ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آخری موقع ہے چیئرمین ایف بی آر
سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا جائے، حکومت اور کاروباری برادری دونوں کوفائدہ ہوگا، طارق پاشا
چیئرمین ایف بی آر طارق محمود پاشا نے کہا ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم تاجر برادری کے لیے سنہری اور آخری موقع ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
وہ لاہور چیمبر کے دورے میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر صدر چیمبر ملک طاہر جاوید، نائب صدر ذیشان خلیل اور ایگزیکٹو کمیٹی ارکان کے علاوہ صوبائی وزیر خزانہ سید ضیاء حیدر رضوی، میاں محمد اشرف اور کاشف انور بھی موجود تھے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تاجروں کو عزت و احترام دیے بغیر محاصل وصولی کا جواز نہیں بنتا، ریفنڈز کے مسائل تیزی سے حل کیے جا رہے ہیں، گزشتہ سال سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی 54 رب روپے تھی جبکہ اس سال 102 رب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز ادا کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ 2 سال میں سیلز ٹیکس ریفنڈز کا مسئلہ ختم ہوجائے گا، وسائل کی قلت کے سبب انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریفنڈز اکٹھے ادا کرنا ممکن نہیں مگر صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کافی چیزوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی، ان اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جو ملک میں تیار ہو رہی ہیں تاکہ مقامی صنعتوں کو تحفظ ملے۔ انہوں نے کہا کہ باربار آڈٹ نے تاجروں کو پریشان کر رکھا تھا، اب 3 سال میں صرف ایک ہی آڈٹ ہوگا جس سے اختیارات کے غلط استعمال کی روک تھام بھی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تاجر برادری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اثاثہ جات کو ظاہر کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے تاجروں کے ساتھ ایف بی آر بھرپور تعاون کر رہا ہے، اس سے حکومت اور کاروباری برادری دونوں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اے ڈی آر سی کے لیے لسٹ ایف بی آر مرتب کرے گا جبکہ نمائندہ تاجر منتخب کریں گے، کمیٹی کا فیصلہ سب کو قبول کرنا ہوگا۔
لاہور چیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا اچھا قدم ہے جس کے تحت 2 سے 5 فیصد ٹیکس ادا کر کے اثاثہ جات ظاہر کیے جاسکتے ہیں، اس اسکیم میں کم از کم 1ماہ کی توسیع ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان اشیا اور خام مال وغیرہ کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی نہیں ہونی چاہیے جو مقامی سطح پر دستیاب نہیں تاکہ صنعتوں کو پریشانی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں، مینوفیکچررز اور کمرشل امپورٹرز کے لیے سیلز ٹیکس کے مختلف ریٹس ہیںجو ابہام پیدا کررہے ہیں، سب کے لیے سیلز ٹیکس کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہیے، مزید برآں صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں میں ہم آہنگی لاکر دہرے ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔
لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ ٹیکسوں و ڈیوٹیوں کی تعداد و شرح کم کرکے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جاسکتی ہے، لاہور چیمبر بینکوں سے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کی سخت مخالفت اور اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، کاروباری برادری کی مشکلات کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ریفنڈز جلد ادا کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسٹمز ویلیوایشن کا احاطہ کرنے کے لیے اجلاس لاہور میں منعقد کیا جائے اور تنازعات حل کرنے کے لیے متبادل میکنزم کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔
وہ لاہور چیمبر کے دورے میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر صدر چیمبر ملک طاہر جاوید، نائب صدر ذیشان خلیل اور ایگزیکٹو کمیٹی ارکان کے علاوہ صوبائی وزیر خزانہ سید ضیاء حیدر رضوی، میاں محمد اشرف اور کاشف انور بھی موجود تھے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تاجروں کو عزت و احترام دیے بغیر محاصل وصولی کا جواز نہیں بنتا، ریفنڈز کے مسائل تیزی سے حل کیے جا رہے ہیں، گزشتہ سال سیلز ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی 54 رب روپے تھی جبکہ اس سال 102 رب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز ادا کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ 2 سال میں سیلز ٹیکس ریفنڈز کا مسئلہ ختم ہوجائے گا، وسائل کی قلت کے سبب انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریفنڈز اکٹھے ادا کرنا ممکن نہیں مگر صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کافی چیزوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی، ان اشیا کی درآمدات کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جو ملک میں تیار ہو رہی ہیں تاکہ مقامی صنعتوں کو تحفظ ملے۔ انہوں نے کہا کہ باربار آڈٹ نے تاجروں کو پریشان کر رکھا تھا، اب 3 سال میں صرف ایک ہی آڈٹ ہوگا جس سے اختیارات کے غلط استعمال کی روک تھام بھی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تاجر برادری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اثاثہ جات کو ظاہر کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے تاجروں کے ساتھ ایف بی آر بھرپور تعاون کر رہا ہے، اس سے حکومت اور کاروباری برادری دونوں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اے ڈی آر سی کے لیے لسٹ ایف بی آر مرتب کرے گا جبکہ نمائندہ تاجر منتخب کریں گے، کمیٹی کا فیصلہ سب کو قبول کرنا ہوگا۔
لاہور چیمبر کے صدر ملک طاہر جاوید نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرا اچھا قدم ہے جس کے تحت 2 سے 5 فیصد ٹیکس ادا کر کے اثاثہ جات ظاہر کیے جاسکتے ہیں، اس اسکیم میں کم از کم 1ماہ کی توسیع ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان اشیا اور خام مال وغیرہ کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی نہیں ہونی چاہیے جو مقامی سطح پر دستیاب نہیں تاکہ صنعتوں کو پریشانی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ تاجروں، مینوفیکچررز اور کمرشل امپورٹرز کے لیے سیلز ٹیکس کے مختلف ریٹس ہیںجو ابہام پیدا کررہے ہیں، سب کے لیے سیلز ٹیکس کا ایک ہی ریٹ ہونا چاہیے، مزید برآں صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں میں ہم آہنگی لاکر دہرے ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔
لاہور چیمبر کے صدر نے کہا کہ ٹیکسوں و ڈیوٹیوں کی تعداد و شرح کم کرکے ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جاسکتی ہے، لاہور چیمبر بینکوں سے لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس کی سخت مخالفت اور اس کی فوری واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، کاروباری برادری کی مشکلات کم کرنے کے لیے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ریفنڈز جلد ادا کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسٹمز ویلیوایشن کا احاطہ کرنے کے لیے اجلاس لاہور میں منعقد کیا جائے اور تنازعات حل کرنے کے لیے متبادل میکنزم کو مستحکم کرنا ضروری ہے۔