک حرکت سے طرح طرح کے معانی ومفاہیم اخذ نہ کیے ہوں۔
ملاقات کے مقام کو جس طرح دونوں ملکوں کے قومی پرچموں کے ساتھ سجایاگیاتھا، اس سے پوری طرح واضح ہورہاتھا کہ یہ دو برابر کے رہنماؤںکی ملاقات ہے۔ ملاقات کے لئے دونوں اپنی سمت سے چل کر عین درمیان میں پہنچے اور پھر مصافحہ کیا۔ دونوں میں سے کسی بھی رہنما کو دوسرے کی جانب ایک زائد قدم بھی نہیں بڑھانا پڑا۔ایسا محسوس ہوا جیسے دونوں رہنما رات کو ریہرسل کرتے رہے کہ صبح مصافحہ کرنے کے لئے کہاں تک آگے بڑھنا ہے۔
دونوں رہنما ابھی ایک دوسرے سے بہت دور تھے کہ ڈونلڈٹرمپ نے پہلے ہی اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھادیا۔ ان کا مصافحہ 12سیکنڈ کاتھا، کہا جاسکتا ہے کہ اس مرحلہ پر امریکا کو شمالی کوریا کی مرضی ماننا پڑی،ٹرمپ طویل مصافحہ کرنے والے آدمی ہیں لیکن کم جونگ نے اُن سے جلد ہی ہاتھ چھڑالیا۔ اس کے بعد ایک مختصر سی ملاقات ہوئی جس میں فوٹوگرافروں کو تصاویر بنانے کا موقع دیاگیا۔ چند لمحوں کی اس ملاقات میں ٹرمپ مسلسل اپنے ہاتھ مَلتے رہے جبکہ کم جونگ سامنے زمین پر دیکھ کر بات کرتے رہے۔
شمالی کوریا اور امریکا کے باہمی تعلقات کے باب میں گزشتہ 65 برسوں کے دوران میں یہ بڑا واقعہ 12جون2018ء کو پیش آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے سنگا پور کے تفریحی جزیرے 'سینتوسا' میں قائم 'کاپیلا' ہوٹل میں ایک تاریخی ملاقات کی، 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ کے بعد پہلی بار دونوں ملکوں کے سربراہان نے ملاقات کی ہے، ملاقات قریباً پون گھنٹہ جاری رہی۔
سن 1910ء سے1945ء تک کوریائی خطہ جاپان کے قبضے میں تھا، جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اس کے شمالی حصے پر سوویت یونین جبکہ جنوبی حصے پر امریکا نے قبضہ کرلیا، یوں طویل عرصہ سے مختلف بادشاہتوں کے جھنڈوں تلے زندگی بسر کرنے والا یہ عظیم خطہ دوالگ مملکتوں میں تقسیم ہوگیا۔1950 میں شمالی کوریا کی فوجوں نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کر ڈالی، یوں جنگ کوریا کا آغاز ہو گیا۔ یہ جنگ تین سال جاری رہی۔ خیال ہے کہ کوریا کی جنگ امریکا کی پہلی محدود جنگ اورپہلی غیر علانیہ جنگ تھی اور امریکا کی پہلی جنگ تھی جسے وہ جیت نہ سکا۔ یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا کی دو سپر طاقتیں (امریکا اور سوویت یونین) 'پراکسی وار' کے طور پر لڑتی رہیں۔
تین سالہ جنگ میں30 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جس میں 36940 امریکی شامل تھے۔ یادرہے کہ ویتنام کی 16 سال جنگ میں امریکا کے 58218 شہری مارے گئے تھے۔1953ء میں جنگ بندی عمل میں آئی۔ جزیرہ نما کوریا کی جنگ میں حصہ لینے والے7700 امریکی اب بھی لاپتا ہیں،امریکا کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شمالی کوریا میں ہیں۔دونوں کوریاؤںکے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت1990 سے 2005 کے عرصے میں 229 افراد کی باقیات امریکہ واپس لائی گئیں، جبکہ اور بہت سی باقیات کی شناخت کرلی گئی تھی، بعدازاں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے پر یہ سلسلہ رک گیا تھا۔
امریکی نقطہ نظر سے اس ملاقات سے بڑی کامیابی یوں حاصل ہوئی کہ شمالی کوریائی رہنما نے جوہری ہتھیار ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ جواب میں امریکا نے وعدہ کیاکہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں روک دے گا، ٹرمپ کا خیال ہے کہ یہ مشقیں معطل کرنے سے امریکا کو''بچت'' ہوگی۔ امریکا نے 1953ء میں طے پانے والے دفاعی معاہدہ کے مطابق جنوبی کوریا میں اپنے فوجیوںکو تعینات کیا، میزبان ملک کو اڈے اور دیگر تربیتی سہولیات فراہم کی تھیں۔ اس وقت 29ہزار امریکی فوجی جنوبی کوریا میںموجود ہیں۔ یہاں امریکا کے 80کروڑ ڈالر سالانہ کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تو امریکا جیسے ملک کے لئے یہ رقم بہت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔
یادرہے کہ امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقیں کوریائی خطے میں کشیدگی کا بڑا سبب تھیں۔ ایسی مشقوں کے موقع پر شمالی کوریا سمجھتا رہا ہے کہ یہ اس کے خلاف جنگ کی ریہرسل ہیں، وہ ہمیشہ خبردار کرتا رہاکہ لڑائی شروع ہوئی تو وہ دشمنوں پرکیمیائی ہتھیار برسادے گا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرے گا اور اس کے خلاف پابندیوں میں کمی کرے گا، دونوں سربراہان نے ایک دوسرے کو اپنے ہاں دورہ کی دعوت دی، دونوں نے یہ دعوت قبول بھی کرلی۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی خوشگوار تعلقات کو شمالی کوریا اور دنیا کے امن کے لیے نہایت کارگر قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل چار نکات پر اتفاق کیا:
1۔ اپنے اپنے ملک کی عوام کی امنگوں اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے امن و استحکام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان نے ایک نئے اور مستحکم تعلق کا عزم کیا ہے۔
2۔ جزیرہ نما کوریا میں پائیدار و مستحکم امن کے قیام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا مشترکہ جدوجہد کریں گے۔
3۔ شمالی کوریا رواں سال 27 اپریل کو جاری ہونے والے پنمجوم اعلامیے پر عمل در آمد کو یقینی بناتے ہوئے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کارآمد کاوشیں کرے گا۔
4۔ امریکا اور شمالی کوریا جنگ کے دوران اسیر اور لاپتہ ہونے والوں کی تلاش کی سنجیدہ کوششیں کریں گے اور جن کی شناخت ہوجائے انہیں فوراً ملک واپس بھیجا جائے گا۔
اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ طے پانے والے امور پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو شمالی کوریا کے متعلقہ اعلیٰ حکام سے مسلسل رابطے میں رہیں گے اور جلد دونوں ممالک کے اہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے ہونے والی اجلاس کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ بعدازاں امریکی صدر سے صحافیوں نے پوچھا کہ 'شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار کس طرح تلف کرے گا اور اسے کون یقینی بنائے گا؟'، ٹرمپ کا کہناتھاکہ ا ن کے خیال میں جاپان اور جنوبی کوریا اس معاملے میں شمالی کوریاکی مدد کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ مزید بات چیت میں چین اور جنوبی کوریا بھی شامل ہوں تو بہتر ہوگا۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ان کے بقول وہاں سے''جوہری ہتھیاروں کی لعنت'' کو ختم نہیں کردیا جاتا۔ دوسری طرف شمالی کوریائی صدر نے کہا کہ امریکا نے اعتماد سازی کے لئے حقیقی اقدامات کئے تو شمالی کوریا بھی خیرسگالی کے مزید اقدامات کرے گا۔ امریکا کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھنے پر اتفاق ہواہے، امریکا سہولتیں دے گا تو شمالی کوریا جوہری ہتھیارکم کرے گا۔ شمالی کوریا میں میڈیا نے اس ملاقات کو خوب نمایاں کیا، یہاں کے عوام بے چینی سے منتظر ہیں کہ ان کے لئے باقی دنیا کے دروازے کھلیں، البتہ جنوبی کوریا سے مشترکہ مشتقیں معطل کرنے کے ڈونلڈٹرمپ کے اعلان کو جنوبی کوریا کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیاہے۔ یادرہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اگلی مشقیں اگست میں ہونا تھیں۔
امریکی ماہرین شمالی کوریائی صدر کے اعلانات اور وعدوں کو علامتی سمجھتے ہیں، ان کے خیال میںکم جونگ اْن کبھی اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو ختم کرنے پر سنجیدہ نہیں ہوں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے'وائس آف امریکا' کے مطابق اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ شمالی کوریا مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو تلف کرے۔ اس کے سامنے بھارت اور پاکستان کی واضح مثالیں موجود ہیں،دونوں ممالک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے باوجود امریکہ کے قریبی حلیف رہے ہیں لہذا شمالی کوریا کے لیڈر کوئی ایسا راستہ اختیار کر لیں گے۔
جس کے ذریعے امریکہ کو مطمئن بھی رکھا جائے ا ور اپنا جوہری پروگرام بھی جاری رکھا جائے۔ بعض امریکی ماہرین کا کہناہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ علامتی سمجھوتہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس میں مزید پیش رفت بعد میں ہونے والے رابطوں سے ہی ظاہر ہوگی۔ امریکی تھنک ٹینک 'بروکنگز انسٹی ٹیوٹ' کی سینئر فیلو اور کوریائی اْمور کی ماہر جنگ پاک کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ تیس برس سے کم جونگ اْن کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ اْن کے مطابق کم اپنے اقتدار کے پہلے چھ برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اور جوہری اور میزائل پروگرام کو فروغ دینے پر پوری طرح کاربند رہے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں اْنہوں نے جس یو ٹرن کا مظاہرہ کیا ہے اْس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 34 سالہ کم نے اپنے والد اور دادا کی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے اور سفارتکاری دونوں میں یکساں مہارت حاصل کر لی ہے۔
اْنہوں نے علاقے میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کے ساتھ دو طرفہ رابطوں میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً وہ چین سے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے اور چین کی سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل ترقی سے فائدہ اْٹھانے کی بات کرتے ہیں جس کی چین اْن سے توقع رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شمالی اورجنوبی کوریا، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود خونی رشتوں، امن اور اتحاد کی بات کرتے ہیں، ان کی یہ بات جنوبی کوریائی باشندوں کو خوب پسند آئی۔ جنگ پاک کے مطابق: ''کم جونگ اُن امریکہ کے ساتھ رابطوں کو عمومی سطح پر نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ اْن کی تمام تر توجہ صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے پر ہے۔ یوں وہ اْنہی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو بالخصوص دلچسپی ہے۔
شمالی کوریا اور امریکا کے صدور کی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کا جائزہ لیاہے کہ ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لئے کیا کچھ ہے۔ فوری طور پر خیرسگالی کے چند معمولی اقدامات کے علاوہ کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ امکان ہے کہ امریکا شمالی کوریا کو سہولتیں فراہم کرنے سے پہلے جوہری ہتھیاروں کی تلفی کا سلسلہ شروع کرنے کا مطالبہ کرے، دوسری طرف شمالی کوریا امریکا سے پہلے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرے، یہ ایک نازک مرحلہ ہوگا، اس موقع پر دونوں اقوام کے درمیان باہمی تعلقات میں رخنہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں ممالک پہلی پیش رفت کے طور پر ایک ایک قدم آگے بڑھائیں، امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معطل کرے گا اور شمالی کوریا میزائل تجربے کی ایک سائٹ تباہ کردے گا لیکن اس کے بعد دوسرے قدم کا امکان بہت کم ہے۔
اگرچہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو امیدظاہر کررہے ہیں کہ شمالی کوریا 2020ء تک اپنے جوہری ہتھیاروں کی بڑی تعداد تلف کردے گا تاہم یہ ایسی بات ہے جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں ہے۔ امریکا یہ ساری مشق جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کو بھی اپنے اقتصادی منڈی بنانے کے لئے کررہاہے، یہ بات طے ہے کہ اسے یہ سب کچھ شمالی کوریائی میزائلوں کی موجودگی ہی میں کرناہوگا، 34سالہ کم جونگ اُن 72سالہ ٹرمپ کے ٹریپ میں نہیں آنے والا بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب امریکا سپرپاور نہیں رہا، محض ایک پاور ہے، جسے بے شمار بیماریوں کا سامنا ہے۔
ملاقات کے مقام کو جس طرح دونوں ملکوں کے قومی پرچموں کے ساتھ سجایاگیاتھا، اس سے پوری طرح واضح ہورہاتھا کہ یہ دو برابر کے رہنماؤںکی ملاقات ہے۔ ملاقات کے لئے دونوں اپنی سمت سے چل کر عین درمیان میں پہنچے اور پھر مصافحہ کیا۔ دونوں میں سے کسی بھی رہنما کو دوسرے کی جانب ایک زائد قدم بھی نہیں بڑھانا پڑا۔ایسا محسوس ہوا جیسے دونوں رہنما رات کو ریہرسل کرتے رہے کہ صبح مصافحہ کرنے کے لئے کہاں تک آگے بڑھنا ہے۔
دونوں رہنما ابھی ایک دوسرے سے بہت دور تھے کہ ڈونلڈٹرمپ نے پہلے ہی اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھادیا۔ ان کا مصافحہ 12سیکنڈ کاتھا، کہا جاسکتا ہے کہ اس مرحلہ پر امریکا کو شمالی کوریا کی مرضی ماننا پڑی،ٹرمپ طویل مصافحہ کرنے والے آدمی ہیں لیکن کم جونگ نے اُن سے جلد ہی ہاتھ چھڑالیا۔ اس کے بعد ایک مختصر سی ملاقات ہوئی جس میں فوٹوگرافروں کو تصاویر بنانے کا موقع دیاگیا۔ چند لمحوں کی اس ملاقات میں ٹرمپ مسلسل اپنے ہاتھ مَلتے رہے جبکہ کم جونگ سامنے زمین پر دیکھ کر بات کرتے رہے۔
شمالی کوریا اور امریکا کے باہمی تعلقات کے باب میں گزشتہ 65 برسوں کے دوران میں یہ بڑا واقعہ 12جون2018ء کو پیش آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے سنگا پور کے تفریحی جزیرے 'سینتوسا' میں قائم 'کاپیلا' ہوٹل میں ایک تاریخی ملاقات کی، 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ کے بعد پہلی بار دونوں ملکوں کے سربراہان نے ملاقات کی ہے، ملاقات قریباً پون گھنٹہ جاری رہی۔
سن 1910ء سے1945ء تک کوریائی خطہ جاپان کے قبضے میں تھا، جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اس کے شمالی حصے پر سوویت یونین جبکہ جنوبی حصے پر امریکا نے قبضہ کرلیا، یوں طویل عرصہ سے مختلف بادشاہتوں کے جھنڈوں تلے زندگی بسر کرنے والا یہ عظیم خطہ دوالگ مملکتوں میں تقسیم ہوگیا۔1950 میں شمالی کوریا کی فوجوں نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کر ڈالی، یوں جنگ کوریا کا آغاز ہو گیا۔ یہ جنگ تین سال جاری رہی۔ خیال ہے کہ کوریا کی جنگ امریکا کی پہلی محدود جنگ اورپہلی غیر علانیہ جنگ تھی اور امریکا کی پہلی جنگ تھی جسے وہ جیت نہ سکا۔ یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا کی دو سپر طاقتیں (امریکا اور سوویت یونین) 'پراکسی وار' کے طور پر لڑتی رہیں۔
تین سالہ جنگ میں30 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جس میں 36940 امریکی شامل تھے۔ یادرہے کہ ویتنام کی 16 سال جنگ میں امریکا کے 58218 شہری مارے گئے تھے۔1953ء میں جنگ بندی عمل میں آئی۔ جزیرہ نما کوریا کی جنگ میں حصہ لینے والے7700 امریکی اب بھی لاپتا ہیں،امریکا کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شمالی کوریا میں ہیں۔دونوں کوریاؤںکے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت1990 سے 2005 کے عرصے میں 229 افراد کی باقیات امریکہ واپس لائی گئیں، جبکہ اور بہت سی باقیات کی شناخت کرلی گئی تھی، بعدازاں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے پر یہ سلسلہ رک گیا تھا۔
امریکی نقطہ نظر سے اس ملاقات سے بڑی کامیابی یوں حاصل ہوئی کہ شمالی کوریائی رہنما نے جوہری ہتھیار ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ جواب میں امریکا نے وعدہ کیاکہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں روک دے گا، ٹرمپ کا خیال ہے کہ یہ مشقیں معطل کرنے سے امریکا کو''بچت'' ہوگی۔ امریکا نے 1953ء میں طے پانے والے دفاعی معاہدہ کے مطابق جنوبی کوریا میں اپنے فوجیوںکو تعینات کیا، میزبان ملک کو اڈے اور دیگر تربیتی سہولیات فراہم کی تھیں۔ اس وقت 29ہزار امریکی فوجی جنوبی کوریا میںموجود ہیں۔ یہاں امریکا کے 80کروڑ ڈالر سالانہ کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تو امریکا جیسے ملک کے لئے یہ رقم بہت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔
یادرہے کہ امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقیں کوریائی خطے میں کشیدگی کا بڑا سبب تھیں۔ ایسی مشقوں کے موقع پر شمالی کوریا سمجھتا رہا ہے کہ یہ اس کے خلاف جنگ کی ریہرسل ہیں، وہ ہمیشہ خبردار کرتا رہاکہ لڑائی شروع ہوئی تو وہ دشمنوں پرکیمیائی ہتھیار برسادے گا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرے گا اور اس کے خلاف پابندیوں میں کمی کرے گا، دونوں سربراہان نے ایک دوسرے کو اپنے ہاں دورہ کی دعوت دی، دونوں نے یہ دعوت قبول بھی کرلی۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی خوشگوار تعلقات کو شمالی کوریا اور دنیا کے امن کے لیے نہایت کارگر قرار دیتے ہوئے مندرجہ ذیل چار نکات پر اتفاق کیا:
1۔ اپنے اپنے ملک کی عوام کی امنگوں اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے امن و استحکام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان نے ایک نئے اور مستحکم تعلق کا عزم کیا ہے۔
2۔ جزیرہ نما کوریا میں پائیدار و مستحکم امن کے قیام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا مشترکہ جدوجہد کریں گے۔
3۔ شمالی کوریا رواں سال 27 اپریل کو جاری ہونے والے پنمجوم اعلامیے پر عمل در آمد کو یقینی بناتے ہوئے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کارآمد کاوشیں کرے گا۔
4۔ امریکا اور شمالی کوریا جنگ کے دوران اسیر اور لاپتہ ہونے والوں کی تلاش کی سنجیدہ کوششیں کریں گے اور جن کی شناخت ہوجائے انہیں فوراً ملک واپس بھیجا جائے گا۔
اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ طے پانے والے امور پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو شمالی کوریا کے متعلقہ اعلیٰ حکام سے مسلسل رابطے میں رہیں گے اور جلد دونوں ممالک کے اہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے ہونے والی اجلاس کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ بعدازاں امریکی صدر سے صحافیوں نے پوچھا کہ 'شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار کس طرح تلف کرے گا اور اسے کون یقینی بنائے گا؟'، ٹرمپ کا کہناتھاکہ ا ن کے خیال میں جاپان اور جنوبی کوریا اس معاملے میں شمالی کوریاکی مدد کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ مزید بات چیت میں چین اور جنوبی کوریا بھی شامل ہوں تو بہتر ہوگا۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ان کے بقول وہاں سے''جوہری ہتھیاروں کی لعنت'' کو ختم نہیں کردیا جاتا۔ دوسری طرف شمالی کوریائی صدر نے کہا کہ امریکا نے اعتماد سازی کے لئے حقیقی اقدامات کئے تو شمالی کوریا بھی خیرسگالی کے مزید اقدامات کرے گا۔ امریکا کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھنے پر اتفاق ہواہے، امریکا سہولتیں دے گا تو شمالی کوریا جوہری ہتھیارکم کرے گا۔ شمالی کوریا میں میڈیا نے اس ملاقات کو خوب نمایاں کیا، یہاں کے عوام بے چینی سے منتظر ہیں کہ ان کے لئے باقی دنیا کے دروازے کھلیں، البتہ جنوبی کوریا سے مشترکہ مشتقیں معطل کرنے کے ڈونلڈٹرمپ کے اعلان کو جنوبی کوریا کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیاہے۔ یادرہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اگلی مشقیں اگست میں ہونا تھیں۔
امریکی ماہرین شمالی کوریائی صدر کے اعلانات اور وعدوں کو علامتی سمجھتے ہیں، ان کے خیال میںکم جونگ اْن کبھی اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو ختم کرنے پر سنجیدہ نہیں ہوں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے'وائس آف امریکا' کے مطابق اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ شمالی کوریا مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو تلف کرے۔ اس کے سامنے بھارت اور پاکستان کی واضح مثالیں موجود ہیں،دونوں ممالک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے باوجود امریکہ کے قریبی حلیف رہے ہیں لہذا شمالی کوریا کے لیڈر کوئی ایسا راستہ اختیار کر لیں گے۔
جس کے ذریعے امریکہ کو مطمئن بھی رکھا جائے ا ور اپنا جوہری پروگرام بھی جاری رکھا جائے۔ بعض امریکی ماہرین کا کہناہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ علامتی سمجھوتہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس میں مزید پیش رفت بعد میں ہونے والے رابطوں سے ہی ظاہر ہوگی۔ امریکی تھنک ٹینک 'بروکنگز انسٹی ٹیوٹ' کی سینئر فیلو اور کوریائی اْمور کی ماہر جنگ پاک کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ تیس برس سے کم جونگ اْن کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ اْن کے مطابق کم اپنے اقتدار کے پہلے چھ برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اور جوہری اور میزائل پروگرام کو فروغ دینے پر پوری طرح کاربند رہے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں اْنہوں نے جس یو ٹرن کا مظاہرہ کیا ہے اْس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 34 سالہ کم نے اپنے والد اور دادا کی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے اور سفارتکاری دونوں میں یکساں مہارت حاصل کر لی ہے۔
اْنہوں نے علاقے میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کے ساتھ دو طرفہ رابطوں میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً وہ چین سے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے اور چین کی سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل ترقی سے فائدہ اْٹھانے کی بات کرتے ہیں جس کی چین اْن سے توقع رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شمالی اورجنوبی کوریا، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود خونی رشتوں، امن اور اتحاد کی بات کرتے ہیں، ان کی یہ بات جنوبی کوریائی باشندوں کو خوب پسند آئی۔ جنگ پاک کے مطابق: ''کم جونگ اُن امریکہ کے ساتھ رابطوں کو عمومی سطح پر نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ اْن کی تمام تر توجہ صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے پر ہے۔ یوں وہ اْنہی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو بالخصوص دلچسپی ہے۔
شمالی کوریا اور امریکا کے صدور کی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کا جائزہ لیاہے کہ ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لئے کیا کچھ ہے۔ فوری طور پر خیرسگالی کے چند معمولی اقدامات کے علاوہ کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ امکان ہے کہ امریکا شمالی کوریا کو سہولتیں فراہم کرنے سے پہلے جوہری ہتھیاروں کی تلفی کا سلسلہ شروع کرنے کا مطالبہ کرے، دوسری طرف شمالی کوریا امریکا سے پہلے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرے، یہ ایک نازک مرحلہ ہوگا، اس موقع پر دونوں اقوام کے درمیان باہمی تعلقات میں رخنہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں ممالک پہلی پیش رفت کے طور پر ایک ایک قدم آگے بڑھائیں، امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معطل کرے گا اور شمالی کوریا میزائل تجربے کی ایک سائٹ تباہ کردے گا لیکن اس کے بعد دوسرے قدم کا امکان بہت کم ہے۔
اگرچہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو امیدظاہر کررہے ہیں کہ شمالی کوریا 2020ء تک اپنے جوہری ہتھیاروں کی بڑی تعداد تلف کردے گا تاہم یہ ایسی بات ہے جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں ہے۔ امریکا یہ ساری مشق جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کو بھی اپنے اقتصادی منڈی بنانے کے لئے کررہاہے، یہ بات طے ہے کہ اسے یہ سب کچھ شمالی کوریائی میزائلوں کی موجودگی ہی میں کرناہوگا، 34سالہ کم جونگ اُن 72سالہ ٹرمپ کے ٹریپ میں نہیں آنے والا بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب امریکا سپرپاور نہیں رہا، محض ایک پاور ہے، جسے بے شمار بیماریوں کا سامنا ہے۔