سرفراز سے دوستی ضرور ہے مگر غلطی پر کوئی معافی نہیں ملتی
اسد شفیق کا ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کو خصوصی انٹرویو
KARACHI:
اسد شفیق پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ کا اہم ستون تصور کیے جاتے ہیں، کئی مواقع پر انھوں نے ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ''ایکسپریس'' کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کے ساتھ خصوصی نشست میں ان کی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: دورئہ برطانیہ میں آپ نے صرف2 ففٹیز اسکور کیں اور مجموعی پرفارمنس زیادہ بہتر نہیں تھی،اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
اسد شفیق: انگلینڈ میں بطور ٹیم ہم نے اپنا مقصد حاصل کیا اور سیریز برابر کرنے میں کامیاب رہے،بطور کھلاڑی میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ کم از کم ایک سنچری ضرور اسکور کروں تاہم وہ ہدف حاصل نہیں کر سکا، میںکوشش کروں گا کہ 50،60 رنز بنانے کے بعد جو غلطیاں ہو رہی ہیں انھیں مستقبل میں نہ دہراؤں اور ففٹی کو سنچری میں تبدیل کروں۔
ایکسپریس: آپ کو یونس خان اور مصباح الحق کا جانشین قرار دیا جا رہا ہے، کیا زیادہ توقعات کے دباؤ میں تو نہیں آ گئے؟
اسد شفیق: پریشر میں تو نہیں آیاالبتہ ذمہ داری ضرور بڑھ گئی ہے، یونس خان اور مصباح الحق عظیم بیٹسمین تھے، ان کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں، دونوں نے ٹیمکو کئی میچز جتوائے، اب مجھ سمیت سرفراز احمد اور اظہر علی کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آئی ہے، ہم کافی میچز اکٹھے کھیل چکے، کوشش ہو گی کہ اچھے کھیل سے دونوں عظیم بیٹسمینوں کا خلا پُرکریں۔
ایکسپریس: مکی آرتھر آپ پر بہت اعتماد کرتے اور کہتے ہیں کہ اسد شفیق اور اظہر علی بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں،کیا ان کے ساتھ اچھا تال میل ہے؟
اسد شفیق: جی! مکی آرتھر پہلے دن سے نہ صرف مجھے بلکہ پوری ٹیم کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں، ہیڈ کوچ خصوصاً نوجوان کھلاڑیوں پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، اگر کوئی 1،2 میچز میں اچھا پرفارم نہ بھی کر پائے تو وہ اس کا حوصلہ بڑھاتے اور صلاحیتوں پر شک نہیں کرتے،ان کا یہ رویہ کھلاڑیوں کو پرفارم کرنے کی ترغیب دیتا اور انھیں جلد فارم میں واپس آنے میں مدد ملتی ہے۔
ایکسپریس: سرفراز احمد کے ساتھ آپ کی دیرینہ دوستی ہے، بچپن سے آپ ایک ساتھ کھیل رہے ہیں، ان کے کپتان بننے کا کس قدر فائدہ ہوا؟
اسد شفیق: (مسکراتے ہوئے) مجھے تو کیا پورے پاکستان کو ان کے کپتان بننے کا فائدہ ہوا،میں سرفرازکے جارحانہ انداز سے بخوبی واقف ہوں، کلب میچز میں بھی وہ جوش و جذبے سے کھیلتے، دوسروں کو متحرک رکھتے اور کوتاہی برداشت نہیں کرتے، یہ تو پھر پاکستان کا معاملہ ہے، وہ ٹیم کو بہت اچھے طریقے سے لیڈ کر رہے ہیں، میری دعا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ملک کیلئے کامیابیاں سمیٹنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
ایکسپریس: آپ کو دوستی کی وجہ سے کوئی رعایت ملتی ہے یا غلطی پر ڈانٹ دیتے ہیں؟
اسد شفیق: غلطی پر کسی کیلئے کوئی رعایت نہیں ہے، سرفراز سے میری دوستی گراؤنڈ سے باہر تک ہے، اندر قدم رکھنے کے بعد تو وہ صرف کپتان ہوتے اور ہم سب ان کا بہت احترام کرتے ہیں، فیلڈ میں وہ بہت جارحانہ انداز اپناتے ہیں اور غلطی پر مجھ سے بھی کوئی رعایت نہیں برتتے۔
ایکسپریس: ٹیسٹ کرکٹ میں آپ نے کافی نام بنا لیا، 60 ون ڈے بھی کھیلے لیکن کوئی سنچری نہیں بنائی، تقریباً ڈیڑھ سال سے ٹیم سے باہر ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی جگہ بنتی ہے؟
اسد شفیق: میں اس حوالے سے کوشش کر رہا ہوں، گزشتہ عرصے ڈومیسٹک ڈپارٹمنٹل اور ریجنل ون ڈے چیمپئن شپ میں کارکردگی اچھی رہی، دونوں میں سنچریاں اسکور کیں، کراچی کی ٹیم میری قیادت میں چیمپئن بھی بنی، ڈومیسٹک کرکٹ ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پرفارم کرکے قومی ٹیم میں جگہ بنائی جا سکتی ہے،میری کوشش ہو گی کہ آئندہ بھی ڈومیسٹک ون ڈے میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کروں۔
ایکسپریس: آپ صرف 10 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہی کھیل پائے اور تقریباً 6 سال سے اس فارمیٹ کیلئے قومی اسکواڈ میں شامل نہیں ہوئے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پی ایس ایل میں آپ کو اوپنر کے طور پر بھیجا، کیا آپ ٹی ٹوئنٹی کیلئے اپنے آپ کو موزوں سمجھتے ہیں؟
اسد شفیق: جی بالکل،میں نے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی میں بھی اچھا پرفارم کیا، پی ایس ایل میں کچھ اچھی کارکردگی نہیں دکھا پایا تاہم اس سے پہلے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں پرفارمنس بہت عمدہ تھی، ٹی ٹوئنٹی بھی کرکٹ ہی ہے، بس مزاج میں تھوڑی بہت تبدیلی لانا پڑتی ہے، ایسے شاٹس بھی کھیلنا پڑتے ہیں جو آپ ٹیسٹ اور ون ڈے میں نہیں کھیلتے،میری کوشش ہے کہ اس مزاج سے ہم آہنگ ہو جاؤں تاکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی اچھا پرفارم کر سکوں۔
ایکسپریس: اس وقت تو ایسے لگتا ہے کہ آپ پر ایک ٹیسٹ کرکٹر کی چھاپ لگ گئی ہے؟
اسد شفیق: چھاپ لگانے والے لگاتے رہیں، میرے بس میں جو ہے وہ کرتا رہوں گا، مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی میرے بارے میں کیا کہتا ہے، جب تک مجھے لگے گا کہ میں کھے میں بہتری لاسکتا ہوں اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔
ایکسپریس: پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بتدریج واپس آ رہی ہے، ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ کھیلنے کی خواہش ہے؟
اسد شفیق: ہمارے ملک میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کرکٹ ہو سکتی ہے تو ٹیسٹ بھی ہونے چاہئیں، اپنے شائقین کے سامنے کھیلنا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، بدقسمتی سے میں ابھی تک پاکستان میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیل پایا، میری اور باقی تمام پلیئرز کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ یہاں میچز ہوں،بعض اوقات بیرون ملک کھیلتے ہوئے بہت اچھا پرفارم کرنے پر بھی وہ لطف نہیں آتا کیونکہ جس جوش اور ولولے سے یہاں شائقین سپورٹ کرتے ہیں وہ ہم سب کیلئے بہت خاص اور معنی رکھتا ہے۔
ایکسپریس: پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کافی عرصہ بیت گیا لیکن آپ لو پروفائل میں الگ تھلگ سے رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
اسد شفیق: الگ تھلگ تو نہیں رہتا، بس انٹرنیشنل ٹورز اور ڈومیسٹک کرکٹ کے بعد بہت کم وقت ملتا ہے، کوشش ہوتی ہے کہ اپنی فیملی اور قریبی دوستوں کے ساتھ رہوں، ویسے بھی مجھے نارمل طریقے سے زندگی گزارنے میں مزہ آتا ہے، شروع سے بہت زیادہ گلیمرس اور لائم لائٹ والی طبیعت نہیں ہے، فیملی کے ساتھ وقت گزارنے اور پرانے دوستوں سے گپ شپ کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ پی سی بی کی جانب سے بیرون ملک دوروں پر کچھ دنوں کیلئے فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں، اب میری بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں اور ان کے اسکول شروع ہو جائیں گے تاہم ابھی تک وہ میرے ساتھ ہی جاتی ہیں۔ میں اپنی فیملی اور اہلیہ سے کہتا ہوں کہ وہ کھیل میں ایک حد تک ہی دلچسپی لیں کیونکہ باہر بھی کرکٹ ہوتی ہے اور اگر گھر پر بھی یہی باتیں ہی ہوں گی تو اس سے انسان کبھی کبھار تنگ بھی ہو جاتا ہے، اہلیہ اس بات کو سمجھتی ہیں اور میں خود بھی گراؤنڈ سے آنے کے بعد نارمل باتوں پر دھیان دیتا ہوں۔
ایکسپریس: ابھی الیکشن آنے والے ہیں کیا آپ کو بھی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے؟
اسد شفیق: مجھے سیاست سے کوئی خاص شغف تو نہیں تھا، البتہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ٹاک شوز دیکھ لیتا ہوں، معاملات کا بیک گراؤنڈ پوری طرح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں، امید ہے کہ میں مزید کچھ عرصے تک معاملات کو سمجھنے لگ جاؤں گا۔
ایکسپریس: کیا ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے؟
اسد شفیق: (قہقہہ) نہیں فی الحال تو ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے، باقی جب ریٹائر ہو جاؤں گا تو اس کے بعد دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔
اسد شفیق پاکستانی مڈل آرڈر بیٹنگ کا اہم ستون تصور کیے جاتے ہیں، کئی مواقع پر انھوں نے ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی ذمہ داری میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ''ایکسپریس'' کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کے ساتھ خصوصی نشست میں ان کی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: دورئہ برطانیہ میں آپ نے صرف2 ففٹیز اسکور کیں اور مجموعی پرفارمنس زیادہ بہتر نہیں تھی،اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
اسد شفیق: انگلینڈ میں بطور ٹیم ہم نے اپنا مقصد حاصل کیا اور سیریز برابر کرنے میں کامیاب رہے،بطور کھلاڑی میں یہ سوچ کر گیا تھا کہ کم از کم ایک سنچری ضرور اسکور کروں تاہم وہ ہدف حاصل نہیں کر سکا، میںکوشش کروں گا کہ 50،60 رنز بنانے کے بعد جو غلطیاں ہو رہی ہیں انھیں مستقبل میں نہ دہراؤں اور ففٹی کو سنچری میں تبدیل کروں۔
ایکسپریس: آپ کو یونس خان اور مصباح الحق کا جانشین قرار دیا جا رہا ہے، کیا زیادہ توقعات کے دباؤ میں تو نہیں آ گئے؟
اسد شفیق: پریشر میں تو نہیں آیاالبتہ ذمہ داری ضرور بڑھ گئی ہے، یونس خان اور مصباح الحق عظیم بیٹسمین تھے، ان کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں، دونوں نے ٹیمکو کئی میچز جتوائے، اب مجھ سمیت سرفراز احمد اور اظہر علی کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آئی ہے، ہم کافی میچز اکٹھے کھیل چکے، کوشش ہو گی کہ اچھے کھیل سے دونوں عظیم بیٹسمینوں کا خلا پُرکریں۔
ایکسپریس: مکی آرتھر آپ پر بہت اعتماد کرتے اور کہتے ہیں کہ اسد شفیق اور اظہر علی بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں،کیا ان کے ساتھ اچھا تال میل ہے؟
اسد شفیق: جی! مکی آرتھر پہلے دن سے نہ صرف مجھے بلکہ پوری ٹیم کو بھرپور سپورٹ کرتے ہیں، ہیڈ کوچ خصوصاً نوجوان کھلاڑیوں پر بھرپور توجہ دیتے ہیں، اگر کوئی 1،2 میچز میں اچھا پرفارم نہ بھی کر پائے تو وہ اس کا حوصلہ بڑھاتے اور صلاحیتوں پر شک نہیں کرتے،ان کا یہ رویہ کھلاڑیوں کو پرفارم کرنے کی ترغیب دیتا اور انھیں جلد فارم میں واپس آنے میں مدد ملتی ہے۔
ایکسپریس: سرفراز احمد کے ساتھ آپ کی دیرینہ دوستی ہے، بچپن سے آپ ایک ساتھ کھیل رہے ہیں، ان کے کپتان بننے کا کس قدر فائدہ ہوا؟
اسد شفیق: (مسکراتے ہوئے) مجھے تو کیا پورے پاکستان کو ان کے کپتان بننے کا فائدہ ہوا،میں سرفرازکے جارحانہ انداز سے بخوبی واقف ہوں، کلب میچز میں بھی وہ جوش و جذبے سے کھیلتے، دوسروں کو متحرک رکھتے اور کوتاہی برداشت نہیں کرتے، یہ تو پھر پاکستان کا معاملہ ہے، وہ ٹیم کو بہت اچھے طریقے سے لیڈ کر رہے ہیں، میری دعا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ملک کیلئے کامیابیاں سمیٹنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔
ایکسپریس: آپ کو دوستی کی وجہ سے کوئی رعایت ملتی ہے یا غلطی پر ڈانٹ دیتے ہیں؟
اسد شفیق: غلطی پر کسی کیلئے کوئی رعایت نہیں ہے، سرفراز سے میری دوستی گراؤنڈ سے باہر تک ہے، اندر قدم رکھنے کے بعد تو وہ صرف کپتان ہوتے اور ہم سب ان کا بہت احترام کرتے ہیں، فیلڈ میں وہ بہت جارحانہ انداز اپناتے ہیں اور غلطی پر مجھ سے بھی کوئی رعایت نہیں برتتے۔
ایکسپریس: ٹیسٹ کرکٹ میں آپ نے کافی نام بنا لیا، 60 ون ڈے بھی کھیلے لیکن کوئی سنچری نہیں بنائی، تقریباً ڈیڑھ سال سے ٹیم سے باہر ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی جگہ بنتی ہے؟
اسد شفیق: میں اس حوالے سے کوشش کر رہا ہوں، گزشتہ عرصے ڈومیسٹک ڈپارٹمنٹل اور ریجنل ون ڈے چیمپئن شپ میں کارکردگی اچھی رہی، دونوں میں سنچریاں اسکور کیں، کراچی کی ٹیم میری قیادت میں چیمپئن بھی بنی، ڈومیسٹک کرکٹ ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں پرفارم کرکے قومی ٹیم میں جگہ بنائی جا سکتی ہے،میری کوشش ہو گی کہ آئندہ بھی ڈومیسٹک ون ڈے میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہوئے سلیکٹرز کی توجہ حاصل کروں۔
ایکسپریس: آپ صرف 10 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل ہی کھیل پائے اور تقریباً 6 سال سے اس فارمیٹ کیلئے قومی اسکواڈ میں شامل نہیں ہوئے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پی ایس ایل میں آپ کو اوپنر کے طور پر بھیجا، کیا آپ ٹی ٹوئنٹی کیلئے اپنے آپ کو موزوں سمجھتے ہیں؟
اسد شفیق: جی بالکل،میں نے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی میں بھی اچھا پرفارم کیا، پی ایس ایل میں کچھ اچھی کارکردگی نہیں دکھا پایا تاہم اس سے پہلے قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں پرفارمنس بہت عمدہ تھی، ٹی ٹوئنٹی بھی کرکٹ ہی ہے، بس مزاج میں تھوڑی بہت تبدیلی لانا پڑتی ہے، ایسے شاٹس بھی کھیلنا پڑتے ہیں جو آپ ٹیسٹ اور ون ڈے میں نہیں کھیلتے،میری کوشش ہے کہ اس مزاج سے ہم آہنگ ہو جاؤں تاکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی اچھا پرفارم کر سکوں۔
ایکسپریس: اس وقت تو ایسے لگتا ہے کہ آپ پر ایک ٹیسٹ کرکٹر کی چھاپ لگ گئی ہے؟
اسد شفیق: چھاپ لگانے والے لگاتے رہیں، میرے بس میں جو ہے وہ کرتا رہوں گا، مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ کوئی میرے بارے میں کیا کہتا ہے، جب تک مجھے لگے گا کہ میں کھے میں بہتری لاسکتا ہوں اپنی کوشش جاری رکھوں گا۔
ایکسپریس: پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بتدریج واپس آ رہی ہے، ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ کھیلنے کی خواہش ہے؟
اسد شفیق: ہمارے ملک میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کرکٹ ہو سکتی ہے تو ٹیسٹ بھی ہونے چاہئیں، اپنے شائقین کے سامنے کھیلنا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، بدقسمتی سے میں ابھی تک پاکستان میں ٹیسٹ میچ نہیں کھیل پایا، میری اور باقی تمام پلیئرز کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ یہاں میچز ہوں،بعض اوقات بیرون ملک کھیلتے ہوئے بہت اچھا پرفارم کرنے پر بھی وہ لطف نہیں آتا کیونکہ جس جوش اور ولولے سے یہاں شائقین سپورٹ کرتے ہیں وہ ہم سب کیلئے بہت خاص اور معنی رکھتا ہے۔
ایکسپریس: پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کافی عرصہ بیت گیا لیکن آپ لو پروفائل میں الگ تھلگ سے رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
اسد شفیق: الگ تھلگ تو نہیں رہتا، بس انٹرنیشنل ٹورز اور ڈومیسٹک کرکٹ کے بعد بہت کم وقت ملتا ہے، کوشش ہوتی ہے کہ اپنی فیملی اور قریبی دوستوں کے ساتھ رہوں، ویسے بھی مجھے نارمل طریقے سے زندگی گزارنے میں مزہ آتا ہے، شروع سے بہت زیادہ گلیمرس اور لائم لائٹ والی طبیعت نہیں ہے، فیملی کے ساتھ وقت گزارنے اور پرانے دوستوں سے گپ شپ کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ پی سی بی کی جانب سے بیرون ملک دوروں پر کچھ دنوں کیلئے فیملی ساتھ رکھنے کی اجازت ہوتی ہے، میری کوشش ہوتی ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں، اب میری بیٹیاں بڑی ہو رہی ہیں اور ان کے اسکول شروع ہو جائیں گے تاہم ابھی تک وہ میرے ساتھ ہی جاتی ہیں۔ میں اپنی فیملی اور اہلیہ سے کہتا ہوں کہ وہ کھیل میں ایک حد تک ہی دلچسپی لیں کیونکہ باہر بھی کرکٹ ہوتی ہے اور اگر گھر پر بھی یہی باتیں ہی ہوں گی تو اس سے انسان کبھی کبھار تنگ بھی ہو جاتا ہے، اہلیہ اس بات کو سمجھتی ہیں اور میں خود بھی گراؤنڈ سے آنے کے بعد نارمل باتوں پر دھیان دیتا ہوں۔
ایکسپریس: ابھی الیکشن آنے والے ہیں کیا آپ کو بھی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے؟
اسد شفیق: مجھے سیاست سے کوئی خاص شغف تو نہیں تھا، البتہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ٹاک شوز دیکھ لیتا ہوں، معاملات کا بیک گراؤنڈ پوری طرح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ذہن میں کئی سوالات آتے ہیں، امید ہے کہ میں مزید کچھ عرصے تک معاملات کو سمجھنے لگ جاؤں گا۔
ایکسپریس: کیا ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے؟
اسد شفیق: (قہقہہ) نہیں فی الحال تو ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے، باقی جب ریٹائر ہو جاؤں گا تو اس کے بعد دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔