شفاف انتخابات اور میڈیا
محمد علی جناح کی قیادت میں بمبئی کے شہریوں نے اخبار کی انتظامیہ کے خلاف تحریک شروع کی
جمہوریت کے ارتقاء کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے، مگر انتخابات قریب آتے ہی میڈیا پر پابندیوں اور دباؤ کے الزامات لگنے لگے۔ میڈیا پر دباؤ کا ذکر میڈیا کی آزادی کے لیے سرگرداں بین الاقوامی اداروں کے فورمز پر ہونے لگا۔ یونان کے دارالحومت ایتھنز میں دنیا بھر کے اخبارات کے ایڈیٹر کا فورم منعقد ہوا۔ اس فورم میں پاکستانی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر مختلف نوعیت کے دباؤ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔
پھر انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (I.P.I) نے ملک میں آزادئ صحافت پر لگنے والی بعض قدغن پر تشویش کا اظہار کیا۔ آئی پی آئی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا نے وزیراعظم، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینیٹ کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں ان واقعات کی نشاندہی کی ہے جو براہِ راست آزادئ صحافت پر حملے کے مترادف ہیں۔ اس خط میں لاہور کی ایک صحافی گل بخاری کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا، ایک اور صحافی اسد کھرل پر حملے اور بعض اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر صاحبہ نے انتظامیہ معاملات میں عسکری مداخلت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) اور صحافتی تنظیمیں بھی اسی طرح کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔
پاکستان میں آزادئ صحافت کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستان میں آزادئ صحافت کے تناظر میں ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان میں آزادئ صحافت پر لگنے والی پابندیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں گزارا تھا۔ محمد علی جناح جب گزشتہ صدی کے پہلے عشرے میں برطانیہ سے بیرسٹری کر کے واپس آئے تو قوم پرست رہنما پال گنگا دھر تلک نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے تصور کو عام کرنے کی جدوجہد شروع کی ہوئی تھی۔ مولانا حسرت موہانی تلک کے حامیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ملک کے ایک اخبار کیسری کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔
انگریز حکومت نے تلک کو گرفتار کیا اور اخبار پر پابندی عائد کردی۔ نوجوان بیرسٹر نے تلک اور اخباری کیسری کا عدالت میں دفاع کیا۔ انگریز حکومت نے اخبار کیسری پر بغاوت کا الزام عائد کیا تھا۔ مگر جناح صاحب کا موقف تھا کہ کیسری میں شایع ہونے والے مضامین پر بغاوت کا الزام لگانا غلط ہے۔ پھر بیرسٹر جناح انڈین لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ الہ آباد کے ایک اخبار نے کونسل کی کارروائی شایع کی۔ یوپی کی حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کردی۔ محمد علی جناح نے کونسل کے اجلاس میں اخبار پر پابندی پر سخت احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کونسل کی کارروائی کی اشاعت کی اجازت نہیں دے گی تو ان کا کونسل کے رکن رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جناح صاحب انڈین لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ جناح صاحب کی بمبئی کرانیکل کی بحالی کے لیے جدوجہد، آزادئ صحافت اور ہندوستان کی آزادی کا روشن باب ہے۔ بمبئی کرانیکل کے انگریز ایڈیٹر ہیئرمین کو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے بہت دلچسپی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بمبئی کرانیکل میں وہ سب خبریں شایع ہوتی تھیں جو سیاسی جماعتوں، مزدور تنظیموں اور وکلا کی ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے متعلق تھیں۔ انگریز حکومت کے دباؤ پر بمبئی کرانیکل کی انتظامیہ نے اخبار کے ایڈیٹر ہیئرمین کو برطرف کردیا جس پر بمبئی کرانیکل کا باقی عملہ مستعفی ہوگیا۔
محمد علی جناح کی قیادت میں بمبئی کے شہریوں نے اخبار کی انتظامیہ کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے دباؤ پر بمبئی کرانیکل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے استعفیٰ دیدیا۔ پھر نئے بورڈ آف ڈائریکٹر نے محمد علی جناح کو بورڈ آف ڈائریکٹر کا چیئرمین مقرر کیا۔ کرانیکل کی اشاعت پھر شروع ہوئی۔ جب بنگال میں خوفناک قہد پڑا تو انگریز حکومت نے بنگال کی صورتحال پر خبروں کی اشاعت کو روکا مگر بمبئی کرانیکل نے بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور شہروں اور گاؤں میں بچوں، عورتوں اور مردوں کی ہلاکت اور انتظامیہ کی نااہلی کے بارے میں خبریں شایع کیں تو دنیا بھر کو بنگال کی خطرناک صورتحال کا علم ہوا۔
امرتسر میں جنرل ڈائر کے حکم پر جلیانوالا باغ میں شہریوں کا قتل عام ہوا تو بمبئی کرانیکل نے اس انسانیت سوز واقعہ کو تفصیل سے کور کیا، جس پر انگریز حکومت نے مسٹر ہیئرمین کو زبردستی جہاز میں بٹھا کر ہندوستان بدر کردیا اور اخبار پر سنسرشپ عائد کردی۔ محمد علی جناح نے مسٹر ہیئرمین کو ہندوستان سے نکالے جانے کے خلاف ایک احتجاجی مہم چلائی۔ جناح کی نوجوان اہلیہ رتی نے پہلی دفعہ محمد علی جناح کے ہمراہ احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے آزاد ہونے کے بعد نئی ریاست کی ترجیحات میں جمہوری نظام اور آزادی نہیں رہی۔
مارچ 1948 میں روزنامہ امروز کے چیف ایڈیٹر معروف شاعر فیض احمد فیض اور اخبار کے پبلشر شاہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کراچی سے شایع ہونے والے سندھی زبان کے اخبار الوحید کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے ان قوانین کو جنھیں بانئ پاکستان نے سیاہ قوانین قرار دیا تھا اخبارات کی آزادی کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ جنرل ایوب خان نے پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز کو سرکاری تحویل میں لے کر اور پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس کے ذریعے اخبارات کی آزادی کو سلب کیا۔
ایڈیٹروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر کانفرنس، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور صحافیوں کی تنظیم پاکستان یونین آف جرنلسٹس نے طویل جدوجہد کی۔ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے آزادئ صحافت کو کچلا، جس کی بناء پر مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان کے عوام کے حالات سے واقف نہ ہوسکے اور ملک کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے پیپلز پارٹی کے منشور اور اس کی پاسداری نہیں کی جس کا سارا فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا۔ جنرل ضیاء نے اخبارات پر پابندیاں عائد کیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، ملک کو افغان جہاد میں دھکیل دیا گیا۔ آزادئ صحافت پر قدغن کی بناء پر صحافی جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کا تجزیہ نہ کرسکے اور اس کا نقصان کتناگہرا ہوا۔ ملک آج تک دہشت گردی کا بحران کا شکار ہے اسی بناء پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کہنا پڑا کہ اس دور کی افغان پالیسی غلط تھی۔
اس وقت ملک میں آئین نافذ ہے۔ اس کی شق 19 کے تحت ریاست آزادئ صحافت کے تحفظ کی پابند ہے۔ پھر آئین کی شق 19-A کے تحت عوام کو ریاستی امور کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ اب بہت سے ایسے قوانین منسوخ ہوچکے ہیں جو آزادئ صحافت پر پابندیاں لگاتے تھے۔ حکومتی ادارے آزادئ صحافت پر پابندیاں نہیں لگاتے ہیں۔ بعض نامعلوم قوتوں کے دباؤ کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ انتخابات کے دوران بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ایجنڈا جرنلزم اپنانے کی شکایتیں مل رہی ہیں۔
بعض ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کے پروگراموں میں اینکر پرسن، پراسیکیوٹر اور جج کے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات خبروں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خبریں معروضیت کے اصولوں کی نفی کرتی ہے، یوں خبر کی حرمت کی پامالی کا سوال ابھرتا ہے مگر اخبارات کے احتساب کے لیے پریس کونسل اور ٹی وی چینلز کے لیے پیمرا کا ادارہ موجود ہے۔ پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی حقائق کے برعکس نشر ہونے والے پروگراموں پر کارروائی کی ہے۔ شفاف انتخابات سے ہی جمہوریت کا مستقبل وابستہ ہے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے آزاد میڈیا لازمی ہے۔ انتخابات کے دوران آزادئ صحافت پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ نگراں وزیراعظم، چیف الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔
پھر انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (I.P.I) نے ملک میں آزادئ صحافت پر لگنے والی بعض قدغن پر تشویش کا اظہار کیا۔ آئی پی آئی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا نے وزیراعظم، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینیٹ کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں ان واقعات کی نشاندہی کی ہے جو براہِ راست آزادئ صحافت پر حملے کے مترادف ہیں۔ اس خط میں لاہور کی ایک صحافی گل بخاری کے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا، ایک اور صحافی اسد کھرل پر حملے اور بعض اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر صاحبہ نے انتظامیہ معاملات میں عسکری مداخلت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) اور صحافتی تنظیمیں بھی اسی طرح کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کررہی ہیں۔
پاکستان میں آزادئ صحافت کی جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پاکستان میں آزادئ صحافت کے تناظر میں ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے اپنی زندگی کا ایک حصہ ہندوستان میں آزادئ صحافت پر لگنے والی پابندیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں گزارا تھا۔ محمد علی جناح جب گزشتہ صدی کے پہلے عشرے میں برطانیہ سے بیرسٹری کر کے واپس آئے تو قوم پرست رہنما پال گنگا دھر تلک نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے تصور کو عام کرنے کی جدوجہد شروع کی ہوئی تھی۔ مولانا حسرت موہانی تلک کے حامیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ملک کے ایک اخبار کیسری کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔
انگریز حکومت نے تلک کو گرفتار کیا اور اخبار پر پابندی عائد کردی۔ نوجوان بیرسٹر نے تلک اور اخباری کیسری کا عدالت میں دفاع کیا۔ انگریز حکومت نے اخبار کیسری پر بغاوت کا الزام عائد کیا تھا۔ مگر جناح صاحب کا موقف تھا کہ کیسری میں شایع ہونے والے مضامین پر بغاوت کا الزام لگانا غلط ہے۔ پھر بیرسٹر جناح انڈین لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ الہ آباد کے ایک اخبار نے کونسل کی کارروائی شایع کی۔ یوپی کی حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کردی۔ محمد علی جناح نے کونسل کے اجلاس میں اخبار پر پابندی پر سخت احتجاج کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کونسل کی کارروائی کی اشاعت کی اجازت نہیں دے گی تو ان کا کونسل کے رکن رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جناح صاحب انڈین لیجسلیٹو کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ جناح صاحب کی بمبئی کرانیکل کی بحالی کے لیے جدوجہد، آزادئ صحافت اور ہندوستان کی آزادی کا روشن باب ہے۔ بمبئی کرانیکل کے انگریز ایڈیٹر ہیئرمین کو ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے بہت دلچسپی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بمبئی کرانیکل میں وہ سب خبریں شایع ہوتی تھیں جو سیاسی جماعتوں، مزدور تنظیموں اور وکلا کی ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے متعلق تھیں۔ انگریز حکومت کے دباؤ پر بمبئی کرانیکل کی انتظامیہ نے اخبار کے ایڈیٹر ہیئرمین کو برطرف کردیا جس پر بمبئی کرانیکل کا باقی عملہ مستعفی ہوگیا۔
محمد علی جناح کی قیادت میں بمبئی کے شہریوں نے اخبار کی انتظامیہ کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے دباؤ پر بمبئی کرانیکل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے استعفیٰ دیدیا۔ پھر نئے بورڈ آف ڈائریکٹر نے محمد علی جناح کو بورڈ آف ڈائریکٹر کا چیئرمین مقرر کیا۔ کرانیکل کی اشاعت پھر شروع ہوئی۔ جب بنگال میں خوفناک قہد پڑا تو انگریز حکومت نے بنگال کی صورتحال پر خبروں کی اشاعت کو روکا مگر بمبئی کرانیکل نے بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور شہروں اور گاؤں میں بچوں، عورتوں اور مردوں کی ہلاکت اور انتظامیہ کی نااہلی کے بارے میں خبریں شایع کیں تو دنیا بھر کو بنگال کی خطرناک صورتحال کا علم ہوا۔
امرتسر میں جنرل ڈائر کے حکم پر جلیانوالا باغ میں شہریوں کا قتل عام ہوا تو بمبئی کرانیکل نے اس انسانیت سوز واقعہ کو تفصیل سے کور کیا، جس پر انگریز حکومت نے مسٹر ہیئرمین کو زبردستی جہاز میں بٹھا کر ہندوستان بدر کردیا اور اخبار پر سنسرشپ عائد کردی۔ محمد علی جناح نے مسٹر ہیئرمین کو ہندوستان سے نکالے جانے کے خلاف ایک احتجاجی مہم چلائی۔ جناح کی نوجوان اہلیہ رتی نے پہلی دفعہ محمد علی جناح کے ہمراہ احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے آزاد ہونے کے بعد نئی ریاست کی ترجیحات میں جمہوری نظام اور آزادی نہیں رہی۔
مارچ 1948 میں روزنامہ امروز کے چیف ایڈیٹر معروف شاعر فیض احمد فیض اور اخبار کے پبلشر شاہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کراچی سے شایع ہونے والے سندھی زبان کے اخبار الوحید کی اشاعت پر پابندی عائد کردی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے ان قوانین کو جنھیں بانئ پاکستان نے سیاہ قوانین قرار دیا تھا اخبارات کی آزادی کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ جنرل ایوب خان نے پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز کو سرکاری تحویل میں لے کر اور پریس اینڈ پبلکیشن آرڈیننس کے ذریعے اخبارات کی آزادی کو سلب کیا۔
ایڈیٹروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر کانفرنس، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور صحافیوں کی تنظیم پاکستان یونین آف جرنلسٹس نے طویل جدوجہد کی۔ ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان نے آزادئ صحافت کو کچلا، جس کی بناء پر مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان کے عوام کے حالات سے واقف نہ ہوسکے اور ملک کا ایک حصہ الگ ہوگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے پیپلز پارٹی کے منشور اور اس کی پاسداری نہیں کی جس کا سارا فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا۔ جنرل ضیاء نے اخبارات پر پابندیاں عائد کیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، ملک کو افغان جہاد میں دھکیل دیا گیا۔ آزادئ صحافت پر قدغن کی بناء پر صحافی جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کا تجزیہ نہ کرسکے اور اس کا نقصان کتناگہرا ہوا۔ ملک آج تک دہشت گردی کا بحران کا شکار ہے اسی بناء پر فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو کہنا پڑا کہ اس دور کی افغان پالیسی غلط تھی۔
اس وقت ملک میں آئین نافذ ہے۔ اس کی شق 19 کے تحت ریاست آزادئ صحافت کے تحفظ کی پابند ہے۔ پھر آئین کی شق 19-A کے تحت عوام کو ریاستی امور کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ اب بہت سے ایسے قوانین منسوخ ہوچکے ہیں جو آزادئ صحافت پر پابندیاں لگاتے تھے۔ حکومتی ادارے آزادئ صحافت پر پابندیاں نہیں لگاتے ہیں۔ بعض نامعلوم قوتوں کے دباؤ کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ انتخابات کے دوران بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ایجنڈا جرنلزم اپنانے کی شکایتیں مل رہی ہیں۔
بعض ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز کے پروگراموں میں اینکر پرسن، پراسیکیوٹر اور جج کے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات خبروں کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خبریں معروضیت کے اصولوں کی نفی کرتی ہے، یوں خبر کی حرمت کی پامالی کا سوال ابھرتا ہے مگر اخبارات کے احتساب کے لیے پریس کونسل اور ٹی وی چینلز کے لیے پیمرا کا ادارہ موجود ہے۔ پھر اخبارات اور ٹی وی چینلز ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی حقائق کے برعکس نشر ہونے والے پروگراموں پر کارروائی کی ہے۔ شفاف انتخابات سے ہی جمہوریت کا مستقبل وابستہ ہے اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے آزاد میڈیا لازمی ہے۔ انتخابات کے دوران آزادئ صحافت پر کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ نگراں وزیراعظم، چیف الیکشن کمشنر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔