ہم عید کیسے مناتے تھے
پورا ایک ہفتہ لوگ عید کارڈ ڈھونڈنے اور لکھنے میں مصروف رہتے اور ڈاکیہ کا انتظار شدت سے رہتا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے مگر یہ تبدیلی ہر چیز کا مزا،کوالٹی، اصلیت اور مزاج میں کمی کر دیتی ہے۔ میں صرف اس وقت آپ کو اپنے بچپن میں ہونے والی عید، روزہ اور قربانی والی عید کے بارے میں بتاؤںگا کہ ہمارے پاس پیسے کم ہوتے تھے مگر خوشیاں اور محبت زیادہ ہوا کرتی تھی، کسی بھی چیز میں ملاوٹ نہیں تھی۔ رشتوں میں قربت، اپنائیت، مہمان نوازی اور ہمدردی کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے ہم گھروں کی چھت، گلی کا کونہ یا پھر ریلوے اسٹیشن پر چلے جاتے تھے۔ آسمان اگر صاف ہوتا تو چاند صاف دکھائی دیتا اور ہم اسے دیکھ کر دعا مانگتے، گھر میں آکر گھر والوں کو، محلے والوں کو، رشتے داروں اور دوستوں کو ان کے گھر جاکر چاند دکھائی کی مبارکباد دیتے اور ہمارے چہرے پر ایک خوشی کی لہر چھاجاتی۔
افطاری اور سحری کے لیے سامان کی خریداری ایک دن پہلے ہی کرلیتے تھے۔ سحری میں خاص طور پر چاول، دودھ یا پھر گندم کی نرم روٹی سے گزارا کرتے تھے۔ ساری رات کروٹیں بدلتے رہتے تھے کہ روزہ رکھنے کا وقت کب ہوگا، کان دروازے کے کھٹکنے کی طرف لگا رہتا تھا کیونکہ اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روزے کے لیے جگانے والے آتے تھے کہ مومنو روزہ رکھو روزہ کا وقت ہوگیا ہے۔
ہماری امی اٹھتے ہی ہاتھ منہ دھوکر پہلے چاول تیار کرتی پھر اس کے ساتھ آلو فرائی کرتی۔ دودھ تو رات کو گرم کرکے پھر اسے ٹھنڈا کرکے لوہے کے پنجرے میں رسی میں اوپر کرکے ٹانگ دیتے تھے تاکہ گرمیوں میں خراب نہ ہو اور اس تک بلی بھی پہنچ نہ سکے۔ دودھ میں چینی ڈال کر اسے میٹھا بناکر چاول کے ساتھ یا پھر چاول فرائی کیے ہوئے آلو کے ساتھ کھاکر اس پر دودھ پی لیتے۔ پانی بھی مٹکے کا ہوتا تھا جو آنگن میں تپائی کے اوپر رکھا ہوتا تھا اور گرمیوں میں رات کو جب ہوا چلتی تو یہ مٹی کا مٹکا اسے برف کی طرف ٹھنڈا کردیتا تھا۔
روزہ رکھنے کے دوران چاروں طرف سے مسجد کے پیش امام اﷲ کا ذکر کرتے رہتے تھے اور ہم لوگ اذان ہونے سے پہلے ہی سحری کھاکر ختم کرنا چاہتے تھے اور جتنا بھی پانی پی سکتے تھے پی لیتے۔ اذان کی آواز سنتے ہی ہم مسجد کی طرف چل پڑتے، وضو کرنے کے بعد باجماعت نماز پڑھتے تھے، اس سے پہلے ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ پانی کی ٹنکی میں ہاتھ کے نل سے پانی بھردے۔
نماز کے بعد بچے اسکول جانے کی تیاری کرتے اور بڑے اپنی نوکری پر یا پھر اپنی دکان، مزدوری اور اپنے پیشہ کا کام کرنا شروع کرتے۔ صبح سویرے ہر طرف رونق ہوتی تھی، گرمیوں میں دوپہر کو تھوڑا سا آرام کرتے تھے۔ شام ہوتے ہی افطاری کی تیاری شروع ہوجاتی، اس وقت افطاری میں کھجور، پکوڑے اور گھر کی بنی ہوئی روٹی سالن ہوتا تھا، ہر بڑے چھوٹے آدمی کے گھر میں کوئی بڑا اہتمام نہیں ہوتا تھا، بڑی سادگی کے ساتھ روزہ افطار کرنے کے بعد نماز پڑھنے کے لیے چلے جاتے تھے اور نماز پوری ہونے کے بعد آ کر کھانا کھاتے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ پورے رمضان شریف کے دوران کوئی بھی چیز مہنگی نہیں ہوتی، بلکہ رعایت کرتے تھے۔
جیسے جیسے عید کا موقع قریب آنے لگتا عید کی تیاری میں تیزی آ جاتی تھی مگر کپڑے رمضان شروع ہوتے ہی خرید کر ٹیلر ماسٹر کے حوالے کردیتے تھے، ہاتھ کی سویاں بنانے کے لیے 10 دن پہلے گندم کا آٹا خرید کر اسے دھوکر مٹی نکال کر پھر سکھاکر اس سے سویاں بنانے کی مشین پورا ایک ہفتہ پورے محلے میں گھومتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں سندھ کے اندر مذہبی لگاؤ بہت تھا اور ہر چھوٹے گاؤں میں تین سے چار مسجدیں ہوتی تھیں، جہاں ہر صبح اور شام لڑکے اور لڑکیاں قرآن پاک کا درس لینے آتے تھے، ہر گاؤں میں کئی قرآن پاک کے حافظ ہوتے تھے۔ لڑکیاں کوئی دنیاوی تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں مگر قرآن پاک ضرور پڑھتی تھیں۔
چاند رات کو پورا شہر کھلا رہتا تھا۔ میرے والد اپنی ڈیوٹی سے آتے ہی ہمیں ہیئر ڈریسر کے پاس لے جاتے جہاں پر لمبی قطار لگی ہوتی تھی۔ نیا جوتا خریدنے کے لیے بوٹ ہاؤسز کے باہر قطاریں کھڑی ہوتی تھیں، جو لوگ نیا جوتا نہیں لے سکتے تو وہ بوٹ پالش والوں کے پاس ایک جوتا پالش کروانے کے لیے کئی گھنٹے انتظار کرتے تھے۔ سینما ہاؤسز کے باہر نئی آنے والی فلموں کے بڑے بڑے بورڈ بنتے تھے، جسے دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا دکھائی دیتا تھا۔
عید کا چاند دیکھنے کے لیے پورے شہر میں لوگ گلیوں اور گھر کی چھت پر کھڑے نظر آتے تھے۔ اگر آسمان ابر آلود ہے تو ہر چھوٹا بڑا ریڈیو کان پر لگا رکھتا تھا اور ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کرتا تھا۔ اس زمانے میں بھی سرحد صوبے میں ایک دن پہلے عید منائی جاتی تھی۔ چاند دیکھتے ہی لوگ خوشی سے پاگل ہوجاتے تھے۔ عورتیں، مرد اور بچے اس وقت اپنی تیاری میں لگ جاتے تھے، عورتیں پورے گھر کی صفائی کرنا شروع کرتیں، مرد سویوں میں ڈالنے کی چیزیں جس میں خاص طور پر کشمش، بادام وغیرہ، دودھ لینے کے لیے شام ہی سے لوگ بھینس کے باڑے میں رش لگادیتے تھے۔ پوری رات گوشت بیچنے والے، سبزی فروش، خوردنی اشیا والے بھی اتنے مصروف ہوتے تھے کہ صبح ہوجاتی۔
سب سے اہم کپڑے سینے والے ہوتے تھے، کیونکہ کپڑے عید کے موقع پر بڑی اہمیت رکھتے ہیں، عورتیں گھر میں اپنی ہاتھ کی پسی ہوئی لوکل مہندی لگاتی تھیں۔ مرد اور بچے عطر کا استعمال کرتے تھے۔ پورے شہر کی جامع مسجدوں میں پارکوں میں اور گلیوں میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ گداگر عام نہیں تھے، جس میں خاص طور پر باگڑی، بھیل، سپیرے، وغیرے ہوتے تھے جو گھر کے باہر آکر صدا لگاتے اور عید گاہ کے باہر ایک جگہ بیٹھے رہتے۔ فطرہ ہم لوگ جسے جانتے تھے اسے عید سے پہلے ادا کر دیتے تھے، اس وقت بھی غربت بہت تھی مگر لوگ بھیک نہیں مانگتے تھے، پیسے والے لوگ ان کی مدد خود ہی کرتے تھے۔
اس زمانے میں ہم گھر پر ہی کوئلے کی استری کرتے، خود بوٹ پالش کرتے، ہر آدمی سرمہ ضرور آنکھ میں ڈالتا، سر پر سرسوں کا تیل لگاتا اور عورتیں کھانا پکانے، مہمانوں کو کھلانے اور بچوں کو تیار کرنے کے بعد خود تیار ہوتی تھیں۔ ہم رات کو ہی کپڑے استری کرکے، بوٹ پالش کرکے، رومال، بنیان، موزے ور عطر سجا کر رکھ دیتے تھے، ساری رات نیند نہیں آتی اور کروٹیں بدلتے رہتے کہ صبح عید ہے۔ عیدی ملے گی جس کے لیے ہم ہر قریبی رشتے دار کے پاس حلوہ، سویاں لے جاتے اور ہمیں عیدی ملتی، جسے ہم بار بار گنتے تھے۔
عید کے موقع پر جھولے والے، کھانے پینے والوں کی دکانیں بڑی سجی ہوتی تھیں۔ دوست احباب زیادہ تر اوطاق میں بیٹھ کر مل کر کھانا کھاتے تھے، اس وقت سب سے اہم ڈش ہوتی تھی سندھی پلاؤ، جس کے اوپر گوشت کی بھنی ہوئی بوٹیاں رکھی جاتی تھیں، جسے کھاکر بڑا مزا آتا تھا۔ صبح سویرے ہی Sweeper اور چھڑکاؤ کرنے والے آجاتے تھے، گلی کی صفائی کرکے اس کے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرلیتے، پھر کچھ چونا چھڑکا جاتا۔ عید کے دن ڈاکیہ، صفائی کرنے والا جمعدار، رات کو پہرہ دینے والا چوکیدار، مسجد میں پڑھنے والے بچے عیدی لینے کے لیے آتے اور جاتے رہتے تھے۔
اس وقت عید کارڈ کی بڑی اہمیت تھی، پورا ایک ہفتہ لوگ عید کارڈ ڈھونڈنے اور لکھنے میں مصروف رہتے اور ڈاکیہ کا انتظار شدت سے رہتا تھا، جو عید کے روز بھی ڈاک بانٹتے تھے تاکہ عیدی مل سکے۔ عید کی سب سے اچھی بات یہ ہوتی تھی کہ ہم نماز پڑھنے کے بعد سب سے پہلے گھر کے بڑے دادا، دادی، نانی، نانا، باپ اور ماں کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر ان سے دعائیں لیتے تھے۔ اس کے بعد سارے مرد مل کر قبرستان جاکر اپنوں کی قبر پر فاتحہ پڑھتے، پھول چڑھاتے اور پانی کا چھڑکاؤ کرتے۔ آپس میں محلے والوں کی اور رشتے داروں کی محبت اور عزت دیکھنے والی ہوتی تھی۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے ہم گھروں کی چھت، گلی کا کونہ یا پھر ریلوے اسٹیشن پر چلے جاتے تھے۔ آسمان اگر صاف ہوتا تو چاند صاف دکھائی دیتا اور ہم اسے دیکھ کر دعا مانگتے، گھر میں آکر گھر والوں کو، محلے والوں کو، رشتے داروں اور دوستوں کو ان کے گھر جاکر چاند دکھائی کی مبارکباد دیتے اور ہمارے چہرے پر ایک خوشی کی لہر چھاجاتی۔
افطاری اور سحری کے لیے سامان کی خریداری ایک دن پہلے ہی کرلیتے تھے۔ سحری میں خاص طور پر چاول، دودھ یا پھر گندم کی نرم روٹی سے گزارا کرتے تھے۔ ساری رات کروٹیں بدلتے رہتے تھے کہ روزہ رکھنے کا وقت کب ہوگا، کان دروازے کے کھٹکنے کی طرف لگا رہتا تھا کیونکہ اذان سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے روزے کے لیے جگانے والے آتے تھے کہ مومنو روزہ رکھو روزہ کا وقت ہوگیا ہے۔
ہماری امی اٹھتے ہی ہاتھ منہ دھوکر پہلے چاول تیار کرتی پھر اس کے ساتھ آلو فرائی کرتی۔ دودھ تو رات کو گرم کرکے پھر اسے ٹھنڈا کرکے لوہے کے پنجرے میں رسی میں اوپر کرکے ٹانگ دیتے تھے تاکہ گرمیوں میں خراب نہ ہو اور اس تک بلی بھی پہنچ نہ سکے۔ دودھ میں چینی ڈال کر اسے میٹھا بناکر چاول کے ساتھ یا پھر چاول فرائی کیے ہوئے آلو کے ساتھ کھاکر اس پر دودھ پی لیتے۔ پانی بھی مٹکے کا ہوتا تھا جو آنگن میں تپائی کے اوپر رکھا ہوتا تھا اور گرمیوں میں رات کو جب ہوا چلتی تو یہ مٹی کا مٹکا اسے برف کی طرف ٹھنڈا کردیتا تھا۔
روزہ رکھنے کے دوران چاروں طرف سے مسجد کے پیش امام اﷲ کا ذکر کرتے رہتے تھے اور ہم لوگ اذان ہونے سے پہلے ہی سحری کھاکر ختم کرنا چاہتے تھے اور جتنا بھی پانی پی سکتے تھے پی لیتے۔ اذان کی آواز سنتے ہی ہم مسجد کی طرف چل پڑتے، وضو کرنے کے بعد باجماعت نماز پڑھتے تھے، اس سے پہلے ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی کہ وہ پانی کی ٹنکی میں ہاتھ کے نل سے پانی بھردے۔
نماز کے بعد بچے اسکول جانے کی تیاری کرتے اور بڑے اپنی نوکری پر یا پھر اپنی دکان، مزدوری اور اپنے پیشہ کا کام کرنا شروع کرتے۔ صبح سویرے ہر طرف رونق ہوتی تھی، گرمیوں میں دوپہر کو تھوڑا سا آرام کرتے تھے۔ شام ہوتے ہی افطاری کی تیاری شروع ہوجاتی، اس وقت افطاری میں کھجور، پکوڑے اور گھر کی بنی ہوئی روٹی سالن ہوتا تھا، ہر بڑے چھوٹے آدمی کے گھر میں کوئی بڑا اہتمام نہیں ہوتا تھا، بڑی سادگی کے ساتھ روزہ افطار کرنے کے بعد نماز پڑھنے کے لیے چلے جاتے تھے اور نماز پوری ہونے کے بعد آ کر کھانا کھاتے اور پھر تراویح پڑھنے جاتے۔ پورے رمضان شریف کے دوران کوئی بھی چیز مہنگی نہیں ہوتی، بلکہ رعایت کرتے تھے۔
جیسے جیسے عید کا موقع قریب آنے لگتا عید کی تیاری میں تیزی آ جاتی تھی مگر کپڑے رمضان شروع ہوتے ہی خرید کر ٹیلر ماسٹر کے حوالے کردیتے تھے، ہاتھ کی سویاں بنانے کے لیے 10 دن پہلے گندم کا آٹا خرید کر اسے دھوکر مٹی نکال کر پھر سکھاکر اس سے سویاں بنانے کی مشین پورا ایک ہفتہ پورے محلے میں گھومتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں سندھ کے اندر مذہبی لگاؤ بہت تھا اور ہر چھوٹے گاؤں میں تین سے چار مسجدیں ہوتی تھیں، جہاں ہر صبح اور شام لڑکے اور لڑکیاں قرآن پاک کا درس لینے آتے تھے، ہر گاؤں میں کئی قرآن پاک کے حافظ ہوتے تھے۔ لڑکیاں کوئی دنیاوی تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں مگر قرآن پاک ضرور پڑھتی تھیں۔
چاند رات کو پورا شہر کھلا رہتا تھا۔ میرے والد اپنی ڈیوٹی سے آتے ہی ہمیں ہیئر ڈریسر کے پاس لے جاتے جہاں پر لمبی قطار لگی ہوتی تھی۔ نیا جوتا خریدنے کے لیے بوٹ ہاؤسز کے باہر قطاریں کھڑی ہوتی تھیں، جو لوگ نیا جوتا نہیں لے سکتے تو وہ بوٹ پالش والوں کے پاس ایک جوتا پالش کروانے کے لیے کئی گھنٹے انتظار کرتے تھے۔ سینما ہاؤسز کے باہر نئی آنے والی فلموں کے بڑے بڑے بورڈ بنتے تھے، جسے دیکھنے کے لیے لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا دکھائی دیتا تھا۔
عید کا چاند دیکھنے کے لیے پورے شہر میں لوگ گلیوں اور گھر کی چھت پر کھڑے نظر آتے تھے۔ اگر آسمان ابر آلود ہے تو ہر چھوٹا بڑا ریڈیو کان پر لگا رکھتا تھا اور ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کرتا تھا۔ اس زمانے میں بھی سرحد صوبے میں ایک دن پہلے عید منائی جاتی تھی۔ چاند دیکھتے ہی لوگ خوشی سے پاگل ہوجاتے تھے۔ عورتیں، مرد اور بچے اس وقت اپنی تیاری میں لگ جاتے تھے، عورتیں پورے گھر کی صفائی کرنا شروع کرتیں، مرد سویوں میں ڈالنے کی چیزیں جس میں خاص طور پر کشمش، بادام وغیرہ، دودھ لینے کے لیے شام ہی سے لوگ بھینس کے باڑے میں رش لگادیتے تھے۔ پوری رات گوشت بیچنے والے، سبزی فروش، خوردنی اشیا والے بھی اتنے مصروف ہوتے تھے کہ صبح ہوجاتی۔
سب سے اہم کپڑے سینے والے ہوتے تھے، کیونکہ کپڑے عید کے موقع پر بڑی اہمیت رکھتے ہیں، عورتیں گھر میں اپنی ہاتھ کی پسی ہوئی لوکل مہندی لگاتی تھیں۔ مرد اور بچے عطر کا استعمال کرتے تھے۔ پورے شہر کی جامع مسجدوں میں پارکوں میں اور گلیوں میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ گداگر عام نہیں تھے، جس میں خاص طور پر باگڑی، بھیل، سپیرے، وغیرے ہوتے تھے جو گھر کے باہر آکر صدا لگاتے اور عید گاہ کے باہر ایک جگہ بیٹھے رہتے۔ فطرہ ہم لوگ جسے جانتے تھے اسے عید سے پہلے ادا کر دیتے تھے، اس وقت بھی غربت بہت تھی مگر لوگ بھیک نہیں مانگتے تھے، پیسے والے لوگ ان کی مدد خود ہی کرتے تھے۔
اس زمانے میں ہم گھر پر ہی کوئلے کی استری کرتے، خود بوٹ پالش کرتے، ہر آدمی سرمہ ضرور آنکھ میں ڈالتا، سر پر سرسوں کا تیل لگاتا اور عورتیں کھانا پکانے، مہمانوں کو کھلانے اور بچوں کو تیار کرنے کے بعد خود تیار ہوتی تھیں۔ ہم رات کو ہی کپڑے استری کرکے، بوٹ پالش کرکے، رومال، بنیان، موزے ور عطر سجا کر رکھ دیتے تھے، ساری رات نیند نہیں آتی اور کروٹیں بدلتے رہتے کہ صبح عید ہے۔ عیدی ملے گی جس کے لیے ہم ہر قریبی رشتے دار کے پاس حلوہ، سویاں لے جاتے اور ہمیں عیدی ملتی، جسے ہم بار بار گنتے تھے۔
عید کے موقع پر جھولے والے، کھانے پینے والوں کی دکانیں بڑی سجی ہوتی تھیں۔ دوست احباب زیادہ تر اوطاق میں بیٹھ کر مل کر کھانا کھاتے تھے، اس وقت سب سے اہم ڈش ہوتی تھی سندھی پلاؤ، جس کے اوپر گوشت کی بھنی ہوئی بوٹیاں رکھی جاتی تھیں، جسے کھاکر بڑا مزا آتا تھا۔ صبح سویرے ہی Sweeper اور چھڑکاؤ کرنے والے آجاتے تھے، گلی کی صفائی کرکے اس کے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرلیتے، پھر کچھ چونا چھڑکا جاتا۔ عید کے دن ڈاکیہ، صفائی کرنے والا جمعدار، رات کو پہرہ دینے والا چوکیدار، مسجد میں پڑھنے والے بچے عیدی لینے کے لیے آتے اور جاتے رہتے تھے۔
اس وقت عید کارڈ کی بڑی اہمیت تھی، پورا ایک ہفتہ لوگ عید کارڈ ڈھونڈنے اور لکھنے میں مصروف رہتے اور ڈاکیہ کا انتظار شدت سے رہتا تھا، جو عید کے روز بھی ڈاک بانٹتے تھے تاکہ عیدی مل سکے۔ عید کی سب سے اچھی بات یہ ہوتی تھی کہ ہم نماز پڑھنے کے بعد سب سے پہلے گھر کے بڑے دادا، دادی، نانی، نانا، باپ اور ماں کے پاؤں پر ہاتھ رکھ کر ان سے دعائیں لیتے تھے۔ اس کے بعد سارے مرد مل کر قبرستان جاکر اپنوں کی قبر پر فاتحہ پڑھتے، پھول چڑھاتے اور پانی کا چھڑکاؤ کرتے۔ آپس میں محلے والوں کی اور رشتے داروں کی محبت اور عزت دیکھنے والی ہوتی تھی۔