2013ء سے 2018ء امن و امان میں بہتری کے باوجود کئی سانحات نے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے
سانحہ صفورا، بلدیہ ٹاؤن، انصارالشریعہ کا قیام و خاتمہ، امجد صابری سمیت متعدد افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
پیپلزپارٹی کے 2013ء سے شروع ہونے والے پانچ سالہ دور اقتدار میں امن و امان کی صورتحال گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کچھ بہتر تو رہی لیکن اس کے باوجود امن و امان کے ایسے کئی واقعات ہوئے جو دلوں پر دکھ کے گہرے سائے اور انمٹ نقوش چھوڑ گئے۔
دہشت گرد تنظیم انصار الشریعہ کا قیام اور اس کا خاتمہ اسی دور حکومت میں ہوا، سانحہ صفورا رونما ہوا ، ایئرپورٹ اور ڈاکیارڈ بیس پر حملے ہوئے، ملٹری پولیس کے اہلکاروں کو شہید کیا گیا، ٹارگٹ کلنگ میں معروف قوال امجد صابری کو اسی دور حکومت میں نشانہ بنایا گیا، ایس ایس پی چوہدری اسلم بم دھماکے میں شہید ہوئے، گلشن حدید اور عزیز آباد میں دو ڈی ایس پیز سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو کئی کئی مرتبہ شہر کی سڑکوں پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ٹریفک پولیس کے اہلکاروں پر حملے اتنے تواتر کے ساتھ ہوئے کہ انہیں اسلحہ کرنا پڑ گیا۔ اورنگی ٹاؤن میں ایک ہی حملے میں 7 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، رینجرز کی چوکیوں پر حملے کیے گئے۔ بوہری برادری بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، لیاری میں دستی بم دھماکوں کی آوازیں بھی گونجتیں رہیں ، غیر ملکی باشندے بھی دہشت گردوں سے بچ نہ سکے۔
11 مئی 2013ء کو منعقدہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی۔ حکومت میں آتے ہی امن و امان کی صورت حال ایک بڑا چیلنج تھی، انتخابات کے دن ہی دو دھماکے ہوئے، جس میں سے ایک نیا ناظم آباد میں رینجرز پر خود کش حملہ اور اس سے قبل قائد آباد میں رکشا میں دھماکا تھا، یہ دھماکے آئندہ آنے والے دنوں کی دلخراش عکاسی کررہے تھے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ روزانہ کی بنیاد پر ملک کے معاشی حب میں آٹھ سے دس افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ، بعض اوقات یہ تعداد دس سے بھی تجاوز کرجاتی تھی۔
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے سندھ حکومت نے وفاق کے تعاون کی بدولت ماہ ستمبر میں کراچی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ گو کہ اس آپریشن کے نتائج کچھ عرصے بعد آنا شروع ہوئے لیکن اس کے باوجود شہر میں دہشت گردوں نے جب اور جہاں چاہا اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ 9 جنوری 2014ء کو ایس ایس پی چوہدری اسلم کو عیسیٰ نگری کے قریب لیاری ایکسپریس وے پر دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں انھوں نے محافظوں سمیت جام شہادت نوش کیا ، 13 فروری 2014ء میں ڈیفنس کاز وے پر حساس ادارے کے بریگیڈیئر پر خود کش حملہ کیا گیا جوکہ ناکام ثابت ہوا۔
مئی 2015ء کو سانحہ صفورا رونما ہوا جس میں دہشت گردوں نے صفورا کے مقام پر بس میں گھس کر 44 سے زائد افراد کو گولیوں سے بھون دیا۔ غیر ملکی پروفیسر ڈیبرا لوبو کو میڈی کیئر چورنگی پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 22 جون 2016ء کو رمضان المبارک میں لیاقت آباد دس نمبر جیسی مصروف ترین شاہراہ پر دن دہاڑے معروف قوال امجد صابری موٹر سائیکل سوار دہشت گرد گولیوں کا نشانہ بنا کر فرار ہوگئے۔
24 اپریل 2015ء کو ڈیفنس کے علاقے میں معروف سماجی رہنما صبین محمود کو ہلاک کیا گیا، ایم اے جناح روڈ پر گل پلازہ کے سامنے اور صدر میں پارکنگ پلازہ کے سامنے ملٹری پولیس اہلکاروں کو سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ اورنگی ٹاؤن میں انسداد پولیو مہم کے دوران 7 پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ عزیز آباد اور کورنگی عوامی کالونی میں تین تین پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
سائٹ ایریا میں رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت چار پولیس اہلکار جام شہادت نوش کرگئے، ملزمان انصار الشریعہ نامی تنظیم کا پمفلٹ بھی پھینک کر بھاگے، جس میں انھوں نے واقعے کی ذمے داری قبول کی۔ عزیز آباد اور گلشن حدید میں دو ڈی ایس پیز بھی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھے، 5 اپریل 2017ء کو شارع فیصل پر کرنل ریٹائرڈ ضیا اﷲ ناگی کو نشانہ بنایا گیا ، گزشتہ برس دو ستمبر کو عید الاضحیٰ کے دن نماز کی ادائیگی کے بعد گھر جانے والے متحدہ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر جان لیوا حملہ کیا گیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن ایک پولیس اہلکار ، ایک کمسن بچہ اور ایک دہشت گرد مارا گیا۔
ملک کے معاشی حب کراچی میں رینجرز بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، کٹی پہاڑی، منگھوپیر، حب ، قائد آباد اور لیاری سمیت کئی علاقوں میں چوکیوں پر دھماکے ہوتے رہے، گلشن حدید میں غیر ملکیوں کی ہائی ایس کو بھی بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بوہری برادری کے متعدد افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
8 جون 2014ء کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا جس میں 15 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا اور تمام دہشت گرد مارے گئے ، 6 ستمبر 2014 کو نیوی کی ڈاکیارڈ بیس پر حملہ ہوا جس میں نیوی کا ایک افسر شہید اور 6 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 2 دہشت گرد مارے گئے اور چار کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ گزشتہ دور حکومت میں لیاری میں صورتحال قدرے بہتر دکھائی دی ، گینگ وار کا خاتمہ ہوا ، کئی دہشت گرد مارے گئے ، کچھ بیرون ملک فرار ہوگئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لیاری دستی بم دھماکوں کی آوازوں سے بھی گونجتا رہا۔
دوسری جانب انصار الشریعہ نامی تنظیم کا نیٹ ورک بھی قائم ہوا جوکہ حساس اداروں کی بروقت کارروائی کی بدولت پکڑا گیا۔21 اور22 اکتوبر 2017ء کی درمیانی شب ان کی گرفتاری کے لیے حب کے قریب ایک مقام پر چھاپہ مارا گیا جہاں انھوں نے فائرنگ کردی ، جوابی فائرنگ سے آٹھوں دہشت گرد مارے گئے جن میں انصار الشریعہ کا امیر اور شہر میں کئی دہشت گرد کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی بھی شامل تھا۔
اس طرح شہر میں کئی ہائی پروفائل کیسز حل ہوگئے جبکہ امجد صابری پر حملہ کرنے والے دو ملزمان امجد عرف بوبی اور عاصم عرف کیپری بھی پکڑے گئے جنھیں فوجی عدالتوں سے سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ، ملزمان کی گرفتاری کا اعلان وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ اور دیگر اعلیٰ افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا۔
پیپلزپارٹی کے اسی دور حکومت میں لیاری کا کنگ سمجھا جانے والا عذیر بلوچ بھی گرفتار ہوا جس کا مقدمہ اب تک عدالت میں زیر سماعت ہے ، اس کے علاوہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے کیس میں ملک اور بیرون ملک سے رحمن بھولا اور زبیر چریا سمیت کئی افراد کی گرفتاریاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہم کامیابیاں رہیں۔
دہشت گرد تنظیم انصار الشریعہ کا قیام اور اس کا خاتمہ اسی دور حکومت میں ہوا، سانحہ صفورا رونما ہوا ، ایئرپورٹ اور ڈاکیارڈ بیس پر حملے ہوئے، ملٹری پولیس کے اہلکاروں کو شہید کیا گیا، ٹارگٹ کلنگ میں معروف قوال امجد صابری کو اسی دور حکومت میں نشانہ بنایا گیا، ایس ایس پی چوہدری اسلم بم دھماکے میں شہید ہوئے، گلشن حدید اور عزیز آباد میں دو ڈی ایس پیز سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو کئی کئی مرتبہ شہر کی سڑکوں پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ٹریفک پولیس کے اہلکاروں پر حملے اتنے تواتر کے ساتھ ہوئے کہ انہیں اسلحہ کرنا پڑ گیا۔ اورنگی ٹاؤن میں ایک ہی حملے میں 7 پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، رینجرز کی چوکیوں پر حملے کیے گئے۔ بوہری برادری بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، لیاری میں دستی بم دھماکوں کی آوازیں بھی گونجتیں رہیں ، غیر ملکی باشندے بھی دہشت گردوں سے بچ نہ سکے۔
11 مئی 2013ء کو منعقدہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد سندھ میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی۔ حکومت میں آتے ہی امن و امان کی صورت حال ایک بڑا چیلنج تھی، انتخابات کے دن ہی دو دھماکے ہوئے، جس میں سے ایک نیا ناظم آباد میں رینجرز پر خود کش حملہ اور اس سے قبل قائد آباد میں رکشا میں دھماکا تھا، یہ دھماکے آئندہ آنے والے دنوں کی دلخراش عکاسی کررہے تھے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ روزانہ کی بنیاد پر ملک کے معاشی حب میں آٹھ سے دس افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ، بعض اوقات یہ تعداد دس سے بھی تجاوز کرجاتی تھی۔
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے سندھ حکومت نے وفاق کے تعاون کی بدولت ماہ ستمبر میں کراچی آپریشن کا آغاز کر دیا۔ گو کہ اس آپریشن کے نتائج کچھ عرصے بعد آنا شروع ہوئے لیکن اس کے باوجود شہر میں دہشت گردوں نے جب اور جہاں چاہا اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ 9 جنوری 2014ء کو ایس ایس پی چوہدری اسلم کو عیسیٰ نگری کے قریب لیاری ایکسپریس وے پر دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں انھوں نے محافظوں سمیت جام شہادت نوش کیا ، 13 فروری 2014ء میں ڈیفنس کاز وے پر حساس ادارے کے بریگیڈیئر پر خود کش حملہ کیا گیا جوکہ ناکام ثابت ہوا۔
مئی 2015ء کو سانحہ صفورا رونما ہوا جس میں دہشت گردوں نے صفورا کے مقام پر بس میں گھس کر 44 سے زائد افراد کو گولیوں سے بھون دیا۔ غیر ملکی پروفیسر ڈیبرا لوبو کو میڈی کیئر چورنگی پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 22 جون 2016ء کو رمضان المبارک میں لیاقت آباد دس نمبر جیسی مصروف ترین شاہراہ پر دن دہاڑے معروف قوال امجد صابری موٹر سائیکل سوار دہشت گرد گولیوں کا نشانہ بنا کر فرار ہوگئے۔
24 اپریل 2015ء کو ڈیفنس کے علاقے میں معروف سماجی رہنما صبین محمود کو ہلاک کیا گیا، ایم اے جناح روڈ پر گل پلازہ کے سامنے اور صدر میں پارکنگ پلازہ کے سامنے ملٹری پولیس اہلکاروں کو سرعام فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ اورنگی ٹاؤن میں انسداد پولیو مہم کے دوران 7 پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا۔ عزیز آباد اور کورنگی عوامی کالونی میں تین تین پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
سائٹ ایریا میں رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت چار پولیس اہلکار جام شہادت نوش کرگئے، ملزمان انصار الشریعہ نامی تنظیم کا پمفلٹ بھی پھینک کر بھاگے، جس میں انھوں نے واقعے کی ذمے داری قبول کی۔ عزیز آباد اور گلشن حدید میں دو ڈی ایس پیز بھی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھے، 5 اپریل 2017ء کو شارع فیصل پر کرنل ریٹائرڈ ضیا اﷲ ناگی کو نشانہ بنایا گیا ، گزشتہ برس دو ستمبر کو عید الاضحیٰ کے دن نماز کی ادائیگی کے بعد گھر جانے والے متحدہ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن پر جان لیوا حملہ کیا گیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن ایک پولیس اہلکار ، ایک کمسن بچہ اور ایک دہشت گرد مارا گیا۔
ملک کے معاشی حب کراچی میں رینجرز بھی دہشت گردوں کے نشانے پر رہی، کٹی پہاڑی، منگھوپیر، حب ، قائد آباد اور لیاری سمیت کئی علاقوں میں چوکیوں پر دھماکے ہوتے رہے، گلشن حدید میں غیر ملکیوں کی ہائی ایس کو بھی بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا لیکن خوش قسمتی سے واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بوہری برادری کے متعدد افراد کو فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔
8 جون 2014ء کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا گیا جس میں 15 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا اور تمام دہشت گرد مارے گئے ، 6 ستمبر 2014 کو نیوی کی ڈاکیارڈ بیس پر حملہ ہوا جس میں نیوی کا ایک افسر شہید اور 6 اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 2 دہشت گرد مارے گئے اور چار کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ گزشتہ دور حکومت میں لیاری میں صورتحال قدرے بہتر دکھائی دی ، گینگ وار کا خاتمہ ہوا ، کئی دہشت گرد مارے گئے ، کچھ بیرون ملک فرار ہوگئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لیاری دستی بم دھماکوں کی آوازوں سے بھی گونجتا رہا۔
دوسری جانب انصار الشریعہ نامی تنظیم کا نیٹ ورک بھی قائم ہوا جوکہ حساس اداروں کی بروقت کارروائی کی بدولت پکڑا گیا۔21 اور22 اکتوبر 2017ء کی درمیانی شب ان کی گرفتاری کے لیے حب کے قریب ایک مقام پر چھاپہ مارا گیا جہاں انھوں نے فائرنگ کردی ، جوابی فائرنگ سے آٹھوں دہشت گرد مارے گئے جن میں انصار الشریعہ کا امیر اور شہر میں کئی دہشت گرد کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی بھی شامل تھا۔
اس طرح شہر میں کئی ہائی پروفائل کیسز حل ہوگئے جبکہ امجد صابری پر حملہ کرنے والے دو ملزمان امجد عرف بوبی اور عاصم عرف کیپری بھی پکڑے گئے جنھیں فوجی عدالتوں سے سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ، ملزمان کی گرفتاری کا اعلان وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ اور دیگر اعلیٰ افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کیا۔
پیپلزپارٹی کے اسی دور حکومت میں لیاری کا کنگ سمجھا جانے والا عذیر بلوچ بھی گرفتار ہوا جس کا مقدمہ اب تک عدالت میں زیر سماعت ہے ، اس کے علاوہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں ڈھائی سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے کیس میں ملک اور بیرون ملک سے رحمن بھولا اور زبیر چریا سمیت کئی افراد کی گرفتاریاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہم کامیابیاں رہیں۔