اتنی دولت آخر کہاں سے آئی
سیاستدانوں سے یہ باز پرس بھی ہونی چاہیے کہ کروڑوں اربوں روپے مالیت کی املاک کی قیمت اتنی کم کیوں ظاہر کی گئی ہے؟
اگلے ماہ جولائی کی 25 تاریخ کو ملک کے گیارہویں عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن اپنی تیاریاں مکمل کررہا ہے، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات کا عمل اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے ممکنہ بے ضابطگیوں کو روکنے اور پر امن فضا قائم رکھنے کے لیے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کردیا ہے، ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے گئے ہیں، پولنگ اسٹیشنوں کے اندر و باہر نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے مگر ان سب کے باوجود انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا پیشگی سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ن لیگ کے سابق سربراہ نواز شریف خود کو سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے کو الیکشن سے پہلے دھاندلی قرار دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی میں ضروری معلومات کے اندراج کو لازمی قرار دینے کے حکم کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ قوم کو معلوم ہوگیا کہ سیاستدان کروڑوں اور اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں، سیاستدانوں کو اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں آئینی مجبوری کے تحت فراہم کرنا پڑے تو اپنی اربوں کی جائیدادیں کروڑوں اور کروڑوں کے اثاثے لاکھوں اور لاکھوں کی گاڑیاں محض ہزاروں روپے کی ظاہر کیں۔
یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں جہاں عوام کی ایک کثیر تعداد نہ صرف غریب ہے بلکہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس کے حکمران نہ صرف امیر ترین ہیں بلکہ اب وہ کروڑ پتی بھی نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح 39 فیصد سے زیادہ ہے، فاٹا میں غربت کی شرح 73 فیصد، بلوچستان میں 71 فیصد، کے پی کے میں 49 فیصد جب کہ گلگت بلتستان اور سندھ میں یہ شرح 43 فیصد ہے۔
عام انتخابات سے محض پانچ ہفتے قبل سیاستدانوں کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے سے عوام حیران ہیں کہ سیاستدان جو بظاہر کوئی کام کاج کرتے دکھائی نہیں دیتے ان کے پاس اتنی دولت کیسے آگئی ہے؟ ایک عام شخص کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ اگر وہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرتا ہے یا پھر ایک غریب شخص اپنی روزمرہ زندگی کے گزر بسر کے لیے آٹو رکشہ ہی اقساط پر خریدتا ہے تو اس کی رقم کی ادائیگی میں کئی سال بیت جاتے ہیں جب کہ کاروبار کے مستحکم ہونے میں بھی کئی برس لگتے ہیں، ایک عام پاکستانی تو دو وقت کی روٹی کے چکر میں اس طرح سے پس رہا ہے کہ بندہ مزدور کی تلخی ایام کا احاطہ کرنا مشکل ہے، لیکن سیاستدانوں کے پاس نہ جانے ایسا کون سا جادو کا چراغ ہے کہ ان کا بینک بیلنس، دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔
غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جو اثاثہ جات ظاہر کیے گئے ہیں وہ کس طریقے سے بنائے گئے ہیں، اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ہے، زیادہ تر چیزیں بطور تحفہ ظاہر کی گئی ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جائز و ناجائز کسی بھی ذریعے سے اثاثے بنا لیے جائیں اور پھر اسے تحفہ کے طور پر ظاہر کردیا جائے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام کے لیے سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے ظاہر کیے گئے اثاثوں میں املاک کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے انتہائی کم دکھائی کی ہے۔
مثال کے طور پر بلاول بھٹو زرداری نے کلفٹن میں واقع بلاول ہاؤس کی مالیت محض 30 لاکھ روپے ظاہر کی ہے، جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے، عام لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کلفٹن میں 30 لاکھ روپے میں تو ایک فلیٹ بھی نہیں ملتا تو پھر بلاول ہاؤس کے محل کی قیمت کس طرح 30 لاکھ ہوسکتی ہے، اتنی کم قیمت سن کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس محل کی خریداری کی خواہشمند بھی ہے۔ مولانا سراج الحق اسے دگنی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہیں۔
سیاستدانوں کی جانب سے اثاثوں کے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں، کروڑوں روپے مالیت رکھنے والے حیرت انگیز طور پر مقروض بھی ہیں، ان کے پاس لاکھوں کی بکریاں اور کروڑوں کے گھوڑے ہیں، پراپرٹی نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے اثاثہ جات پر نظر ڈالی جائے تو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بنی گالہ کے 300 کنال کے گھر کی مالیت صرف 75 کروڑ روپے ہے، وہ 168 ایکڑ زرعی زمین کے مالک اور فارن اکاؤنٹس ہولڈر بھی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 75 کروڑ روپے کے مالک ہیں، جائیداد اس کے علاوہ ہے، ان کے پاس 349 ایکڑ زرعی اراضی، دبئی میں پراپرٹی ہے۔ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ارب پتی ہیں، 5 کروڑ روپے نقد ہیں، کوئی گاڑی نہیں، متحدہ عرب امارات کے 2 اقامے، دبئی میں ولاز، ایک بطور تحفہ ملا جب کہ ایک کے مالک ہیں۔
ایسی ہی دلچسپ صورتحال مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی صاحبزادی کی جانب سے سامنے آئی ہیں۔ مریم نواز مختلف نجی پروگرامز میں اس بات کا برملا اعلان کرچکی ہیں کہ ان کی بیرون یا اندرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے۔ بلکہ ان کا ایک پروگرام میں کہا گیا جملہ (میری برطانیہ تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں) سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، تاہم مریم نواز نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 سے جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیا ہے کہ وہ 84 کروڑ کی مالک ہیں، 1506 کنال ایک مرلہ زرعی زمین ہے، 5 ملز میں شیئر ہولڈر ہیں، انھیں 5 کروڑ کے گفٹ ملے جب کہ وہ اپنے بھائی کی قرضدار بھی ہیں۔
ماضی کے مقابلے میں اس بار سیاستدانوں کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں غربت و افلاس کی وہ صورتحال نظر نہیں آتی جو ماضی میں ظاہر کیے گئے بعض گوشواروں میں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے غلط بیانی سے کام لیا تو ویب سائٹ سے حاصل کردہ تفصیلات کی بنا پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے پیش نظر الیکشن کمیشن مذکورہ تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے میں تذبذب کی کیفیت سے دوچار تھا، الیکشن کمیشن نے رواں ماہ کے اوائل میں نہ صرف یہ تفصیلات مشتہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ 2013ء کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تفصیلات بھی اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دی تھیں، کیونکہ گزشتہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات پیکیج پر مشاورت کے دوران مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تقریباً سب ہی پارٹیوں نے معلومات کو ویب سائٹ پر ڈالنے کی مخالفت کی تھی۔
ارکان پارلیمان کا موقف تھا کہ اثاثوں کی تفصیلات جاری کرنا نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے، اس میں یہ قباحت بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد انھیں اغوا کرنے سمیت دیگر غیر قانونی ذرایع سے لوٹنے کی ترغیب پا سکتے ہیں۔ تاہم اب الیکشن کمیشن نے 21 ہزار امیدواروں کے حلف نامے اور اثاثوں کی تفصیلات عام کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ معلومات ویب سائٹ پرڈال دی جائیں گی۔
سیاستدانوں کے اثاثہ جات کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ سیاستدان کاغذات نامزدگی فارم سے 19شقیں ختم کرکے عوام کو معلومات تک رسائی حاصل کرنے سے کیوں روکنا چاہتے تھے اور یہ معلومات مخفی رکھنے کے ان کے مقاصد کیا تھے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ ادارے نوٹس لے کر سیاستدانوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی باریک بینی سے چھان بین کریں اور اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں، یہ معلوم کیا جائے کہ سیاستدانوں نے اثاثے کس طرح بنائے ہیں، ان کے ذرایع آمدن کیا ہیں، جو اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں اس کے علاوہ بھی کوئی دولت و املاک ہے یا نہیں؟
سیاستدانوں سے یہ باز پرس بھی ہونی چاہیے کہ کروڑوں اربوں روپے مالیت کی املاک کی قیمت اتنی کم کیوں ظاہر کی گئی ہے؟ یہ بات یقیناً قابل گرفت ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے ایسا نظام بنانا چاہیے کہ سیاستدانوں کے اثاثوں اور املاک کی اصل مالیت سامنے آسکے اور غلط بیانی کرنے پر سیاستدانوں کے خلاف کارروائی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ آیندہ وہ اپنے گوشواروں میں اثاثوں کی مالیت کے متعلق درست اعداد و شمار ظاہر کریں۔
الیکشن کمیشن نے ممکنہ بے ضابطگیوں کو روکنے اور پر امن فضا قائم رکھنے کے لیے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کردیا ہے، ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے گئے ہیں، پولنگ اسٹیشنوں کے اندر و باہر نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے مگر ان سب کے باوجود انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا پیشگی سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ن لیگ کے سابق سربراہ نواز شریف خود کو سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے کو الیکشن سے پہلے دھاندلی قرار دے چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی میں ضروری معلومات کے اندراج کو لازمی قرار دینے کے حکم کا اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ قوم کو معلوم ہوگیا کہ سیاستدان کروڑوں اور اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں، سیاستدانوں کو اپنے اثاثے الیکشن کمیشن میں آئینی مجبوری کے تحت فراہم کرنا پڑے تو اپنی اربوں کی جائیدادیں کروڑوں اور کروڑوں کے اثاثے لاکھوں اور لاکھوں کی گاڑیاں محض ہزاروں روپے کی ظاہر کیں۔
یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں جہاں عوام کی ایک کثیر تعداد نہ صرف غریب ہے بلکہ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اس کے حکمران نہ صرف امیر ترین ہیں بلکہ اب وہ کروڑ پتی بھی نہیں بلکہ ارب پتی ہیں۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی سطح 39 فیصد سے زیادہ ہے، فاٹا میں غربت کی شرح 73 فیصد، بلوچستان میں 71 فیصد، کے پی کے میں 49 فیصد جب کہ گلگت بلتستان اور سندھ میں یہ شرح 43 فیصد ہے۔
عام انتخابات سے محض پانچ ہفتے قبل سیاستدانوں کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے سے عوام حیران ہیں کہ سیاستدان جو بظاہر کوئی کام کاج کرتے دکھائی نہیں دیتے ان کے پاس اتنی دولت کیسے آگئی ہے؟ ایک عام شخص کے ذہن میں یہ سوال گردش کررہا ہے کہ اگر وہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا کام شروع کرتا ہے یا پھر ایک غریب شخص اپنی روزمرہ زندگی کے گزر بسر کے لیے آٹو رکشہ ہی اقساط پر خریدتا ہے تو اس کی رقم کی ادائیگی میں کئی سال بیت جاتے ہیں جب کہ کاروبار کے مستحکم ہونے میں بھی کئی برس لگتے ہیں، ایک عام پاکستانی تو دو وقت کی روٹی کے چکر میں اس طرح سے پس رہا ہے کہ بندہ مزدور کی تلخی ایام کا احاطہ کرنا مشکل ہے، لیکن سیاستدانوں کے پاس نہ جانے ایسا کون سا جادو کا چراغ ہے کہ ان کا بینک بیلنس، دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔
غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ جو اثاثہ جات ظاہر کیے گئے ہیں وہ کس طریقے سے بنائے گئے ہیں، اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ہے، زیادہ تر چیزیں بطور تحفہ ظاہر کی گئی ہیں، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جائز و ناجائز کسی بھی ذریعے سے اثاثے بنا لیے جائیں اور پھر اسے تحفہ کے طور پر ظاہر کردیا جائے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام کے لیے سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ سیاستدانوں نے ظاہر کیے گئے اثاثوں میں املاک کی قیمت مارکیٹ ویلیو سے انتہائی کم دکھائی کی ہے۔
مثال کے طور پر بلاول بھٹو زرداری نے کلفٹن میں واقع بلاول ہاؤس کی مالیت محض 30 لاکھ روپے ظاہر کی ہے، جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے، عام لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ کلفٹن میں 30 لاکھ روپے میں تو ایک فلیٹ بھی نہیں ملتا تو پھر بلاول ہاؤس کے محل کی قیمت کس طرح 30 لاکھ ہوسکتی ہے، اتنی کم قیمت سن کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس محل کی خریداری کی خواہشمند بھی ہے۔ مولانا سراج الحق اسے دگنی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہیں۔
سیاستدانوں کی جانب سے اثاثوں کے متعلق الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات میں دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں، کروڑوں روپے مالیت رکھنے والے حیرت انگیز طور پر مقروض بھی ہیں، ان کے پاس لاکھوں کی بکریاں اور کروڑوں کے گھوڑے ہیں، پراپرٹی نہ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کے اثاثہ جات پر نظر ڈالی جائے تو الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بنی گالہ کے 300 کنال کے گھر کی مالیت صرف 75 کروڑ روپے ہے، وہ 168 ایکڑ زرعی زمین کے مالک اور فارن اکاؤنٹس ہولڈر بھی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 75 کروڑ روپے کے مالک ہیں، جائیداد اس کے علاوہ ہے، ان کے پاس 349 ایکڑ زرعی اراضی، دبئی میں پراپرٹی ہے۔ ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ارب پتی ہیں، 5 کروڑ روپے نقد ہیں، کوئی گاڑی نہیں، متحدہ عرب امارات کے 2 اقامے، دبئی میں ولاز، ایک بطور تحفہ ملا جب کہ ایک کے مالک ہیں۔
ایسی ہی دلچسپ صورتحال مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی صاحبزادی کی جانب سے سامنے آئی ہیں۔ مریم نواز مختلف نجی پروگرامز میں اس بات کا برملا اعلان کرچکی ہیں کہ ان کی بیرون یا اندرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے۔ بلکہ ان کا ایک پروگرام میں کہا گیا جملہ (میری برطانیہ تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں) سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، تاہم مریم نواز نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 سے جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیا ہے کہ وہ 84 کروڑ کی مالک ہیں، 1506 کنال ایک مرلہ زرعی زمین ہے، 5 ملز میں شیئر ہولڈر ہیں، انھیں 5 کروڑ کے گفٹ ملے جب کہ وہ اپنے بھائی کی قرضدار بھی ہیں۔
ماضی کے مقابلے میں اس بار سیاستدانوں کے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں غربت و افلاس کی وہ صورتحال نظر نہیں آتی جو ماضی میں ظاہر کیے گئے بعض گوشواروں میں ہوتی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انھوں نے غلط بیانی سے کام لیا تو ویب سائٹ سے حاصل کردہ تفصیلات کی بنا پر چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ سیاسی جماعتوں کے تحفظات کے پیش نظر الیکشن کمیشن مذکورہ تفصیلات ویب سائٹ پر ڈالنے میں تذبذب کی کیفیت سے دوچار تھا، الیکشن کمیشن نے رواں ماہ کے اوائل میں نہ صرف یہ تفصیلات مشتہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ 2013ء کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تفصیلات بھی اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دی تھیں، کیونکہ گزشتہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات پیکیج پر مشاورت کے دوران مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تقریباً سب ہی پارٹیوں نے معلومات کو ویب سائٹ پر ڈالنے کی مخالفت کی تھی۔
ارکان پارلیمان کا موقف تھا کہ اثاثوں کی تفصیلات جاری کرنا نجی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے، اس میں یہ قباحت بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد انھیں اغوا کرنے سمیت دیگر غیر قانونی ذرایع سے لوٹنے کی ترغیب پا سکتے ہیں۔ تاہم اب الیکشن کمیشن نے 21 ہزار امیدواروں کے حلف نامے اور اثاثوں کی تفصیلات عام کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ معلومات ویب سائٹ پرڈال دی جائیں گی۔
سیاستدانوں کے اثاثہ جات کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ سیاستدان کاغذات نامزدگی فارم سے 19شقیں ختم کرکے عوام کو معلومات تک رسائی حاصل کرنے سے کیوں روکنا چاہتے تھے اور یہ معلومات مخفی رکھنے کے ان کے مقاصد کیا تھے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ ادارے نوٹس لے کر سیاستدانوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی باریک بینی سے چھان بین کریں اور اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں، یہ معلوم کیا جائے کہ سیاستدانوں نے اثاثے کس طرح بنائے ہیں، ان کے ذرایع آمدن کیا ہیں، جو اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں اس کے علاوہ بھی کوئی دولت و املاک ہے یا نہیں؟
سیاستدانوں سے یہ باز پرس بھی ہونی چاہیے کہ کروڑوں اربوں روپے مالیت کی املاک کی قیمت اتنی کم کیوں ظاہر کی گئی ہے؟ یہ بات یقیناً قابل گرفت ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے ایسا نظام بنانا چاہیے کہ سیاستدانوں کے اثاثوں اور املاک کی اصل مالیت سامنے آسکے اور غلط بیانی کرنے پر سیاستدانوں کے خلاف کارروائی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ آیندہ وہ اپنے گوشواروں میں اثاثوں کی مالیت کے متعلق درست اعداد و شمار ظاہر کریں۔