یوسفی صاحب
یوسفی صاحب کے فکروفن، طنز و مزاح اور ’’عہد یوسفی‘‘ پر تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا۔
مشتاق احمد خاں ایک روایت کے مطابق 'یوسفی' تو یوسف زئی قبیلے سے اپنے نسلی تعلق کی وجہ سے بنے لیکن ان کی تحریر میں جو حسن ہے اس کا سلسلہ ضرور کہیں نہ کہیں حضرت یوسف علیہ اسلام سے ملتا ہوگا کہ فی زمانہ 'حسن یوسف' کا اس سے بہتر استعارہ شاید اور کوئی بھی نہیں۔
میرا ان سے محبت اور نیاز مندی کا تعلق یوں تو 45 برسوں پر پھیلا ہوا ہے لیکن اب جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ جب انھوں نے میرے پہلے خط کا وہ خوبصورت اور محبت بھرا جواب لکھا جو اس تعلق کی بنیاد بنا جس پر ایستادہ عمارت دم ہمہ دم پھیلتی اور بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جن سے ملاقات کے دوران یہ احساس (وقتی طور پر ہی سہی) ختم ہوجاتا تھا کہ وقت ایک گزر جانے والی چیزی ہے اور یہ محفل اور اس میں شامل لوگ بھی ایک دن ''یاد'' کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔
یوسفی صاحب کے فکروفن، طنز و مزاح اور ''عہد یوسفی'' پر تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا کہ ان کا شمار اردو نثر کے اعلیٰ اور منتخب ترین نمائندوں میں ہوتا ہے لیکن فی الوقت میرے لیے ان سے متعلق ذاتی یادوں اور یادداشتوں کو سمیٹنا بھی ناممکن ہورہا ہے کہ وہ میرے ادبی سینئرز میں احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمٰن اور اشفاق احمد کے ہمراہ اس صف میں تھے جن کی صحبت، محبت اور شفقت سے مجھے سب سے زیادہ مستفیض ہونے کا موقع ملا ہے اور جن کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو میں اپنی زندگی کے بہترین عرصے میں شمار کرتا ہوں۔
ان کی شخصیت بھی ان کی تحریروں کی طرح زندگی سے لبالب اور بھر پور تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان 45 برسوں میں ان سے گفتگو کے دوران ''موت'' کے بارے میں دو مواقع کو چھوڑ کر کبھی ایک ''موضوع'' کے طور پر بات ہوئی ہو۔ پہلا موقع اٹھارہ برس قبل میری لینڈ امریکا میں 19 جون 2000ء کی وہ صبح تھی جب ایک مشترکہ میزبان کے گھر پر ناشتے کے وقت مجھے لاہور سے اپنی والدہ کے انتقال کی خبر ملی تھی۔
افتخار عارف بھی وہیں موجود تھے، میری فلائٹ کے انتظامات اور روانگی کے وقت تک جس طرح سے یوسفی صاحب نے اپنی باتوں سے مجھے سنبھالا دیا اور موت کی حقیقت اور فلسفے کو باہم آمیز کرکے مجھ میں اس غم کو سہنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ اس کا نقش آج بھی میرے دل و دماغ پر قائم ہے۔ اتفاق سے تقریباً سات برس بعد اس سین کا ایک Replay کچھ اس طرح سے ہوا کہ ان کی بیگم اور ہماری محترم بزرگ اور بھابی اس دنیا سے پردہ کرگئیں۔
میں برادرم اشرف شاہین کے ساتھ ان کے ڈیفنس کراچی والے گھر میں ان کے پاس تعزیت کے لیے حاضر ہوا تھا میں نے ان کے چہرے پر ضبط کی وہی کیفیت دیکھی جو شفیق الرحمٰن مرحوم نے بھی اپنے جوان بیٹے کی موت پر پتہ نہیں کیسے قائم کررکھی تھی کہ دونوں کی آنکھیں، چہرے اور جملے تین مختلف ''شخصیتیں'' بن گئے تھے۔
میں نے انھیں اذیت سے نکالنے کے لیے موت کے موضوع پر لکھے گئے کچھ بہت باکمال اور بے مثال قسم کے شعر اپنی گفتگو میں پرونے کی کوشش کی جس کی انھوں نے بہت تحسین بھی کی لیکن نہ ان کی آنکھوں کی ویرانی کم ہوئی اور نہ ہی چہرے کی بے رنگی پر کچھ اثر پڑا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی وہ ابھی تک اسی رات کے فشار میں ہیں جس کے بارے میں جوشؔؔ صاحب نے کہا تھا کہ؎
جہاں سے جھٹپٹے کے وقت اک تابوت اٹھا ہو
قسم اس شب کی جو پہلے پہل اس گھر میں آتی ہے
یوسفی صاحب کی تحریروں میں وہ ایسی کیا خاص بات ہے جسکی وجہ سے ان کے عہد کو عہد یوسفی کہا گیا ہے۔ یہ بات ایک بار میں نے ایک اور باکمال اور صاحب طرز لکھاری مرحوم مشفق خواجہ سے پوچھی تھی۔ انھوں نے اردو نثر میں مزاح کی تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ غالبؔ کے خطوط سے لے کر رتن ناتھ سرشارؔ کے بعض کرداروں، رسالہ اوودھ پنچ میں چھپنے والی تحریروں اور مرزا فرحت اللہ بیگ اور عظیم بیگ چغتائی کی نثر میں مزاح کے نمونے مختلف شکلوں میں ملتے ہیں لیکن یوسفی صاحب سے پہلے کے لکھنے والوں میں سوائے پطرس بخاری، شفیق الرحمن اور شوکت تھانوی کے کسی قابل ذکر نثر نگار کی تحریروں کا زیادہ تر حصہ معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ''مزاح'' کی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور اگرچہ بعد کے دنوں میں مزاح میں طنز کی آمیزش بڑھتی چلی گئی لیکن ''چراغ تلے'' سے لے کر ''آب گم'' تک (اس وقت ابھی ''شام شعر یاراں'' شائع نہیں ہوئی تھی) صرف چار کتابوں کی معرفت یوسفی صاحب نے جو نام اور مقام حاصل کیا ہے اس کی کوئی اور مثال ان کی زندگی میں سامنے نہیں آئی۔
سو مزاح کے اس عہد کو عہد یوسفی کہنا بالکل بجا اور جائز ہے۔ ان کی اس بات کے بعد میں نے اپنے طور پر اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ میں شفیق الرحمٰن مرحوم کے اسلوب مزاح سے بہت متاثر تھا (اور اب بھی ہوں) تو میری سمجھ میں ایک بات آئی جسکا ذکر میں نے یوسفی صاحب کی موجودگی میں بھی کیا وہ تو اپنے مخصوص دھیمے اور انکسار سے بھر پور مزاج کے مطابق اسے ٹال گئے لیکن میرا تجزیہ اور خیال اب بھی یہی ہے کہ یوسفی صاحب کے مزاح کی سب سے امتیازی خوبی یہی ہے کہ انھوں نے ''آمد'' اور ''آورو'' کو یک جان کرکے ایک ایسا نیا اسلوب ایجاد اور ایزاد کیا ہے جس کے وہ بیک وقت بانی بھی ہیں اور خاتم بھی۔
مزاح کی بنیادی خوبی جملے اور کردار کی شگفتگی کا بے ساختہ، برجستہ اور برمحل اظہار ہے جس کی حدیں انگریزی کی Wit سے لے کر پنجابی کی ''جگت'' تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوسفی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ اس حسن بے پرواہ کی مشاطگی میں ہماری دوست اور حسن کاری کی ماہر مسرت مصباح کی طرح جدید اور قدیم روایتی اور غیر روایتی ہر طرح کی تزئین کا بہت محنت اور مہارت سے اہتمام کرتے ہیں مگر اظہار کی بے ساختگی اور جملے کی چمک اور کاٹ نہ صرف یہ کہ اس سے مجروح نہیں ہوتی بلکہ ان کا لطف دو آتشہ ہوجاتا ہے.
اس ضمن میں اساتذہ کے اشعار کی پیروڈی اور دنیا بھر کے ''اقوال زریں'' نما جملوں اور خیالات کو معمولی سی تبدیلی کے ساتھ Up Side Down کرنے کا انھیں ایک ایسا غیر معمولی ملکہ حاصل تھا کہ وہ قدم قدم پر اور جملہ در جملہ کولمبس کی طرح نئی سے نئی دنیائیں ہم سے متعارف کراتے چلے جاتے ہیں ان کے یہ ''مرمت شدہ'' جملے معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے اپنی مثال آپ ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا شائد ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں آپ کو ان کے اس فن کے ایک سے زیادہ ''نمونے'' آسانی سے نہ مل جائیں۔
ان 45 برسوں میں مجھے بارہا ان کی مہمانی اور میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے لیکن میرے لیے اور میری طرح اس تجربے سے مستفیض ہونے والے تمام لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ مہمان زیادہ اچھے تھے یا میزبان۔ وہ اپنی تعریف سننے میں جس قدر شرمیلے اور محتاط تھے اسی قدر شدت، فراخ دلی اور دل جمعی سے وہ اپنے احباب کی یا کسی اور کی لکھی ہوئی پسندیدہ تحریر کی تعریف کھل کر اور بار بار کرتے تھے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میرے اردو کے کلاسیکی شعرا کے بارے میں لکھی گئی تنقیدی کتاب ''نئے پرانے'' کا تعریفی اور محبت بھرا ذکر کسی سرسری ملاقات کے دوران بھی ان سے چھوٹا ہو۔ ان کا ظرف بلند پایہ اور مطالعہ وسیع اور متنوع تھا۔ انھوں نے اپنے بیشتر ہم عصروں کی نسبت بہت کم لکھا لیکن جیسا بھی لکھا سب کا سب ''منتخب'' کہلانے کے لائق ہے۔
ہر فانی انسان کی طرح یوسفی صاحب بھی اب ہماری اور آپکی اس بازیچۂ اطفال نما دنیا سے پردہ کرگئے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تحریروں کی معرفت بہت دیر تک زندہ اور موجود رہیں گے اور وہ سب لوگ یقینا خوش بخت ہیں جنھیں ان سے ملنے، انھیں دیکھنے، پڑھنے یا سننے کا موقع ملا ہے۔ رب کریم ان کی روح کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب سمیت اس کرہ ارض پر موجود اور آنیوالے تمام انسانوں کو ان کی فکر اور فن سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ یوسف علیہ اسلام ہوں یا یوسفی۔ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔
میرا ان سے محبت اور نیاز مندی کا تعلق یوں تو 45 برسوں پر پھیلا ہوا ہے لیکن اب جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ جب انھوں نے میرے پہلے خط کا وہ خوبصورت اور محبت بھرا جواب لکھا جو اس تعلق کی بنیاد بنا جس پر ایستادہ عمارت دم ہمہ دم پھیلتی اور بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جن سے ملاقات کے دوران یہ احساس (وقتی طور پر ہی سہی) ختم ہوجاتا تھا کہ وقت ایک گزر جانے والی چیزی ہے اور یہ محفل اور اس میں شامل لوگ بھی ایک دن ''یاد'' کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔
یوسفی صاحب کے فکروفن، طنز و مزاح اور ''عہد یوسفی'' پر تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا کہ ان کا شمار اردو نثر کے اعلیٰ اور منتخب ترین نمائندوں میں ہوتا ہے لیکن فی الوقت میرے لیے ان سے متعلق ذاتی یادوں اور یادداشتوں کو سمیٹنا بھی ناممکن ہورہا ہے کہ وہ میرے ادبی سینئرز میں احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمٰن اور اشفاق احمد کے ہمراہ اس صف میں تھے جن کی صحبت، محبت اور شفقت سے مجھے سب سے زیادہ مستفیض ہونے کا موقع ملا ہے اور جن کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو میں اپنی زندگی کے بہترین عرصے میں شمار کرتا ہوں۔
ان کی شخصیت بھی ان کی تحریروں کی طرح زندگی سے لبالب اور بھر پور تھی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ان 45 برسوں میں ان سے گفتگو کے دوران ''موت'' کے بارے میں دو مواقع کو چھوڑ کر کبھی ایک ''موضوع'' کے طور پر بات ہوئی ہو۔ پہلا موقع اٹھارہ برس قبل میری لینڈ امریکا میں 19 جون 2000ء کی وہ صبح تھی جب ایک مشترکہ میزبان کے گھر پر ناشتے کے وقت مجھے لاہور سے اپنی والدہ کے انتقال کی خبر ملی تھی۔
افتخار عارف بھی وہیں موجود تھے، میری فلائٹ کے انتظامات اور روانگی کے وقت تک جس طرح سے یوسفی صاحب نے اپنی باتوں سے مجھے سنبھالا دیا اور موت کی حقیقت اور فلسفے کو باہم آمیز کرکے مجھ میں اس غم کو سہنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ اس کا نقش آج بھی میرے دل و دماغ پر قائم ہے۔ اتفاق سے تقریباً سات برس بعد اس سین کا ایک Replay کچھ اس طرح سے ہوا کہ ان کی بیگم اور ہماری محترم بزرگ اور بھابی اس دنیا سے پردہ کرگئیں۔
میں برادرم اشرف شاہین کے ساتھ ان کے ڈیفنس کراچی والے گھر میں ان کے پاس تعزیت کے لیے حاضر ہوا تھا میں نے ان کے چہرے پر ضبط کی وہی کیفیت دیکھی جو شفیق الرحمٰن مرحوم نے بھی اپنے جوان بیٹے کی موت پر پتہ نہیں کیسے قائم کررکھی تھی کہ دونوں کی آنکھیں، چہرے اور جملے تین مختلف ''شخصیتیں'' بن گئے تھے۔
میں نے انھیں اذیت سے نکالنے کے لیے موت کے موضوع پر لکھے گئے کچھ بہت باکمال اور بے مثال قسم کے شعر اپنی گفتگو میں پرونے کی کوشش کی جس کی انھوں نے بہت تحسین بھی کی لیکن نہ ان کی آنکھوں کی ویرانی کم ہوئی اور نہ ہی چہرے کی بے رنگی پر کچھ اثر پڑا۔ یوں محسوس ہوا جیسے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی وہ ابھی تک اسی رات کے فشار میں ہیں جس کے بارے میں جوشؔؔ صاحب نے کہا تھا کہ؎
جہاں سے جھٹپٹے کے وقت اک تابوت اٹھا ہو
قسم اس شب کی جو پہلے پہل اس گھر میں آتی ہے
یوسفی صاحب کی تحریروں میں وہ ایسی کیا خاص بات ہے جسکی وجہ سے ان کے عہد کو عہد یوسفی کہا گیا ہے۔ یہ بات ایک بار میں نے ایک اور باکمال اور صاحب طرز لکھاری مرحوم مشفق خواجہ سے پوچھی تھی۔ انھوں نے اردو نثر میں مزاح کی تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ غالبؔ کے خطوط سے لے کر رتن ناتھ سرشارؔ کے بعض کرداروں، رسالہ اوودھ پنچ میں چھپنے والی تحریروں اور مرزا فرحت اللہ بیگ اور عظیم بیگ چغتائی کی نثر میں مزاح کے نمونے مختلف شکلوں میں ملتے ہیں لیکن یوسفی صاحب سے پہلے کے لکھنے والوں میں سوائے پطرس بخاری، شفیق الرحمن اور شوکت تھانوی کے کسی قابل ذکر نثر نگار کی تحریروں کا زیادہ تر حصہ معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے ''مزاح'' کی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور اگرچہ بعد کے دنوں میں مزاح میں طنز کی آمیزش بڑھتی چلی گئی لیکن ''چراغ تلے'' سے لے کر ''آب گم'' تک (اس وقت ابھی ''شام شعر یاراں'' شائع نہیں ہوئی تھی) صرف چار کتابوں کی معرفت یوسفی صاحب نے جو نام اور مقام حاصل کیا ہے اس کی کوئی اور مثال ان کی زندگی میں سامنے نہیں آئی۔
سو مزاح کے اس عہد کو عہد یوسفی کہنا بالکل بجا اور جائز ہے۔ ان کی اس بات کے بعد میں نے اپنے طور پر اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ میں شفیق الرحمٰن مرحوم کے اسلوب مزاح سے بہت متاثر تھا (اور اب بھی ہوں) تو میری سمجھ میں ایک بات آئی جسکا ذکر میں نے یوسفی صاحب کی موجودگی میں بھی کیا وہ تو اپنے مخصوص دھیمے اور انکسار سے بھر پور مزاج کے مطابق اسے ٹال گئے لیکن میرا تجزیہ اور خیال اب بھی یہی ہے کہ یوسفی صاحب کے مزاح کی سب سے امتیازی خوبی یہی ہے کہ انھوں نے ''آمد'' اور ''آورو'' کو یک جان کرکے ایک ایسا نیا اسلوب ایجاد اور ایزاد کیا ہے جس کے وہ بیک وقت بانی بھی ہیں اور خاتم بھی۔
مزاح کی بنیادی خوبی جملے اور کردار کی شگفتگی کا بے ساختہ، برجستہ اور برمحل اظہار ہے جس کی حدیں انگریزی کی Wit سے لے کر پنجابی کی ''جگت'' تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوسفی صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ اس حسن بے پرواہ کی مشاطگی میں ہماری دوست اور حسن کاری کی ماہر مسرت مصباح کی طرح جدید اور قدیم روایتی اور غیر روایتی ہر طرح کی تزئین کا بہت محنت اور مہارت سے اہتمام کرتے ہیں مگر اظہار کی بے ساختگی اور جملے کی چمک اور کاٹ نہ صرف یہ کہ اس سے مجروح نہیں ہوتی بلکہ ان کا لطف دو آتشہ ہوجاتا ہے.
اس ضمن میں اساتذہ کے اشعار کی پیروڈی اور دنیا بھر کے ''اقوال زریں'' نما جملوں اور خیالات کو معمولی سی تبدیلی کے ساتھ Up Side Down کرنے کا انھیں ایک ایسا غیر معمولی ملکہ حاصل تھا کہ وہ قدم قدم پر اور جملہ در جملہ کولمبس کی طرح نئی سے نئی دنیائیں ہم سے متعارف کراتے چلے جاتے ہیں ان کے یہ ''مرمت شدہ'' جملے معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے اپنی مثال آپ ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا شائد ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں آپ کو ان کے اس فن کے ایک سے زیادہ ''نمونے'' آسانی سے نہ مل جائیں۔
ان 45 برسوں میں مجھے بارہا ان کی مہمانی اور میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے لیکن میرے لیے اور میری طرح اس تجربے سے مستفیض ہونے والے تمام لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ وہ مہمان زیادہ اچھے تھے یا میزبان۔ وہ اپنی تعریف سننے میں جس قدر شرمیلے اور محتاط تھے اسی قدر شدت، فراخ دلی اور دل جمعی سے وہ اپنے احباب کی یا کسی اور کی لکھی ہوئی پسندیدہ تحریر کی تعریف کھل کر اور بار بار کرتے تھے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میرے اردو کے کلاسیکی شعرا کے بارے میں لکھی گئی تنقیدی کتاب ''نئے پرانے'' کا تعریفی اور محبت بھرا ذکر کسی سرسری ملاقات کے دوران بھی ان سے چھوٹا ہو۔ ان کا ظرف بلند پایہ اور مطالعہ وسیع اور متنوع تھا۔ انھوں نے اپنے بیشتر ہم عصروں کی نسبت بہت کم لکھا لیکن جیسا بھی لکھا سب کا سب ''منتخب'' کہلانے کے لائق ہے۔
ہر فانی انسان کی طرح یوسفی صاحب بھی اب ہماری اور آپکی اس بازیچۂ اطفال نما دنیا سے پردہ کرگئے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تحریروں کی معرفت بہت دیر تک زندہ اور موجود رہیں گے اور وہ سب لوگ یقینا خوش بخت ہیں جنھیں ان سے ملنے، انھیں دیکھنے، پڑھنے یا سننے کا موقع ملا ہے۔ رب کریم ان کی روح کو اپنی امان میں رکھے اور ہم سب سمیت اس کرہ ارض پر موجود اور آنیوالے تمام انسانوں کو ان کی فکر اور فن سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ یوسف علیہ اسلام ہوں یا یوسفی۔ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔