اسٹیفنی جونی انجلینا جسے ایک ٹیکسٹ میسج نے لیڈی گاگا بنا دیا
دنیا بھر میں اپنی گائیکی اور منفرد اسٹیج پرفارمینس سے شہرت پانے والی آرٹسٹ کی کہانی
معالج سے گفتگو کے دوران لڑکی کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں واضح تھیں۔ وہ خود بھی اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔ حرکات و سکنات سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ بعد میں اسی لڑکی نے اپنی ایک دوست کو روتے ہوئے بتایا کہ وہ خود کو تنہا محسوس کرتی ہے اور زندگی سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ایک روز اس نے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا اور پھر لوگوں نے اسے ایک سوئمنگ پول میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۔
یہ ایک فلم کے مناظر کی لفظی جھلکیاں ہیں جس کا نام ''گاگا: فائیو فٹ ٹو'' ہے۔ یہ ڈاکیومینٹری فلم ہے جو مشہور گلوکارہ لیڈی گاگا کی حقیقی زندگی اور فنی سفر کا احاطہ کرتی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار بھی لیڈی گاگا ہی نے نبھایا ہے۔ اس فلم کی امریکا میں ریلیز سے چند دن قبل جب لیڈی گاگا نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس کے چند کلپس شیئر کیے تو خودکُشی کے منظر پر مداحوں نے اپنے تبصروں میں دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا اور اسے حذف کردینے کا مطالبہ کیا۔
اسٹیفنی جونی انجلینا جرمنوٹا اس گلوکارہ کا اصل نام ہے، مگر دنیا بھر میں وہ اپنی عرفیت سے پہچانی جاتی ہے۔ گائیکی کے میدان میں وہ لیڈی گاگا مشہور ہے۔ 28 مارچ 1986 کو امریکا میں پیدا ہونے والی لیڈی گاگا کے والدین نیویارک سٹی کے باسی ہیں۔ اسی شہر میں لیڈی گاگا کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ ابتدائی عمر ہی میں وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگی۔ سب سے پہلا ساز جو اس کے ہاتھ لگا وہ پیانو تھا۔ والدین نے بھی اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور میوزک میں اس کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے آرٹ اسکول داخل کروا دیا۔
دورانِ تعلیم لیڈی گاگا نے محسوس کیا کہ وہ باصلاحیت اور تخلیقی رجحان رکھتی ہے۔ اس وقت تک اسے حلقۂ احباب میں گلوکارہ کی حیثیت سے پہچان مل چکی تھی۔ آرٹ اسکول میں دوسرے سیمسٹر کے اختتام پر اس نے ایک اہم فیصلہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذہین اور پُراعتماد بھی تھی۔ اس نے موسیقی کے شعبے میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر آرٹ اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔
ان دنوں جیب خالی اور وسائل محدود تھے۔ تاہم والدین کی حوصلہ افزائی اور ان کے تعاون نے اسے توانا رکھا۔ اس نے آگے بڑھنے اور موسیقی کو ذریعۂ روزگار بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے گلوکارہ نے معمولی کرائے پر آسائشوں سے محروم ایک کمرہ لیا۔ یہاں دُھنیں بکھیرنے اور آواز کا جادو جگانے میں کوئی مخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے راستے میں کئی مشکلات آئیں، صبر آزما مراحل طے کیے۔ اسے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا پڑا، لیکن اس کی لگن اور محنت نے اسے اپنے وقت کی مقبول ترین گلوکارہ بنا دیا۔
لیڈی گاگا کا بچپن پیانو بجاتے اور لڑکپن چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈر پر مائیکل جیکسن، رولنگ اسٹونز اور دی بیٹلز کے گیتوں سے لطف اندوز ہوتے گزرا۔ نوجوانی کی سرحد پر قدم رکھا تو تخلیق کار بھی بن گئی۔ 13 سال کی عمر میں اس نے ایک گیت کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کے اگلے ہی برس نیویارک کے ایک کلب میں پرفارم کرنے کا موقع ملا تو لیڈی گاگا نے گائیکی کی عام روش سے انحراف کرتے ہوئے منفرد انداز میں شائقین کو متوجہ کرلیا۔ آج بھی وہ اپنی جدت طرازی اور غیرروایتی انداز کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر اس کے مداحوں کی تعداد بھی ایک ریکارڈ ہے۔ لیڈی گاگا کی اس مقبولیت کا ایک سبب پرفارمینس کا انوکھا اور منفرد انداز بھی ہے۔
17برس کی عمر میں اسے نیویارک کے مشہور آرٹ اسکول نے میوزیشن کے طور پر منتخب کرلیا۔ گلوکاری کے بعد اسے گیت نگاری کا شوق ہوا اور یہاں بھی خوش قسمتی نے اس کا ہاتھ تھاما۔ اس 20 سالہ آرٹسٹ نے باقاعدہ شاعری شروع کردی اور نام وَر گائیکوں نے اس کی تخلیقات کو اپنی آواز دی۔ انہی دنوں میوزک کمپنی اسٹریم لائن ریکارڈز سے معاہدہ ہو گیا اور وہ گیت نگار کی حیثیت سے اس ادارے سے منسلک ہوگئی۔
اسی عرصے میں کون لائیو ڈسٹری بیوشن سے وابستہ ہوئی اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ گائیکی اور منفرد اسٹیج پرفارمینس کے باعث اسے مختلف کلبوں اور اداروں نے کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ گلوکاری کے ساتھ گیت تخلیق کرنے لگی۔ اس کا سفر آگے بڑھتا رہا اور 2008 اس کی شہرت اور مقبولیت کا سال ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں اسے لیڈی گاگا کی عرفیت سے شناخت مل گئی۔
The Fame وہ میوزک البم تھا جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کردیا۔ یہ شان دار کام یابی خود لیڈی گاگا کے لیے بھی حیران کُن تھی۔ اس البم نے انگلینڈ، کینیڈا، آسٹریا، جرمنی اور آئرلینڈ جیسے ملکوں میں موسیقی کے شائقین کو لیڈی گاگا کا دیوانہ بنا دیا۔ یہ متعدد ملکوں کے ٹاپ ٹین چارٹ میں سرفہرست رہا۔ اسی البم کے Just Dance اور Poker Face جیسے گیت بے حد مقبول ہوئے۔
مذکورہ البم نے گریمی ایوارڈ کے لیے چھے نام زدگیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد ایک مختصر البم The Fame Monster منظر عام پر آیا جس کے گیت Bad Romance نے تہلکہ مچا دیا۔ لیڈی گاگا کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور اس نے Born This Way کی تیاری شروع کردی۔ یہ البم بھی ہٹ ثابت ہوا۔ اس نے امریکا کی معروف ریکارڈنگ کمپنیوں کے ساتھ سونگ رائٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران وہ مختلف کلبوں کے لیے اسٹیج پر پرفارم کرتی رہی۔ بعدازاں اس نے چند ساتھیوں کی مدد سے اسٹیفنی نامی میوزیکل گروپ کی بنیاد رکھی اور اپنے البم ریلیز کیے۔
میوزک کی دنیا میں اس نے پاپ اور راک کے ملاپ کا تجربہ کیا اور اس حوالے سے بھی نام کمایا۔ نو مرتبہ ایم ٹی وی ویڈیو میوزک ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والی لیڈی گاگا نے بیسٹ نیو آرٹسٹ کا ایوارڈ اور اپنے ایک گیت کے لیے بیسٹ آرٹ ڈائریکشن اور بیسٹ اسپیشل ایفیکٹس کے دو ایوارڈ جیتے۔ اسے آسکر کے لیے بھی نام زد کیا گیا۔ گائیکی کے سفر میں وہ اپنا حقیقی راہ نما اور مددگار میوزک پروڈیوسر Rob Fusari کو قرار دیتی ہے۔ گلوکارہ کے مطابق ان کی بدولت میں نے خود کو میوزک کی دنیا میں دریافت کیا۔
لیڈی گاگا کی عرفیت بھی اسی میوزک پروڈیوسر کی دین ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ گلوکارہ شہرت کے آسمان پر اپنی پرواز کو کوئی نام دینے کے لیے سوچ بچا کر ہی رہی تھی۔ اسے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا، جس میں ریڈیو گاگا کا لفظ شامل تھا۔ یہ لیڈی گاگا کے دوست میوزک پروڈیوسر کا میسیج تھا۔ اسی روز اسٹیفنی نے خود کو لیڈی گاگا کے طور پر متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ دراصل ریڈیو گاگا ایک برٹش راک بینڈ کے البم کا گیت تھا، جو اپنے وقت میں خاصا مشہور ہوا اور یہی ٹائٹل دنیا بھر میں اس گلوکارہ کی شناخت بنا۔
آج اسے شوبزنس کی دنیا میں آئیکون کا درجہ حاصل ہے، مگر وہ امریکا اور دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی پہچان رکھتی ہے۔ اس کے بعض گانے اور انٹریوز متنازع بھی ٹھیرے جس کی وجہ مذہب اور سماجی زندگی سے متعلق اس کے مخصوص خیالات ہیں۔
وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت میں بھی آگے آگے رہی۔ انتخابات کے دوران وہ بھی ان فن کاروں میں شامل تھی جو ٹرمپ کو امریکا کے اہم ترین منصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے۔ لیڈی گاگا نے ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور اس سے متعلق مختلف مظاہروں میں بھی شریک ہوئی۔
گلوکارہ کو اپنے خیالات اور نظریات کے پرچار کی وجہ سے حکومتوں اور بعض اہم شخصیات کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس گلوکارہ کا یو ٹیوب چینل ویب سائٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بند کردیا گیا تھا جب کہ چین نے انٹرنیٹ پر موجود مشہور گانوں کو 'بلیک لسٹ' کردیا اور بعض ویب سائٹس کو لیڈی گاگا کی موسیقی ہٹانے کا پابند کیا گیا تھا۔ چینی حکام کے مطابق یہ گیت 'ثقافتی سلامتی' کے لیے نقصان دہ تھے۔ اسی طرح بعض مغربی ممالک میں بھی اس کے گانوں دی ایج آف گلوری، ہیئر و دیگر پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
لیڈی گاگا نے اپنے گائیکی اور گیتوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اسٹیج پرفارمینس میں انفرادیت کا بھی خوب اہتمام کیا۔ اس کا ہر انداز دبنگ تھا۔ وہ شہرت اور مقبولیت کے ہفت خواں طے کرتی چلی گئی۔ اسے باکمال گلوکارہ ہی نہیں بلکہ فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں بھی انفرادیت کے باعث جانا جاتا ہے۔ لیڈی گاگا اسٹیج پر حاضرین کے سامنے اچھوتے انداز میں جلوہ گر ہوتی۔ اس کا ہیئر اسٹائل اور ملبوسات ہی نہیں بلکہ عجیب و غریب طرزِ زیبائش بھی شائقین کو متوجہ کرلیتی ہے۔ 2010 کی ایک پرفارمینس کے دوران لیڈی گاگا نے اسٹیج پرفارمینس کے لیے کچے گوشت کا لباس پہنا تھا۔
یہ پرفارمینس دنیا بھر میں میڈیا کی سرخی بنی جس پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مختلف لوگوں جن میں اس کے مداح بھی شامل تھے کے علاوہ سماجی راہ نماؤں اور جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے بھی اعتراض کیا۔ لیڈی گاگا نے اپنے گانے 'پرفیکٹ ایلوژن' میں مختلف حلیے اپنائے۔ وہ راک اسٹار کے روپ میں ظاہر ہونے کے علاوہ اسی گانے میں گیس ماسک لگائے ہوئے نظر آئی جس نے شائقین کی توجہ حاصل کرلی۔ اپنے اسی انداز کے باعث جلد ہی وہ آئیکون بن چکی تھی۔ اس آرٹسٹ نے دنیا بھر میں ایک نیا پاپ کلچر متعارف کروایا۔ اسٹیج پرفارمینس کے حوالے سے وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد و یگانہ ہے۔ اسے نٹ کھٹ اور چلبلی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس کا ڈھب، وضع قطع نرالی ہے۔
یہ درست ہے کہ گائیکی کے علاوہ لیڈی گاگا کی ایک وجہِ شہرت اس کا اسٹیج پر عجیب و غریب انداز میں ظاہر ہونا اور قسم قسم کی پوشاکوں کا استعمال ہے۔ وہ کبھی جانوروں کے گوشت سے بدن ڈھانپے نظر آتی ہے تو کبھی انتہائی اونچی ہیل پہنے اسٹیج پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ کبھی اس کے جوتوں کی بناوٹ انتہائی عجیب ہوتی ہے جو حاضرین کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور اسی طرح خلائی مخلوق کا روپ دھار کر بھی مداحوں کو متوجہ کرلیتی ہے۔ رنگے ہوئے بال اور طرح طرح کے ہیئر اسٹائل تو عام بات ہے۔ ایک ہی پرفارمینس کے دوران متعدد ملبوسات میں جلوہ گر ہونے کے علاوہ اکثر ہیئر اسٹائل کے ساتھ میک اپ اور زیبائش کی تبدیلی سے وہ اپنی پرفارمینس کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ پیچیدہ نفسیاتی رویوں کا اظہار ہے اور لیڈی گاگا اسے نبھانے میں کمال رکھتی ہے۔ وہ ایک بااثر اور سحرانگیز شخصیت کی مالک قرار پائی۔ ٹائم میگزین اور فوربز میگزین نے اسے دنیا کی پُراثر اور طاقت ور شخصیات میں شمار کیا۔ اس گلوکارہ کی حیثیت اور مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے امریکی یونیورسٹی میں زندگی کی علامت کے طور پر زیربحث لایا گیا اور عمرانیات کے نصاب میں اس پر ایک باب شامل ہے۔ بین الاقوامی جریدہ فوربز اس امریکی گلوکارہ کو دنیا کی سب سے مقبول اور 'طاقت ور' آرٹسٹ قرار دے چکا ہے۔ فوربز کی اس حوالے سے سو مشہور ترین فن کاروں کی فہرست میں لیڈی گاگا پہلے نمبر تھی۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں فیس بک پر سب سے زیادہ پرستار رکھنے والی گلوکارہ ہے۔ گاگا کے پرستاروں کی تعداد تین کروڑ بیس لاکھ اور ٹوئٹر پر ایک کروڑ سے زائد رہی ہے۔
اس پاپ سنگر پر بننے والی ڈاکیومینٹری فلم ''گاگا: فائیو فٹ ٹو'' کا زیادہ تر حصہ اس کی زندگی کے اس دور پر مبنی ہے جس میں وہ نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباؤ سے دوچار رہی۔ فلم میں لیڈی گاگا کے موسیقی کے کیریئر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس فلم کے علاوہ لیڈی گاگا نے ایک ڈراما سیریز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اسے شائقین اور ناقدین دونوں نے بہت پسند کیا۔ 2016 میں اسی سیریز کے لیے لیڈی گاگا نے بہترین اداکارہ کا گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔
اس سے پہلے 2013 میں اس کا 'آرٹ پاپ' نامی البم سامنے آیا تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔ اس کے گیت امریکی میوزک چارٹ میں سرِفہرست رہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور محنت سے شہرت اور دولت سمیٹنے والی اس گلوکارہ نے اپنی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ایک وقت وہ تھا جب اسے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنا پڑا اور آج وہ اس مقام پر پہنچ کر بھی ایک مشکل اور تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ وہ ان دنوں فائبرو مائیلجیا نامی مرض سے لڑ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں پورے بدن میں اچانک درد شروع ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں لیڈی گاگا کے لیے پرفارم کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اپنے متعدد کنسرٹ منسوخ کرنا پڑے۔ لیڈی گاگا اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کرتی رہی ہے کہ شہرت نے اسے تنہا کردیا ہے۔ وہ عام انسان کی طرح آزاد نہیں اور یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے۔
یہ ایک فلم کے مناظر کی لفظی جھلکیاں ہیں جس کا نام ''گاگا: فائیو فٹ ٹو'' ہے۔ یہ ڈاکیومینٹری فلم ہے جو مشہور گلوکارہ لیڈی گاگا کی حقیقی زندگی اور فنی سفر کا احاطہ کرتی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار بھی لیڈی گاگا ہی نے نبھایا ہے۔ اس فلم کی امریکا میں ریلیز سے چند دن قبل جب لیڈی گاگا نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اس کے چند کلپس شیئر کیے تو خودکُشی کے منظر پر مداحوں نے اپنے تبصروں میں دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا اور اسے حذف کردینے کا مطالبہ کیا۔
اسٹیفنی جونی انجلینا جرمنوٹا اس گلوکارہ کا اصل نام ہے، مگر دنیا بھر میں وہ اپنی عرفیت سے پہچانی جاتی ہے۔ گائیکی کے میدان میں وہ لیڈی گاگا مشہور ہے۔ 28 مارچ 1986 کو امریکا میں پیدا ہونے والی لیڈی گاگا کے والدین نیویارک سٹی کے باسی ہیں۔ اسی شہر میں لیڈی گاگا کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ ابتدائی عمر ہی میں وہ موسیقی میں دل چسپی لینے لگی۔ سب سے پہلا ساز جو اس کے ہاتھ لگا وہ پیانو تھا۔ والدین نے بھی اپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور میوزک میں اس کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے آرٹ اسکول داخل کروا دیا۔
دورانِ تعلیم لیڈی گاگا نے محسوس کیا کہ وہ باصلاحیت اور تخلیقی رجحان رکھتی ہے۔ اس وقت تک اسے حلقۂ احباب میں گلوکارہ کی حیثیت سے پہچان مل چکی تھی۔ آرٹ اسکول میں دوسرے سیمسٹر کے اختتام پر اس نے ایک اہم فیصلہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذہین اور پُراعتماد بھی تھی۔ اس نے موسیقی کے شعبے میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر آرٹ اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔
ان دنوں جیب خالی اور وسائل محدود تھے۔ تاہم والدین کی حوصلہ افزائی اور ان کے تعاون نے اسے توانا رکھا۔ اس نے آگے بڑھنے اور موسیقی کو ذریعۂ روزگار بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے گلوکارہ نے معمولی کرائے پر آسائشوں سے محروم ایک کمرہ لیا۔ یہاں دُھنیں بکھیرنے اور آواز کا جادو جگانے میں کوئی مخل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے راستے میں کئی مشکلات آئیں، صبر آزما مراحل طے کیے۔ اسے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا پڑا، لیکن اس کی لگن اور محنت نے اسے اپنے وقت کی مقبول ترین گلوکارہ بنا دیا۔
لیڈی گاگا کا بچپن پیانو بجاتے اور لڑکپن چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈر پر مائیکل جیکسن، رولنگ اسٹونز اور دی بیٹلز کے گیتوں سے لطف اندوز ہوتے گزرا۔ نوجوانی کی سرحد پر قدم رکھا تو تخلیق کار بھی بن گئی۔ 13 سال کی عمر میں اس نے ایک گیت کی موسیقی ترتیب دی۔ اس کے اگلے ہی برس نیویارک کے ایک کلب میں پرفارم کرنے کا موقع ملا تو لیڈی گاگا نے گائیکی کی عام روش سے انحراف کرتے ہوئے منفرد انداز میں شائقین کو متوجہ کرلیا۔ آج بھی وہ اپنی جدت طرازی اور غیرروایتی انداز کی وجہ سے الگ پہچان رکھتی ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر اس کے مداحوں کی تعداد بھی ایک ریکارڈ ہے۔ لیڈی گاگا کی اس مقبولیت کا ایک سبب پرفارمینس کا انوکھا اور منفرد انداز بھی ہے۔
17برس کی عمر میں اسے نیویارک کے مشہور آرٹ اسکول نے میوزیشن کے طور پر منتخب کرلیا۔ گلوکاری کے بعد اسے گیت نگاری کا شوق ہوا اور یہاں بھی خوش قسمتی نے اس کا ہاتھ تھاما۔ اس 20 سالہ آرٹسٹ نے باقاعدہ شاعری شروع کردی اور نام وَر گائیکوں نے اس کی تخلیقات کو اپنی آواز دی۔ انہی دنوں میوزک کمپنی اسٹریم لائن ریکارڈز سے معاہدہ ہو گیا اور وہ گیت نگار کی حیثیت سے اس ادارے سے منسلک ہوگئی۔
اسی عرصے میں کون لائیو ڈسٹری بیوشن سے وابستہ ہوئی اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ گائیکی اور منفرد اسٹیج پرفارمینس کے باعث اسے مختلف کلبوں اور اداروں نے کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ گلوکاری کے ساتھ گیت تخلیق کرنے لگی۔ اس کا سفر آگے بڑھتا رہا اور 2008 اس کی شہرت اور مقبولیت کا سال ثابت ہوا۔ دنیا بھر میں اسے لیڈی گاگا کی عرفیت سے شناخت مل گئی۔
The Fame وہ میوزک البم تھا جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کردیا۔ یہ شان دار کام یابی خود لیڈی گاگا کے لیے بھی حیران کُن تھی۔ اس البم نے انگلینڈ، کینیڈا، آسٹریا، جرمنی اور آئرلینڈ جیسے ملکوں میں موسیقی کے شائقین کو لیڈی گاگا کا دیوانہ بنا دیا۔ یہ متعدد ملکوں کے ٹاپ ٹین چارٹ میں سرفہرست رہا۔ اسی البم کے Just Dance اور Poker Face جیسے گیت بے حد مقبول ہوئے۔
مذکورہ البم نے گریمی ایوارڈ کے لیے چھے نام زدگیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد ایک مختصر البم The Fame Monster منظر عام پر آیا جس کے گیت Bad Romance نے تہلکہ مچا دیا۔ لیڈی گاگا کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور اس نے Born This Way کی تیاری شروع کردی۔ یہ البم بھی ہٹ ثابت ہوا۔ اس نے امریکا کی معروف ریکارڈنگ کمپنیوں کے ساتھ سونگ رائٹر اور پروڈیوسر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران وہ مختلف کلبوں کے لیے اسٹیج پر پرفارم کرتی رہی۔ بعدازاں اس نے چند ساتھیوں کی مدد سے اسٹیفنی نامی میوزیکل گروپ کی بنیاد رکھی اور اپنے البم ریلیز کیے۔
میوزک کی دنیا میں اس نے پاپ اور راک کے ملاپ کا تجربہ کیا اور اس حوالے سے بھی نام کمایا۔ نو مرتبہ ایم ٹی وی ویڈیو میوزک ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والی لیڈی گاگا نے بیسٹ نیو آرٹسٹ کا ایوارڈ اور اپنے ایک گیت کے لیے بیسٹ آرٹ ڈائریکشن اور بیسٹ اسپیشل ایفیکٹس کے دو ایوارڈ جیتے۔ اسے آسکر کے لیے بھی نام زد کیا گیا۔ گائیکی کے سفر میں وہ اپنا حقیقی راہ نما اور مددگار میوزک پروڈیوسر Rob Fusari کو قرار دیتی ہے۔ گلوکارہ کے مطابق ان کی بدولت میں نے خود کو میوزک کی دنیا میں دریافت کیا۔
لیڈی گاگا کی عرفیت بھی اسی میوزک پروڈیوسر کی دین ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ گلوکارہ شہرت کے آسمان پر اپنی پرواز کو کوئی نام دینے کے لیے سوچ بچا کر ہی رہی تھی۔ اسے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا، جس میں ریڈیو گاگا کا لفظ شامل تھا۔ یہ لیڈی گاگا کے دوست میوزک پروڈیوسر کا میسیج تھا۔ اسی روز اسٹیفنی نے خود کو لیڈی گاگا کے طور پر متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ دراصل ریڈیو گاگا ایک برٹش راک بینڈ کے البم کا گیت تھا، جو اپنے وقت میں خاصا مشہور ہوا اور یہی ٹائٹل دنیا بھر میں اس گلوکارہ کی شناخت بنا۔
آج اسے شوبزنس کی دنیا میں آئیکون کا درجہ حاصل ہے، مگر وہ امریکا اور دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی پہچان رکھتی ہے۔ اس کے بعض گانے اور انٹریوز متنازع بھی ٹھیرے جس کی وجہ مذہب اور سماجی زندگی سے متعلق اس کے مخصوص خیالات ہیں۔
وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت میں بھی آگے آگے رہی۔ انتخابات کے دوران وہ بھی ان فن کاروں میں شامل تھی جو ٹرمپ کو امریکا کے اہم ترین منصب کے لیے نااہل سمجھتے تھے۔ لیڈی گاگا نے ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر احتجاج ریکارڈ کروایا اور اس سے متعلق مختلف مظاہروں میں بھی شریک ہوئی۔
گلوکارہ کو اپنے خیالات اور نظریات کے پرچار کی وجہ سے حکومتوں اور بعض اہم شخصیات کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس گلوکارہ کا یو ٹیوب چینل ویب سائٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بند کردیا گیا تھا جب کہ چین نے انٹرنیٹ پر موجود مشہور گانوں کو 'بلیک لسٹ' کردیا اور بعض ویب سائٹس کو لیڈی گاگا کی موسیقی ہٹانے کا پابند کیا گیا تھا۔ چینی حکام کے مطابق یہ گیت 'ثقافتی سلامتی' کے لیے نقصان دہ تھے۔ اسی طرح بعض مغربی ممالک میں بھی اس کے گانوں دی ایج آف گلوری، ہیئر و دیگر پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
لیڈی گاگا نے اپنے گائیکی اور گیتوں پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اسٹیج پرفارمینس میں انفرادیت کا بھی خوب اہتمام کیا۔ اس کا ہر انداز دبنگ تھا۔ وہ شہرت اور مقبولیت کے ہفت خواں طے کرتی چلی گئی۔ اسے باکمال گلوکارہ ہی نہیں بلکہ فیشن اور اسٹائل کی دنیا میں بھی انفرادیت کے باعث جانا جاتا ہے۔ لیڈی گاگا اسٹیج پر حاضرین کے سامنے اچھوتے انداز میں جلوہ گر ہوتی۔ اس کا ہیئر اسٹائل اور ملبوسات ہی نہیں بلکہ عجیب و غریب طرزِ زیبائش بھی شائقین کو متوجہ کرلیتی ہے۔ 2010 کی ایک پرفارمینس کے دوران لیڈی گاگا نے اسٹیج پرفارمینس کے لیے کچے گوشت کا لباس پہنا تھا۔
یہ پرفارمینس دنیا بھر میں میڈیا کی سرخی بنی جس پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ مختلف لوگوں جن میں اس کے مداح بھی شامل تھے کے علاوہ سماجی راہ نماؤں اور جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے بھی اعتراض کیا۔ لیڈی گاگا نے اپنے گانے 'پرفیکٹ ایلوژن' میں مختلف حلیے اپنائے۔ وہ راک اسٹار کے روپ میں ظاہر ہونے کے علاوہ اسی گانے میں گیس ماسک لگائے ہوئے نظر آئی جس نے شائقین کی توجہ حاصل کرلی۔ اپنے اسی انداز کے باعث جلد ہی وہ آئیکون بن چکی تھی۔ اس آرٹسٹ نے دنیا بھر میں ایک نیا پاپ کلچر متعارف کروایا۔ اسٹیج پرفارمینس کے حوالے سے وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد و یگانہ ہے۔ اسے نٹ کھٹ اور چلبلی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس کا ڈھب، وضع قطع نرالی ہے۔
یہ درست ہے کہ گائیکی کے علاوہ لیڈی گاگا کی ایک وجہِ شہرت اس کا اسٹیج پر عجیب و غریب انداز میں ظاہر ہونا اور قسم قسم کی پوشاکوں کا استعمال ہے۔ وہ کبھی جانوروں کے گوشت سے بدن ڈھانپے نظر آتی ہے تو کبھی انتہائی اونچی ہیل پہنے اسٹیج پر جلوہ گر ہوتی ہے۔ کبھی اس کے جوتوں کی بناوٹ انتہائی عجیب ہوتی ہے جو حاضرین کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور اسی طرح خلائی مخلوق کا روپ دھار کر بھی مداحوں کو متوجہ کرلیتی ہے۔ رنگے ہوئے بال اور طرح طرح کے ہیئر اسٹائل تو عام بات ہے۔ ایک ہی پرفارمینس کے دوران متعدد ملبوسات میں جلوہ گر ہونے کے علاوہ اکثر ہیئر اسٹائل کے ساتھ میک اپ اور زیبائش کی تبدیلی سے وہ اپنی پرفارمینس کو چار چاند لگا دیتی ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ پیچیدہ نفسیاتی رویوں کا اظہار ہے اور لیڈی گاگا اسے نبھانے میں کمال رکھتی ہے۔ وہ ایک بااثر اور سحرانگیز شخصیت کی مالک قرار پائی۔ ٹائم میگزین اور فوربز میگزین نے اسے دنیا کی پُراثر اور طاقت ور شخصیات میں شمار کیا۔ اس گلوکارہ کی حیثیت اور مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے امریکی یونیورسٹی میں زندگی کی علامت کے طور پر زیربحث لایا گیا اور عمرانیات کے نصاب میں اس پر ایک باب شامل ہے۔ بین الاقوامی جریدہ فوربز اس امریکی گلوکارہ کو دنیا کی سب سے مقبول اور 'طاقت ور' آرٹسٹ قرار دے چکا ہے۔ فوربز کی اس حوالے سے سو مشہور ترین فن کاروں کی فہرست میں لیڈی گاگا پہلے نمبر تھی۔ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ دنیا بھر میں فیس بک پر سب سے زیادہ پرستار رکھنے والی گلوکارہ ہے۔ گاگا کے پرستاروں کی تعداد تین کروڑ بیس لاکھ اور ٹوئٹر پر ایک کروڑ سے زائد رہی ہے۔
اس پاپ سنگر پر بننے والی ڈاکیومینٹری فلم ''گاگا: فائیو فٹ ٹو'' کا زیادہ تر حصہ اس کی زندگی کے اس دور پر مبنی ہے جس میں وہ نفسیاتی مسائل اور ذہنی دباؤ سے دوچار رہی۔ فلم میں لیڈی گاگا کے موسیقی کے کیریئر کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس فلم کے علاوہ لیڈی گاگا نے ایک ڈراما سیریز میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اسے شائقین اور ناقدین دونوں نے بہت پسند کیا۔ 2016 میں اسی سیریز کے لیے لیڈی گاگا نے بہترین اداکارہ کا گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔
اس سے پہلے 2013 میں اس کا 'آرٹ پاپ' نامی البم سامنے آیا تھا جو سپر ہٹ ثابت ہوا۔ اس کے گیت امریکی میوزک چارٹ میں سرِفہرست رہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور محنت سے شہرت اور دولت سمیٹنے والی اس گلوکارہ نے اپنی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ایک وقت وہ تھا جب اسے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنا پڑا اور آج وہ اس مقام پر پہنچ کر بھی ایک مشکل اور تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ وہ ان دنوں فائبرو مائیلجیا نامی مرض سے لڑ رہی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں پورے بدن میں اچانک درد شروع ہو جاتا ہے اور ایسی صورت میں لیڈی گاگا کے لیے پرفارم کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اپنے متعدد کنسرٹ منسوخ کرنا پڑے۔ لیڈی گاگا اپنے انٹرویوز میں اس بات کا اظہار کرتی رہی ہے کہ شہرت نے اسے تنہا کردیا ہے۔ وہ عام انسان کی طرح آزاد نہیں اور یہ اس کے لیے تکلیف دہ ہے۔