آسمان ٹوٹے الیکشن ہوں گے

اس بات کا قوم کو یقین ہونا چاہیے کہ انتخابات کے دوران فوج کی تعیناتی کا پلان دہشت گردی کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوگا۔

عام انتخابات کا جائزہ لینے والے یورپی مبصرین مشن نے پاکستان میں امن وامان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے جتنے خدشات،اندیشے اورغیر یقینی صورتحال کے جائزے پیش کیے جارہے ہیں، ان کا ایک مثبت اورحوصلہ افزا پہلو ریاستی اورحکومتی اقدامات،عدالتی فیصلے اور الیکشن کمیشن کی مستعدی اور گہری نگاہ ہے جس نے عوام اور سیاست دانوں کو اس امر کی بہر حال یقین دہانی کرادی ہے کہ چاہے آسمان ٹوٹ پڑے الیکشن ملتوی نہیں ہوں گے۔

چنانچہ ایک طرف دہشت گرد اپنے غیر انسانی اور ہلاکت خیز ایجنڈے پر اسی شدت کے ساتھ عمل پیرا ہیں کہ ان کے مسلسل حملوں کے باعث سیاسی اور انتخابی عمل شاید کمزور پڑجائے اور ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کرنے سے پہلے دو بار سوچیں گے کہ بیلٹ اور بلٹ میں سے کس کا انتخاب کریں؟ ادھر زمینی حقائق اور مختلف علاقوں کی حساسیت اور دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہونے کے پیش نظر کورکمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں عام انتخابات کے دوران فوج کی تعیناتی کے پلان کی منظوری دیدی گئی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں پیر کو یہاں جنرل ہیڈکوارٹرز میں کورکمانڈرز کانفرنس کا خصوصی اجلاس ہوا، جس میں انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی حکومتوں کی سیکیورٹی کی ضروریات کا جائزہ لیا گیا ،اجلاس میں کراچی اور کوئٹہ کی صورتحال کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا اور الیکشن کے دوران حساس علاقوں میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو متحرک رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں کراچی اور کوئٹہ کے لیے خصوصی پلان تشکیل دیا گیا ہے، سیکیورٹی پلان کے تحت الیکشن کے موقعے پر کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں فوجی دستے تعینات کیے جائیں گے۔ اجلاس میں اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاک فوج انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی اور اس سلسلے میں بھرپور سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ کورکمانڈرز اجلاس میں 11 مئی کو فوج کی تعیناتی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مشورے سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ان اقدامات کا خوش آیند اورمثبت پہلو وہ رابطہ کاری، مشترکہ قومی سوچ اور جمہوری عمل کو کامیابی سے منزل تک لے جانے کی امنگ اور ادارہ جاتی عزم ہے جس کے بغیر جمہوریت کا استحکام کی کوئی کوشش ثمر بار ثابت نہیں ہوسکتی ۔ جہاں تک فوج کی تعیناتی کا تعلق ہے بلوچستان،خیبر پختونخوا اور کراچی کی کٹیگری یکساں کہی جاسکتی ہے جہاں دہشت گردی کی شدت اور ہولناکی نمایاں ہیں اور حملوں کا خاص ٹارگٹ بھی ان ہی علاقوں کے انتخابی جلسے،کارنر میٹنگز اور امیدواروں کے ووٹرز سے رابطے میں مصروف قافلے ہیں جن پر شدید حملے ہوتے رہے ہیں۔

صورتحال خاصی ابتر ہے، اس لیے عام انتخابات کا جائزہ لینے والے یورپی مبصرین مشن نے پاکستان میں امن وامان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، مبصر مشن کی ڈپٹی چیف حنا رابرٹس کا کہنا ہے کہ امن و مان کی خراب صورتحال کے باعث یورپی مبصر بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی کے کئی علاقوں میں نہیں جاسکتے۔واضح رہے یورپی یونین پاکستان میں انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے 50 لاکھ یورو سے زائد کی رقم خرچ کررہا ہے جس کا مقصد پاکستان میں جمہوریت کو فروغ دینا ہے۔انھوں نے کہا کہ مبصر مشن نے الیکشن کمیشن کے کام کرنے کے طریقہ کار پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے ۔

تاہم ملکی سیاسی مبصرین نے دہشت گردی کے اثرات، مضمرات اور ان کے نتیجے میں الیکشن ہونے یا نا ہونے کی بحث کا انداز اس یقین کی طرف موڑنا شروع کیا ہے کہ نگراں حکومت، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے تہیہ کرلیا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود الیکشن ضرور ہوں گے۔ اس عزم کا اظہار تحفظات کے باوجود ان سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہونا جو دہشت گردی کا بری طرح ہدف بنی ہوئی ہیں جمہوریت اور ملکی بقا کے لیے نیک شگون ہے۔


اس ضمن میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی نے کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ دہشت گردی کے باوجود وہ ہر صورت الیکشن میں حصہ لیں گی اور اس سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ ایسا ہی اعلان بلوچستان،خیبر پختونخوا ، اندورن سندھ اور پنجاب سے بھی ہونا چاہیے تاکہ یا تاثر مٹ سکے کہ دہشت گردی تخصیص پسندانہ ہے ،اور صرف پنجاب میں پر امن الیکشن کی اجازت دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جب کہ دیگرلبرل ، ترقی پسند اور روشن خیال جماعتوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔

اس تاثر کو گمراہ کن بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ دہشت گردی کا ہدف واقعی مخصوص جماعتیں ہیں، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے لیے انتخابی مہم چلانا کار دشوار ہوگیا ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ دہشت گرد تنظیمیں کمال ہنر مندی مگر بیدردی سے اب دوسرا وار محدود سنسنی خیزی پیدا کرنے کے لیے ان ''محفوظ'' جماعتوں کے امیدواروں، ان کے جلسوں اور انتخابی دفاتر پر کریں تاکہ حساب برابر ہوجائے۔ اصل حکمت عملی فوج، انٹیلی جنس ، پولیس،رینجرز،لیوی اور ایف سی کی ہونی چاہیے جو اس طرح تعینات ہوں کہ دہشت گرد کہیں بھی ان کی صفوںمیں شگاف نہ ڈال سکیں۔

اب کوئی تساہل نہیں ہونا چاہیے، عقابی نگاہوں اور چیتے جیسی رفتار سے دہشت گردوں کا تعاقب ہونا امر لازم ہے ۔ ہر کار، کھڑی ہوئی موٹر سائیکل، ٹرک، سوزوکی وین ، ٹریلر ،بس اور مشکوک افراد اور مشتبہ شخص پر نظر ہو جس طرح امریکا میں داخل ہونے والے کی ایئر پورٹ پر رکھی جاتی ہے۔

جہاں نائن الیون کے فوری بعد داخلی سیکیورٹی جیسی متحرک حکمت عملی وضع کی گئی چنانچہ طالبان کارندوں اور کمانڈروں کی ملک بھر میں نقل و حرکت ، کمیں گاہوں میں پر اسرار اجتماع اور بین الصوبائی خاموش سفراور مختلف چیک پوسٹوں پر ہائی الرٹ اہلکاروں کی جانب سے چیکنگ کا ایک فول پروف میکنزم ہو جسے کوئی دہشت گرد ناکام نہ بنا سکے۔ اس بات کا قوم کو یقین ہونا چاہیے کہ انتخابات کے دوران فوج کی تعیناتی کا پلان دہشت گردی کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوگا۔

دہشت گردمسلسل حملے کررہے ہیں ، پیر کو پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر خودکش حملے میں افغانستان کے سابق وزیر کے بیٹے اورصحافی سمیت 10 افرادجاں بحق اور 2 اہلکاروں سمیت 43زخمی ہوگئے جب کہ مختلف انتخابی امیدواروں پر حملے گزشتہ روز بھی جاری رہے،بم حملے اور فائرنگ کے واقعات میں 2 افراد جاں بحق اور 17زخمی ہوگئے ۔

حیدرآباد میں فائرنگ سے ایم کیو ایم کے دو کارکن ہلاک ہوگئے۔ ہلاکتوں کے اس گھنائونے سلسلے کی روک تھام سیکیورٹی کے نئے طریقہ کار (پیراڈائم ) سے ہونی چاہیے جس پر عمل درآمد جلد ہو اور پورے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عوام کو ذہنی، جذباتی،اعصابی اور نفسیاتی طور پر تیار کیا جائے۔ ہماری سیاسی اکابرین اور سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی التماس ہے کہ وہ اب انتخابی ضابطہ اخلاق کی دھجیاں نہ اڑائیں، خطابت ہوچکی، منشور سامنے لائے جائیں، تعمیری بحث اور فکر انگیز تقریریں ہوں ۔رنجش اور دل جلانے والی باتوں سے وقت ضایع نہ کیا جائے۔

ایک خوش گوار بنیادی حقیقت جسے ہم قوم کے منتخب ہونے والے نمایندوں کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں وہ اس ملک کی جمہوری تقدیر ہے۔ یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ ملک میں جمہوری عمل جاری ہے، سابق جمہوری حکومت نے اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ بعض کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باجود اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اب منتقلی اقتدار کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ سب اس نقطے پر متفق ہیں کہ جمہوریت ہی میں پاکستان کی بقا ہے۔ یہ سلطانی جمہور کی جیت ہے۔ قوم کئی بحرانوں سے نمٹ چکی ہے۔ دہشت گردوں سے بھی اہل وطن انشا اﷲ نمٹ ہی لیں گے۔
Load Next Story