تبادلوں کے طوفان میں کلیم امام کا گریڈ اکیس
تبادلوں کے اس طوفان کی نتیجے میں کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین۔
میں پہلے بھی اپنی اس رائے کا اظہار کر چکا ہوں کہ انتخابات کے موقع پر سول بیوروکریسی اور محکمہ پولیس میں ہوش ربا تبادلے کسی مہذب معاشرہ کی پہچان نہیں ہیں۔ یہ کوئی جمہوری عمل ہے اور نہ ہی کسی تہذیب یافتہ معاشرے میں اس کی کوئی مثال ہے لیکن کیا کریں یہ پاکستان ہے۔ یہاں آمریت اور جمہوریت کے نام پر انوکھے کام ہی ہوتے ہیں۔
ہمارے آمروں کو جمہوری بننے کا شوق رہتا ہے اور جمہوری حکمرانوں کو آمر بننے کا شوق رہتا ہے۔ یوں ملک میں نہ تو صحیح جمہوریت چل سکی ہے اور نہ ہی صحیح آمریت چل سکی ہے۔ بہر حال تبادلوں کا طوفان تھم رہا ہے۔
تبادلوں کے اس طوفان کی نتیجے میں کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین۔ کسی کے ساتھ انصاف ہو گیا ہے اور کوئی بے وجہ زیر عتاب آگیا ہے۔ میں ابھی سمجھتا ہوں کہ یہ تبادلے بس بے وجہ ہی کر دیے گئے ہیں۔ ان کا نہ تو کوئی اصول تھا اور نہ ہی کوئی ضابطہ۔ یہ جنگل کے قانون کے تحت کیے گئے ہیں۔ اور ان کے بعد ایک جنگل کا ہی سما ں بن گیا ہے۔
سول بیور کریسی میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہر کسی نے سامان باندھا ہوا ہے اور وہ ایک نئی منزل کی طرف گامزن ہے۔ جن کو صوبہ بدری ملی ہے، ان کی حالت تو مہاجرین سی بن گئی ہے۔ ایک امید بھی ہے کہ یہ نگران دور ختم ہو گا تو واپسی ہو جائے گی ا ور ایک خدشہ بھی ہے کہ اگرو اپسی نہ ہوئی تو کیا ہو گا۔ ہر کسی کے اپنے مسائل ہیں۔ کسی کے بچے پڑھ رہے ہیں۔ کوئی کسی اور مشکل میں ہے۔ لیکن ہر کسی کے پا س ایک کہانی ہے۔
ایک دوست جس کا دور تبادلہ ہو گیا ہے نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بھائی انتخابات تو فوج اور عدلیہ نے کرانے یہ ہمارے تبادلے کس چکر میں ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف پنجاب میں نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں نظرا ٓرہی ہے۔ وفاق میں بھی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ فیڈرل سیکریٹریوں کے تبادلوں کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ کون کہاں جائے گا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک شور یہ بھی ہے کہ یہ تبادلوں کی لسٹیں کون بنا رہا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ دوست بنا رہے ہیں۔ لیکن کچھ کا خیال ہے کہ اندھیرے میں تیر چلائے گئے ہیں۔ جس کو لگ گیا اس کی قسمت۔ کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔
کیا یہ تبادلے ملک میں شفاف انتخابات ممکن بنا دیں گے۔ کیا سیاسی جماعتیں ان تبادلوں سے مطمئن ہو گئی ہیں۔ کیا سب کو ان تبادلوں سے مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جیسے تبادلے پنجاب میں ہوئے ہین ویسے سندھ خے پی اور باقی صوبوں میں کیوں نہیں ہوئے۔ کیا باقی صوبوں کی بیوروکرسؤیسی پنجاب سے کم سیاسی تھی۔ کیا سندھ میں سب ٹھیک چل رہا تھا۔بلوچستان میں امن کیوں ہے۔میں نے کہا کہ اگر بلوچستان سے اگر کسی کو پنجاب یا سندھ بھیجا جائے تو یہ سزا نہیں انعام ہو گا۔ ان تبادلوں کے اندر سزا کا بھی پیغام نظر آرہا ہے۔ اس لیے لوگوں کو پنجاب سے باہر بھیجا جا رہا ہے۔
بہر حال ان تبادلوں کی وجہ سے پنجاب کو کلیم امام کی شکل میں ایک نیا آئی جی مل گیا ہے۔ بیچارے نے ابھی چارج ہی لیا تھا کہ شور مچ گیا کہ وہ گریڈ اکیس میں ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیاکیونکہ جتنا میں کلیم اما م کو جانتا ہوں انھوں نے آئی جی لگنے کے لیے کوئی سفارش تو نہیں کروائی ہو گی۔ بیچارہ ساد طبیعت اور ایک غیر سیاسی آدمی ہے۔ کس کام میں پھنس گیا ہے۔ ایک با علم شخص سے پوچھا، بھائی یہ آئی جی تو گریڈ بائیس کی پوسٹ ہے یہ کلیم اما م تو گریڈ اکیس میں ہیں ۔ ان کو یہ نگران حکومت نے کس قاعدے اور ضابطے کے تحت لگا دیا ہے۔ با علم شخص مسکرایا۔ کہنا لگا بس سنتے جاؤ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
پنجاب میں گزشتہ چار آئی جی کو دیکھ لو سب گریڈ اکیس میں ہی لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لگنے کے بعد جب پروموشن کا وقت آیا تو انھیں گریڈ بائیس دے دیا گیا۔ لیکن سب گریڈ اکیس میں لگے اور گریڈ اکیس میں کافی دیر کام کیا۔ اسی طرح کلیم امام بھی گریڈ اکیس میں ہیں۔ تم دعا کرو کہ انھیں بھی گریڈ بائیس مل جائے جیسے ان سے پہلے ان کے پیش رو کو ملتا رہا ہے۔ با علم شخص کا کہنا تھا کہ یہ الگ بات ہے کہ آئی جی لگنے کے بعد گریڈ بائیس کا ملنا پکا ہو جاتا ہے۔
میں نے کہا جب یہ حقیقت ہے تو شور کیوں ہے۔ تو وہ با علم شخص مسکرایا۔ کہنے لگا یہ نام کی غیر جانبدار اور نگران حکومت ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اقتدار کی رسہ کشی میں بیچارے ان نگرانوں کو کیا حال ہو رہا ہے۔ کیسے ان کے کپڑے اور بوٹیاں نوچی جا رہی ہیں۔وہ جو بھی کرتے ہیں وہ متنازعہ بن جاتا ہے۔ اگر ایک فریق کو خوش کرتے ہیں تو دسرا فریق ناراض ہو جاتا ہے۔ اگر دوسرے کو خوش کرتے ہیں تو پہلا ناراض ہو جاتا ہے۔ کیا ایسے نہیں لگ رہا کہ اقتدار کی کنجی عوام کے بجائے نگرانوں کے پاس ہے۔
سیاسی جماعتوں کی توجہ عوام سے ووٹ لینے کے بجائے ان نگرانوں پر ہے۔ اسی لیے آئی جی بہت اہم ہے۔ دس پندرہ سیٹوں کو ادھر تو کر سکتا ہے۔ کسی کی مرضی کا تھانیدار لگا سکتا ہے۔ کسی کی مرضی کا ایس پی لگا سکتا ہے۔ اس لیے اقتدار اور انتخابات کے اس کھیل میں آپ آئی جی پنجاب کو کوئی چھوٹا موٹا عہدہ نہ سمجھیں۔ پنجاب کی سیاسی اہمیت کو سمجھیں ۔ یہاں ہونے والے انتخابی سیاسی دنگل کو سامنے رکھیں ۔ ایسے میں پنجاب کے آئی جی کو سامنے رکھیں۔ بات سمجھ آ ٓجائے گی۔
پاکستان میں جمہوریت کو چلنا ہے تو سیاستدانوں کو اپنے رویہ بھی جمہوری کرنے ہو ںگے۔ غیر جمہوری رویوں کے ساتھ جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر اعتما دکرنا بھی سکھنا ہو گا۔ دنیا سے جمہوریت سیکھنی بھی ہو گی۔ اقتدار کے کھیل کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ تبادلے اور ٹکٹوں کی تقسیم نے سیاسی جماعتوں کے ایک مکروہ چہرہ قوم کے سامنے کر دیا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے کون کے پیاسے بن گئے ہیں۔ یہاں کوئی انتخاب نہیں ہو رہا بلکہ پانی پت کی جنگ ہونے جا رہی ہے۔ جس میں سب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آرہے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم نے ایک بات عیان کر دی ہے ، کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ ایک طرف عمران خان خود ہی سارا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف بھی شریف فیملی نے سب کچھ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ تیسری طرف بھی زرداری خاندان باہر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر لوگ بنی گالہ کے باہر دھرنے دے رہے ہیں تو ن لیگ کی ٹکٹوں سے بھی کوئی خوشی کی آوازیں نہیں آرہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بنی گالہ کے باہر دھرنے کا شور زیادہ رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو سب سیکھنا چاہیے اپنے اندر جمہوریت لانی چاہیے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا ایک شفاف نظام بنانا چاہیے۔ جس میں کارکنوں کی رائے شامل ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سارے فیصلے قیادت کرے اور کارکن صرف تالیاں بجائیں۔ اب وہ وقت گیا جب قیادت کے فیصلوں پر آنکھیں بند کر کے آمین کہ دیا جاتا تھا۔ جیسے جمہوریت چل رہی ہے۔ ووٹر میں بھی شعور آرہا ہے۔ اور کارکنوں کو بھی ہوش آرہی ہے۔
ہمارے آمروں کو جمہوری بننے کا شوق رہتا ہے اور جمہوری حکمرانوں کو آمر بننے کا شوق رہتا ہے۔ یوں ملک میں نہ تو صحیح جمہوریت چل سکی ہے اور نہ ہی صحیح آمریت چل سکی ہے۔ بہر حال تبادلوں کا طوفان تھم رہا ہے۔
تبادلوں کے اس طوفان کی نتیجے میں کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین۔ کسی کے ساتھ انصاف ہو گیا ہے اور کوئی بے وجہ زیر عتاب آگیا ہے۔ میں ابھی سمجھتا ہوں کہ یہ تبادلے بس بے وجہ ہی کر دیے گئے ہیں۔ ان کا نہ تو کوئی اصول تھا اور نہ ہی کوئی ضابطہ۔ یہ جنگل کے قانون کے تحت کیے گئے ہیں۔ اور ان کے بعد ایک جنگل کا ہی سما ں بن گیا ہے۔
سول بیور کریسی میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہر کسی نے سامان باندھا ہوا ہے اور وہ ایک نئی منزل کی طرف گامزن ہے۔ جن کو صوبہ بدری ملی ہے، ان کی حالت تو مہاجرین سی بن گئی ہے۔ ایک امید بھی ہے کہ یہ نگران دور ختم ہو گا تو واپسی ہو جائے گی ا ور ایک خدشہ بھی ہے کہ اگرو اپسی نہ ہوئی تو کیا ہو گا۔ ہر کسی کے اپنے مسائل ہیں۔ کسی کے بچے پڑھ رہے ہیں۔ کوئی کسی اور مشکل میں ہے۔ لیکن ہر کسی کے پا س ایک کہانی ہے۔
ایک دوست جس کا دور تبادلہ ہو گیا ہے نے بہت دلچسپ تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بھائی انتخابات تو فوج اور عدلیہ نے کرانے یہ ہمارے تبادلے کس چکر میں ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف پنجاب میں نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں نظرا ٓرہی ہے۔ وفاق میں بھی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ فیڈرل سیکریٹریوں کے تبادلوں کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ کون کہاں جائے گا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ایک شور یہ بھی ہے کہ یہ تبادلوں کی لسٹیں کون بنا رہا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ دوست بنا رہے ہیں۔ لیکن کچھ کا خیال ہے کہ اندھیرے میں تیر چلائے گئے ہیں۔ جس کو لگ گیا اس کی قسمت۔ کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔
کیا یہ تبادلے ملک میں شفاف انتخابات ممکن بنا دیں گے۔ کیا سیاسی جماعتیں ان تبادلوں سے مطمئن ہو گئی ہیں۔ کیا سب کو ان تبادلوں سے مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جیسے تبادلے پنجاب میں ہوئے ہین ویسے سندھ خے پی اور باقی صوبوں میں کیوں نہیں ہوئے۔ کیا باقی صوبوں کی بیوروکرسؤیسی پنجاب سے کم سیاسی تھی۔ کیا سندھ میں سب ٹھیک چل رہا تھا۔بلوچستان میں امن کیوں ہے۔میں نے کہا کہ اگر بلوچستان سے اگر کسی کو پنجاب یا سندھ بھیجا جائے تو یہ سزا نہیں انعام ہو گا۔ ان تبادلوں کے اندر سزا کا بھی پیغام نظر آرہا ہے۔ اس لیے لوگوں کو پنجاب سے باہر بھیجا جا رہا ہے۔
بہر حال ان تبادلوں کی وجہ سے پنجاب کو کلیم امام کی شکل میں ایک نیا آئی جی مل گیا ہے۔ بیچارے نے ابھی چارج ہی لیا تھا کہ شور مچ گیا کہ وہ گریڈ اکیس میں ہیں۔ میں سوچ میں پڑ گیاکیونکہ جتنا میں کلیم اما م کو جانتا ہوں انھوں نے آئی جی لگنے کے لیے کوئی سفارش تو نہیں کروائی ہو گی۔ بیچارہ ساد طبیعت اور ایک غیر سیاسی آدمی ہے۔ کس کام میں پھنس گیا ہے۔ ایک با علم شخص سے پوچھا، بھائی یہ آئی جی تو گریڈ بائیس کی پوسٹ ہے یہ کلیم اما م تو گریڈ اکیس میں ہیں ۔ ان کو یہ نگران حکومت نے کس قاعدے اور ضابطے کے تحت لگا دیا ہے۔ با علم شخص مسکرایا۔ کہنا لگا بس سنتے جاؤ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
پنجاب میں گزشتہ چار آئی جی کو دیکھ لو سب گریڈ اکیس میں ہی لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لگنے کے بعد جب پروموشن کا وقت آیا تو انھیں گریڈ بائیس دے دیا گیا۔ لیکن سب گریڈ اکیس میں لگے اور گریڈ اکیس میں کافی دیر کام کیا۔ اسی طرح کلیم امام بھی گریڈ اکیس میں ہیں۔ تم دعا کرو کہ انھیں بھی گریڈ بائیس مل جائے جیسے ان سے پہلے ان کے پیش رو کو ملتا رہا ہے۔ با علم شخص کا کہنا تھا کہ یہ الگ بات ہے کہ آئی جی لگنے کے بعد گریڈ بائیس کا ملنا پکا ہو جاتا ہے۔
میں نے کہا جب یہ حقیقت ہے تو شور کیوں ہے۔ تو وہ با علم شخص مسکرایا۔ کہنے لگا یہ نام کی غیر جانبدار اور نگران حکومت ہے۔ تم دیکھ نہیں رہے کہ اقتدار کی رسہ کشی میں بیچارے ان نگرانوں کو کیا حال ہو رہا ہے۔ کیسے ان کے کپڑے اور بوٹیاں نوچی جا رہی ہیں۔وہ جو بھی کرتے ہیں وہ متنازعہ بن جاتا ہے۔ اگر ایک فریق کو خوش کرتے ہیں تو دسرا فریق ناراض ہو جاتا ہے۔ اگر دوسرے کو خوش کرتے ہیں تو پہلا ناراض ہو جاتا ہے۔ کیا ایسے نہیں لگ رہا کہ اقتدار کی کنجی عوام کے بجائے نگرانوں کے پاس ہے۔
سیاسی جماعتوں کی توجہ عوام سے ووٹ لینے کے بجائے ان نگرانوں پر ہے۔ اسی لیے آئی جی بہت اہم ہے۔ دس پندرہ سیٹوں کو ادھر تو کر سکتا ہے۔ کسی کی مرضی کا تھانیدار لگا سکتا ہے۔ کسی کی مرضی کا ایس پی لگا سکتا ہے۔ اس لیے اقتدار اور انتخابات کے اس کھیل میں آپ آئی جی پنجاب کو کوئی چھوٹا موٹا عہدہ نہ سمجھیں۔ پنجاب کی سیاسی اہمیت کو سمجھیں ۔ یہاں ہونے والے انتخابی سیاسی دنگل کو سامنے رکھیں ۔ ایسے میں پنجاب کے آئی جی کو سامنے رکھیں۔ بات سمجھ آ ٓجائے گی۔
پاکستان میں جمہوریت کو چلنا ہے تو سیاستدانوں کو اپنے رویہ بھی جمہوری کرنے ہو ںگے۔ غیر جمہوری رویوں کے ساتھ جمہوریت نہیں چل سکتی۔ سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر اعتما دکرنا بھی سکھنا ہو گا۔ دنیا سے جمہوریت سیکھنی بھی ہو گی۔ اقتدار کے کھیل کو زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ تبادلے اور ٹکٹوں کی تقسیم نے سیاسی جماعتوں کے ایک مکروہ چہرہ قوم کے سامنے کر دیا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے کون کے پیاسے بن گئے ہیں۔ یہاں کوئی انتخاب نہیں ہو رہا بلکہ پانی پت کی جنگ ہونے جا رہی ہے۔ جس میں سب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آرہے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم نے ایک بات عیان کر دی ہے ، کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ٹکٹوں کی منصفانہ تقسیم کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ ایک طرف عمران خان خود ہی سارا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو دوسری طرف بھی شریف فیملی نے سب کچھ اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ تیسری طرف بھی زرداری خاندان باہر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر لوگ بنی گالہ کے باہر دھرنے دے رہے ہیں تو ن لیگ کی ٹکٹوں سے بھی کوئی خوشی کی آوازیں نہیں آرہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بنی گالہ کے باہر دھرنے کا شور زیادہ رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو سب سیکھنا چاہیے اپنے اندر جمہوریت لانی چاہیے۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا ایک شفاف نظام بنانا چاہیے۔ جس میں کارکنوں کی رائے شامل ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سارے فیصلے قیادت کرے اور کارکن صرف تالیاں بجائیں۔ اب وہ وقت گیا جب قیادت کے فیصلوں پر آنکھیں بند کر کے آمین کہ دیا جاتا تھا۔ جیسے جمہوریت چل رہی ہے۔ ووٹر میں بھی شعور آرہا ہے۔ اور کارکنوں کو بھی ہوش آرہی ہے۔