پیپلز پارٹی کی توجہ اندرون سندھ مرکوز کراچی میں عدم دلچسپی
پیپلزپارٹی نے غیراعلانیہ طورپر ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی کیلیے انتخابی میدان کھلاچھوڑ دیا
پیپلز پارٹی قیادت کی توجہ کراچی کے بجائے'اندرون سندھ'کی طرف مرکوز ہوگئی ہے۔
سندھ پرکئی مرتبہ حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی رواں انتخابات میں کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام ؟ اس کا فیصلہ تو 25جولائی کو پولنگ کے نتائج سے ہی معلوم ہوگا۔ سندھ میں حکمرانی کے آخری ایام تک تو پیپلزپارٹی نے کراچی میں بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ آئندہ الیکشن میں کراچی کی اکثریتی جماعت پی پی ہی ہوگی۔
سندھ میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی قیادت کی توجہ کراچی کے بجائے'اندرون سندھ'کی طرف مرکوز ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس حکمت عملی سے تو یہی ظاہر ہورہاہے کہ اندرون سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائننس، تحریک انصاف اور دیگر مخالف جماعتوں کا بھر پور مقابلہ کرکے زیادہ سے زیادہ قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی جائیں تاکہ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت بننے کے ساتھ ساتھ سندھ میںحکومت دوبارہ بنائی جاسکے۔
پیپلز پارٹی کے اہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی کی توجہ کراچی میں قومی اسمبلی کی5نشستوںکی طرف زیادہ مرکوز ہے جس میں ضلع ملیر کی3، ضلع جنوبی کی1اور ضلع غربی کی2 نشستیں شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی میں کراچی میں بھی انتخابی ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات ہیں۔ ضلع وسطی سمیت ایم کیوایم کے اکثریتی حلقوں میں پی پی کے کئی امیدوار 'غیرمعروف' ہیں جن کو پی پی کراچی ڈویژن نے 'تنہا' چھوڑ دیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث ایم کیوایم کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے کارکنان میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مربوط انتخابی حکمت عملی کا تعین نہ ہونے کے سبب یہ ہی اندازہ ہورہاہے کہ پیپلز پارٹی کوضلع وسطی سمیت اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پیپلزپارٹی نے غیرعلانیہ طورپر ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی کیلیے ان حلقوں میں انتخابی میدان ''کھلا''چھوڑ دیا ہے۔کراچی میں پیپلز پارٹی نے کسی بھی جماعت سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی یکم جولائی سے کراچی میں عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی جس کیلیے کمیٹی بھی قائم کی جارہی ہے جس میں وقار مہدی، سعید غنی، نجمی عالم، راشد ربانی اور دیگر شامل ہوںگے۔ 2013کے عام انتخابات میں کراچی سے پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی واحد نشست این اے 248پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہجہاں بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔
ملیر کی نشست این اے 258 پر بھی پیپلزپارٹی کوناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس نشست پر ن لیگ کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے تھے جو بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پیپلز پارٹی نے عبد الحکیم بلوچ کو این اے 237 ملیرسے دوبارہ ٹکٹ جاری کیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 29اپریل کو 44برس بعد لیاقت آباد کے ایف سی ایریا ٹنکی گراؤنڈ میں جلسہ کیا جس سے بلاول بھٹوزرداری نے خطاب کیا اور عوام کو مخاطب کرکے کہاکہ ''کراچی والوں بھٹو کے نواسے کاساتھ دو،میں کراچی کو مثالی ترقی دوں گا ''۔ اس جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کی اردوبولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخابات کیلیے کراچی میں قومی اسمبلی کی21اور سندھ اسمبلی کی 44تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
سندھ پرکئی مرتبہ حکمرانی کرنے والی جماعت پیپلزپارٹی رواں انتخابات میں کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام ؟ اس کا فیصلہ تو 25جولائی کو پولنگ کے نتائج سے ہی معلوم ہوگا۔ سندھ میں حکمرانی کے آخری ایام تک تو پیپلزپارٹی نے کراچی میں بھرپور عوامی رابطہ مہم چلائی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ آئندہ الیکشن میں کراچی کی اکثریتی جماعت پی پی ہی ہوگی۔
سندھ میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی قیادت کی توجہ کراچی کے بجائے'اندرون سندھ'کی طرف مرکوز ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس حکمت عملی سے تو یہی ظاہر ہورہاہے کہ اندرون سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائننس، تحریک انصاف اور دیگر مخالف جماعتوں کا بھر پور مقابلہ کرکے زیادہ سے زیادہ قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کی جائیں تاکہ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت بننے کے ساتھ ساتھ سندھ میںحکومت دوبارہ بنائی جاسکے۔
پیپلز پارٹی کے اہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پیپلزپارٹی کی توجہ کراچی میں قومی اسمبلی کی5نشستوںکی طرف زیادہ مرکوز ہے جس میں ضلع ملیر کی3، ضلع جنوبی کی1اور ضلع غربی کی2 نشستیں شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی میں کراچی میں بھی انتخابی ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات ہیں۔ ضلع وسطی سمیت ایم کیوایم کے اکثریتی حلقوں میں پی پی کے کئی امیدوار 'غیرمعروف' ہیں جن کو پی پی کراچی ڈویژن نے 'تنہا' چھوڑ دیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث ایم کیوایم کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے کارکنان میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی مربوط انتخابی حکمت عملی کا تعین نہ ہونے کے سبب یہ ہی اندازہ ہورہاہے کہ پیپلز پارٹی کوضلع وسطی سمیت اردو بولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پیپلزپارٹی نے غیرعلانیہ طورپر ایم کیوایم پاکستان اور پی ایس پی کیلیے ان حلقوں میں انتخابی میدان ''کھلا''چھوڑ دیا ہے۔کراچی میں پیپلز پارٹی نے کسی بھی جماعت سے انتخابی اتحاد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی یکم جولائی سے کراچی میں عوامی رابطہ مہم شروع کرے گی جس کیلیے کمیٹی بھی قائم کی جارہی ہے جس میں وقار مہدی، سعید غنی، نجمی عالم، راشد ربانی اور دیگر شامل ہوںگے۔ 2013کے عام انتخابات میں کراچی سے پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی واحد نشست این اے 248پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہجہاں بلوچ کامیاب ہوئے تھے۔
ملیر کی نشست این اے 258 پر بھی پیپلزپارٹی کوناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس نشست پر ن لیگ کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ کامیاب ہوئے تھے جو بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔ پیپلز پارٹی نے عبد الحکیم بلوچ کو این اے 237 ملیرسے دوبارہ ٹکٹ جاری کیا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 29اپریل کو 44برس بعد لیاقت آباد کے ایف سی ایریا ٹنکی گراؤنڈ میں جلسہ کیا جس سے بلاول بھٹوزرداری نے خطاب کیا اور عوام کو مخاطب کرکے کہاکہ ''کراچی والوں بھٹو کے نواسے کاساتھ دو،میں کراچی کو مثالی ترقی دوں گا ''۔ اس جلسے کے بعد پیپلز پارٹی کی اردوبولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی نے آئندہ انتخابات کیلیے کراچی میں قومی اسمبلی کی21اور سندھ اسمبلی کی 44تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔