بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
عالمی کہانیاں
مترجم: ظفر قریشی
صفحات: 379، قیمت: 600 روپے
ناشر: دی ریسرچ فورم، کراچی
اس کتاب کے مترجم کی بابت خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کہانیاں ترجمہ ہیں یا طبع زاد۔ ہمیں بھی اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہی احساس کافی شدت سے ہوا۔ اس کتاب میں 15 کہانیاں شامل ہیں، جن میں سے بیش تر گذشتہ چند برسوں کے دوران شایع ہوئیں۔ ہر کہانی کے ساتھ لکھاری کا تعارف، اس کے تحریری محاسن، تصانیف اور اُس کہانی کے ترجمے سے گزرتے ہوئے تجربات بھی شامل ہیں۔
ان کہانیوں میں مختلف سماجی رویوں اور جبر وگھٹن کا بیان بھی دکھائی دیتا ہے، اکثر کہانیوں کے موضوعات میں ندرت کے ساتھ جنس کا عنصر بھی واضح ہے۔ اس کتاب میں امریکی، یورپی کہانیوں کے علاوہ کوریا، روس اور نائجیریا کے جن قلم کاروں کی تحاریر ترجمہ کی گئی ہیں، اُن میں ٹی کورا گھسیان (T.Cora Ghessan)، ڈیوڈ ڈیفی (David Dephy)، آرمین کومیجی (Armin Koomagi)، ڈنکن بش (Duncan Bush)، روئی زنک (Rui Zink)، یی مُن یول (Ye Mun-Yol)، سرگے ڈونا ٹو وچ دولتوف (Sergey Donatovich Dovlatov)، ایلس منرو (Alice Munro)، وکٹر لوڈاٹو (Victor Lodato)، ڈیبورا تھامسن (Deborah Thompson)، چیمامانڈا نگوزی اڈیچی (Chimamanda Nagosi Adichie)، رابرٹ چینڈلر (Robert Chandler)، سعید سیرافی زادہ (Said Sayrafie Zadeh)، ولیم ٹریور (William Trevor) شامل ہیں۔
کتاب میں مترجم نے اپنے تفصیلی اظہارخیال میں کتاب سمیت مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کا گریہ بھی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''آرٹسٹ یوسف تنویر نے کچھ کہانیاں پڑھنے کے بعد فرمایا تھا کہ یہ کہانیاں اردو کے مزاج سے مختلف ہیں۔ ہم نے کہا کہ تب تو انہیں ضرور چھپنا چاہیے، کیوں کہ اردو کی مختصر کہانیوں کے پاکستانی تالاب کا پانی اتنا ٹھیر چکا ہے کہ اس کا تعفن مارنے کی چھوٹی ہی سہی کوئی تو سبیل ہو۔''
ترکی بہ ترکی
مصنف : ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم
صفحات:381، قیمت:1000روپے
ناشر: ڈیزائن اسٹوڈیو، فیصل آباد
زرعی تحقیق کے شہ سوار اعجاز تبسم ایک مطالعاتی دورے پر ترکی گئے تو ایک 'سفرنامہ نگار' کے روپ میں دکھائی دیے اور سارا احوال سپرد کتاب کر دیا۔ ترکی جاتے ہوئے وہ ایران سے گزرتے ہیں، تو وہاں کا احوال بھی سفرنامے میں رقم کرتے جاتے ہیں، ترکی میں وارد ہوتے ہیں تو اس سرزمین کی تقدیس میں مذہبی حوالے بھی لکھتے ہیں اور انہی سطروں میں بے باکی سے تُرک سماج کی 'آزادی' کا اظہار بھی کرتے چلے جاتے ہیں، بلکہ اس حوالے سے بے دھڑک رائے دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔
ان کے ہاں بھی دوشیزاؤں کا ہم سفر ہونا سفرنامے کے لیے لازمی محسوس ہوتا ہے۔ سنگین ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے جڑے دیگر مسائل بھی اس سفرنامے کا حصہ ہیں۔ ساتھ ہی مسلمان دنیا کی سیاسی صورت حال پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ سفرنامہ کبھی رنج والم کی طرف نکل جاتا ہے، کہیں دعوت فکر دیتا محسوس ہوتا ہے، کبھی مساج سینٹر کی طرف نکل جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے پھر مذہبی حوالوں کی طرف جا پہنچتا ہے۔ ضخیم سفرنامے کے آخری باب میں 'اخذیات' کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صرف سفری احوال پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیق پر بھی بطور خاص توجہ دی گئی ہے۔ سفرنامے کے 20 مختلف ابواب کو مزید مختصر موضوعات میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
خواب سے افسانے تک
مصنف: سید ریحان احمد
صفحات: 235، قیمت: 280 روپے
ناشر: MAFCO انٹرپرائزز
اس کتاب کے مصنف معروف نقاد شمیم احمد کے صاحب زادے ہیں، شاید یہی سبب ہے کہ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ اُن کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان دنوں وہ ایک سرکاری ادارے کے شعبہ تعلقات عامہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ابھی ان کا شعری مجموعہ زیرطبع ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں جہاں وہ اپنے بہت سے افسانوں کا ماخذ حقیقی واقعات کو قرار دیتے ہیں، وہیں بہت سے افسانوں کے مندرجات ماورائے عقل بھی ہیں، جو کہ آج کے دور میں بھی تجسس پسند قارئین کے حلقے میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔
اگرچہ اس کتاب میں شامل افسانوں میں روایتی رومان انگیزی بھی ہے، لیکن زیادہ تر افسانے سماجی برائیوں کے حوالے سے روایت پسند اور اخلاقیات کا مرکزی خیال لیے ہوئے ہیں۔ وہ 15 برس کی عمر سے لکھ رہے ہیں اور افسانہ نگاری میں بھی ان کی معاشرتی اصلاح کا مشن واضح دکھائی دیتا ہے۔ کتاب کے فلیپ پر فراست رضوی رقم طراز ہیں کہ ریحان احمد کو کہانی پیش کرنے کا ہنر خوب آتا ہے، وہ مصنف کی منظر کشی اور مکالمہ نگاری کی گرفت کے بھی معترف ہیں۔ اس کتاب کی پیش کش عمدہ ہے، لیکن کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، امید ہے آیندہ اشاعت میں اسے دور کر لیا جائے گا۔
میرے ہم دم میرے دوست
مصنف: شاعر صدیقی
صفحات: 160، قیمت: 500 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے اپنے قریبی احباب کے حوالے سے اظہارخیال کیا ہے۔ یہ باقاعدہ لکھے گئے خاکے نہیں، بلکہ مختلف دیباچے اور تبصرے ہیں، جنہیں زیرتبصرہ کتاب میں یک جا کیا گیا ہے، ان میں سے بہت سی شخصیات اب دنیا سے کوچ کر چکی ہیں، تاہم ہر مضمون کے اختتام پر تاریخ اشاعت یا تاریخ تحریر درج کی گئی ہے۔
ساتھ ہی ہر مضمون پر شخصیت کے نام کے ساتھ علاحدہ سے سرخی بھی دی گئی ہے، جس سے موضوع سخن شخص کے حوالے سے آگاہی ملتی ہے یا یہ پتا چل جاتا ہے کہ اُس فرد کی شخصیت، اہم بات یا اس کے تحریری محاسن کیا ہیں۔ ساتھ ہی لکھاریوں کے اشعار اور نثری ٹکڑے بھی مذکور کیے گئے ہیں، جب کہ بہت سے مضامین میں متعلقہ شخصیات کے مختصر سوانحی خاکے بھی درج کیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں جن شخصیات پر مضامین شامل ہیں، اِن میں اختر لکھنوی، امیر حسین چمن، حبیب احسن، رشید الزماں خلش، خواجہ ریاض الدین عطش، زاہد حسین، زخمی کان پوری، سہیل غازی پوری، شاداب صدیقی، شاعر علی شاعر، ظفر محمد خان ظفرؔ، عارف ہوشیار پوری، فرقان ادریسی، نون جاوید اور واحد نظامی شامل ہیں۔ اسی طرح اپنے حلقے کی مزید کچھ شخصیات پر مضامین بھی یک جا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بدلتی دنیا، بدلتے لوگ
مصنف: ذوالفقار علی جیسانی
صفحات: 88، قیمت: 400 روپے
ناشر: رائل بک کمپنی، کراچی
اس تصنیف کے مندرجات کا مرکزی خیال سماج میں تیزی سے رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں کی مدافعت ہے۔ بہت سی جگہوں پر مافی الضمیر کا اظہار براہ راست ہے، جب کہ بہت سی جگہوں پر یہ ادبی رنگ لیے ہوئے ہے۔ 25 مشمولات میں کہیں ذریعہ اظہار اشعار کی صورت میں بھی ہے۔ کہیں وہ سیاسی مسائل پر اظہارخیال کرتے ہیں، تو کہیں سماجی المیوں کے خلاف قلم آرائی کرتے ہیں، کچھ مضامین کے استدلال میں مصنف نے کلام الٰہی کا سہارا لیا، جس میں جا بہ جا مختلف آیات سے استدلال کیا گیا ہے۔
زندگی، گھر، روز و شب اور انسانی ترجیحات کے حوالے سے ناصحانہ اظہار بھی کتاب کا حصہ ہے۔ یوں تو مصنف تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، لیکن ان کی فلسفے، تاریخ اور ادب سے وابستگی کا رنگ اس کتاب میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب پر نظر ثانی کرنے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی لکھتے ہیں 'مجھے بے حد مسرت ہوئی کہ معاشرے میں ابھی اتنی مثبت سوچ اور دل میں سوز رکھنے والے اہل قلم موجود ہیں، جن پر محسن بھوپالی کے اس شعر کا سو فی صد اطلاق ہوتا ہے؎
ہماری جان پہ دُہرا عذاب ہے محسنؔ
کہ دیکھنا ہی نہیں ہے، ہم کو سوچنا بھی ہے
شاعرِ اسلام
(اقبال شناسی کا نیا زاویہ)
تالیف: پروفیسر خیال آفاقی
صفحات: 477، قیمت: درج نہیں
ناشر: دارالنعمان پبلشرز، کراچی
اس کتاب میں علامہ اقبال کے 'شاعر مشرق' کے تصور کے بہ جائے 'شاعر اسلام' کی شبیہ اجاگر کی گئی ہے، جس کے لیے اقبال کی پیدائش اور خاندانی پس منظر سے قیام پاکستان اور آج تک اقبال کی اسلام شناسی اور ان کی مذہبی فکر کے حوالے سے اٹھائے جانے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے آپ اسے اقبال کی ایسی سوانح بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں ان کا اسلامی رنگ گہرا دکھائی دیتا ہے۔
مولف لکھتے ہیں کہ ہمارا مقصد اقبال پسندوں، خصوصاً اہل ذوق نوجوانوں کو، ادبیات میں موجود نام نہاد ترقی پسندوں اور آج کل کے ٹی وی چینلز کے شوباز اینکروں اور اخلاق باختہ مغربی فکر وثقافت (کلچر) کے دل دادہ تجزیہ نگاروں کے اس جاہلانہ اور زہریلے پروپیگنڈے سے محفوظ رکھنا ہے، جو یہ بونے، اقبال ایسے قد آور مرد مومن اور مفکر اسلام کو اپنی طرح کا بے معنی، مضحکہ خیز ماڈریٹ اور نام نہاد روشن خیال بنا کر بے دلیل پیش کرتے رہتے ہیں۔ اقبال کے مشہور زمانہ شعر 'مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے، من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا' کی توجیح میں 1922ء میں لاہور میں شاہ عالمی دروازے کے باہر مسجد بنانے کا ایک واقعہ بھی رقم ہے۔
ساتھ ہی انہیں ملنے والے 'سر' کے خطاب پر انگریز نوازی کے الزام کا بھی رد کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 'ان کی عظمت کا اعتراف نہ کرنا بھی حکومت کے لیے سبکی کا سبب بن سکتا تھا، ایسے خطاب پانے والے غدار تو نہیں، لیکن سر سید کی طرح انگریزوں کے یار ضرور تھے، تاہم 'سر اقبال' کے لیے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کعبے سے غداری کر کے کلیسا سے یاری کر سکتا ہے۔' کتاب میں اقبال کے حوالے سے ایک جگہ ہندوستان کے 'ایک ڈاکٹر' کہہ کر تذکرہ کیا گیا، تحقیقی کتاب ہونے کے ناتے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تذکرہ واضح ہو۔ اس کے علاوہ اس قدر ضخیم اور اہم کتاب میں 'فہرست' کی عدم موجودگی کسی سہو کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، ورنہ باقاعدہ ابواب اور سیکڑوں ذیلی موضوعات میں بٹی ہوئی کتاب میں 'مشمولات' رقم نہ ہونا کافی اچنبھے کی بات لگتا ہے۔
شان سبز وسفید
مصنف: اعظم معراج
صفحات: 334، قیمت: 650 روپے
ناشر: معراج پبلی کیشنز، کراچی
وہ مسیحی برادری کو اپنے معاشرے سے بے گانہ جان کر اُن کی جھجک اور عار ختم کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اُن کی کتابوں کے سلسلے بھی اسی کی کڑی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اُن کی پچھلی تصنیف 'شناخت نامہ' کے ایک باب 'دفاع پاکستان میں مسیحیوں کے کردار' سے ترتیب دی گئی ہے، جس کے اہدافی قارئین طلبہ اور سیاسی وسماجی ادارے ہیں۔ مصنف نے باقاعدہ تصانیف کا آغاز اپنے شعبے یعنی 'رئیل اسٹیٹ' سے کیا، دو تصانیف اس موضوع پر رقم کرنے کے بعد وہ اس موضوع کی سمت متوجہ ہوئے اور یہ ان کے اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔
جس کے فلیپ پر معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ، زاہدہ حنا، حامد میر اور وسعت اللہ خان کی شاباش جگمگا رہی ہے۔ مصنف کے مضامین موقر روزناموں کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کے جریدے 'ہلال' کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ مصنف کی کاوشیں سہیل وڑائچ جیسے صحافی کو بھی حیران کرتی ہیں کہ اتنے مسیحی پاکستان کے لیے لڑ چکے اور اپنی جانیں نچھاور کر چکے! اقبال خورشید کہتے ہیں کہ یہ نغمہ شناخت مجھے حیران اور مسحور کر دیتا ہے، تو اسے سن کر ان کا کیا حال ہوتا ہوگا جن کے لیے یہ دھن چھیڑی گئی ہے۔
قومی زبان (جون 2018ء)
مدیر: فاطمہ حسن
صفحات: 96، قیمت: 50 روپے
ناشر: انجمن ترقی اردو، کراچی
ماہ نامہ 'قومی زبان' ہمارے زبان وادب کی ایک دیرینہ روایت کا امین پرچا ہے، جو جدید طباعت کے ساتھ منصہ شہود پر آرہا ہے، لیکن اس عمدگی کے ساتھ جب آپ ورق گردانی کرتے ہیں، تو پاتے ہیں کہ اس پرچے نے جدت کا یہ سفر ضرور طے کیا، لیکن اپنی روایتی سادگی کا بھی پورا پورا پاس رکھا ہے۔ وہ سادگی جو اس کا حُسن اور اس کا ناز ہے کہ یہ پرچا ایک تحریک اور ایک عزم کا نشان بھی تو ہے۔ اس بار پرچے میں سید جمیل احمد رضوی نے عبدالوہاب خاں سلیم مرحوم اور ان کے چند غیر مطبوعہ خطوط پیش کیے ہیں، جب کہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے مولانا حسرت موہانی کو موضوع کیا ہے، حسن عابدی پر مسلم شمیم نے ایک تحریر رقم کی ہے۔
زبان وبیان پر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اہم نکتے اٹھائے ہیں، جس میں یہ نکتہ حیران کر دیتا ہے کہ اردو کے ازبکستانی استاد تاش مرزا نے 'بے' کے لاحقے سے شروع ہونے والے ایسے 32 الفاظ کی فہرست بنائی ہے، جو اردو لغت بورڈ کی 22 جلدی لغت میں شامل نہیں۔ ان 32 الفاظ میں لفظ 'بے وقوف' بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرچے میں انجمن ترقی اردو کے نئے دفتر اردو باغ کی کہانی حیات رضوی امروہی کے قلم سے ادا ہوئی ہے۔ ساتھ ہی عارف شفیق کی شاعری پر گلنار آفرین کا اور فاروق عادل کی خاکہ نگاری پر ڈاکٹر فاطمہ حسن کا مضمون بھی شامل ہے۔ محمد عباس نے 'مصنف اور منشائے مصنف' میں کافی تفصیل سے ادبی شہ پاروں اور ان کے مصنفین سے نقادوں کے سلوک پر کافی کھل کر بات کی ہے۔ اس مفصل مضمون میں انہوں نے معنویت کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور نظریات کو بھی مذکور کیا ہے اور باقاعدہ مثالوں کے ذریعے استدلال کرتے ہوئے مصنف کے مقام پر روشنی ڈالی ہے۔
لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے
مصنف: خواجہ رضی حیدر
صفحات: 240، قیمت: 500 روپے
ناشر: دی ریسرچ فورم، کراچی
خواجہ رضی حیدر کا نام سامنے آتے ہی ہمارے ذہن میں تاریخ اور تحقیق آجاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ جہان سخن وَری کے بھی شہہ سوار ہیں۔ 1995ء میں 'بے دیا شام' اور 2000ء میں 'گماں گشت' کے عنوان سے ، ان کی غزلوں کے مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے، جس کے لیے صابر وسیم اور اجمل سراج نے انتخاب کیا ہے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی رقم طراز ہیں 'خواجہ رضی حیدر نے اپنے ایک اظہاریے میں خود کو 'خیمہ اعتراف' میں بیٹھا ہوا کذاب کہا ہے۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو عالمانہ اور دانش ورانہ سطح پر باریک بینی سے سچ کی تلاش میں سرگرداں ہو۔ یہ ایک عام تخلیق کار کی ذہنی رسائی سے دور کی دنیا ہے، جہاں سچائیوں میں بُعدِ سچائی کا ادراک ہو سکتا ہے اور زندگی کا انفرادی اور اجتماعی شعور نئی معنویت سے آشنا ہو سکتا ہے۔ خواجہ رضی حیدر کی نظموں میں اس کا سراغ بھی مل سکتا ہے۔'
اس کتاب کو خواجہ رضی حیدر نے رسا چغتائی کی نذر کیا ہے، جس میں اردو شاعری کے روایتی موضوعات جیسے محبت اور ہجر و وصل وغیرہ بھی ہیں، زمانے کے کرب بھی ہیں، زندگی کے الم بھی۔ ایک نظم 'غیر منسوخ سچائی' میں کہتے ہیں ''عشق کہتا تھا، وصل بس اک تماشا ہے جذبات کا'' 'ایک سفاک لمحے کی تفصیل' میں یہ ترکیب اور برتاؤ ملاحظہ کیجیے کہ 'ایک متروک بستی سے، تازہ تعلق کے ہمراہ گزرا' بہت سی نا رسائیوں نے بھی اس بیاض میں بالکل اسی طرح رنگ بکھیرے ہیں، جیسے انہوں نے دنیا کے تضادات کو عنوان کیا ہے۔ دعوت فکر دیتی ایک نظم 'ہوا لہجہ بدلتی جا رہی ہے' میں وہ لکھتے ہیں
شہر سارا یرغمالی ہے
ستم گر آتشیں ہاتھوں سے لاوا پھوٹتا ہے
اور مائیں جاگتی ہیں
کس قدر نوخیز لاشے ہیں
کوئی ان کو اٹھانے کیوں نہیں آتا
یہ قاتل ہیں کہ ہیں مقتول کوئی اب بتانے کیوں نہیں آتا
'مغلوب الغضب موسم' میں کس کمال سے انہوں نے ترقی اور تغیر کا 'نوحہ' کہا ہے کہ قاری داد دیے بنا نہیں رہ پاتا۔ اسی طرح آئیڈیاز 2000ء میں جوہری اسلحے کے خلاف اپنی امن پسندی کے اظہار پر ان کی جرأت مندی کو سلام کرنا پڑتا ہے۔
'مہکتی آواز' میں انہوں نے ممتا کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جلیل عالی کے بقول 'ان کے ہاں قومی وتہذیبی سروکاروں کے ناتے دردمندانہ خود احتسابی کے اشارے تو ملتے ہیں ، مگر معذرت خواہی کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔' آصف فرخی کلینکل ڈیتھ اور ہلاکو کی اولاد جیسی نظموں پر کہتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ تاریخ اور امکان کے کسی تصوراتی موڑ پر یگانہ روزگار میرا جی سے ملاقات ہوجاتی تو ان سے فرمائش کرتا کہ 'اس نظر میں' کے لیے ان نظموں کے تجزیے لکھ دیجیے۔
مترجم: ظفر قریشی
صفحات: 379، قیمت: 600 روپے
ناشر: دی ریسرچ فورم، کراچی
اس کتاب کے مترجم کی بابت خواجہ رضی حیدر لکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کہانیاں ترجمہ ہیں یا طبع زاد۔ ہمیں بھی اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے یہی احساس کافی شدت سے ہوا۔ اس کتاب میں 15 کہانیاں شامل ہیں، جن میں سے بیش تر گذشتہ چند برسوں کے دوران شایع ہوئیں۔ ہر کہانی کے ساتھ لکھاری کا تعارف، اس کے تحریری محاسن، تصانیف اور اُس کہانی کے ترجمے سے گزرتے ہوئے تجربات بھی شامل ہیں۔
ان کہانیوں میں مختلف سماجی رویوں اور جبر وگھٹن کا بیان بھی دکھائی دیتا ہے، اکثر کہانیوں کے موضوعات میں ندرت کے ساتھ جنس کا عنصر بھی واضح ہے۔ اس کتاب میں امریکی، یورپی کہانیوں کے علاوہ کوریا، روس اور نائجیریا کے جن قلم کاروں کی تحاریر ترجمہ کی گئی ہیں، اُن میں ٹی کورا گھسیان (T.Cora Ghessan)، ڈیوڈ ڈیفی (David Dephy)، آرمین کومیجی (Armin Koomagi)، ڈنکن بش (Duncan Bush)، روئی زنک (Rui Zink)، یی مُن یول (Ye Mun-Yol)، سرگے ڈونا ٹو وچ دولتوف (Sergey Donatovich Dovlatov)، ایلس منرو (Alice Munro)، وکٹر لوڈاٹو (Victor Lodato)، ڈیبورا تھامسن (Deborah Thompson)، چیمامانڈا نگوزی اڈیچی (Chimamanda Nagosi Adichie)، رابرٹ چینڈلر (Robert Chandler)، سعید سیرافی زادہ (Said Sayrafie Zadeh)، ولیم ٹریور (William Trevor) شامل ہیں۔
کتاب میں مترجم نے اپنے تفصیلی اظہارخیال میں کتاب سمیت مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کا گریہ بھی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''آرٹسٹ یوسف تنویر نے کچھ کہانیاں پڑھنے کے بعد فرمایا تھا کہ یہ کہانیاں اردو کے مزاج سے مختلف ہیں۔ ہم نے کہا کہ تب تو انہیں ضرور چھپنا چاہیے، کیوں کہ اردو کی مختصر کہانیوں کے پاکستانی تالاب کا پانی اتنا ٹھیر چکا ہے کہ اس کا تعفن مارنے کی چھوٹی ہی سہی کوئی تو سبیل ہو۔''
ترکی بہ ترکی
مصنف : ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم
صفحات:381، قیمت:1000روپے
ناشر: ڈیزائن اسٹوڈیو، فیصل آباد
زرعی تحقیق کے شہ سوار اعجاز تبسم ایک مطالعاتی دورے پر ترکی گئے تو ایک 'سفرنامہ نگار' کے روپ میں دکھائی دیے اور سارا احوال سپرد کتاب کر دیا۔ ترکی جاتے ہوئے وہ ایران سے گزرتے ہیں، تو وہاں کا احوال بھی سفرنامے میں رقم کرتے جاتے ہیں، ترکی میں وارد ہوتے ہیں تو اس سرزمین کی تقدیس میں مذہبی حوالے بھی لکھتے ہیں اور انہی سطروں میں بے باکی سے تُرک سماج کی 'آزادی' کا اظہار بھی کرتے چلے جاتے ہیں، بلکہ اس حوالے سے بے دھڑک رائے دینے سے بھی نہیں چُوکتے۔
ان کے ہاں بھی دوشیزاؤں کا ہم سفر ہونا سفرنامے کے لیے لازمی محسوس ہوتا ہے۔ سنگین ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس سے جڑے دیگر مسائل بھی اس سفرنامے کا حصہ ہیں۔ ساتھ ہی مسلمان دنیا کی سیاسی صورت حال پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ سفرنامہ کبھی رنج والم کی طرف نکل جاتا ہے، کہیں دعوت فکر دیتا محسوس ہوتا ہے، کبھی مساج سینٹر کی طرف نکل جاتا ہے اور اگلے ہی لمحے پھر مذہبی حوالوں کی طرف جا پہنچتا ہے۔ ضخیم سفرنامے کے آخری باب میں 'اخذیات' کا اہتمام بھی کیا گیا ہے، جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صرف سفری احوال پر اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیق پر بھی بطور خاص توجہ دی گئی ہے۔ سفرنامے کے 20 مختلف ابواب کو مزید مختصر موضوعات میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔
خواب سے افسانے تک
مصنف: سید ریحان احمد
صفحات: 235، قیمت: 280 روپے
ناشر: MAFCO انٹرپرائزز
اس کتاب کے مصنف معروف نقاد شمیم احمد کے صاحب زادے ہیں، شاید یہی سبب ہے کہ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ اُن کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان دنوں وہ ایک سرکاری ادارے کے شعبہ تعلقات عامہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ابھی ان کا شعری مجموعہ زیرطبع ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں جہاں وہ اپنے بہت سے افسانوں کا ماخذ حقیقی واقعات کو قرار دیتے ہیں، وہیں بہت سے افسانوں کے مندرجات ماورائے عقل بھی ہیں، جو کہ آج کے دور میں بھی تجسس پسند قارئین کے حلقے میں بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔
اگرچہ اس کتاب میں شامل افسانوں میں روایتی رومان انگیزی بھی ہے، لیکن زیادہ تر افسانے سماجی برائیوں کے حوالے سے روایت پسند اور اخلاقیات کا مرکزی خیال لیے ہوئے ہیں۔ وہ 15 برس کی عمر سے لکھ رہے ہیں اور افسانہ نگاری میں بھی ان کی معاشرتی اصلاح کا مشن واضح دکھائی دیتا ہے۔ کتاب کے فلیپ پر فراست رضوی رقم طراز ہیں کہ ریحان احمد کو کہانی پیش کرنے کا ہنر خوب آتا ہے، وہ مصنف کی منظر کشی اور مکالمہ نگاری کی گرفت کے بھی معترف ہیں۔ اس کتاب کی پیش کش عمدہ ہے، لیکن کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں دکھائی دیتی ہیں، امید ہے آیندہ اشاعت میں اسے دور کر لیا جائے گا۔
میرے ہم دم میرے دوست
مصنف: شاعر صدیقی
صفحات: 160، قیمت: 500 روپے
ناشر: رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے اپنے قریبی احباب کے حوالے سے اظہارخیال کیا ہے۔ یہ باقاعدہ لکھے گئے خاکے نہیں، بلکہ مختلف دیباچے اور تبصرے ہیں، جنہیں زیرتبصرہ کتاب میں یک جا کیا گیا ہے، ان میں سے بہت سی شخصیات اب دنیا سے کوچ کر چکی ہیں، تاہم ہر مضمون کے اختتام پر تاریخ اشاعت یا تاریخ تحریر درج کی گئی ہے۔
ساتھ ہی ہر مضمون پر شخصیت کے نام کے ساتھ علاحدہ سے سرخی بھی دی گئی ہے، جس سے موضوع سخن شخص کے حوالے سے آگاہی ملتی ہے یا یہ پتا چل جاتا ہے کہ اُس فرد کی شخصیت، اہم بات یا اس کے تحریری محاسن کیا ہیں۔ ساتھ ہی لکھاریوں کے اشعار اور نثری ٹکڑے بھی مذکور کیے گئے ہیں، جب کہ بہت سے مضامین میں متعلقہ شخصیات کے مختصر سوانحی خاکے بھی درج کیے گئے ہیں۔
اس کتاب میں جن شخصیات پر مضامین شامل ہیں، اِن میں اختر لکھنوی، امیر حسین چمن، حبیب احسن، رشید الزماں خلش، خواجہ ریاض الدین عطش، زاہد حسین، زخمی کان پوری، سہیل غازی پوری، شاداب صدیقی، شاعر علی شاعر، ظفر محمد خان ظفرؔ، عارف ہوشیار پوری، فرقان ادریسی، نون جاوید اور واحد نظامی شامل ہیں۔ اسی طرح اپنے حلقے کی مزید کچھ شخصیات پر مضامین بھی یک جا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بدلتی دنیا، بدلتے لوگ
مصنف: ذوالفقار علی جیسانی
صفحات: 88، قیمت: 400 روپے
ناشر: رائل بک کمپنی، کراچی
اس تصنیف کے مندرجات کا مرکزی خیال سماج میں تیزی سے رونما ہونے والی منفی تبدیلیوں کی مدافعت ہے۔ بہت سی جگہوں پر مافی الضمیر کا اظہار براہ راست ہے، جب کہ بہت سی جگہوں پر یہ ادبی رنگ لیے ہوئے ہے۔ 25 مشمولات میں کہیں ذریعہ اظہار اشعار کی صورت میں بھی ہے۔ کہیں وہ سیاسی مسائل پر اظہارخیال کرتے ہیں، تو کہیں سماجی المیوں کے خلاف قلم آرائی کرتے ہیں، کچھ مضامین کے استدلال میں مصنف نے کلام الٰہی کا سہارا لیا، جس میں جا بہ جا مختلف آیات سے استدلال کیا گیا ہے۔
زندگی، گھر، روز و شب اور انسانی ترجیحات کے حوالے سے ناصحانہ اظہار بھی کتاب کا حصہ ہے۔ یوں تو مصنف تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، لیکن ان کی فلسفے، تاریخ اور ادب سے وابستگی کا رنگ اس کتاب میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب پر نظر ثانی کرنے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی لکھتے ہیں 'مجھے بے حد مسرت ہوئی کہ معاشرے میں ابھی اتنی مثبت سوچ اور دل میں سوز رکھنے والے اہل قلم موجود ہیں، جن پر محسن بھوپالی کے اس شعر کا سو فی صد اطلاق ہوتا ہے؎
ہماری جان پہ دُہرا عذاب ہے محسنؔ
کہ دیکھنا ہی نہیں ہے، ہم کو سوچنا بھی ہے
شاعرِ اسلام
(اقبال شناسی کا نیا زاویہ)
تالیف: پروفیسر خیال آفاقی
صفحات: 477، قیمت: درج نہیں
ناشر: دارالنعمان پبلشرز، کراچی
اس کتاب میں علامہ اقبال کے 'شاعر مشرق' کے تصور کے بہ جائے 'شاعر اسلام' کی شبیہ اجاگر کی گئی ہے، جس کے لیے اقبال کی پیدائش اور خاندانی پس منظر سے قیام پاکستان اور آج تک اقبال کی اسلام شناسی اور ان کی مذہبی فکر کے حوالے سے اٹھائے جانے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے آپ اسے اقبال کی ایسی سوانح بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں ان کا اسلامی رنگ گہرا دکھائی دیتا ہے۔
مولف لکھتے ہیں کہ ہمارا مقصد اقبال پسندوں، خصوصاً اہل ذوق نوجوانوں کو، ادبیات میں موجود نام نہاد ترقی پسندوں اور آج کل کے ٹی وی چینلز کے شوباز اینکروں اور اخلاق باختہ مغربی فکر وثقافت (کلچر) کے دل دادہ تجزیہ نگاروں کے اس جاہلانہ اور زہریلے پروپیگنڈے سے محفوظ رکھنا ہے، جو یہ بونے، اقبال ایسے قد آور مرد مومن اور مفکر اسلام کو اپنی طرح کا بے معنی، مضحکہ خیز ماڈریٹ اور نام نہاد روشن خیال بنا کر بے دلیل پیش کرتے رہتے ہیں۔ اقبال کے مشہور زمانہ شعر 'مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے، من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا' کی توجیح میں 1922ء میں لاہور میں شاہ عالمی دروازے کے باہر مسجد بنانے کا ایک واقعہ بھی رقم ہے۔
ساتھ ہی انہیں ملنے والے 'سر' کے خطاب پر انگریز نوازی کے الزام کا بھی رد کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 'ان کی عظمت کا اعتراف نہ کرنا بھی حکومت کے لیے سبکی کا سبب بن سکتا تھا، ایسے خطاب پانے والے غدار تو نہیں، لیکن سر سید کی طرح انگریزوں کے یار ضرور تھے، تاہم 'سر اقبال' کے لیے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کعبے سے غداری کر کے کلیسا سے یاری کر سکتا ہے۔' کتاب میں اقبال کے حوالے سے ایک جگہ ہندوستان کے 'ایک ڈاکٹر' کہہ کر تذکرہ کیا گیا، تحقیقی کتاب ہونے کے ناتے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ تذکرہ واضح ہو۔ اس کے علاوہ اس قدر ضخیم اور اہم کتاب میں 'فہرست' کی عدم موجودگی کسی سہو کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، ورنہ باقاعدہ ابواب اور سیکڑوں ذیلی موضوعات میں بٹی ہوئی کتاب میں 'مشمولات' رقم نہ ہونا کافی اچنبھے کی بات لگتا ہے۔
شان سبز وسفید
مصنف: اعظم معراج
صفحات: 334، قیمت: 650 روپے
ناشر: معراج پبلی کیشنز، کراچی
وہ مسیحی برادری کو اپنے معاشرے سے بے گانہ جان کر اُن کی جھجک اور عار ختم کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اُن کی کتابوں کے سلسلے بھی اسی کی کڑی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اُن کی پچھلی تصنیف 'شناخت نامہ' کے ایک باب 'دفاع پاکستان میں مسیحیوں کے کردار' سے ترتیب دی گئی ہے، جس کے اہدافی قارئین طلبہ اور سیاسی وسماجی ادارے ہیں۔ مصنف نے باقاعدہ تصانیف کا آغاز اپنے شعبے یعنی 'رئیل اسٹیٹ' سے کیا، دو تصانیف اس موضوع پر رقم کرنے کے بعد وہ اس موضوع کی سمت متوجہ ہوئے اور یہ ان کے اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔
جس کے فلیپ پر معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ، زاہدہ حنا، حامد میر اور وسعت اللہ خان کی شاباش جگمگا رہی ہے۔ مصنف کے مضامین موقر روزناموں کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کے جریدے 'ہلال' کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ مصنف کی کاوشیں سہیل وڑائچ جیسے صحافی کو بھی حیران کرتی ہیں کہ اتنے مسیحی پاکستان کے لیے لڑ چکے اور اپنی جانیں نچھاور کر چکے! اقبال خورشید کہتے ہیں کہ یہ نغمہ شناخت مجھے حیران اور مسحور کر دیتا ہے، تو اسے سن کر ان کا کیا حال ہوتا ہوگا جن کے لیے یہ دھن چھیڑی گئی ہے۔
قومی زبان (جون 2018ء)
مدیر: فاطمہ حسن
صفحات: 96، قیمت: 50 روپے
ناشر: انجمن ترقی اردو، کراچی
ماہ نامہ 'قومی زبان' ہمارے زبان وادب کی ایک دیرینہ روایت کا امین پرچا ہے، جو جدید طباعت کے ساتھ منصہ شہود پر آرہا ہے، لیکن اس عمدگی کے ساتھ جب آپ ورق گردانی کرتے ہیں، تو پاتے ہیں کہ اس پرچے نے جدت کا یہ سفر ضرور طے کیا، لیکن اپنی روایتی سادگی کا بھی پورا پورا پاس رکھا ہے۔ وہ سادگی جو اس کا حُسن اور اس کا ناز ہے کہ یہ پرچا ایک تحریک اور ایک عزم کا نشان بھی تو ہے۔ اس بار پرچے میں سید جمیل احمد رضوی نے عبدالوہاب خاں سلیم مرحوم اور ان کے چند غیر مطبوعہ خطوط پیش کیے ہیں، جب کہ پروفیسر علی احمد فاطمی نے مولانا حسرت موہانی کو موضوع کیا ہے، حسن عابدی پر مسلم شمیم نے ایک تحریر رقم کی ہے۔
زبان وبیان پر ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اہم نکتے اٹھائے ہیں، جس میں یہ نکتہ حیران کر دیتا ہے کہ اردو کے ازبکستانی استاد تاش مرزا نے 'بے' کے لاحقے سے شروع ہونے والے ایسے 32 الفاظ کی فہرست بنائی ہے، جو اردو لغت بورڈ کی 22 جلدی لغت میں شامل نہیں۔ ان 32 الفاظ میں لفظ 'بے وقوف' بھی ہے۔ اس کے علاوہ پرچے میں انجمن ترقی اردو کے نئے دفتر اردو باغ کی کہانی حیات رضوی امروہی کے قلم سے ادا ہوئی ہے۔ ساتھ ہی عارف شفیق کی شاعری پر گلنار آفرین کا اور فاروق عادل کی خاکہ نگاری پر ڈاکٹر فاطمہ حسن کا مضمون بھی شامل ہے۔ محمد عباس نے 'مصنف اور منشائے مصنف' میں کافی تفصیل سے ادبی شہ پاروں اور ان کے مصنفین سے نقادوں کے سلوک پر کافی کھل کر بات کی ہے۔ اس مفصل مضمون میں انہوں نے معنویت کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور نظریات کو بھی مذکور کیا ہے اور باقاعدہ مثالوں کے ذریعے استدلال کرتے ہوئے مصنف کے مقام پر روشنی ڈالی ہے۔
لفظ بوسیدہ نہیں ہوتے
مصنف: خواجہ رضی حیدر
صفحات: 240، قیمت: 500 روپے
ناشر: دی ریسرچ فورم، کراچی
خواجہ رضی حیدر کا نام سامنے آتے ہی ہمارے ذہن میں تاریخ اور تحقیق آجاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ جہان سخن وَری کے بھی شہہ سوار ہیں۔ 1995ء میں 'بے دیا شام' اور 2000ء میں 'گماں گشت' کے عنوان سے ، ان کی غزلوں کے مجموعے بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ یہ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے، جس کے لیے صابر وسیم اور اجمل سراج نے انتخاب کیا ہے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی رقم طراز ہیں 'خواجہ رضی حیدر نے اپنے ایک اظہاریے میں خود کو 'خیمہ اعتراف' میں بیٹھا ہوا کذاب کہا ہے۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو عالمانہ اور دانش ورانہ سطح پر باریک بینی سے سچ کی تلاش میں سرگرداں ہو۔ یہ ایک عام تخلیق کار کی ذہنی رسائی سے دور کی دنیا ہے، جہاں سچائیوں میں بُعدِ سچائی کا ادراک ہو سکتا ہے اور زندگی کا انفرادی اور اجتماعی شعور نئی معنویت سے آشنا ہو سکتا ہے۔ خواجہ رضی حیدر کی نظموں میں اس کا سراغ بھی مل سکتا ہے۔'
اس کتاب کو خواجہ رضی حیدر نے رسا چغتائی کی نذر کیا ہے، جس میں اردو شاعری کے روایتی موضوعات جیسے محبت اور ہجر و وصل وغیرہ بھی ہیں، زمانے کے کرب بھی ہیں، زندگی کے الم بھی۔ ایک نظم 'غیر منسوخ سچائی' میں کہتے ہیں ''عشق کہتا تھا، وصل بس اک تماشا ہے جذبات کا'' 'ایک سفاک لمحے کی تفصیل' میں یہ ترکیب اور برتاؤ ملاحظہ کیجیے کہ 'ایک متروک بستی سے، تازہ تعلق کے ہمراہ گزرا' بہت سی نا رسائیوں نے بھی اس بیاض میں بالکل اسی طرح رنگ بکھیرے ہیں، جیسے انہوں نے دنیا کے تضادات کو عنوان کیا ہے۔ دعوت فکر دیتی ایک نظم 'ہوا لہجہ بدلتی جا رہی ہے' میں وہ لکھتے ہیں
شہر سارا یرغمالی ہے
ستم گر آتشیں ہاتھوں سے لاوا پھوٹتا ہے
اور مائیں جاگتی ہیں
کس قدر نوخیز لاشے ہیں
کوئی ان کو اٹھانے کیوں نہیں آتا
یہ قاتل ہیں کہ ہیں مقتول کوئی اب بتانے کیوں نہیں آتا
'مغلوب الغضب موسم' میں کس کمال سے انہوں نے ترقی اور تغیر کا 'نوحہ' کہا ہے کہ قاری داد دیے بنا نہیں رہ پاتا۔ اسی طرح آئیڈیاز 2000ء میں جوہری اسلحے کے خلاف اپنی امن پسندی کے اظہار پر ان کی جرأت مندی کو سلام کرنا پڑتا ہے۔
'مہکتی آواز' میں انہوں نے ممتا کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ جلیل عالی کے بقول 'ان کے ہاں قومی وتہذیبی سروکاروں کے ناتے دردمندانہ خود احتسابی کے اشارے تو ملتے ہیں ، مگر معذرت خواہی کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔' آصف فرخی کلینکل ڈیتھ اور ہلاکو کی اولاد جیسی نظموں پر کہتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ تاریخ اور امکان کے کسی تصوراتی موڑ پر یگانہ روزگار میرا جی سے ملاقات ہوجاتی تو ان سے فرمائش کرتا کہ 'اس نظر میں' کے لیے ان نظموں کے تجزیے لکھ دیجیے۔