انتشار و دہشت گردی کی مذمت

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص کسی کوقتل نہ کرے یہ شرک کے بعد سب سے بڑاجرم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص کسی کوقتل نہ کرے یہ شرک کے بعد سب سے بڑاجرم ہے۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : '' اور جو شخص قتل کرے کسی مومن کو جان بوجھ کر، تو اس کی سزا جہنم ہے، ہمیشہ رہے گا اس میں اور اللہ تعالیٰ غضب ناک ہوگا اور اپنی رحمت سے دور کردے گا اور تیار کر رکھا ہے اس نے اس کے لیے عذاب عظیم۔'' (النساء)

قرآن کریم کی یہی آیت انسان غور سے پڑھے اور اس میں قاتل کی جو سزا بیان کی گئی ہے اس پر نگاہ ڈالے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔حضور کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ دنیا کے فنا ہونے سے بھی بے گناہ مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین ہے۔ مذہب و اخلاق کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے کہ کوئی شخص کسی کو قتل نہ کرے یہ شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کو یہی حکم اس تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک انسان کا قتل درحقیقت پوری انسانیت کا قتل ہے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے خطبہ حجۃ ُالوداع کے موقع پر انسانی جان و مال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! '' بے شک تمہارے خون اور تمہارا مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں، مزید آپؐ نے فرمایا! '' سنو میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرکے کافر نہ ہو جانا۔'' (بخاری ) اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے صراحتا ًیہ فیصلہ صادر فرمایا کہ جو لوگ آپس میں خون خرابہ کریں گے، فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اسلحہ اُٹھائیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے وہ مسلمان نہیں بل کہ کفر کے مرتکب ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کافر قراردیا گیا۔

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' اگر تمام آسمان و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہوجائیں تب بھی یقینا اللہتعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔'' (ترمذی) قتل و غارت گری، خون خرابہ، فتنہ و فساد اور ناحق خون بہانا اتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خون ریزی کرنے کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! '' قیامت کے دن سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔'' (بخاری)


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابہ اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا! '' زمانہ قریب ہوتا جائے گا، عمل گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہوجائے، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہوجائے گی۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل۔'' (یعنی کثرت سے قتل عام)

جب ایک مرتبہ پرامن اور بے گناہ شہریوں کو ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کا نشانہ بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات کی محض فکری و نظریاتی اختلاف کی بناء پر ٹارگیٹ کلنگ کی جائے تو اس دہشت گردی کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج، افراتفری، نفسانفسی، بدامنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ انہی گھمبیر اور خطرناک حالات کی طرف امام ابوداؤد سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؐ نے فتنوں کا ذکر فرمایا ۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا۔ کسی نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ افراتفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے۔'' (ابوداؤد)

مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی قبول نہیں ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے (بے گناہ) قتل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔'' (ابوداؤد)

دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی، مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں الگ تھلگ کرنے کے لیے حضور نبی کریم ﷺ نے ان کی ہر قسم کی مدد و اعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا، وہ رحمت الٰہی سے محروم ہوجائے گا۔'' فرمان رسول ہے جس شخص نے چند کلمات کے ذریعے بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا۔ (یہ) اللہ کی رحمت سے مایوس شخص ہے۔'' (ابن ماجہ )

اسلام اپنے ماننے والوں کونہ صرف امن و آشتی، تحمل و برداشت اور ایک دوسرے سے محبت کی تعلیم دیتا ہے، بل کہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ اعتقادی، فکری یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا صرف غیر اسلامی بل کہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خودکش حملوں اور بم دھماکو ں کے ذریعے اللہ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور معصوم و بے گناہ لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ۔
Load Next Story