مزدوروں کے حقوق

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اتنے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ یکم مئی کا دن کیوں مناتے ہیں؟

ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ قبل اس کہ اس کا پس منظر بیان کیا جائے کہ دنیا بھر کے مزدور اس دن کو کیوں مناتے ہیں، ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ مزدور ہے کیا؟ تو ہر وہ فرد یا افراد جو نہ تو ذاتی سرمایہ رکھتے ہیں اور نہ ملکیت بلکہ فروخت کے لیے جو چیز ان لوگوں کے پاس ہوتی ہے وہ ہے ان لوگوں کی محنت۔ ایسے لوگوں میں مل مزدور، دفتری ملازمین، ٹیکنیشن، چھوٹے تاجر، وکلاء، صحافت سے وابستہ افراد و دیگر محنت کش لوگ شامل ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اتنے جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ یکم مئی کا دن کیوں مناتے ہیں؟ یا یہ بات ہم اس طرح بھی کرسکتے ہیں کہ آخر یکم مئی کی ہمارے نزدیک کیا اہمیت ہے؟ یہ سب معلوم کرنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا۔ یہ ہے امریکا کا صنعتی شہر شکاگو۔ یہاں ریلوے ورکشاپ ہے جہاں ہزاروں مزدور شب و روز محنت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گودی مزدور ہیں، گوشت بنانے والے کارخانے بھی جہاں اچھی خاصی تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں اور وہاں مکورمک کا ٹریکٹر بنانے کا کارخانہ بھی اسی شہر شکاگو میں موجود ہے۔

اس کارخانے میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے یہ مزدور ٹریکٹر تیارکرتے ہیں تاکہ زمین کا سینہ چیر کر اناج حاصل کیا جاسکے جب کہ مکورمک خاندان آج بھی امریکا کے 50 امیر ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے جب کہ شکاگو امریکا کا سب سے بڑا ریلوے جنکشن بھی ہے۔ شکاگو سے فیلے ڈیلفیا، لاس اینجلس، باٹلی مور، بوسٹن، مونٹ ریل، نیویارک کو ریلیں جاتی ہیں، لیکن آج یکم مئی 1886 کے دن سب کے سب کارخانے بند اور ریلوے سروس معطل ہے۔ آج بھی چوڑی چھاتی والے اور پھٹے لباس والے مزدور شکاگو کے بازاروں اور سڑکوں پر نکلے ہیں۔

آج یہ مزدور پرامن احتجاج کریں گے اور ہاں ایک مقام پر جلسے کا پروگرام بھی ہے۔ شکاگو شہر میں آج مکمل ہڑتال ہے۔ مزدور مکمل طور پر پرامن ہیں۔ ان مزدوروں کے ہاتھوں میں جھنڈے ہیں۔ جی ہاں! سفید جھنڈے کیونکہ سفید جھنڈا ہر دور میں امن کی علامت رہا ہے۔ اگر یہ مزدور پرامن نہ ہوتے تو ان کے ہاتھوں میں سفید جھنڈے نہیں بلکہ اسلحہ ہوتا۔ یہ سب مزدور شہر کے بیچوں بیچ ایک مقام پر جمع ہوچکے ہیں۔ جلسہ شروع ہوچکا ہے۔ مزدوروں کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ ان کے کام کے گھنٹے جوکہ 14سے 16 گھنٹے ہیں ان میں تخفیف کرکے 8 گھنٹے کیے جائیں۔

پھر کیا تھا، شکاگو کے حاکموں کی پالی ہوئی پولیس اور فیڈرل حکومت کی فوج ان مزدوروں پر چاروں جانب سے حملہ آور ہوچکی ہے، گولیوں اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے، ذرا سی دیر میں شکاگو کی سڑکیں خون سے تر ہوجاتی ہیں، یہ خون تھا مزدوروں کا، یہ خون تھا پھٹی ہوئی پتلونوں اور چوڑی چھاتی والے محنت کشوں کا، مٹھی بھر سرمایہ داروں کی حفاظت کو آئے ہوئے ان ریاستی غنڈوں نے اتنا خون بہایا کہ مزدوروں کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے سفید جھنڈے جوکہ امن و آشتی کی علامت تھے سرخ ہوچکے تھے۔


ریاستی پولیس اور فوج کی بربریت کے سبب 10 مزدور شہید ہوچکے تھے اور مجروح ہونے والوں کی تعداد کسی گنتی شمار میں نہ تھی۔ شکاگو کے مزدور گھرانوں میں صف ماتم برپا تھی۔ یکم مئی کی شام شکاگو کے مزدوروں کے لیے شام غریباں کے مثل تھی۔ یکم مئی کی شب آہوں اور سسکیوں میں بیت گئی اور 2 مئی 1886 کی صبح طلوع ہوئی۔ آج کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ دھوپ کی تپش اپنے عروج پر تھی۔ آج ایک مزدور دوست اخبار نے لکھا تھا۔ مزدوروں کی لڑائی شروع ہوچکی ہے، مزدوروں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے، سرمایہ داری اپنے خونی پنجوں کو نظام میں چھپائے ہوئے ہے۔

مزدور تمہارا یہ نعرہ ہونا چاہیے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یکم مئی کی تاریخ کی اہمیت آنے والے زمانے میں سمجھی جائے گی۔سرمایہ دار بغیر لڑائی کے کام کے گھنٹے کم نہیں کریں گے۔ آج بھی مزدوروں نے ایک احتجاجی جلسے کا پروگرام رامذ بازار کی ہی مارکیٹ کے مقام پر رکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا آج کے جلسے میں آویزاں جھنڈے کل شہید و زخمی ہونے والے مزدوروں کے خون سے سرخ تھے۔ آج بھی ریاستی غنڈوں نے زور بازو خوب آزمایا۔ آج بھی بڑی تعداد میں مزدور شہیدوزخمی ہوئے تھے۔اس تمام ریاستی تشدد کو بلوے کا نام دیا گیا۔

بہت سارے مزدور گرفتار ہوئے، ریاست خود ہی مدعی تھی اور خود ہی منصف۔ انصاف کی توقع عبث تھی۔ چار مزدوروں کو سزائے موت سنادی گئی، ان چار مزدوروں میں خوبرو رابرٹ تھا۔ دبلا ، پتلا، فشر تھا، اینجل تھا، ایک اور ضعیف العمر مزدور تھا یہ وہ لوگ تھے جو جان دے کر امر ہوگئے۔ ان لوگوں کے آخری الفاظ کچھ اس طرح تھے۔ فشر نے کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے کام کے لیے جان دے رہے ہیں۔ اینجل نے لب کشائی کچھ اس طرح کی کہ تم ہمیں مار سکتے ہو، لیکن ہماری تحریک کو نہیں مارسکتے۔

رابرٹ اس خوبرو رابرٹ نے کہا کہ تم اس آواز کو بند کرسکتے ہو، لیکن ایک دن آئے گا جب ہماری خاموشی،ہماری آواز سے زیادہ زور دار ہوگی اور چوتھے بوڑھے مزدور کی آواز زندان میں یوں گونجی حاکموں غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو۔ ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی اس وقت یہ لڑائی سرمایہ داروں نے جیت لی، لیکن یہ جیت عارضی ثابت ہوئی۔ کیونکہ یہ جدوجہد شکاگو سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی اور اکثر ممالک میں مزدور کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔ البتہ پاکستان سمیت کچھ اور ممالک میں مزدور اپنے بنیادی حقوق سے اب تک محروم ہیں۔

ان لوگوں کو اگر سماجی تبدیلی لانی ہے تو پھر جان لو سماجی تبدیلی سے قبل معاشی تبدیلی لانا ہوگی، کیونکہ سماجی تبدیلی مشروط ہے۔ معاشی تبدیلی سے اور تمہاری کامیابی کی صرف ایک بنیاد موجود ہے۔ وہ تمہاری تعداد، لیکن تعداد بھی صرف اسی صورت میں توازن کا پلڑا تمہارے حق میں جھکاسکتی ہے جب تم متحد ہو اور علم تمہاری قیادت کرے۔ آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا دنیا کے مزدورو! ایک ہوجاؤ۔
Load Next Story