جعلی پولیس افسر سلیم جعفر کا بھتہ خوری میں بری ہونے کا امکان

ملزم کو لیاقت آباد نہیں سرجانی تھانے سے گرفتار کیا گیا، تفتیش میں واضح ہو گیا

معطل ڈی ایس پی محمود خان راجپوت ملزم کا سرپرست ہے، ایس ایس پی سینٹرل۔ فوٹو: فائل

سپر مارکیٹ پولیس کی جانب سے ایک ماہ قبل جعلی پولیس افسر سلیم جعفر کیخلاف داخل کیے گئے بھتہ خوری کے مقدمے کی تفتیش میں پولیس کی جانبداری ظاہر ہوگئی جبکہ ملزم کی اہلیہ کا پولیس افسران پر الزام درست پایا گیا۔

تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ بھتے کے مقدمے میں گرفتار ملزم کا سابقہ ریکارڈ بھتہ خوری کا ہوسکتا ہے لیکن اس مقدمے میں ملزم کے خلاف پولیس کارروائی اور پولیس کا طرز عمل جانبداری پر مبنی لگتا ہے کیونکہ ریکارڈ میں ملزم کی گرفتاری بھتہ لینے کے وقت لیاقت آباد سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ تفتیش میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ملزم کو سرجانی تھانے کے اندر سے گرفتار کرکے بھتے کا مقدمہ دوسرے تھانے میں درج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ملزم کی گرفتاری کے وقت ملزم کی اہلیہ نے الزام عائد کیا تھاکہ میرا شوہر بے گناہ ہے اور وہ اپنے پلاٹ کے معاملے پر سرجانی تھانے گیا تھا، ایک ماہ قبل21مئی کو سپر مارکیٹ پولیس نے شوروم پر کام کرنے والے تابش اعجازکی مدعیت میں مقدمہ الزام نمبر114/18بھتہ خوری اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کیا گیاتھا جس میں مدعی کا الزام تھاکہ ملزم جعلی پولیس افسر سلیم جعفر نے پولیس کے اعلیٰ افسران کے نام پر بھتہ وصول کیا اور دوبارہ بھتہ طلب کررہا تھا.

دوسری جانب ملزم سلیم جعفر کی اہلیہ نے ڈی آئی جی ویسٹ عامرفاروقی، ایس ایس پی سینٹرل اور دیگر پولیس افسران پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے میرے شوہر کو سرجانی ٹاؤن تھانے کے اندر سے حراست میں لیا اور سپر مارکیٹ تھانے میں بھتہ خوری کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا، آئی جی سندھ و متعلقہ پولیس افسران نے کیس کی نوعیت متنازع ہونے کے سبب مقدمے کی انکوائری ایس پی صدر ڈویژن توقیر نعیم کے سپرد کی تھی۔

انھوں نے اعلیٰ پولیس افسران کو سفارش کی کہ مذکورہ مقدمے کی تفتیش دوسرے زون منتقل کرکے کرائی جائے تاکہ زمینی حقائق سامنے آسکیں۔ اعلیٰ افسران نے سفارش منظور کرتے ہوئے3جون کو مذکورہ مقدمے کی تفتیش ایسٹ زون میں عوامی کالونی تھانے کے انویسٹی گیشن افسر انسپکٹر عزیز میکن کے سپرد کردی۔

نمائندہ ایکسپریس کو انسپکٹر عزیز میکن نے بتایا کہ مذکورہ مقدمے کی تفتیش کا آغاز کیا تو اس کیس میں تفتیش کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس مقدمے میں ایک طرف پولیس کے اعلیٰ افسران کو ملزم کی اہلیہ نے متنازع بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے کیس کی تفتیش ویسٹ زون سے ایسٹ زون منتقل ہوئی۔


تفتیش کے مراحل کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم سلیم جعفر پولیس کے اعلیٰ افسران کے نام پر عرصے دراز سے بھتہ وصول کرتا تھا اور اس کے ساتھ محکمہ پولیس کے چند افسران بھی ملوث ہیں، ملزم کے سہولت کار پولیس افسران کے نام اعلیٰ افسران کے علم میں ہیں۔

ویسٹ زون پولیس نے ملزم سلیم جعفر کے خلاف سپرمارکیٹ تھانے میں بھتے اور غیر قانونی اسلحے کا مقدمہ جلدی میں درج کیاگیا جس سے جانبداری کا گمان ہوتا ہے کیونکہ ملزم کے خلاف مقدمے میں پولیس نے ملزم کی گرفتاری سرجانی کے بجائے لیاقت آباد سے ظاہر کی ہے جو حقائق کے برعکس ہے۔

تفتیش میں یہ واضح ہوا کہ ملزم کی گرفتاری سرجانی ٹاؤن تھانے کے اندر سے ہوئی تھی اور وہیں پہلا مقدمہ درج کرکے اس کیس میں گرفتاری ظاہر کرنی تھی اس لیے ملزم کی اہلیہ کی یہ بات درست ہے کہ سلیم جعفر کو سرجانی ٹاؤن تھانے کے اندر سے گرفتار کیاگیا، اس کے بعد تابش سے اگر ملزم نے بھتہ وصول کیا تھا اور مزید بھتے کا مطالبہ کررہا تھاتو دوسرا مقدمہ سپر مارکیٹ تھانے میں درج کرنا تھا۔

ویسٹ زون پولیس کے افسران نے پیشہ ورانہ قانونی طریقہ کار کو رد کرتے ہوئے ملزم کے خلاف مضبوط مقدمات درج نہیں کیے، اس کیس میں اگر ملزم بری ہوا تو اس کے خلاف سرجانی ٹاؤن تھانے میں درج ہونے والے مقدمے کی تفتیش بھی کمزور پڑ جائے گی۔

انسپکٹر عزیز میکن نے مزید بتایاکہ سپرمارکیٹ بھتہ کیس کی تفتیش میں نامزد 2 پولیس اہلکار سلیم ذکی اور پولیس اہلکار فرزند علی کا ملزم سلیم جعفر کے جرم سے کوئی تعلق سامنے نہیں آیا۔ سلیم ذکی ملزم کا رشتے دار ہے اور فرزند علی سرجانی ٹاؤن تھانے میں تعینات تھا، ان کے نام تفتیش میں شامل کرنے والے پولیس افسران بھی یہ بات واضح نہیں کرسکے کہ ان اہلکاروں کے نام کس کے ایما پر ڈالے گئے اس حوالے کوئی بھی افسر کچھ بھی بتانے سے گریز کررہے ہیں جو ایک سوالیہ نشان ہے۔

سابق ایس ایچ او لیاقت آباد راؤ شبیر ملزم سلیم جعفر کا دوست ضرور ہے لیکن اس کے جرائم میں ملوث نہیں۔ ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر رضوان احمد نے بتایاکہ معطل ڈی ایس پی سیکیورٹی سینٹرل محمود خان راجپوت ملزم سلیم جعفر کا سرپرست ہے اور اس کے ساتھ پولیس افسران کے نام پر بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہے اس حوالے سے محکمہ جاتی کارروائی جاری ہے۔ معطل ایس ایچ او لیاقت آباد راؤ شبیر انکوائری میں ملوث نہیں پائے گئے جس کی وجہ سے ڈی آئی جی نے بحال کیا۔
Load Next Story