یہ محل سراؤں کے باسی

یہی چند لوگ ہیں جو ملک پر قابض ہیں۔ انھی کے بزرگ تھے جو لوٹ مار کرکے، مرکھپ گئے۔

دیکھ رہے ہیں! کروڑوں، اربوں کے اثاثے رکھنے والے پاکستان سے غربت ختم کریںگے۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے اثاثے پاکستان، دبئی، لندن تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان پارٹی سربراہان کے نیچے جو کام کررہے ہیں وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ بعض نے تو سربراہان کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔

یہی چند لوگ ہیں جو ملک پر قابض ہیں۔ انھی کے بزرگ تھے جو لوٹ مار کرکے، مرکھپ گئے اور ان کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھتیجے بھانجے، داماد، اپنے بزرگوں کے چھوڑے ہوئے اثاثوں میں اضافہ کرتے کرتے یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ جن کے اثاثے سامنے آئے ہیں وہ لوگ ہیں جو الیکشن لڑرہے ہیں اور انھیں مجبوراً اپنی دولت، جائیدادیں دکھانا پڑیں اور وہ لوگ جو الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ان کے بھی تو اثاثے ہیں۔

جنرل ایوب کے زمانے میں بیس گھرانے تھے جن کے پاس اربوں روپے کے اثاثے تھے اور آج یہ بیس لاکھ گھرانے ہوگئے ہیں۔ غریب بھوکے پیاسے مرتے رہے اور ''یہ گھرانے'' غریبوں کا خون چوستے رہے اپنے بینک بھرتے رہے، سوئٹرز لینڈ کے محفوظ بینکوں میں پیسے جمع کرتے رہے۔ بینکوں سے قرضے لے کر معاف کرواتے رہے، اور عدالتیں اپنے کانپتے ترازؤں کے ساتھ قائم و دائم رہیں۔

پولیس ان کے تابع، ان گھرانوں کی مرضی کے مطابق SHOلگایاجاتا، ڈی ایس پی لگایاجاتا ہے، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر لگائے جاتے ہیں۔ تھانے ان کے، عدالتیں ان کی، قانون ان کا، اور ہم جیسے پاگل، سر پھرے لوگ، اسی دھن میں مگن ہیں کہ ایک دن یہ ظالم گھرانے اپنے تھانوں، اپنی عدالتوں، اپنے قانون سمیت ختم ہوجائیںگے۔

25 جولائی 2018 کے دن الیکشن ہوںگے، الیکشن میں بس ایک مہینہ رہ گیا ہے کچھ مناظر بڑے حوصلہ افزا ہیں۔ بنی گالا والے عمران خان کے گھر کے باہر تحریک انصاف کے کارکنان چار دن تک دھرنا دیے بیٹھے رہے اور عمران خان کو ٹھیک ٹھاک دہلاکر دھرنا ختم کیا گیا۔ عمران خان نے کارکنان سے کہا ''الیکشن جیتنے والے امیدواروں کو اس لیے ٹکٹ دیے ہیں تاکہ تحریک انصاف حکومت بناسکے۔ ہم حکومت بنائیں گے تبھی تو نیا پاکستان بنا پائیں گے۔ ابھی تین دن ہیں حتمی فہرست آئے گی تو آپ کے کچھ تحفظات بھی دور ہوجائیں گے''

تحریک انصاف کے کارکنان ایک ہاتھ میں لوٹا پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے لوٹے کی پٹائی کرتے رہے۔ لاہور میں بھی تحریک انصاف کی خواتین بڑی بپھری ہوئی نظر آئیں۔ لاہور ہی میں زعیم قادری نے بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ یہ کہا ''حمزہ شریف! یہ لاہور تمہارے یا تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے۔ سن لو! حمزہ شریف میں تمہارا مقابلہ کروں گا'' خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بڑا رولا اور بڑھے گا، جنوبی پنجاب میں لغاری خاندان کا ایک فرد پانچ سال تک اپنے حلقے میں نہیں آیا، اب جب وہ آیا تو حلقے کے لوگوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، اسے خوب باتیں سنائیں اس پر لغاری صاحب نے فرمایا ''ایک ووٹ کی پرچی پر اتنا غرور!'' یہ الیکشن بہت معنی خیز ہوں گے۔ سندھ میں بھی گروہی حالات ہیں۔ مگر نتائج میں ووٹوں کا فرق بہت کچھ بتا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے دو دھڑے ایک ہوگئے، بہادر آباد اور پی آئی بی والے پھر مل بیٹھے یہ بھی اچھا ہوا مگر ''بہت دیر کی مہرباں آتے آتے''۔

سندھ کا غریب ہاری اس چکی میں پس رہا ہے کہ اپنے ''سائیں'' کو ہی ووٹ دینا ہے اسے غیر سندھیوں سے خطرہ ہے کہ سندھ تقسیم نہ ہوجائے، نیا صوبہ نہ بن جائے یہاں سندھ میں گزشتہ چالیس سال میں دشمنوں نے یہی کام کیا کہ سندھ میں ''اعتماد'' کو توڑ پھوڑ دیا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی، حیدرآباد میں صرف دو رجحانات تھے۔


ایک ''ظالم حکمران اور دوسرا عوام دوست'' نسیم نامی ایک طالب علم قائداعظم کے مزار کے قریب پولیس فائرنگ سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ تو پورا شہر کراچی بند ہوجاتا ہے۔ بزنس روڈ، لیاری، ناظم آباد، عزیز آباد، سب بند اور سارا کراچی سڑکوں پر احتجاج میں شریک۔ یہی حال حیدرآباد اور دیگر شہروں کا ہوتا تھا مگر عوام دشمنوں نے ایسی آگ لگائی کہ پورا سندھ بے اعتمادی کا شکار ہوکر رہ گیا، عوام تقسیم ہوگئے، ایک دوسرے پر اعتماد نہ رہا۔ نفرت کا زہر رگوں میں اتاردیا گیا اور نتیجہ دیکھ لیں۔

کراچی وہ باشعور شہر ہوتا تھا جہاں سے حکومت مخالف تحریکیں چلا کرتی تھیں۔ کراچی کے فیصلے کو پورا پاکستان مانتا تھا، پورے ملک کے عوام دوستوں کی نظریں اس شہر پر لگی ہوتی تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب اس شہر میں معراج محمد خان، انیس ہاشمی، محمود الحق عثمانی، فتح یاب علی خاں، منہاج برنا، عابد زبیری، کنیز فاطمہ، ایس بی لودھی، عزیز اﷲ شیخ، بیگم اختر سلیمان، ڈاکٹر سرور عبدالحمید چھابرا، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر ہارون احمد، انیس ہارون، خالد علیگ، جوہر حسین، حسین نقی، اعزاز نذیر، رسول بخش تالپور، جام ساقی، لالہ لعل بخش ودیگر کا راج تھا۔

اندرون سندھ، شیخ ایاز، عبدالحمید جتوئی، حسن حمیدی، عبدالحمید سندھی، سوبھوگیان چندانی اور ایسے ہی لوگ ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے ساتھ تھے اور پھر ایسی ہوا چلی کہ سندھ بھر کا اعتماد پارہ پارہ کردیاگیا۔ بہت کچھ کھودینے کے بعد سندھ کے مظلوم عوام اور ان کے ساتھی واپس پلٹے ہیں، الیکشن 2018 کے نتائج بتائیںگے کہ مظلوم سندھیوں کا ذہن تبدیل ہوا ہے۔

اصل معرکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ہوگا۔ آزادانہ ووٹ ڈالنے کے مرحلے سے گزر کر ہی عوامی انقلاب کی منزل آئے گی جو قریب آگئی ہے۔ دنیا بھر میں عوام راج کی باتیں ہورہی ہیں، تحریکیں چل رہی ہیں۔ نئی صف بندیاں ہورہی ہیں، اپنے وطن میں بھی ''اور کچھ دیر کہ ٹوٹا در زنداں یارو'' وطن کی بقا اسی میں ہے کہ عوام کو ان کے حقوق دے دیے جائیں، یہ اسلحہ بردار جاگیردار، ہوائی فائرنگ کے دلدادہ یہ نہیں رہیں گے، یہ وڈیروں، جاگیرداروں کے بگڑے تگڑے نواب بیٹھے سنبھل جائیں، یہ انسانوں کے شکاری اب نہیں بچ سکیں گے، سب دیکھ رہے ہیں کہ شہر شہر الیکشن میں ایسے نوجوان حصہ لے رہے ہیں جو اس ملک سے جبر کے نظام کے خاتمے کا تہیہ کرچکے ہیں۔

یہ جو اربوں کروڑوں کے اثاثوں والے ''ان سے امید خیر لا حاصل'' یہ جو کچھ اربوں کھربوں کے اثاثے ہیں یہ سب غریبوں کا حق لوٹ مار کرکے بنائے گئے ہیں، یہ پاکستان، دبئی، لندن، امریکا، کینیڈا میں جائیدادوں والے بینک بیلنس والے یہ اب اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ یہ ''محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی اپنے یارو ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا۔ اب اس ورثے کا خاتمہ ہوکر رہے گا۔

ظلم کی انتہا ہوگئی، عوام کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا بلکہ پانی ہی نہیں ملتا غیرت مند غریب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ اور انھی غریبوں کا حق مار کر یہ امرا عیش کرتے ہیں۔ غریبوں کے پلاٹ یہ کھاگئے، غریب کلرکوں، چپراسیوں نے ایک ایک پیسہ دے کر 40 سال پہلے کراچی اسکیم 33 میں پلاٹ لیے تھے جن پر قبضہ کرکے انھی ظالموں نے بیچ کھایا، کس کس ظلم کا ذکر کروں یہاں صرف انقلاب ہی انصاف کرے گا ۔جالب کا شعر اور اجازت

کوئی پل کی بات ہے یہ، کوئی پل کی رات ہے یہ

نہ رہے گا کوئی قاتل، نہ رہیںگی قتل گاہیں
Load Next Story