ماں کا کردار اور ہمارا معاشرہ
شوہر کی حیثیت و اہمیت اس کے نزدیک شرعی شوہر یا مجازی خدا کے بجائے محض ایک کیشیئر کی سی ہے۔
لفظ ''ماں'' کہہ دینا بلاشبہ دنیا کا آسان ترین کام ہے، مگر آپ نہیں جانتے کہ اس لفظ سے منسوب اس عورت میں کیا کیا حکمتیں پنہاں ہیں۔ ہر عورت ماں تو بن جاتی ہے مگر جو درجہ اللہ تعالی نے اس مقدس رشتہ کو عطا کیا ہے اس کے درجات سے آج کی عورت قطعاً ناواقف ہے۔
شوہر کی حیثیت و اہمیت اس کے نزدیک شرعی شوہر یا مجازی خدا کے بجائے محض ایک کیشیئر کی سی ہے اور اس کی اولاد اس کے بقول محض ''بیچاری'' ہے۔ یعنی اللہ کے بعد اپنے شوہر کی پرستش جو حقیقت میں راہ نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب کہ شوہر نے اپنی محدود آمدنی میں رہتے ہوئے اس کو ایک پرسکون گھر کی چھت فراہم کرتا ہے اور رزق حلال کا ذریعہ ہے۔
شریعت کہتی ہے کہ جب حصول روزگار سے تھک ہار کر گھر لوٹے تو اس کا ہنسی خوشی استقبال کرو تاکہ تمھیں دیکھ کر اس کی تھکاوٹ دور ہوسکے۔ مگر صد افسوس آج کی بیوی تمام دن اپنے وقت ایئر کنڈیشنڈ بیڈ پر سونے کے بعد جب شوہر کے گھر آنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ مصلہ بچھا کر نماز کے لیے بیٹھ جاتی ہے۔ کیا یہی اسلامی تعلیما ت ہیں؟
عورت کی عظمت دیکھنی ہو تو کربلا کے میدان میں دیکھو کہ کس طرح سے شانہ بشانہ شیر خوار لخت جگروں کے ساتھ تپتے ہوئے صحر اؤں کی سرزمین پر اپنے شوہروں کے ساتھ درپیش ہر مصائب کا جوانمردی اور صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس ضمن میں مودبانہ عرض ہے کہ ایک ترقی یافتہ تہذیبی معاشرہ دیکھنا ہو تو ماں کے کردار کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ اسی لیے چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ ''مجھے اچھی مائیں دو، میں ایک اچھی قوم دوں گا''۔
اسلامی معاشرہ میں ''ماں کا عالمی دن'' منانے کا مقصد بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ ماں کے رشتہ میں سجی یہ عورت جسے صنف نازک کا درجہ حاصل ہے، اپنے وجود کو بھلا کر اپنے افراد خانہ کے لیے بلامشروط وقف کردیتی ہے۔ وگرنہ ایسی ماؤں کی طویل فہرست بھی ہمارے سامنے ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص کو چوری کے الزام میں عدالت سے پھانسی کی سزا کا حکم ہوا۔
پھانسی سے چند گھنٹہ قبل اس سے زندگی کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میری ماں کو مجھ سے ملوایا جائے۔ لہٰذا اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے ماں کو ملزم سے ملوایا گیا۔ ملزم نے ماں سے کہا کہ میرے قریب آؤ۔ جیسے ہی ماں اس کے قریب آئی ، اس نے ماں کے کان پر زور سے کاٹ لیا۔ جیلر نے کاٹنے کی وجہ پوچھی تو ملزم نے بتایا کہ پہلے ہی دن چوری پر ماں مجھے روکتی یا سزا دیتی تو آج میں اس عذاب کن سزا سے دوچار نہیں ہوتا۔
درحقیقت ایک عظیم عورت کے مقدس روپ میں ''ماں '' ایک حساس معاشرتی و سماجی احساس ذمے داری کا نام ہے جو بلاشبہ اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ازدوجی زندگی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں میں ہم آہنگی اور توازن کا ہونا لازمی امر ہے۔ جو ایک اچھے خاندان کی ارتقائی روایت کا سبسب بنتی ہے۔ اس میں زیادہ تر انحصار عورت ہی کا نمایاں نظر آ تا ہے۔
اولاد نرینہ اللہ تعالی کی پاک ذات کی طرف سے ایک بہترین انعام ہے۔ پرورش اورتربیت اولاد ماں کی اولین ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔دو یا تین عشروں تک ہم نے دیکھا کہ والدین کے حکم سے مغرب کے بعد بچے گھر سے باہر نظر نہیں آتے تھے۔ آج اولاد سرکش ہو چکی ہے۔ ماں باپ کے احکامات کو نہیں مانتی۔
کہا جاتا ہے کہ ''ماں کے پیروںِ تلے جنت'' ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال ہر با شعور افراد کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے کہ کیا آج کی ماں اس روحانی درجہ کی حقدار ہے ؟ جب کہ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں پوری دنیا میں حقوق نسواں کی بات کی جا رہی ہے اور مادیت پرستی اور سائنس و ٹکینالوجی کی ہوشربا ترقی کی اس دوڑ میں جہا ں انسان کی ضروریات زیادہ اور وسائل کم ہوں وہاں صرف ایک مرد کی کمائی سے گھر کا کچن نہیں چلتا، اس لیے آج کی عورت کو بحالت مجبوری مرد کے شانہ بشانہ روزگار کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور یوں مرد بھی کچن کے کاموں کا برابر کا حصہ دار ہے۔
اسی لیے تو ملک میں کھانا پکانے کی صنعت ایک منافع بخش کاروبار اختیار کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے گھروں میں روایتی کھانوں کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہی ماں کی آغوش ہے۔ میں خود اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ بعض مائیںشوہر کے گھر سے نکلنے کے بعد بے لگام انداز میں بچوں کے ساتھ خوش گپیاں یا اپنی دلچسپی کی باتیں کرنی شروع کر دیتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ باپ گھر سے جاتے ہوئے بچوں کو کام مکمل کرنے کی تاکید کرگئے ہوں۔
ماں کے اس خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے بچے باپ کے رعب نما رویے کی شکایت ماں سے کرتے ہیں۔ ماں بجائے بچوں کو سمجھانے کے ان کی ہا ں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے کچے ذہنوں میں باپ کو ایک ظالم شخص گردانتی ہیں۔ باپ کی اس سختی اور گھریلو نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں وہ بسا اوقات بیماریوں کا شکا ر ہونے لگتا ہے، لامحالہ جلد ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔
ایسی ہی ماؤں کو ہم نے اولڈ ہاؤسز میں ہی پایا۔ جب کہ اسکولوں میں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کا سرسری جائزے کے لیے ٹیچرز پیرنٹس میٹنگ میں ماؤں کا حاضر نہ ہونا ماؤں کی طرف سے عدم توجہی کے رویہ سے اولاد کی تعلیم میں طویل خلا پیدا ہوسکتا ہے، جو شاید ہی زندگی میں پورا ہوسکے۔ نیک اور صالح اور قابل اولاد اسی صورت مل سکتی ہے جب مجموعی طور پر والدین کا رویہ ''کھلائے سونے کا نوالہ اور دیکھے شیر کی نظر سے'' ہو۔
اولاد کی تربیت میں والدین کی تربیت کا حصہ متوازی ہونا چاہیے اور جس کے لیے میاں بیوی کے آپس کے معاملات میں بلامشروط قوی ہم آ ہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اولاد کے ساتھ ماں باپ کا اختلافی برتاؤ اولاد میں بھی اختلافات کو جنم دینے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ ماں کی طرف سے بے جا لاڈ پیار ان کی اچھی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ متروکہ املاک کی باہمی تقسیم نے اولاد کو ملکی عدالتوں کی دہلیز تک کا محتاج کردیا ہے۔
اولڈ ہومز کا دن بدن بڑھتا ہوا رجحان اسی ازدوجی خرابیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد ماں ہر صورت میں بچوں پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے اور اگر اولاد میں سے جو اس کی نا فرمانی کرے تووہ اسے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے، خواہ اس نے اس کو ڈبے کا دودھ ہی پلایا ہو۔ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ جس سماجی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی اکھاڑ پچھاڑ و ا نتشار کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ میں ایسے ہی عوامل کارفرما ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ جدید دنیا کے انسانی ہاتھوں میں موجود انٹرنیٹ کی جدید ایجاد ''اسمارٹ موبائل'' نے دنیا کو گلوبل ولیج کی جگہ گلوبل ہٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب نوجوان نسل گھروں میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اسی انسٹرومنٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں۔ ماں کا عالمی دن اور باپ کا عالمی دن اسی چھوٹے سے انسٹرومنٹ کا ہی تو کمال ہے۔
شوہر کی حیثیت و اہمیت اس کے نزدیک شرعی شوہر یا مجازی خدا کے بجائے محض ایک کیشیئر کی سی ہے اور اس کی اولاد اس کے بقول محض ''بیچاری'' ہے۔ یعنی اللہ کے بعد اپنے شوہر کی پرستش جو حقیقت میں راہ نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب کہ شوہر نے اپنی محدود آمدنی میں رہتے ہوئے اس کو ایک پرسکون گھر کی چھت فراہم کرتا ہے اور رزق حلال کا ذریعہ ہے۔
شریعت کہتی ہے کہ جب حصول روزگار سے تھک ہار کر گھر لوٹے تو اس کا ہنسی خوشی استقبال کرو تاکہ تمھیں دیکھ کر اس کی تھکاوٹ دور ہوسکے۔ مگر صد افسوس آج کی بیوی تمام دن اپنے وقت ایئر کنڈیشنڈ بیڈ پر سونے کے بعد جب شوہر کے گھر آنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ مصلہ بچھا کر نماز کے لیے بیٹھ جاتی ہے۔ کیا یہی اسلامی تعلیما ت ہیں؟
عورت کی عظمت دیکھنی ہو تو کربلا کے میدان میں دیکھو کہ کس طرح سے شانہ بشانہ شیر خوار لخت جگروں کے ساتھ تپتے ہوئے صحر اؤں کی سرزمین پر اپنے شوہروں کے ساتھ درپیش ہر مصائب کا جوانمردی اور صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا۔ اس ضمن میں مودبانہ عرض ہے کہ ایک ترقی یافتہ تہذیبی معاشرہ دیکھنا ہو تو ماں کے کردار کا مشاہدہ کرنا ہوگا۔ اسی لیے چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ ''مجھے اچھی مائیں دو، میں ایک اچھی قوم دوں گا''۔
اسلامی معاشرہ میں ''ماں کا عالمی دن'' منانے کا مقصد بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ ماں کے رشتہ میں سجی یہ عورت جسے صنف نازک کا درجہ حاصل ہے، اپنے وجود کو بھلا کر اپنے افراد خانہ کے لیے بلامشروط وقف کردیتی ہے۔ وگرنہ ایسی ماؤں کی طویل فہرست بھی ہمارے سامنے ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص کو چوری کے الزام میں عدالت سے پھانسی کی سزا کا حکم ہوا۔
پھانسی سے چند گھنٹہ قبل اس سے زندگی کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میری ماں کو مجھ سے ملوایا جائے۔ لہٰذا اس کی خواہش پوری کرتے ہوئے ماں کو ملزم سے ملوایا گیا۔ ملزم نے ماں سے کہا کہ میرے قریب آؤ۔ جیسے ہی ماں اس کے قریب آئی ، اس نے ماں کے کان پر زور سے کاٹ لیا۔ جیلر نے کاٹنے کی وجہ پوچھی تو ملزم نے بتایا کہ پہلے ہی دن چوری پر ماں مجھے روکتی یا سزا دیتی تو آج میں اس عذاب کن سزا سے دوچار نہیں ہوتا۔
درحقیقت ایک عظیم عورت کے مقدس روپ میں ''ماں '' ایک حساس معاشرتی و سماجی احساس ذمے داری کا نام ہے جو بلاشبہ اللہ کے پسندیدہ کاموں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ازدوجی زندگی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں میں ہم آہنگی اور توازن کا ہونا لازمی امر ہے۔ جو ایک اچھے خاندان کی ارتقائی روایت کا سبسب بنتی ہے۔ اس میں زیادہ تر انحصار عورت ہی کا نمایاں نظر آ تا ہے۔
اولاد نرینہ اللہ تعالی کی پاک ذات کی طرف سے ایک بہترین انعام ہے۔ پرورش اورتربیت اولاد ماں کی اولین ذمے داریوں میں سے ایک ہے۔دو یا تین عشروں تک ہم نے دیکھا کہ والدین کے حکم سے مغرب کے بعد بچے گھر سے باہر نظر نہیں آتے تھے۔ آج اولاد سرکش ہو چکی ہے۔ ماں باپ کے احکامات کو نہیں مانتی۔
کہا جاتا ہے کہ ''ماں کے پیروںِ تلے جنت'' ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال ہر با شعور افراد کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے کہ کیا آج کی ماں اس روحانی درجہ کی حقدار ہے ؟ جب کہ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں پوری دنیا میں حقوق نسواں کی بات کی جا رہی ہے اور مادیت پرستی اور سائنس و ٹکینالوجی کی ہوشربا ترقی کی اس دوڑ میں جہا ں انسان کی ضروریات زیادہ اور وسائل کم ہوں وہاں صرف ایک مرد کی کمائی سے گھر کا کچن نہیں چلتا، اس لیے آج کی عورت کو بحالت مجبوری مرد کے شانہ بشانہ روزگار کے حصول کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے اور یوں مرد بھی کچن کے کاموں کا برابر کا حصہ دار ہے۔
اسی لیے تو ملک میں کھانا پکانے کی صنعت ایک منافع بخش کاروبار اختیار کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے گھروں میں روایتی کھانوں کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بچے کی سب سے پہلی تربیت گاہ ہی ماں کی آغوش ہے۔ میں خود اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ بعض مائیںشوہر کے گھر سے نکلنے کے بعد بے لگام انداز میں بچوں کے ساتھ خوش گپیاں یا اپنی دلچسپی کی باتیں کرنی شروع کر دیتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ باپ گھر سے جاتے ہوئے بچوں کو کام مکمل کرنے کی تاکید کرگئے ہوں۔
ماں کے اس خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے بچے باپ کے رعب نما رویے کی شکایت ماں سے کرتے ہیں۔ ماں بجائے بچوں کو سمجھانے کے ان کی ہا ں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے کچے ذہنوں میں باپ کو ایک ظالم شخص گردانتی ہیں۔ باپ کی اس سختی اور گھریلو نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں وہ بسا اوقات بیماریوں کا شکا ر ہونے لگتا ہے، لامحالہ جلد ہی اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔
ایسی ہی ماؤں کو ہم نے اولڈ ہاؤسز میں ہی پایا۔ جب کہ اسکولوں میں بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کا سرسری جائزے کے لیے ٹیچرز پیرنٹس میٹنگ میں ماؤں کا حاضر نہ ہونا ماؤں کی طرف سے عدم توجہی کے رویہ سے اولاد کی تعلیم میں طویل خلا پیدا ہوسکتا ہے، جو شاید ہی زندگی میں پورا ہوسکے۔ نیک اور صالح اور قابل اولاد اسی صورت مل سکتی ہے جب مجموعی طور پر والدین کا رویہ ''کھلائے سونے کا نوالہ اور دیکھے شیر کی نظر سے'' ہو۔
اولاد کی تربیت میں والدین کی تربیت کا حصہ متوازی ہونا چاہیے اور جس کے لیے میاں بیوی کے آپس کے معاملات میں بلامشروط قوی ہم آ ہنگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اولاد کے ساتھ ماں باپ کا اختلافی برتاؤ اولاد میں بھی اختلافات کو جنم دینے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ ماں کی طرف سے بے جا لاڈ پیار ان کی اچھی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ متروکہ املاک کی باہمی تقسیم نے اولاد کو ملکی عدالتوں کی دہلیز تک کا محتاج کردیا ہے۔
اولڈ ہومز کا دن بدن بڑھتا ہوا رجحان اسی ازدوجی خرابیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد ماں ہر صورت میں بچوں پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے اور اگر اولاد میں سے جو اس کی نا فرمانی کرے تووہ اسے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے، خواہ اس نے اس کو ڈبے کا دودھ ہی پلایا ہو۔ ہمارا پورے کا پورا معاشرہ جس سماجی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی اکھاڑ پچھاڑ و ا نتشار کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ میں ایسے ہی عوامل کارفرما ہیں۔
عجب بات یہ ہے کہ جدید دنیا کے انسانی ہاتھوں میں موجود انٹرنیٹ کی جدید ایجاد ''اسمارٹ موبائل'' نے دنیا کو گلوبل ولیج کی جگہ گلوبل ہٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب نوجوان نسل گھروں میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اسی انسٹرومنٹ کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں۔ ماں کا عالمی دن اور باپ کا عالمی دن اسی چھوٹے سے انسٹرومنٹ کا ہی تو کمال ہے۔