لاوارث جیالا
عوام حقیقی جمہوریت کے پہلے تجربے سے گھبرائے ہوئے نہیں بلکہ ڈرے ہوئے ہیں۔
ایسی پھیکی' بدمزہ اور بے رونق الیکشن مہم میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ پولنگ میں صرف 10 روزرہ گئے ہیں لیکن لاہوریوں کو جو الیکشن کا تیز بخار چڑھا کرتا تھا، وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ سڑکوں اور گلیوں میں امیدواروں کی رنگین تصویروں والے دیوہیکل ہورڈنگز ہیں نہ بینرز کی بھرمار' ورنہ لاہور میں الیکشن مہم ایک میلا ہوتا اور راتیں جاگتی تھیں۔
بسوں اور ویگنوں میں بیٹھیں یا کسی دکان پر چلے جائیں، ہر جگہ یہی باتیں ہوتیں کہ کون جیت رہا اور کون ہار رہا ہے۔ مرکزی شاہراہوں کو تو چھوڑیں، کسی محلے کی ایک سڑک پر انتخابی امیدواروں کے کئی کئی دفاتر قائم ہوتے تھے' جہاں شام ڈھلتے ہی کارکنوں اور حمایتیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا' رات نو دس بجے تک چائے چلتی' پھر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد بریانی کی دیگ کا منہ کھل جاتا تھا۔
سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کرتے جس سے غریب کارکنوں کو چار پیسے مل جاتے اور وہ پورا مہینہ بریانی' کڑاہی گوشت اور تکہ کباب کھاتے' ریستورانوں اور تمبو قنات والوں کی چاندی ہو جاتی' چھوٹے چھوٹے پرنٹنگ پریس والے لاکھوں کماتے، پینٹرز وال چاکنگ سے اچھی خاصی کمائی کرلیتے۔ محلوں کے ویلے آوارہ نوجوان امیدواروں کے پوسٹر دیواروں پر چسپاں کرنے کی ڈیوٹی کے عوض چار پانچ سو کی دیہاڑی لگا لیتے لیکن اب کی بار اداسی اور مایوسی چھائی ہوئی ہے۔
عوام حقیقی جمہوریت کے پہلے تجربے سے گھبرائے ہوئے نہیں بلکہ ڈرے ہوئے ہیں۔ پانچ برس میں ان کی جو درگت بنی اس کی ٹیسیں اب تک جسم و جاں میں محسوس ہو رہی ہیں۔ ادھر دہشت گردوں نے ات مچا دی ہے۔ ہر روز دھماکے ہو رہے ہیں اور بے گناہوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ اے این پی' ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ان کے نشانے پر ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ تینوں جماعتیں اپنے کیے کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ خود کو لبرل کہنے والی یہ جماعتیں اپنے گروہی مفادات سے آگے کچھ نہ سوچ سکیں۔ بڑی بڑی آئینی ترامیم تو آسانی سے کر لی گئیں لیکن انتہا پسندوں کو قوت و طاقت فراہم کرنے والی شقیں جوں کی توں برقرار رہیں۔ کیا لبرل جماعتوں کا یہی مینڈیٹ تھا؟ انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کا عزم بھی صرف زبانی حد تک رہا' عملاً طالبان سے مذاکرات کی باتیں کی گئیں اور سوات میں صوفی محمد کے مطالبات کو قانون بنانے کا بل منظور کیا گیا۔ کراچی میں ان تینوں کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی' اس نے دشمن کا کام آسان کر دیا۔
جب بات صرف نسل پرستی ، لسانیت یا وقتی مفاد کی ہو گی تو کوئی دوسرا کسی کے غم میں کیوں شریک ہو گا۔ اب پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی مشترکہ پریس کانفرنس کر رہی ہیں' سیانے کہتے ہیں جو گھونسا وقت پر نہ مارا جائے' اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا حالانکہ اس پر خاموشی اختیار کرکے بھی کام چلایا جاسکتا تھا، پھر پنجاب کو تقسیم کرنے کا علم اٹھا کر وسطی اور شمالی پنجاب میں اپنے امیدواروں کو دیوار سے لگا دیا۔پنجاب کے دوسرے شہروں میں تو شاید کچھ ہو لیکن لاہور میں مجھے تو پارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔
باقی کا تو مجھے پتہ نہیں، حلقہ این اے 126میں تو پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہاں ان کا امیدوار ہے بھی یا نہیں۔ 2008 میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کا امیدوار برائے قومی اسمبلی حسنات شاہ آج شہباز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ اگلے روز رات کو ایک جیالے کو تحریک انصاف کے دفتر میں بیٹھے دیکھا اور اس سے پوچھا، کیا پارٹی بدل لی، وہ دکھ سے بولا، نہیں، ہمارے امیدوار کا کوئی دفتر ہی نہیں ہے، اب ہم نے اس سیاسی موسم میں باہر تو نکلنا ہے، کدھر جائیں۔
میں نے جیالوں کی ایسی بے بسی اور مایوسی کبھی نہیں دیکھی ورنہ لاہور وہ شہر ہے جہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار ہارے یا جیتے' جیالے الیکشن مہم میں جان لڑا دیتے تھے۔ آج لاہور تو کیا پنجاب میں کہیں ایسا بڑا جلسہ نہیں ہوا جس سے جیالوں میں جوش و جذبہ پیدا ہو جائے' کہاں گئے یوسف رضا گیلانی جنہوں نے الیکشن میں پارٹی کو لیڈ کرنا تھا' بغیر لڑے ہتھیار ڈالنا کوئی سیاسی بصیرت نہیں۔
لاہور وہ شہر ہے' جس نے پیپلز پارٹی کو جیالا کلچر بخشا ورنہ کراچی' سندھ یا پشاور کے کارکن کو کوئی جیالا نہیں کہتا۔ ذوالفقار علی بھٹو لاہور کے باغبانپورہ والے حلقے سے خود الیکشن لڑتے تھے' محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی حلقے سے جیتتی تھیں' اس حلقے کو منی لاڑکانہ کہا جاتا تھا لیکن آج یہ منی لاڑکانہ ہی نہیں پورا لاہور اداس ہے۔ صدر زرداری کی جو بھی حکمت عملی ہو لیکن لاہور میں پیپلز پارٹی نہیں ہے تو پھر کہیں بھی نہیں ہے' سندھ کے وڈیروں کا کیا ہے' وہ تو کسی بھی پارٹی میں شامل ہو کر جیت جائیں گے۔
جنوبی پنجاب کے گدی نشین اور جاگیردار بھی چڑھتے سورج کو دیکھ کر سجدہ کرنے والوں میں شامل ہیں' یہ لاہور ہی تھا جہاں سے متوسط طبقے نے پیپلزپارٹی کا جھنڈا اٹھا کر پورے ملک کے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کو چیلنج کیا۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید مرحوم' شیخ رفیق مرحوم' ایس ایم مسعود' حنیف رامے' ملک معراج خالد' اصغر گھرکی اور ملک اختر اسی شہر سے جیتے تھے' پھر طارق رحیم' ارشد گھرکی' اعتزاز احسن اور قاسم ضیاء جیتے' آج لاہور میں پیپلز پارٹی کے امیدوار لاوارث نظر آ رہے ہیں' ایسا نہیں ہے کہ یہاں جیالا ختم ہو گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جیالوں کا وارث ختم ہو گیا' ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کا آخری جلسہ لاہور میں کرتے تھے' پھر وہ حلقے جہاں گھسمان کا رن پڑتا' وہاں پارٹی قیادت اپنے امیدوار کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کھڑی ہوتی اور جیالے جوش و جذبے سے پاگل ہو جاتے۔ بھلا آپ خود ہی سوچیے جوش و جذبہ کے پاگل پن کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا تھا' خاموش ووٹر اس بے اختیار اور بے قابو جذبے والے جیالوں کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار یا تیر پر مہر لگا دیتا تھا' دھاندلی کے باوجود جیالا اپنے امیدوار کو جتوانے میں کامیاب ہو جاتا تھا لیکن آج کا لاہور کچھ اور ہی منظر پیش کر رہا ہے' اب میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے' جیالے حیرانی اور مایوسی سے انتظار کررہے ہیں کہ کب لاہور میں موجود زرداری ہائوس سے نقارہ بجے اور وہ اپنے پاگل جذبوں کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر دیوانہ وار نکل آئیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پس نوشت
فیس بک کالم نگاروں سے میری عاجزانہ بلکہ ملتجیانہ استدعا ہے کہ خدارا اپنے ان الیکٹرانک دوستوں پر رحم کھائیں جنہوں نے آپ کو کنفرم کر کے اپنے لیے سر درد کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ بزعم خویش یہ کالم نگار یا دانشور اپنا ہر فرمودہ فیس بک پر اپ لوڈ کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب بھی فیس بک کھولو' کسی نہ کسی کا کالم منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس طرح دوستوں کو زبردستی کالم پڑھانا' وائٹ کالر دہشت گردی ہے' جو لفظ اخبار میں چھپ گئے' انھیں فیس بک پر اپ لوڈ کرنا ایسا ہی ہے جیسے پیٹ بھر کر کھانا تو کھا لیا لیکن نیت نہیں بھری۔ اگر کسی نے کالم کو کاروبار بنانا ہے اور اپنی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنی ہے تو یہ کام کسی دوست کے سپرد کر دیں جو آپ کا کالم اپنی دیوار پر چسپاں کر دے۔ اس طریقے سے کام بھی ہو جائے گا اور ضمیر بھی مطمئن رہے گا۔ بہرحال یہ میری ذاتی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے فیس بک کالم نگار غصہ نہ کریں۔ بس معاف کر دیں۔
بسوں اور ویگنوں میں بیٹھیں یا کسی دکان پر چلے جائیں، ہر جگہ یہی باتیں ہوتیں کہ کون جیت رہا اور کون ہار رہا ہے۔ مرکزی شاہراہوں کو تو چھوڑیں، کسی محلے کی ایک سڑک پر انتخابی امیدواروں کے کئی کئی دفاتر قائم ہوتے تھے' جہاں شام ڈھلتے ہی کارکنوں اور حمایتیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا' رات نو دس بجے تک چائے چلتی' پھر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد بریانی کی دیگ کا منہ کھل جاتا تھا۔
سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کرتے جس سے غریب کارکنوں کو چار پیسے مل جاتے اور وہ پورا مہینہ بریانی' کڑاہی گوشت اور تکہ کباب کھاتے' ریستورانوں اور تمبو قنات والوں کی چاندی ہو جاتی' چھوٹے چھوٹے پرنٹنگ پریس والے لاکھوں کماتے، پینٹرز وال چاکنگ سے اچھی خاصی کمائی کرلیتے۔ محلوں کے ویلے آوارہ نوجوان امیدواروں کے پوسٹر دیواروں پر چسپاں کرنے کی ڈیوٹی کے عوض چار پانچ سو کی دیہاڑی لگا لیتے لیکن اب کی بار اداسی اور مایوسی چھائی ہوئی ہے۔
عوام حقیقی جمہوریت کے پہلے تجربے سے گھبرائے ہوئے نہیں بلکہ ڈرے ہوئے ہیں۔ پانچ برس میں ان کی جو درگت بنی اس کی ٹیسیں اب تک جسم و جاں میں محسوس ہو رہی ہیں۔ ادھر دہشت گردوں نے ات مچا دی ہے۔ ہر روز دھماکے ہو رہے ہیں اور بے گناہوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ اے این پی' ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ان کے نشانے پر ہیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ تینوں جماعتیں اپنے کیے کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ خود کو لبرل کہنے والی یہ جماعتیں اپنے گروہی مفادات سے آگے کچھ نہ سوچ سکیں۔ بڑی بڑی آئینی ترامیم تو آسانی سے کر لی گئیں لیکن انتہا پسندوں کو قوت و طاقت فراہم کرنے والی شقیں جوں کی توں برقرار رہیں۔ کیا لبرل جماعتوں کا یہی مینڈیٹ تھا؟ انتہا پسندوں کے خلاف لڑنے کا عزم بھی صرف زبانی حد تک رہا' عملاً طالبان سے مذاکرات کی باتیں کی گئیں اور سوات میں صوفی محمد کے مطالبات کو قانون بنانے کا بل منظور کیا گیا۔ کراچی میں ان تینوں کے درمیان جو محاذ آرائی ہوئی' اس نے دشمن کا کام آسان کر دیا۔
جب بات صرف نسل پرستی ، لسانیت یا وقتی مفاد کی ہو گی تو کوئی دوسرا کسی کے غم میں کیوں شریک ہو گا۔ اب پیپلز پارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی مشترکہ پریس کانفرنس کر رہی ہیں' سیانے کہتے ہیں جو گھونسا وقت پر نہ مارا جائے' اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا حالانکہ اس پر خاموشی اختیار کرکے بھی کام چلایا جاسکتا تھا، پھر پنجاب کو تقسیم کرنے کا علم اٹھا کر وسطی اور شمالی پنجاب میں اپنے امیدواروں کو دیوار سے لگا دیا۔پنجاب کے دوسرے شہروں میں تو شاید کچھ ہو لیکن لاہور میں مجھے تو پارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔
باقی کا تو مجھے پتہ نہیں، حلقہ این اے 126میں تو پیپلز پارٹی کے کئی کارکنوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہاں ان کا امیدوار ہے بھی یا نہیں۔ 2008 میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کا امیدوار برائے قومی اسمبلی حسنات شاہ آج شہباز شریف کے ساتھ کھڑا ہے۔ اگلے روز رات کو ایک جیالے کو تحریک انصاف کے دفتر میں بیٹھے دیکھا اور اس سے پوچھا، کیا پارٹی بدل لی، وہ دکھ سے بولا، نہیں، ہمارے امیدوار کا کوئی دفتر ہی نہیں ہے، اب ہم نے اس سیاسی موسم میں باہر تو نکلنا ہے، کدھر جائیں۔
میں نے جیالوں کی ایسی بے بسی اور مایوسی کبھی نہیں دیکھی ورنہ لاہور وہ شہر ہے جہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار ہارے یا جیتے' جیالے الیکشن مہم میں جان لڑا دیتے تھے۔ آج لاہور تو کیا پنجاب میں کہیں ایسا بڑا جلسہ نہیں ہوا جس سے جیالوں میں جوش و جذبہ پیدا ہو جائے' کہاں گئے یوسف رضا گیلانی جنہوں نے الیکشن میں پارٹی کو لیڈ کرنا تھا' بغیر لڑے ہتھیار ڈالنا کوئی سیاسی بصیرت نہیں۔
لاہور وہ شہر ہے' جس نے پیپلز پارٹی کو جیالا کلچر بخشا ورنہ کراچی' سندھ یا پشاور کے کارکن کو کوئی جیالا نہیں کہتا۔ ذوالفقار علی بھٹو لاہور کے باغبانپورہ والے حلقے سے خود الیکشن لڑتے تھے' محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی حلقے سے جیتتی تھیں' اس حلقے کو منی لاڑکانہ کہا جاتا تھا لیکن آج یہ منی لاڑکانہ ہی نہیں پورا لاہور اداس ہے۔ صدر زرداری کی جو بھی حکمت عملی ہو لیکن لاہور میں پیپلز پارٹی نہیں ہے تو پھر کہیں بھی نہیں ہے' سندھ کے وڈیروں کا کیا ہے' وہ تو کسی بھی پارٹی میں شامل ہو کر جیت جائیں گے۔
جنوبی پنجاب کے گدی نشین اور جاگیردار بھی چڑھتے سورج کو دیکھ کر سجدہ کرنے والوں میں شامل ہیں' یہ لاہور ہی تھا جہاں سے متوسط طبقے نے پیپلزپارٹی کا جھنڈا اٹھا کر پورے ملک کے جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کو چیلنج کیا۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید مرحوم' شیخ رفیق مرحوم' ایس ایم مسعود' حنیف رامے' ملک معراج خالد' اصغر گھرکی اور ملک اختر اسی شہر سے جیتے تھے' پھر طارق رحیم' ارشد گھرکی' اعتزاز احسن اور قاسم ضیاء جیتے' آج لاہور میں پیپلز پارٹی کے امیدوار لاوارث نظر آ رہے ہیں' ایسا نہیں ہے کہ یہاں جیالا ختم ہو گیا۔
اصل بات یہ ہے کہ جیالوں کا وارث ختم ہو گیا' ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کا آخری جلسہ لاہور میں کرتے تھے' پھر وہ حلقے جہاں گھسمان کا رن پڑتا' وہاں پارٹی قیادت اپنے امیدوار کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر کھڑی ہوتی اور جیالے جوش و جذبے سے پاگل ہو جاتے۔ بھلا آپ خود ہی سوچیے جوش و جذبہ کے پاگل پن کے سامنے کون کھڑا ہو سکتا تھا' خاموش ووٹر اس بے اختیار اور بے قابو جذبے والے جیالوں کو دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار یا تیر پر مہر لگا دیتا تھا' دھاندلی کے باوجود جیالا اپنے امیدوار کو جتوانے میں کامیاب ہو جاتا تھا لیکن آج کا لاہور کچھ اور ہی منظر پیش کر رہا ہے' اب میاں نواز شریف اور عمران خان کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے' جیالے حیرانی اور مایوسی سے انتظار کررہے ہیں کہ کب لاہور میں موجود زرداری ہائوس سے نقارہ بجے اور وہ اپنے پاگل جذبوں کے ساتھ لاہور کی سڑکوں پر دیوانہ وار نکل آئیں۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
پس نوشت
فیس بک کالم نگاروں سے میری عاجزانہ بلکہ ملتجیانہ استدعا ہے کہ خدارا اپنے ان الیکٹرانک دوستوں پر رحم کھائیں جنہوں نے آپ کو کنفرم کر کے اپنے لیے سر درد کا سامان پیدا کر لیا ہے۔ بزعم خویش یہ کالم نگار یا دانشور اپنا ہر فرمودہ فیس بک پر اپ لوڈ کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب بھی فیس بک کھولو' کسی نہ کسی کا کالم منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس طرح دوستوں کو زبردستی کالم پڑھانا' وائٹ کالر دہشت گردی ہے' جو لفظ اخبار میں چھپ گئے' انھیں فیس بک پر اپ لوڈ کرنا ایسا ہی ہے جیسے پیٹ بھر کر کھانا تو کھا لیا لیکن نیت نہیں بھری۔ اگر کسی نے کالم کو کاروبار بنانا ہے اور اپنی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنی ہے تو یہ کام کسی دوست کے سپرد کر دیں جو آپ کا کالم اپنی دیوار پر چسپاں کر دے۔ اس طریقے سے کام بھی ہو جائے گا اور ضمیر بھی مطمئن رہے گا۔ بہرحال یہ میری ذاتی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے فیس بک کالم نگار غصہ نہ کریں۔ بس معاف کر دیں۔