’کتابوں کی دنیا سلامت رہے‘

وہ جانتے ہیں کہ کتاب سے محبت میں گرفتاری کی عمر وہ ہوتی ہے جب آنکھوں میں جگنو چمکتے ہیں

zahedahina@gmail.com

پیڑوں سے ڈھکی ہوئی مرگلہ کی گہری سبز پہاڑیاں دھوپ کا سنہرا آنچل اوڑھے پاک چین دوستی کے ایوان کی طرف دیکھتی ہیں۔ اس کے پیش دالان میں کچھ ادیب ایک اسٹیج پر کھڑے ہیں۔ ان کے قدموں کے نیچے سرخ دری ہے۔

انتظار حسین، مسعود اشعر، مستنصر حسین تارڑ، محمود شام، عطاء الحق قاسمی، اسد محمد خان، فتح محمد ملک، عقیل روبی، جاوید جبار، قوی خان، چین کے اردو دان تانگ من شن، امجد اسلام امجد، ناصر علی سید اور ان نامی گرامی ادیبوں کے ساتھ یہ حقیر فقیر بھی کھڑی ہے۔ بلوم فیلڈ ہائی اسکول کی بچیاں اور بچے مارچ کرتے اور کتاب میلے کے ترانے کی دھن پر بڑھے چلے آتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کرنے والی بچی چند لمحوں کے لیے اسٹیج کے سامنے رکتی ہے۔ دوسرے بچے اور بچیاں بھی رک جاتی ہیں۔ وہ بچی انتظار صاحب کو سیلوٹ کرتی ہے اور ادب سے انھیں ان کا ناول ''بستی'' پیش کرتی ہے۔

دھن پھر شروع ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی بچوں کا مارچ پاسٹ بھی۔ ہر بچی اور بچے کے پاس ہم لوگوں کی کتابیں ہیں۔ کسی نے مستنصر حسین تارڑ کاناول ''اے غزالِ شب'' اٹھا رکھا ہے۔ کوئی عقیل روبی کی کتاب ''علم و دانش کے معمار'' سنبھالے ہوئے ہے۔ ایک بچی میری کہانیوں کا مجموعہ ''تتلیاں ڈھونڈنے والی''اٹھائے چل رہی ہے۔

وقار النساء نون اسکول کے بچوں نے یہ گیت سنا کر دل شاد کررہے ہیں کہ ''کتابوں کی دنیا سلامت رہے ... تا قیامت رہے''۔ بچے یہ گیت گا رہے ہیں اور ہم اس کے آہنگ کے ساتھ جھوم رہے ہیں۔ ادیبوں اور ان کی کتابوں کی یہ توقیر اس سے پہلے بھلا کب ہوئی تھی۔ اپنے عہد کے منفرد ادیب اور مستعد منتظم، نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر مظہر الاسلام کو مبارکباد کہ فاؤنڈیشن کی سربراہی سنبھالنے کے بعد وہ سال بہ سال کتابوں سے محبت کے اس میلے کا اہتمام کرتے ہیں۔

ادیب اور دانشور رفتہ رفتہ ہمارے سماج کے حاشیوں پر دھکیل دیے گئے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مہذب اور روادار رویے آج بھولی بسری بات ہوچکے ہیں اور انتہا پسندی، دہشت گردی اور بات بے بات قتل و غارت گری ہمارے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ آج جب ہم اس الم ناک صورت حال پر واویلا کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی ذمے داری ہم پر بھی ہے۔ تمام دوش آمروں اور سیاست دانوں کے سر ڈال کر اپنی غلط کاریوں پر ہم اتنی آسانی سے پردہ نہیں ڈال سکتے۔

حرام کمائی سے تعمیر ہونے والے محل، غلط راستوں سے آنے والی دولت جس سے دنیا کی تمام آسائشیں خرید کر ہم لقمۂ حلال کمانے والوں اور تنگی ترشی سے زندگی گزارنے والوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرتے رہے۔ وہ تہذیب جو اپنے استادوں کی جوتیاں سیدھی کرنے اور سر پر اٹھاکر چلنے کو وجہ افتخار جانتی تھی، وہ اردو ادب جس میں اشفاق احمد کا بے مثال استاد ''داؤ جی'' سانس لیتا تھا، جہاں طاق میں رکھی ہوئی کتابوں اور اوطاق میں قدم رکھنے والے اہل علم سے قربت پر ناز کیا جاتا تھا۔

وہاں بڑائی کے تمام معیار بدل چکے ہیں۔ معمولی سرکاری اہل کاروں کے بچے اپنی مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو میں گھر سے باہر قدم رکھیں تو ان کی حفاظت کے لیے مسلح گارڈ ساتھ چلتے ہیں جو بگڑے ہوئے ان رئیس زادوں کے اشارۂ ابرو پر کسی دوسرے نوجوان کا سینہ گولیوں سے چھلنی کردیتے ہیں۔

ایک ایسے ہنگامۂ دار و گیر میں مظہر الاسلام اور ان کی رہنمائی میں کام کرنے والے اگر کتابوں اور ان کے لکھنے والوں سے نئی نسل کا رشتہ پھر سے جوڑنے کی جدوجہد کررہے ہیں تو یہ سچا جہاد ہے۔ اس میں انسانوں اور عمارتوں کے پرخچے نہیں اڑتے۔ یہ جہاد ذہنوں میں سوال اٹھاتا ہے، ماضی سے رشتہ جوڑتا ہے، حال کے مسائل و معاملات کو حل کرنے کے راستے دکھاتا ہے اور مستقبل کی تعمیر کے لیے ذہن کو آمادہ کرتا ہے۔ مظہر الاسلام کو پاکستان کے تمام کتاب دوستوں اور سماج کی زبوں حالی سے پریشان لوگوں کا سلام پہنچے۔


وہ جانتے ہیں کہ کتاب سے محبت میں گرفتاری کی عمر وہ ہوتی ہے جب آنکھوں میں جگنو چمکتے ہیں اور ذہن خواب و خیال کے اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر کبھی آسمان کی خبر لاتا ہے اور کبھی دریاؤں، سمندروں کی گہرائیوں میں اڑن کشتی بن جاتاہے، مونگے و مرجان سمیٹتا ہوا، ساحل سے گھونگھے اور سیپیاں چنتا ہوا۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن نے خوب کیا کہ ادیبوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا لیکن ان کے اصل مہمان تو وہ بچے تھے جو اسکولوں اور گھروں سے جوق در جوق آئے اور کتابوں کی ان دکانوں پر پھیل گئے جہاں ان کے لیے کہانیاں تھیں، دنیا اور کائنات کے بارے میں ان کے تجسس کی تسکین کرنے والی کتابیں تھیں، تاریخ اور جغرافیہ، حساب، جیومیٹری اور کمپیوٹر کی گتھیاں سلجھانے والے جرنل تھے اور ان سب پر بھاری دنیا بھر کے ادب کی سوغات تھی۔

الف لیلہ کا سند باد جہازی اور الہٰ دین کا چراغ تھا، سینڈریلا اور اسنو وہایٹ کا قصہ، مُلا نصیر الدین اور وتایو فقیر کے معصومانہ لطیفے جنھیں پڑھ کر بچے تو ایک طرف رہے بوڑھے بھی لوٹ پوٹ ہوجائیں۔ میلے میں درجنوں بک اسٹال تھے، بچے جن سے تھیلے بھر کر کتابیں لے گئے۔ شاید یہ کہنا درست ہو کہ وہ اپنے بڑوں کی جیبیں خالی کرکے اپنے لیے خواب لے گئے۔ وہ خواب جو ان کے اندر زندگی بھر سفر کرتے رہیں گے اور انھیں ایک بہتر اور درد مند انسان بنائیں گے۔

تین دن کا یہ کتاب میلہ آغاز کے لمحوں سے اپنے اختتام تک روح پرور اور زندگی آموز رہا۔ کہیں بڑوں نے اپنی کہانیاں سنائیں اور سننے والوں نے ان سے سوال در سوال کیے اور کہیں بچوں کو کہانیاں سنائی گئیں۔ ان سے تصویریں بنوائی گئیں اور کتابوں سے انھیں رجھانے کی خوب خوب کوششیں کی گئیں۔

نرگس سیٹھی نے کتابوں کے جھنڈے کی پرچم کشائی کی۔ اس برس ملک کے سب سے بڑے 'پڑھاکو' کی سند اور ایک لاکھ روپے وجاہت مسعود سمیٹ لے گئے۔بہت پڑھنے والے بچوں کو بھی تعریفی سند اور کچھ نقد انعام دیا گیا۔ بچوں کے چمکتے ہوئے چہرے اور ان کی تالیوں کی گونج سننے اور دیکھنے کی چیز تھی۔ ہم بڑے ان بچوں پر رشک کرتے رہے جنھیں ریشم جیسے چمکیلے صفحوں پر چار رنگوں میں چھپی ہوئی کتابیں میسر ہیں، ورنہ ایک ہم تھے کہ نہایت معمولی نیوز پرنٹ پر لیتھو میں چھپی ہوئی کتابوں کو دولت کی طرح سنبھال کر رکھتے تھے۔ ایسی کئی کتابیں آج بھی میرے پاس ہیں۔ میں ان کا احسان کبھی نہیں بھول سکتی کہ انھوں نے مجھے حکمت کے دو حرف سکھائے اور انسان پرستی کا روشن راستہ دکھایا۔

اب قدرے بات ہمارے اہم ادیبوں کی بھی ہوجائے جنہوں نے کتاب میلے میں اپنی تخلیقات سنائیں۔ انتظار صاحب ادیبوں کے سرخیل ہیں، وہ موجود ہوں تو کس کی مجال ہے کہ ان سے پہلے کچھ کہے یا پڑھے۔ انھوں نے اپنے ناول ''بستی'' کے اقتباسات سنائے اور لوگوں نے دل کھول کر داد دی۔ مسعود اشعر نے ''خدا حافظ'' اور ''اللہ حافظ'' کے موضوع پر ایک دلچسپ کہانی سنائی۔ اسد محمد خان نے اپنی کہانیوں سے چندٹکڑے پیش کیے اور ہال میں داد و تحسین کے کلمات گونجتے رہے۔ عطاء الحق قاسمی زہر کو شکر میں لپیٹ کر دینے میں ماہر ہیں سو لوگ ہنستے بھی رہے اور سوچتے بھی رہے کہ بعض جملوں پر کیوں نہ آنسو بہائے جائیں۔ مستنصر حسین تارڑ کی لکھت لوگوں کا دل موہ لیتی ہے۔ انھوں نے اپنے نئے ناول ''اے غزالِ شب'' کے چند ٹکڑے سنائے ۔ سوویت یونین کے دور عروج میں ادھر کا رخ کرنے والے نوجوانوں کا قصہ جو آخر کو پہنچتے پہنچتے ایک نالۂ دل گیر بن جاتا ہے۔

کتابوں کی خواندگی کی یہ محفل بہت دلچسپ تھی اور فکر انگیز بھی۔ جاوید جبار نے اپنے مجموعۂ مضامین سے کئی ٹکرے سنائے جنھیں لوگوں نے پسند کیا اور کچھ سوال بھی کیے لیکن ہمارے آج کے سیاسی حالات کے پس منظر میں سینیٹر میاں رضا ربانی کی کتاب ''دی بائیو گرافی آف پاکستانی فیڈریشن ازم'' نہایت اہم اور خیال پرور ہے۔ اس کا تعارف ڈاکٹر ظفر اللہ خان نے بہت جامع انداز میں کرایا۔ میاں رضا ربانی سے بہت چبھتے ہوئے سوال پوچھے گئے جن کے جواب انھوں نے ایمانداری سے دیے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہیے، اس لیے اس کا ذکر میں کسی اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتی ہوں۔

اس کتاب میلے کے تعارفی کتابچے میں بعض پرانے ادیبوں کے ایسے جملے ہیں جو آج بھی نئے نکور ہیں۔ سترھویں صدی میں سانس لینے والے ایک فرانسیسی ادیب کا یہ جملہ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ''اگر میرے قدموں میں دنیا کی تمام بادشاہتوں کے تاج و تخت ڈال دیے جائیں اور مجھ سے کہا جائے کہ میں ان کے عوض مطالعے کے عشق سے دست بردار ہوجاؤں تو میں ایسی کسی بھی پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا کردوں گا۔''

کتابوں سے ایسا ہی عشق ہماری نئی نسل کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے طاعون سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
Load Next Story