کیا الیکٹیبلز ہی جیت کی ضمانت ہیں
الیکشن 18ء میں سبھی سیاسی جماعتوں کی آنکھوں کا تارا بن جانے والے ایک انتخابی عجوبے کا ماضی وحال
سیاسی جماعتوں نے الیکشن 2018ء کے سلسلے میں اپنے امیدواروں کی فہرستوں کا اعلان کیا تو خاصے امیدوار متنازع قرار پائے۔ان پر الزام لگا کہ وہ ''لوٹے'' ہیں جو ہوا کا رخ دیکھ کر متوقع طور پر جیتنے والی پارٹی میں چلے آئے۔
خصوصاً تیزی سے مقبول ہوتی پارٹی،تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایسے ''پیرا شوٹر'' امیدواروں کو ٹکٹ دینے پہ پُر زور احتجاج کیا اور انہیں نظریاتی کے بجائے موقع پرست اور جاہ طلب سیاست دان قرار دے ڈالا۔اس صورتحال نے سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مخمصے میں ڈال دیا۔ وہ ہر انتخابی حلقے میں ایسے امیدوار کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے جو اثرورسوخ رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ ہزارہا کارکن موجود ہوں جو اس کی انتخابی مہم چلاسکیں۔ نیز وہ مالی طور پر بھی مضبوط ہو۔
ایسے امیدواروں کو نیا نام ''الیکٹیبلز''دیا جا چکا ہے یعنی ایسے امیدوار جو اپنے حلقے میں ہر ممکن اعتبار سے الیکشن جیتنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسی لیے ہر پارٹی نے ٹکٹ دیتے ہوئے الیکٹیبلز کو ترجیح دی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مگر دعویٰ کیاکہ بہت سے الیکٹیبلز کرپٹ اور نااہل ہیں پھر بھی انہیں ٹکٹ دیا گیا۔ اس طرح پچھلے بیس برس سے پارٹی کی خاطر قربانیاں دینے والے نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی کی گئی۔ مزید براں عمران خان نظام میں تبدیلی لانے کی جو باتیں کرتے تھے، یہ رویہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
سوال یہ ہے کہ الیکٹیبلزکے خلاف کیوں عوامی احتجاج دیکھنے کو ملا؟وجہ یہ کہ تقریباً سبھی ایسے امیدوار ان پندرہ سو تا دو ہزار خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلے اکہتر برس سے الیکشن لڑتے چلے آ رہے ہیں۔ماہرین سیاسیات کا دعوی ہے کہ ربع صدی کے دوران بیشتر الیکٹیبلز متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکے۔اس اثنا میں وہ اور ان کے خانوادے تو امیر کبیر بن گئے مگر ان کے حلقوں میں عوام الناس کی اکثریت کی زندگیوں میں نمایاں بہتری نہیں آ سکی۔سیاست کے معنی ہیں:عوام کی خدمت کرنا مگر الیکٹیبلز میں یہ جذبہ کم ہی نظر آتا ہے۔
ماہرین یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ الیکشن کا عمل الیکٹیبلز کے لیے بہت پُرکشش بن چکاکہ اب اس سے ان کے کئی مفاد وابستہ ہیں۔مثلاً سرکاری فنڈز، ٹھیکوں اور سرکاری ترقیاتی منصوبوں کا ملنا (جن میں کرپشن کھانے یا کمیشن ملنے کا احتمال رہتا ہے)،حلقے میں اثر ورسوخ میں اضافہ ہو جانا،سرکاری تبادلوں پر اثر انداز ہونا(اس عمل سے بھی مالی فائدہ وابستہ ہے)، سفارشیں کرنے کے قابل ہونا وغیرہ وغیرہ ۔
دلچسپ بات یہ کہ الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے عوامی نمائندوں کی اصل ذمے داری قانون سازی ہے۔ ماہرین کا دعوی ہے کہ پانچ سال گذر جاتے ہیں، بہت سے ارکان اسمبلی چند بار قانون سازی میں حصہ لے کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہو گیا۔اس دوران ارکان اپنے مفادات کو تحفظ دینے والی قانون سازی بھی ذوق وشوق سے اپناتے ہیں۔دانشوروں کا یہ بھی دعوی ہے کہ الیکشن سے مالی ومادی مفاد منسلک ہونے کی وجہ سے ہی وطن عزیز میں دو ڈھائی ہزار خاندان اس عمل سے مستقل طور پہ چمٹ چکے ہیں۔تقریباً سبھی الیکٹیبلز ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جب ان کی ایک نسل بوڑھی ہو جائے تو اگلی نسل میدان میں اتر آتی ہے...بیٹے بیٹیاں،بہنیں اور بھائی،بھتیجے بھتیجیاں وغیرہ۔اسی لیے الیکشن کے موقع پر عوام کو نئے چہرے کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
انسانی تاریخ سے عیاں ہے کہ الیکٹیبلز کوئی نیا اعجوبہ نہیں۔ ماضی میں بادشاہ ہر علاقے میں اثرورسوخ رکھنے والے سرداروں اور خاندانوں کی مدد ہی سے حکومت کرتے تھے۔ یہ الیکٹیبلز عام طور پر زمین دار ، جاگیردار یا مذہبی رہنما ہوتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو زمین دار وغیرہ اور ان کا اثرو رسوخ و طاقت بہت کم ہوچکی تاہم ترقی پذیر ملکوں میں آج بھی وہ خصوصاً دوران الیکشن اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح بااصول،دیانت دار اور قانون پسند شخصیت تھے مگر وہ بھی الیکٹیبلز کے اعجوبے سے بچ نہ پائے۔ ایک زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو نوابوں اور جاگیرداروں کی جماعت کہا جاتا تھا ۔ قائداعظم 1935ء کے بعد مسلم لیگ کے معاملات دیکھنے لگے لیکن وہ بھی الیکٹیبلز کا تعاون و مدد لینے پر مجبور رہے یعنی ایسے رہنماؤں کا جو بالعموم جاگیردار، پیر یا دولت مند تھے۔
جنوری 1946ء میں ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ قائداعظم کا دعویٰ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانانِ ہندوستان کی واحد نمائندہ جماعت بن چکی ہے۔ اب وہ الیکشن جیت کر ہی یہ دعویٰ سچ ثابت کرسکتے تھے۔فتح کی خاطر ہی انہیں پنجاب، بنگال، سندھ، یوپی، سرحد، بمبئی اور بہار میں بہت سے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینا پڑے۔ ان میں بیشتر زمین دار ،نواب اور پیر تھے۔ یہ سبھی امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں کسی نہ کسی وجہ سے اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ قائداعظم کی زیر قیادت انتخابی کمیٹی نے صوبائی الیکشن (جنوری 1946ء) اور آئین ساز اسمبلی کے الیکشن (دسمبر 1946ء) میں جن الیکٹیبلز کو ٹکٹ دیئے وہ طاقتور اور بارسوخ ہونے کے باوجود عام طور پر اچھی شہرت کے حامل تھے۔ ان میں نواب اسماعیل خان، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، میاں محمد افتخار الدین، حسین شہید سہروردی، افتخار حسین ممدوٹ، فیروز خان نون، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ تعارف کے محتاج نہیں۔یہ عوام دوست،ہمدرد، سخی اور قوم کی ترقی کا سچا جذبہ رکھنے والے رہنما تھے۔
قائداعظم نے نظریاتی لیڈروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور انہیں ٹکٹ دیئے۔ مثال کے طور پر مولانا حسرت موہانی، مولانا اکرم خان، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر عمر حیات ملک اور بعض دیگر امیدوار علم و ادب یا صحافت کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم علمی و ادبی حیثیت ، دیانت داری اور مسلّم نظریات کے باعث ان کے حلقوں میں کثیر مسلمان انہیں پسند کرتے اور چاہتے تھے۔ چناں چہ دولت نہ ہونے پر بھی وہ الیکشن جیت گئے۔
گویا مسلمانان برصغیر کی تاریخ میں 1946ء کے دونوں الیکشن پہلا موقع تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کے نعرہ ''آزادی پاکستان'' نے بہت سے انتخابی حلقوں میں اثرو رسوخ اور دولت رکھنے والے مسلم روایتی سیاست دانوں(المعروف بہ الیکٹیبلز) کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس بار روپیہ پیسہ، برادری، اثرو رسوخ اور ترغیبات و مراعات کا لالچ کام نہیں آیا اور عام مسلمانوں نے جوق در جوق صرف ان امیدواروں کو ووٹ دیا جو ''لے کر رہیں گے پاکستان'' کا نعرہ لگارہے تھے۔
تاریخ سے مگر عیاں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ ہی نہیں دیگر جماعتوں میں بھی دوبارہ زمین دار، نواب، پیر اور امیر و بارسوخ شخصیات غالب آگئیں۔ جلد ہی پارٹیوں میں نئے شخصی عنصر، ریٹائرڈ فوجی افسروں اور کاروباریوں کا بھی اضافہ ہوگیا۔ یہی الیکٹیبلز پارٹیاں بدل بدل کر اگلے بائیس سال تک وطن عزیز میں حکومت کرتے رہے۔الیکشن 1970ء کے موقع پر پھر نیا کرشمہ ظہور پذیر ہوا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بنیادی طور پہ نظریات پر مبنی الیکشن لڑا۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ جبکہ شیخ مجیب صوبائی خود مختاری کا طلب گار تھا۔ دونوں پارٹیوں نے الیکٹیبلز کے علاوہ نظریاتی رہنماؤں کو بھی ٹکٹ دیئے اور تقریباً سبھی الیکشن جیت گئے۔ اسی زمانے میں یہ مقولہ مشہور ہوا کہ اگر بھٹو کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتا تو وہ جیت جاتا۔
اس میں شک نہیں کہ مزدور، کسان اور عام لوگوں کو حقوق و فرائض کی آگاہی دے کر بھٹو معاشرے میں بڑی تبدیلی لائے مگر وہ اپنے منصوبے کو صحیح طرح عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ ایک بڑی وجہ یہ کہ جلد ہی پی پی پی میں الیکٹیبلز حاوی ہوگئے۔ چنانچہ ان کی وجہ سے مروجہ حکومتی و سماجی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائی جاسکیں کیونکہ وہ الیکٹیبلز کے مفادات کو ضرب پہنچاتیں اور ان کی طاقت کم کر دیتیں۔
صدر ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔ گویا پچھلے تیس برس کے دوران سیاسی جماعتوں نے جن نظریات، منشوروں اور پروگراموں کو عوام میں مقبول و متعارف کرانے کی تگ و دو کی تھی، یک لخت ان کا صفایا کردیا گیا۔ اس نئی صورت حال میں الیکٹیبلز دوبارہ اپنے اپنے حلقوں میں بنیادی حیثیت و اہمیت اختیار کرگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر انھیں مختلف طریقوں سے مضبوط و طاقتور بنایا تاکہ الیکٹیبلز ان کی حمایت پر کمربستہ رہیں۔مثال کے طور پر انھیں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز دئیے جانے لگے ۔اس عمل سے الیکٹیبلز کو زیادہ سے زیادہ سرکاری پیسہ حاصل کرنے کی چاٹ لگ گئی۔
ایئر مارشل(ر) اصغر خان ،ذوالفقار علی بھٹو اور قاضی حسین احمد کے بعد عمران خان وہ چوتھے نمایاں پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے نظام میں تبدیلی لانے کا نعرہ لگاکر عوام و خواص میں شہرت پائی۔تاہم الیکشن 18ء کے موقع پر ان پر یہ بڑا الزام لگ گیا کہ وہ جیت کی خاطر ان الیکٹیبلز کا سہارا لے رہے ہیں جو ''اسٹیٹس کو''کا نمائندہ سمجھے جاتے ہیں اور کسی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ عمران خان نے ناقدوں کو بتایا کہ اگر زیادہ تر ٹکٹ نظریاتی کارکنوں کو دیئے، تو الیکشن میں تحریک انصاف ماضی کی طرح تبدیلی کی خواہش مند جماعتوں(مثلاً تحریک استقلال اور جماعت اسلامی)کے مانند بڑی کامیابی حاصل نہیں سکتی۔جبکہ نظام بدلنے کے لیے حکومت حاصل کرنا ضروری ہے۔
زمینی حقائق دیکھے جائیں تو صورتحال کچھ یہ سامنے آتی ہے۔ وطن عزیز کے شہری علاقوں میں تو پھر سیاسی جماعتوں کے نظریات، منشور اور پروگرام عوام و خواص کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر خصوصاً تعلیم یافتہ شہری ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔پڑھے لکھے پاکستانی امیداروں کے کردار بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ مگر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں آج بھی زمین دار، امیر شخصیات، مذہبی رہنما اور بااثر خاندان ہی الیکشن کے موقع پر فیصلہ کن اہمیت و حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کو آپ الیکٹیبلز کہہ لیجیے۔
قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر انتخاب ہوتا ہے۔ ان میں سے ''190'' نشستیں چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں واقع ہیں۔حالیہ الیکشن میں بھی ان بیشتر نشستوں پر عموماً امیدوار نظریات، پارٹی، منشور و پروگرام اور کردار نہیں برداری، قبیلے، اثرورسوخ، مقامی دھڑے بندی اور روپے پیسے کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ جو امیدوار جتنے زیادہ بااثر خاندانوں کو ہر ممکن طریقے سے ساتھ ملانے میں کامیاب رہا، اس کی فتح کا امکان اتنا ہی روشن ہوجائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ان 190 انتخابی حلقوں کی سیاست تین تا چار سو بڑے اور بااثر خانوادوں اور ان سے وابستہ ایک ہزار تا بارہ سو چھوٹے خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ گویا ہر دیہی حلقے میں پانچ سے دس خانوادے بہ موقع الیکشن فیصلہ کرتے ہیں کہ اس بار کون سا امیدوار فتح یاب ہوگا۔درج بالا خانوادوں کی اکثریت کسی قسم کے مستقل سیاسی نظریات و خیالات نہیں رکھتی اور نہ ہی وہ کسی ایک سیاسی جماعت سے مخلص رہتے ہیں۔ وہ حالات کے مطابق دفعۃً اپنی وفاداری تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پہ الیکشن اس لیے لڑتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کو تحفظ دیں اور علاقے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھیں۔اسی لیے کئی علاقوں میں امیدوار آپس میں عزیز رشتے دار ہوتے ہیں ۔مدعا یہی کہ علاقے میں کوئی اور برادری یا خانوادہ طاقتور نہ ہونے پائے اور طاقت کا سرچشمہ ایک ہی خانوادے کے ہاتھوں میں رہے۔
کئی دیہی علاقوں میں ایک فرد خصوصاً غریب آدمی اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتے۔انھیں لازماً مقامی زمیندار،قبائلی سردار ،امیر وبارسوخ شخصیات حتی کہ مقامی پولیس افسروں کے حکم پر مطلوبہ امیداور کو ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے،دیہی پاکستان میں آباد بہت سے لوگ آج کے ترقی یافتہ دور میںبھی آزادی سے اور جمہوری انداز میں اپنا ووٹ نہیں ڈال پاتے۔الیکشن آنے پر کسی الیکٹیبل کو کسی پارٹی سے ٹکٹ نہ ملے تو وہ بطور آزاد امیدار کھڑا ہو جاتا ہے۔یہ الیکٹیبلز کھلے عام کہتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کی خاطر انھیں کسی پارٹی کی ضرورت نہیں...بلکہ سیاسی جماعتوں کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔اسی لیے بیشتر حلقوں میں اصل مقابلہ پارٹیوں اور ان کے نظریات نہیں شخصیات اور خانوادوں کے مابین ہوتا ہے۔ بہت سے خانوادے پورے ضلع بلکہ اضلاع میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔نیز کئی علاقوں میں صرف مخصوص خانوادوں کے سپوت ہی الیکشن لڑنے کے مجاز ہیں۔
شہری علاقے ہوں یا دیہی، مخصوص امیدواروں یا الیکٹیبلز کی جیت کی بعض وجوہ ہیں۔کچھ اپنے حلقے میں لوگوں کے کام کراتے اور یوں مقبولیت پاتے ہیں۔ایسے امیدوار بالعموم اچھی شہرت رکھتے ہیں۔دیہی حلقوں میں خصوصاً عام (کمزور) لوگ طاقتور الیکٹیبلز کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں تاکہ وہ انھیں تھانے کچہری سے بچا سکیں۔(پاکستان میں روٹی کی جدوجہد کے بعد عوام کا ایک بڑا مسئلہ انصاف نہ ملنا ہے۔)بیشتر الیکٹیبلز اپنے مال اور اثرورسوخ کی بنا پر ہی جیتتے ہیں۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ دیہی پاکستان میں پچھلے اکہتر برس سے کم وبیش ایک ہی معاشرتی و معاشی ڈھانچا چلا آرہا ہے جو عموماً طاقتور و بالادست کو فوائد پہنچاتا ہے۔یہی وجہ ہے ہماری بیشتر دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسّر نہیں۔جہالت اور بیماری عام ہے۔وہ قیمتی کار نہیں پینے کے صاف پانی کو لگژری سمجھتی ہے۔جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے گندا پانی پیتے ہیں۔صد افسوس ،ربع صدی میں بھی طاقتور اور بااثر لوگ اپنے حلقوں میں عوام کا معیار زندگی بلند نہیں کر سکے...گڈ گورنس اور سائنس و ٹکنالوجی اپنا کے ملک قوم کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کی فکر کرنا اور جذبہ رکھنا تو دور کی بات ہے۔
یہ البتہ خوش آئند بات ہے کہ پچھلے دس برس کے دوران میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلنے اور سرگرم ہونے سے خصوصاً پڑھے لکھے دیہی نوجوانوں میں آگاہی پیدا ہو چکی۔انھیں اب احساس ہوا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے اپنے ناگفتہ بہ حالات بدل سکتے ہیں۔اسی لیے دوردراز علاقوں میں بھی دیہی نوجوان ان طاقتور شخصیات سے سوال کر رہے ہیں جنھیں وہاں دیوتا جیسا مقام حاصل تھا۔اپنے حقوق و فرائض سے آشنا یہ نوجوان اب چیک اینڈ بیلنس کی حیثیت اختیار کر چکے۔وہ اپنے لیڈروں اور حکومت کی کسی قسم کی کرپشن قبول کرنے کو تیار نہیں۔بعض دانشوروں کا یہ بھی دعوی ہے کہ پچھلے پندرہ سال کے دوران الیکٹیبلزکی طاقت اور اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔اب سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات رفتہ رفتہ قوت پکڑ رہے ہیں جو اُمید افزا تبدیلی ہے۔اس طرح مملکت پاک میں جمہوریت پھلے پھولے گی اور شخصیات نہیں ادارے مضبوط ہوں گے۔
کچھ ماہرین سیاسیات یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ عمران خان مضبوط کردار کے مالک ہیں۔لہذا ان کی پارٹی میں الیکٹیبلز ہوئے بھی تو اقتدار سنبھال کر وہ اپنے منشور کو عملی جامہ ضرور پہنائیں گے۔روایتی سیاست داں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتے۔تاہم ماہرین سیاسیات کہتے ہیں،الیکٹیبلز کا کلچر اپنا لینے سے نظریاتی سیاست کو ضعف پہنچتا ہے جبکہ مفاداتی سیاست نمایاں ہو جاتی ہے۔
یہ کلچر مورثی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لیے سود مند ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سبھی پارٹیوں کے نظریاتی اور دیرینہ کارکن و رہنما الیکشن میں حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔وجہ یہ کہ تب ممکن ہے ،الیکٹیبلز سے برگشتہ لوگ بڑی تعداد میں انھیں ووٹ ڈال دیں۔گویا الیکشن 18ء میں الیکٹیبلز کا عنصر خاصا عجیب و غریب بن چکا۔یہ عیاں ہے کہ یہ عنصر کسی بھی پارٹی کا ''تخت یا تختہ'' کرنے اور اسے ''آر یا پار'' پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ماضی میں مایوس کن کارکردگی دکھانے والے الیکٹیبلز کو اپنی انتخابی کشتی میں سوار کروا کر الیکشن میں فتح یاب ہونے کی قطعی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ یہ عمل کشتی ہی کو غرق کر ڈالے۔آنے والی نئی اسمبلی میں الیکٹیبلز کے عجوبے پر بھی بحث ہونی چاہیے تاکہ اس کی خامیاں سامنے آ سکیں۔
خصوصاً تیزی سے مقبول ہوتی پارٹی،تحریک انصاف کے کارکنوں نے ایسے ''پیرا شوٹر'' امیدواروں کو ٹکٹ دینے پہ پُر زور احتجاج کیا اور انہیں نظریاتی کے بجائے موقع پرست اور جاہ طلب سیاست دان قرار دے ڈالا۔اس صورتحال نے سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مخمصے میں ڈال دیا۔ وہ ہر انتخابی حلقے میں ایسے امیدوار کو ٹکٹ دینا چاہتے تھے جو اثرورسوخ رکھتا ہو۔ اس کے ساتھ ہزارہا کارکن موجود ہوں جو اس کی انتخابی مہم چلاسکیں۔ نیز وہ مالی طور پر بھی مضبوط ہو۔
ایسے امیدواروں کو نیا نام ''الیکٹیبلز''دیا جا چکا ہے یعنی ایسے امیدوار جو اپنے حلقے میں ہر ممکن اعتبار سے الیکشن جیتنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسی لیے ہر پارٹی نے ٹکٹ دیتے ہوئے الیکٹیبلز کو ترجیح دی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے مگر دعویٰ کیاکہ بہت سے الیکٹیبلز کرپٹ اور نااہل ہیں پھر بھی انہیں ٹکٹ دیا گیا۔ اس طرح پچھلے بیس برس سے پارٹی کی خاطر قربانیاں دینے والے نظریاتی کارکنوں کی حق تلفی کی گئی۔ مزید براں عمران خان نظام میں تبدیلی لانے کی جو باتیں کرتے تھے، یہ رویہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
سوال یہ ہے کہ الیکٹیبلزکے خلاف کیوں عوامی احتجاج دیکھنے کو ملا؟وجہ یہ کہ تقریباً سبھی ایسے امیدوار ان پندرہ سو تا دو ہزار خانوادوں سے تعلق رکھتے ہیں جو پچھلے اکہتر برس سے الیکشن لڑتے چلے آ رہے ہیں۔ماہرین سیاسیات کا دعوی ہے کہ ربع صدی کے دوران بیشتر الیکٹیبلز متاثر کن کارکردگی نہیں دکھا سکے۔اس اثنا میں وہ اور ان کے خانوادے تو امیر کبیر بن گئے مگر ان کے حلقوں میں عوام الناس کی اکثریت کی زندگیوں میں نمایاں بہتری نہیں آ سکی۔سیاست کے معنی ہیں:عوام کی خدمت کرنا مگر الیکٹیبلز میں یہ جذبہ کم ہی نظر آتا ہے۔
ماہرین یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ الیکشن کا عمل الیکٹیبلز کے لیے بہت پُرکشش بن چکاکہ اب اس سے ان کے کئی مفاد وابستہ ہیں۔مثلاً سرکاری فنڈز، ٹھیکوں اور سرکاری ترقیاتی منصوبوں کا ملنا (جن میں کرپشن کھانے یا کمیشن ملنے کا احتمال رہتا ہے)،حلقے میں اثر ورسوخ میں اضافہ ہو جانا،سرکاری تبادلوں پر اثر انداز ہونا(اس عمل سے بھی مالی فائدہ وابستہ ہے)، سفارشیں کرنے کے قابل ہونا وغیرہ وغیرہ ۔
دلچسپ بات یہ کہ الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے عوامی نمائندوں کی اصل ذمے داری قانون سازی ہے۔ ماہرین کا دعوی ہے کہ پانچ سال گذر جاتے ہیں، بہت سے ارکان اسمبلی چند بار قانون سازی میں حصہ لے کر سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہو گیا۔اس دوران ارکان اپنے مفادات کو تحفظ دینے والی قانون سازی بھی ذوق وشوق سے اپناتے ہیں۔دانشوروں کا یہ بھی دعوی ہے کہ الیکشن سے مالی ومادی مفاد منسلک ہونے کی وجہ سے ہی وطن عزیز میں دو ڈھائی ہزار خاندان اس عمل سے مستقل طور پہ چمٹ چکے ہیں۔تقریباً سبھی الیکٹیبلز ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔جب ان کی ایک نسل بوڑھی ہو جائے تو اگلی نسل میدان میں اتر آتی ہے...بیٹے بیٹیاں،بہنیں اور بھائی،بھتیجے بھتیجیاں وغیرہ۔اسی لیے الیکشن کے موقع پر عوام کو نئے چہرے کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
انسانی تاریخ سے عیاں ہے کہ الیکٹیبلز کوئی نیا اعجوبہ نہیں۔ ماضی میں بادشاہ ہر علاقے میں اثرورسوخ رکھنے والے سرداروں اور خاندانوں کی مدد ہی سے حکومت کرتے تھے۔ یہ الیکٹیبلز عام طور پر زمین دار ، جاگیردار یا مذہبی رہنما ہوتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو زمین دار وغیرہ اور ان کا اثرو رسوخ و طاقت بہت کم ہوچکی تاہم ترقی پذیر ملکوں میں آج بھی وہ خصوصاً دوران الیکشن اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح بااصول،دیانت دار اور قانون پسند شخصیت تھے مگر وہ بھی الیکٹیبلز کے اعجوبے سے بچ نہ پائے۔ ایک زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو نوابوں اور جاگیرداروں کی جماعت کہا جاتا تھا ۔ قائداعظم 1935ء کے بعد مسلم لیگ کے معاملات دیکھنے لگے لیکن وہ بھی الیکٹیبلز کا تعاون و مدد لینے پر مجبور رہے یعنی ایسے رہنماؤں کا جو بالعموم جاگیردار، پیر یا دولت مند تھے۔
جنوری 1946ء میں ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ قائداعظم کا دعویٰ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانانِ ہندوستان کی واحد نمائندہ جماعت بن چکی ہے۔ اب وہ الیکشن جیت کر ہی یہ دعویٰ سچ ثابت کرسکتے تھے۔فتح کی خاطر ہی انہیں پنجاب، بنگال، سندھ، یوپی، سرحد، بمبئی اور بہار میں بہت سے الیکٹیبلز کو ٹکٹ دینا پڑے۔ ان میں بیشتر زمین دار ،نواب اور پیر تھے۔ یہ سبھی امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں کسی نہ کسی وجہ سے اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
لیکن یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ قائداعظم کی زیر قیادت انتخابی کمیٹی نے صوبائی الیکشن (جنوری 1946ء) اور آئین ساز اسمبلی کے الیکشن (دسمبر 1946ء) میں جن الیکٹیبلز کو ٹکٹ دیئے وہ طاقتور اور بارسوخ ہونے کے باوجود عام طور پر اچھی شہرت کے حامل تھے۔ ان میں نواب اسماعیل خان، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، میاں محمد افتخار الدین، حسین شہید سہروردی، افتخار حسین ممدوٹ، فیروز خان نون، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ تعارف کے محتاج نہیں۔یہ عوام دوست،ہمدرد، سخی اور قوم کی ترقی کا سچا جذبہ رکھنے والے رہنما تھے۔
قائداعظم نے نظریاتی لیڈروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا اور انہیں ٹکٹ دیئے۔ مثال کے طور پر مولانا حسرت موہانی، مولانا اکرم خان، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر عمر حیات ملک اور بعض دیگر امیدوار علم و ادب یا صحافت کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم علمی و ادبی حیثیت ، دیانت داری اور مسلّم نظریات کے باعث ان کے حلقوں میں کثیر مسلمان انہیں پسند کرتے اور چاہتے تھے۔ چناں چہ دولت نہ ہونے پر بھی وہ الیکشن جیت گئے۔
گویا مسلمانان برصغیر کی تاریخ میں 1946ء کے دونوں الیکشن پہلا موقع تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ کے نعرہ ''آزادی پاکستان'' نے بہت سے انتخابی حلقوں میں اثرو رسوخ اور دولت رکھنے والے مسلم روایتی سیاست دانوں(المعروف بہ الیکٹیبلز) کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس بار روپیہ پیسہ، برادری، اثرو رسوخ اور ترغیبات و مراعات کا لالچ کام نہیں آیا اور عام مسلمانوں نے جوق در جوق صرف ان امیدواروں کو ووٹ دیا جو ''لے کر رہیں گے پاکستان'' کا نعرہ لگارہے تھے۔
تاریخ سے مگر عیاں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ ہی نہیں دیگر جماعتوں میں بھی دوبارہ زمین دار، نواب، پیر اور امیر و بارسوخ شخصیات غالب آگئیں۔ جلد ہی پارٹیوں میں نئے شخصی عنصر، ریٹائرڈ فوجی افسروں اور کاروباریوں کا بھی اضافہ ہوگیا۔ یہی الیکٹیبلز پارٹیاں بدل بدل کر اگلے بائیس سال تک وطن عزیز میں حکومت کرتے رہے۔الیکشن 1970ء کے موقع پر پھر نیا کرشمہ ظہور پذیر ہوا۔ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بنیادی طور پہ نظریات پر مبنی الیکشن لڑا۔ بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ جبکہ شیخ مجیب صوبائی خود مختاری کا طلب گار تھا۔ دونوں پارٹیوں نے الیکٹیبلز کے علاوہ نظریاتی رہنماؤں کو بھی ٹکٹ دیئے اور تقریباً سبھی الیکشن جیت گئے۔ اسی زمانے میں یہ مقولہ مشہور ہوا کہ اگر بھٹو کھمبے کو بھی ٹکٹ دیتا تو وہ جیت جاتا۔
اس میں شک نہیں کہ مزدور، کسان اور عام لوگوں کو حقوق و فرائض کی آگاہی دے کر بھٹو معاشرے میں بڑی تبدیلی لائے مگر وہ اپنے منصوبے کو صحیح طرح عملی جامہ نہیں پہنا سکے۔ ایک بڑی وجہ یہ کہ جلد ہی پی پی پی میں الیکٹیبلز حاوی ہوگئے۔ چنانچہ ان کی وجہ سے مروجہ حکومتی و سماجی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لائی جاسکیں کیونکہ وہ الیکٹیبلز کے مفادات کو ضرب پہنچاتیں اور ان کی طاقت کم کر دیتیں۔
صدر ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی۔ گویا پچھلے تیس برس کے دوران سیاسی جماعتوں نے جن نظریات، منشوروں اور پروگراموں کو عوام میں مقبول و متعارف کرانے کی تگ و دو کی تھی، یک لخت ان کا صفایا کردیا گیا۔ اس نئی صورت حال میں الیکٹیبلز دوبارہ اپنے اپنے حلقوں میں بنیادی حیثیت و اہمیت اختیار کرگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر انھیں مختلف طریقوں سے مضبوط و طاقتور بنایا تاکہ الیکٹیبلز ان کی حمایت پر کمربستہ رہیں۔مثال کے طور پر انھیں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے کروڑوں روپے کے سرکاری فنڈز دئیے جانے لگے ۔اس عمل سے الیکٹیبلز کو زیادہ سے زیادہ سرکاری پیسہ حاصل کرنے کی چاٹ لگ گئی۔
ایئر مارشل(ر) اصغر خان ،ذوالفقار علی بھٹو اور قاضی حسین احمد کے بعد عمران خان وہ چوتھے نمایاں پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے نظام میں تبدیلی لانے کا نعرہ لگاکر عوام و خواص میں شہرت پائی۔تاہم الیکشن 18ء کے موقع پر ان پر یہ بڑا الزام لگ گیا کہ وہ جیت کی خاطر ان الیکٹیبلز کا سہارا لے رہے ہیں جو ''اسٹیٹس کو''کا نمائندہ سمجھے جاتے ہیں اور کسی قسم کی تبدیلی نہیں چاہتے۔ عمران خان نے ناقدوں کو بتایا کہ اگر زیادہ تر ٹکٹ نظریاتی کارکنوں کو دیئے، تو الیکشن میں تحریک انصاف ماضی کی طرح تبدیلی کی خواہش مند جماعتوں(مثلاً تحریک استقلال اور جماعت اسلامی)کے مانند بڑی کامیابی حاصل نہیں سکتی۔جبکہ نظام بدلنے کے لیے حکومت حاصل کرنا ضروری ہے۔
زمینی حقائق دیکھے جائیں تو صورتحال کچھ یہ سامنے آتی ہے۔ وطن عزیز کے شہری علاقوں میں تو پھر سیاسی جماعتوں کے نظریات، منشور اور پروگرام عوام و خواص کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر خصوصاً تعلیم یافتہ شہری ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔پڑھے لکھے پاکستانی امیداروں کے کردار بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ مگر چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہی علاقوں میں آج بھی زمین دار، امیر شخصیات، مذہبی رہنما اور بااثر خاندان ہی الیکشن کے موقع پر فیصلہ کن اہمیت و حیثیت رکھتے ہیں۔ انہی کو آپ الیکٹیبلز کہہ لیجیے۔
قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر انتخاب ہوتا ہے۔ ان میں سے ''190'' نشستیں چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہات میں واقع ہیں۔حالیہ الیکشن میں بھی ان بیشتر نشستوں پر عموماً امیدوار نظریات، پارٹی، منشور و پروگرام اور کردار نہیں برداری، قبیلے، اثرورسوخ، مقامی دھڑے بندی اور روپے پیسے کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ جو امیدوار جتنے زیادہ بااثر خاندانوں کو ہر ممکن طریقے سے ساتھ ملانے میں کامیاب رہا، اس کی فتح کا امکان اتنا ہی روشن ہوجائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ان 190 انتخابی حلقوں کی سیاست تین تا چار سو بڑے اور بااثر خانوادوں اور ان سے وابستہ ایک ہزار تا بارہ سو چھوٹے خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ گویا ہر دیہی حلقے میں پانچ سے دس خانوادے بہ موقع الیکشن فیصلہ کرتے ہیں کہ اس بار کون سا امیدوار فتح یاب ہوگا۔درج بالا خانوادوں کی اکثریت کسی قسم کے مستقل سیاسی نظریات و خیالات نہیں رکھتی اور نہ ہی وہ کسی ایک سیاسی جماعت سے مخلص رہتے ہیں۔ وہ حالات کے مطابق دفعۃً اپنی وفاداری تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پہ الیکشن اس لیے لڑتے ہیں تاکہ اپنے مفادات کو تحفظ دیں اور علاقے میں اپنا اثرورسوخ برقرار رکھیں۔اسی لیے کئی علاقوں میں امیدوار آپس میں عزیز رشتے دار ہوتے ہیں ۔مدعا یہی کہ علاقے میں کوئی اور برادری یا خانوادہ طاقتور نہ ہونے پائے اور طاقت کا سرچشمہ ایک ہی خانوادے کے ہاتھوں میں رہے۔
کئی دیہی علاقوں میں ایک فرد خصوصاً غریب آدمی اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتے۔انھیں لازماً مقامی زمیندار،قبائلی سردار ،امیر وبارسوخ شخصیات حتی کہ مقامی پولیس افسروں کے حکم پر مطلوبہ امیداور کو ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے،دیہی پاکستان میں آباد بہت سے لوگ آج کے ترقی یافتہ دور میںبھی آزادی سے اور جمہوری انداز میں اپنا ووٹ نہیں ڈال پاتے۔الیکشن آنے پر کسی الیکٹیبل کو کسی پارٹی سے ٹکٹ نہ ملے تو وہ بطور آزاد امیدار کھڑا ہو جاتا ہے۔یہ الیکٹیبلز کھلے عام کہتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کی خاطر انھیں کسی پارٹی کی ضرورت نہیں...بلکہ سیاسی جماعتوں کو ان کی ضرورت پڑتی ہے۔اسی لیے بیشتر حلقوں میں اصل مقابلہ پارٹیوں اور ان کے نظریات نہیں شخصیات اور خانوادوں کے مابین ہوتا ہے۔ بہت سے خانوادے پورے ضلع بلکہ اضلاع میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔نیز کئی علاقوں میں صرف مخصوص خانوادوں کے سپوت ہی الیکشن لڑنے کے مجاز ہیں۔
شہری علاقے ہوں یا دیہی، مخصوص امیدواروں یا الیکٹیبلز کی جیت کی بعض وجوہ ہیں۔کچھ اپنے حلقے میں لوگوں کے کام کراتے اور یوں مقبولیت پاتے ہیں۔ایسے امیدوار بالعموم اچھی شہرت رکھتے ہیں۔دیہی حلقوں میں خصوصاً عام (کمزور) لوگ طاقتور الیکٹیبلز کو اس لیے ووٹ دیتے ہیں تاکہ وہ انھیں تھانے کچہری سے بچا سکیں۔(پاکستان میں روٹی کی جدوجہد کے بعد عوام کا ایک بڑا مسئلہ انصاف نہ ملنا ہے۔)بیشتر الیکٹیبلز اپنے مال اور اثرورسوخ کی بنا پر ہی جیتتے ہیں۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ دیہی پاکستان میں پچھلے اکہتر برس سے کم وبیش ایک ہی معاشرتی و معاشی ڈھانچا چلا آرہا ہے جو عموماً طاقتور و بالادست کو فوائد پہنچاتا ہے۔یہی وجہ ہے ہماری بیشتر دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسّر نہیں۔جہالت اور بیماری عام ہے۔وہ قیمتی کار نہیں پینے کے صاف پانی کو لگژری سمجھتی ہے۔جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے گندا پانی پیتے ہیں۔صد افسوس ،ربع صدی میں بھی طاقتور اور بااثر لوگ اپنے حلقوں میں عوام کا معیار زندگی بلند نہیں کر سکے...گڈ گورنس اور سائنس و ٹکنالوجی اپنا کے ملک قوم کو ترقی یافتہ و خوشحال بنانے کی فکر کرنا اور جذبہ رکھنا تو دور کی بات ہے۔
یہ البتہ خوش آئند بات ہے کہ پچھلے دس برس کے دوران میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلنے اور سرگرم ہونے سے خصوصاً پڑھے لکھے دیہی نوجوانوں میں آگاہی پیدا ہو چکی۔انھیں اب احساس ہوا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت سے اپنے ناگفتہ بہ حالات بدل سکتے ہیں۔اسی لیے دوردراز علاقوں میں بھی دیہی نوجوان ان طاقتور شخصیات سے سوال کر رہے ہیں جنھیں وہاں دیوتا جیسا مقام حاصل تھا۔اپنے حقوق و فرائض سے آشنا یہ نوجوان اب چیک اینڈ بیلنس کی حیثیت اختیار کر چکے۔وہ اپنے لیڈروں اور حکومت کی کسی قسم کی کرپشن قبول کرنے کو تیار نہیں۔بعض دانشوروں کا یہ بھی دعوی ہے کہ پچھلے پندرہ سال کے دوران الیکٹیبلزکی طاقت اور اثرورسوخ میں کمی آئی ہے۔اب سیاسی جماعتیں اور ان کے نظریات رفتہ رفتہ قوت پکڑ رہے ہیں جو اُمید افزا تبدیلی ہے۔اس طرح مملکت پاک میں جمہوریت پھلے پھولے گی اور شخصیات نہیں ادارے مضبوط ہوں گے۔
کچھ ماہرین سیاسیات یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ عمران خان مضبوط کردار کے مالک ہیں۔لہذا ان کی پارٹی میں الیکٹیبلز ہوئے بھی تو اقتدار سنبھال کر وہ اپنے منشور کو عملی جامہ ضرور پہنائیں گے۔روایتی سیاست داں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہو سکتے۔تاہم ماہرین سیاسیات کہتے ہیں،الیکٹیبلز کا کلچر اپنا لینے سے نظریاتی سیاست کو ضعف پہنچتا ہے جبکہ مفاداتی سیاست نمایاں ہو جاتی ہے۔
یہ کلچر مورثی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لیے سود مند ہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سبھی پارٹیوں کے نظریاتی اور دیرینہ کارکن و رہنما الیکشن میں حیران کن نتائج دے سکتے ہیں۔وجہ یہ کہ تب ممکن ہے ،الیکٹیبلز سے برگشتہ لوگ بڑی تعداد میں انھیں ووٹ ڈال دیں۔گویا الیکشن 18ء میں الیکٹیبلز کا عنصر خاصا عجیب و غریب بن چکا۔یہ عیاں ہے کہ یہ عنصر کسی بھی پارٹی کا ''تخت یا تختہ'' کرنے اور اسے ''آر یا پار'' پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ماضی میں مایوس کن کارکردگی دکھانے والے الیکٹیبلز کو اپنی انتخابی کشتی میں سوار کروا کر الیکشن میں فتح یاب ہونے کی قطعی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ یہ عمل کشتی ہی کو غرق کر ڈالے۔آنے والی نئی اسمبلی میں الیکٹیبلز کے عجوبے پر بھی بحث ہونی چاہیے تاکہ اس کی خامیاں سامنے آ سکیں۔