اب چال شناخت کا ذریعہ بنے گی
چال کے ذریعے انسانی شناخت کا نظام پریشر پیڈز ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ نظام ہے۔
ہوائی اڈوں پر مشتبہ افراد کی شناخت کے لیے انگلیوں کے نشانات سے لے کر فلم بندی اور آئی اسکیننگ سمیت کئی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے ہوائی اڈوں پر خاص طور سے مشتبہ مسافروں کی شناخت کے لیے یہ نظام اپنائے گئے ہیں۔
اب ماہرین نے انسانی شناخت کا ایک اور ذریعہ دریافت کرلیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ذریعے سے کسی بھی فرد کی 99.3 فی صد تک درست شناخت کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر فنگرپرنٹس کو شناخت کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ دنیا میں کسی بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات یکساں نہیں ہوتے۔
اب ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فنگرپرنٹس کے مانند ہر شخص کے چلنے کا انداز یعنی چال بھی ایک دوسرے سے جُدا ہوتی ہے، چناں چہ اس ذریعے سے بھی کسی فرد کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ کسی فرد کی چال سے اس کی شناخت کی منفرد ٹیکنالوجی کے کام یاب تجربات کیے جاچکے ہیں، اور بہت جلد یہ ٹیکنالوجی فنگر پرنٹنگ، آئی اسکیننگ اور چہرے کے خال و خد کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی کی طرح ہوائی اڈوں پر استعمال کی جارہی ہوگی۔ فنگر پرنٹنگ، آئی اسکیننگ اور فیشل ری کگنیشن کے طریقہ ہائے کار کی نسبت اس ٹیکنالوجی سے مسافروں کو الجھن نہیں ہوگی۔
انگلیوں کی پوروں کی شناخت، آئی اسکیننگ اور فیشل ری کگنیشن کے لیے انھیں مخصوص مشینوں اور کیمروں کے سامنے کھڑے ہونا پڑتا ہے مگر چال سے اپنی شناخت کروانے کے لیے انھیں یہ کوفت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ ہوائی اڈے کے فرش پر بچھے ہوئے مخصوص پریشر پیڈز پر سے گزریں گے اور ان کی شناخت کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ یہ پیڈز فرد کے جوتوں کے نشانات کے بجائے اس کی چال پر ' نگاہ' رکھتے ہیں۔
انسانی شناخت کا یہ منفرد نظام سائنس کی اس شاخ کا حصہ ہے جو behavioural biometrics کہلاتی ہے۔ اس میں چلنے کے انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ وغیرہ کے ذریعے فرد کے رویے اور حرکات سے متعلق ایسے اشارات نوٹ کیے جاتے ہیں جو دوسروں سے منفرد اور جداگانہ ہوں۔ سیکیورٹی سے متعلق سائنس کی دوسری شاخ Physical biometrics ہے۔ اس میں فنگر پرنٹس، فیشل ری کگنیشن اور ریٹینل اسکین جیسی شناختی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
چال کے ذریعے انسانی شناخت کا نظام پریشر پیڈز ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جس کی بنیاد مصنوعی ذہانت ( اے آئی) پر ہے۔ یہ نظام تخلیق کرنے کے لیے ہسپانوی اور برطانوی سائنس دانوں اور انجنیئروں کی مشترکہ ٹیم نے 127 افراد کے قدموں کے بیس ہزار سے زائد نشانات لے کر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور منفرد ڈیٹابیس قائم کیا۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق انسان جب چلتا ہے تو اس عمل میں چوبیس مختلف عوامل اور حرکات شامل ہوتی ہیں۔ ان کے نتیجے میں ہر انسان کے چلنے کا انداز ایک دوسرے سے جُدا ہوتا ہے۔ چناں چہ ان حرکات کو مانیٹر کرتے ہوئے فنگرپرنٹ یا ریٹینل اسکیننگ کی طرح ہر فرد کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
یہ منفرد شناختی نظام تیار کرنے کے بعد محققین ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر اس کے کام یاب تجربات کرچکے ہیں۔ ان تجربات کے دوران99.3 فی صد درستی کے ساتھ تحقیق میں شامل رضاکاروں کی شناخت کی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شناختی نظام کے ذریعے ہوائی اڈوں اور دوسرے حساس عوامی مقامات پر مشتبہ افراد کی شناخت زیادہ مؤثر ہوجائے گی۔ تاہم اس سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ فنگرپرنٹس اور ریٹینا کی طرح شہریوں کی چال کا ڈیٹا بیس بھی موجود ہو۔ اس تناظر میں ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کی چال ریکارڈ کرنے کا نظام وضع کرلیا جائے۔
اب ماہرین نے انسانی شناخت کا ایک اور ذریعہ دریافت کرلیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ذریعے سے کسی بھی فرد کی 99.3 فی صد تک درست شناخت کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر فنگرپرنٹس کو شناخت کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے کیوں کہ دنیا میں کسی بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات یکساں نہیں ہوتے۔
اب ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فنگرپرنٹس کے مانند ہر شخص کے چلنے کا انداز یعنی چال بھی ایک دوسرے سے جُدا ہوتی ہے، چناں چہ اس ذریعے سے بھی کسی فرد کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ کسی فرد کی چال سے اس کی شناخت کی منفرد ٹیکنالوجی کے کام یاب تجربات کیے جاچکے ہیں، اور بہت جلد یہ ٹیکنالوجی فنگر پرنٹنگ، آئی اسکیننگ اور چہرے کے خال و خد کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی کی طرح ہوائی اڈوں پر استعمال کی جارہی ہوگی۔ فنگر پرنٹنگ، آئی اسکیننگ اور فیشل ری کگنیشن کے طریقہ ہائے کار کی نسبت اس ٹیکنالوجی سے مسافروں کو الجھن نہیں ہوگی۔
انگلیوں کی پوروں کی شناخت، آئی اسکیننگ اور فیشل ری کگنیشن کے لیے انھیں مخصوص مشینوں اور کیمروں کے سامنے کھڑے ہونا پڑتا ہے مگر چال سے اپنی شناخت کروانے کے لیے انھیں یہ کوفت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ ہوائی اڈے کے فرش پر بچھے ہوئے مخصوص پریشر پیڈز پر سے گزریں گے اور ان کی شناخت کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔ یہ پیڈز فرد کے جوتوں کے نشانات کے بجائے اس کی چال پر ' نگاہ' رکھتے ہیں۔
انسانی شناخت کا یہ منفرد نظام سائنس کی اس شاخ کا حصہ ہے جو behavioural biometrics کہلاتی ہے۔ اس میں چلنے کے انداز، آواز کے اتار چڑھاؤ وغیرہ کے ذریعے فرد کے رویے اور حرکات سے متعلق ایسے اشارات نوٹ کیے جاتے ہیں جو دوسروں سے منفرد اور جداگانہ ہوں۔ سیکیورٹی سے متعلق سائنس کی دوسری شاخ Physical biometrics ہے۔ اس میں فنگر پرنٹس، فیشل ری کگنیشن اور ریٹینل اسکین جیسی شناختی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
چال کے ذریعے انسانی شناخت کا نظام پریشر پیڈز ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک پیچیدہ نظام ہے جس کی بنیاد مصنوعی ذہانت ( اے آئی) پر ہے۔ یہ نظام تخلیق کرنے کے لیے ہسپانوی اور برطانوی سائنس دانوں اور انجنیئروں کی مشترکہ ٹیم نے 127 افراد کے قدموں کے بیس ہزار سے زائد نشانات لے کر اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اور منفرد ڈیٹابیس قائم کیا۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق انسان جب چلتا ہے تو اس عمل میں چوبیس مختلف عوامل اور حرکات شامل ہوتی ہیں۔ ان کے نتیجے میں ہر انسان کے چلنے کا انداز ایک دوسرے سے جُدا ہوتا ہے۔ چناں چہ ان حرکات کو مانیٹر کرتے ہوئے فنگرپرنٹ یا ریٹینل اسکیننگ کی طرح ہر فرد کی شناخت کی جاسکتی ہے۔
یہ منفرد شناختی نظام تیار کرنے کے بعد محققین ہوائی اڈوں اور دیگر مقامات پر اس کے کام یاب تجربات کرچکے ہیں۔ ان تجربات کے دوران99.3 فی صد درستی کے ساتھ تحقیق میں شامل رضاکاروں کی شناخت کی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس شناختی نظام کے ذریعے ہوائی اڈوں اور دوسرے حساس عوامی مقامات پر مشتبہ افراد کی شناخت زیادہ مؤثر ہوجائے گی۔ تاہم اس سے کام لینے کے لیے ضروری ہے کہ فنگرپرنٹس اور ریٹینا کی طرح شہریوں کی چال کا ڈیٹا بیس بھی موجود ہو۔ اس تناظر میں ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کی چال ریکارڈ کرنے کا نظام وضع کرلیا جائے۔