رائیونڈ NA128 مسلم لیگ ن کوجیتنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی
2008 کے الیکشن ميں مسلم لیگ ن کے محمد افضل کھوکھر65،727 ووٹ کے کامیاب ہوئے۔۔۔
ISLAMABAD:
لاہور کا حلقہ این اے128جو ہنجروال ،جوہر ٹاؤن،واپڈا ٹاؤن،خیابان جناح،ٹھوکر نیاز بیگ ،علاقہ نوا ب صاحب، چوہنگ،سندر ،مانگا منڈی ،لاہور پارک،اڈہ پلاٹ،جاتی عمرہ،رائیونڈ سمیت درجنوں دیہات پر مشتمل ہے،اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 4لاکھ چھ ہزار880 ہے ان میں مرد ووٹر2 لاکھ 32 ہزار615اور خواتین ووٹرکی تعداد 1لاکھ 73ہزار278 ہے ۔قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں ٹوٹل پولنگ بوتھز کی تعداد284ہے۔
2008 ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک محمدافضل کھوکھر65,727 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے تھے ۔ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے ملک کرامت کھوکھر نے 37,608 جبکہ مسلم لیگ ق کے سردارعاقل عمرنے 18,252ووٹ لیے تھے ۔ملک کرامت کھوکھراب پیپلزپارٹی چھوڑکر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مسلم لیگ ن کے ملک افضل کھوکھرکے مدمقابل ہیں۔2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ملک ظہیرعباس کھوکھر31,175 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے تھے ،مسلم لیگ ن کے سردارکامل عمر29,682 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبرپررہے تھے ۔
مسلم لیگ ق کے وزیرعلی بھٹی نے 26,652 ووٹ لیے تھے۔ملک ظہیرعباس جوملک کرامت کھوکھرکے قریبی رشتہ دارہیں ان کے ساتھ ہی تحریک انصاف میں جاچکے ہیں اوراس حلقہ میں شامل صوبائی سیٹ پی پی 160 سے امیدوارہیں۔گیارہ مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کی جانب سے سابق ایم این اے ملک محمد افضل کھوکھر ،تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ملک کرامت علی کھوکھر،جماعت اسلامی کے میاں ظہور احمد وٹو،اور پیپلز پارٹی کے میاں محمد اسلم آرائیں امیدوار ہیں ۔قومی اسمبلی کے اس حلقہ کی نشست پرکانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے ۔
اس کی وجہ (ن)لیگ کے سابق پی پی 161 سے منتخب سابق ایم پی اے اورسابق ایم این اے افضل کھوکھرکی باہمی سیاسی چپقلش اور حلقہ کے عوام کی منشاء کے منافی کئے جانے والے فیصلے ہیں ۔تحریک انصاف کے ملک کرامت علی کھوکھر حلقہ کے انتہائی زیرک سیاستدان گردانے جاتے ہیں قبل ازیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور اب وہ تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر قسمت آزمائی کریں گے جبکہ جماعت اسلامی کے میاں ظہور احمد وٹو بھی حلقہ میں کافی عرصہ سے سرگرم ہیں،اسی بنا پر حلقہ کے عوام ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں محمد اسلم آرائیں کا اس حلقہ سے پہلا تعارفی الیکشن ہے ۔لہذا عام قیاس یہی ہے کہ اس نشست پر اصل مقابلہ (ن) لیگ کے افضل کھوکھر اور پاکستان تحریک انصاف کے ملک کرامت علی کھوکھر کے درمیان ہو گا ۔
قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے دوحلقے پی پی 160 اور پی پی 161 آتے ہیں۔پی پی 160 میں مسلم لیگ نے سابق ایم این اے افضل کھوکھرکے بھائی ملک سیف الملوک کھوکھرکوٹکٹ جاری کیاہے جبکہ پی پی 161میں سابق صوبائی وزیرکی حلقہ میں غیرمقبولیت کودیکھتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے خودالیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے۔اس حلقہ میں را ئیونڈ، چوہنگ، سندر، مانگا منڈی اور میاں برادران کا رہائشی علاقہ جاتی عمرہ سمیت دیگر درجنوں دیہات آتے ہیں ۔
اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریبا 186510 ہے جن میں مرد ووٹروں کی تعداد 101596 اور خواتین ووٹروں کی تعداد 68805 ہے اور مجموعی طور پر 133 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں۔ اس حلقہ میں چار اکثریتی برادریاں ہیں جن میں آرائیں ،گجر،راجپوت اور جٹ شامل ہیں۔ یہ چاروں برادریاں الیکشن میں جس امیدوار کو بھی سپورٹ کرتی ہیں عموماً فتح اسی کے قدم چومتی ہے ۔ان برادریوں کے علاوہ شیخ، ملک ،میو اور دیگر برادریاں بھی اپنا علیحدہ سیاسی وجود رکھتی ہیں۔ ماضی میں اس حلقہ میں برادریوں کے گٹھ جوڑ کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔
حالیہ آنے والے الیکشن میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا اسی حلقہ پی پی 161 سے ذاتی طور پر الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلہ نے سیاسی حلقوں میں بڑی گرما گرمی پیداکر دی ہے۔ میاں شہباز شریف کے علاوہ اس حلقہ میں تحریک انصاف کے چودھری خالد محمود گجر، پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ سردار شوکت علی ڈوگر، آزاد امیدوار عبدالرشید بھٹی شامل ہیں۔ آخرالذکر دونوں امیدواران قبل ازیں بھی پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ عبدالرشید بھٹی قبل ازیں دومرتبہ اس حلقہ سے الیکشن جیتنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
پہلی بار وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقہ سے منتخب ہوئے اور دوسری مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کے ہی ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور بعد ازاں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور تحریک انصاف کی طرف سے صوبائی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عبدالرشیدبھٹی حلقہ پی پی 161میں یہ اپنا علیحدہ سیاسی گروپ رکھتے ہیں۔حلقہ کے عوام میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اصل مقابلہ (ن) لیگ کے میاں شہباز شریف اور آزاد امیدوار عبدالرشید بھٹی کے درمیان ہی ہو گا۔
ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے صوبائی امیدوار سردار شوکت علی ڈوگر بھی حلقہ میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ وہ (ق) لیگ کے دور حکومت میں ضلع قصورکے حلقہ پی پی 176 سے اپنے چچا سردارمحمدشریف ڈوگرکی سیٹ پرکامیابی حاصل کرکے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس بارسردارمحمدشریف ڈوگرخوداس نشست پرجے یوپی کے ٹکٹ پرامیدوار ہیں توسردارشوکت ڈوگرنے اس حلقے میں کاغذات نامزدگی جمع کرواکرقسمت آزمائی کا فیصلہ کیاہے۔ انہیں تاجران اور شہر کے نوجوانوں کی وسیع تعدادکی حمایت حاصل ہے۔
اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے اور صوبائی وزیر کی طرف سے ترقیاتی سکیموں میں کی جانیوالی بے حد کرپشن اور حلقہ کے اندر چند ایسے سیاسی فیصلے جن میں رائیونڈ شہر میں غلہ منڈی کی جگہ پر بنایا جانیوالا ماڈل بازار اورپرائیویٹ سبزی منڈی کا زبردستی قیام ہے ۔
ایسے اقدامات ہیں جن کی شہر کے شرفا ء اور کاروباری طبقہ نے ہر محاذ پر سخت مخالفت کی لیکن ماضی کی پنجاب حکومت نے عوام کے اس احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ حلقہ کے عوام (ن) لیگ کی سابق عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ہر جلسہ میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اورسابق وزیراعلیٰ کواپنی کابینہ کے اس اہم وزیرکی جگہ خودالیکشن لڑنے کا فیصلہ کرناپڑا ہے بہرحال یہ الیکشن (ن) لیگ کے لئے اتنا آسان نہیں ہو گا شہبازشریف کو اپنی عزت بچانے کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی۔
لاہور کا حلقہ این اے128جو ہنجروال ،جوہر ٹاؤن،واپڈا ٹاؤن،خیابان جناح،ٹھوکر نیاز بیگ ،علاقہ نوا ب صاحب، چوہنگ،سندر ،مانگا منڈی ،لاہور پارک،اڈہ پلاٹ،جاتی عمرہ،رائیونڈ سمیت درجنوں دیہات پر مشتمل ہے،اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 4لاکھ چھ ہزار880 ہے ان میں مرد ووٹر2 لاکھ 32 ہزار615اور خواتین ووٹرکی تعداد 1لاکھ 73ہزار278 ہے ۔قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں ٹوٹل پولنگ بوتھز کی تعداد284ہے۔
2008 ء کے الیکشن میں اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ملک محمدافضل کھوکھر65,727 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے تھے ۔ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے ملک کرامت کھوکھر نے 37,608 جبکہ مسلم لیگ ق کے سردارعاقل عمرنے 18,252ووٹ لیے تھے ۔ملک کرامت کھوکھراب پیپلزپارٹی چھوڑکر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مسلم لیگ ن کے ملک افضل کھوکھرکے مدمقابل ہیں۔2002ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ملک ظہیرعباس کھوکھر31,175 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے تھے ،مسلم لیگ ن کے سردارکامل عمر29,682 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبرپررہے تھے ۔
مسلم لیگ ق کے وزیرعلی بھٹی نے 26,652 ووٹ لیے تھے۔ملک ظہیرعباس جوملک کرامت کھوکھرکے قریبی رشتہ دارہیں ان کے ساتھ ہی تحریک انصاف میں جاچکے ہیں اوراس حلقہ میں شامل صوبائی سیٹ پی پی 160 سے امیدوارہیں۔گیارہ مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کی جانب سے سابق ایم این اے ملک محمد افضل کھوکھر ،تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر ملک کرامت علی کھوکھر،جماعت اسلامی کے میاں ظہور احمد وٹو،اور پیپلز پارٹی کے میاں محمد اسلم آرائیں امیدوار ہیں ۔قومی اسمبلی کے اس حلقہ کی نشست پرکانٹے دار مقابلہ کی توقع کی جارہی ہے ۔
اس کی وجہ (ن)لیگ کے سابق پی پی 161 سے منتخب سابق ایم پی اے اورسابق ایم این اے افضل کھوکھرکی باہمی سیاسی چپقلش اور حلقہ کے عوام کی منشاء کے منافی کئے جانے والے فیصلے ہیں ۔تحریک انصاف کے ملک کرامت علی کھوکھر حلقہ کے انتہائی زیرک سیاستدان گردانے جاتے ہیں قبل ازیں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور اب وہ تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے پر قسمت آزمائی کریں گے جبکہ جماعت اسلامی کے میاں ظہور احمد وٹو بھی حلقہ میں کافی عرصہ سے سرگرم ہیں،اسی بنا پر حلقہ کے عوام ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں محمد اسلم آرائیں کا اس حلقہ سے پہلا تعارفی الیکشن ہے ۔لہذا عام قیاس یہی ہے کہ اس نشست پر اصل مقابلہ (ن) لیگ کے افضل کھوکھر اور پاکستان تحریک انصاف کے ملک کرامت علی کھوکھر کے درمیان ہو گا ۔
قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں صوبائی اسمبلی کے دوحلقے پی پی 160 اور پی پی 161 آتے ہیں۔پی پی 160 میں مسلم لیگ نے سابق ایم این اے افضل کھوکھرکے بھائی ملک سیف الملوک کھوکھرکوٹکٹ جاری کیاہے جبکہ پی پی 161میں سابق صوبائی وزیرکی حلقہ میں غیرمقبولیت کودیکھتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے خودالیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے۔اس حلقہ میں را ئیونڈ، چوہنگ، سندر، مانگا منڈی اور میاں برادران کا رہائشی علاقہ جاتی عمرہ سمیت دیگر درجنوں دیہات آتے ہیں ۔
اس حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقریبا 186510 ہے جن میں مرد ووٹروں کی تعداد 101596 اور خواتین ووٹروں کی تعداد 68805 ہے اور مجموعی طور پر 133 پولنگ سٹیشن بنائے گئے ہیں۔ اس حلقہ میں چار اکثریتی برادریاں ہیں جن میں آرائیں ،گجر،راجپوت اور جٹ شامل ہیں۔ یہ چاروں برادریاں الیکشن میں جس امیدوار کو بھی سپورٹ کرتی ہیں عموماً فتح اسی کے قدم چومتی ہے ۔ان برادریوں کے علاوہ شیخ، ملک ،میو اور دیگر برادریاں بھی اپنا علیحدہ سیاسی وجود رکھتی ہیں۔ ماضی میں اس حلقہ میں برادریوں کے گٹھ جوڑ کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔
حالیہ آنے والے الیکشن میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا اسی حلقہ پی پی 161 سے ذاتی طور پر الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلہ نے سیاسی حلقوں میں بڑی گرما گرمی پیداکر دی ہے۔ میاں شہباز شریف کے علاوہ اس حلقہ میں تحریک انصاف کے چودھری خالد محمود گجر، پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ سردار شوکت علی ڈوگر، آزاد امیدوار عبدالرشید بھٹی شامل ہیں۔ آخرالذکر دونوں امیدواران قبل ازیں بھی پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ عبدالرشید بھٹی قبل ازیں دومرتبہ اس حلقہ سے الیکشن جیتنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔
پہلی بار وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسی حلقہ سے منتخب ہوئے اور دوسری مرتبہ پھر پیپلزپارٹی کے ہی ٹکٹ پر الیکشن جیتا اور بعد ازاں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی اور تحریک انصاف کی طرف سے صوبائی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عبدالرشیدبھٹی حلقہ پی پی 161میں یہ اپنا علیحدہ سیاسی گروپ رکھتے ہیں۔حلقہ کے عوام میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ اصل مقابلہ (ن) لیگ کے میاں شہباز شریف اور آزاد امیدوار عبدالرشید بھٹی کے درمیان ہی ہو گا۔
ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے صوبائی امیدوار سردار شوکت علی ڈوگر بھی حلقہ میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ وہ (ق) لیگ کے دور حکومت میں ضلع قصورکے حلقہ پی پی 176 سے اپنے چچا سردارمحمدشریف ڈوگرکی سیٹ پرکامیابی حاصل کرکے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ اس بارسردارمحمدشریف ڈوگرخوداس نشست پرجے یوپی کے ٹکٹ پرامیدوار ہیں توسردارشوکت ڈوگرنے اس حلقے میں کاغذات نامزدگی جمع کرواکرقسمت آزمائی کا فیصلہ کیاہے۔ انہیں تاجران اور شہر کے نوجوانوں کی وسیع تعدادکی حمایت حاصل ہے۔
اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کے سابق ایم پی اے اور صوبائی وزیر کی طرف سے ترقیاتی سکیموں میں کی جانیوالی بے حد کرپشن اور حلقہ کے اندر چند ایسے سیاسی فیصلے جن میں رائیونڈ شہر میں غلہ منڈی کی جگہ پر بنایا جانیوالا ماڈل بازار اورپرائیویٹ سبزی منڈی کا زبردستی قیام ہے ۔
ایسے اقدامات ہیں جن کی شہر کے شرفا ء اور کاروباری طبقہ نے ہر محاذ پر سخت مخالفت کی لیکن ماضی کی پنجاب حکومت نے عوام کے اس احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ حلقہ کے عوام (ن) لیگ کی سابق عوام دشمن پالیسیوں کے باعث ہر جلسہ میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اورسابق وزیراعلیٰ کواپنی کابینہ کے اس اہم وزیرکی جگہ خودالیکشن لڑنے کا فیصلہ کرناپڑا ہے بہرحال یہ الیکشن (ن) لیگ کے لئے اتنا آسان نہیں ہو گا شہبازشریف کو اپنی عزت بچانے کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی۔