تعلق بوجھ بن جائے

کچھ کچھ اندازہ تو انھیںاب تک کی ہونے والی کارنر میٹنگز سے ہوچکا ہے

mnoorani08@gmail.com

سابق وزیر داخہ چوہدری نثار اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان رفاقت کوئی دو چار سال کی بات نہیں ہے۔ ان کے اور میاں نواز شریف کے درمیان یہ تعلق کوئی 34 برسوں پر محیط ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو یقیناً غلط نہیں ہوگا کہ جب سے مسلم لیگ (ن) بنی ہے چوہدری نثارکا شمار اس وقت سے مسلم لیگ کے پرانے کارکنوں میں ہوتا ہے۔ حالات چاہے کیسے بھی ہوں، اچھے ہوں یا برے، سازگار ہوں یا کشیدہ، وہ مسلم لیگ کا ساتھ نبھاتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ انھوں نے مشکل وقت میں کبھی کھل کر میاں نواز شریف یا اپنی پارٹی کا دفاع نہیں کیا۔

مسلم لیگ (ن) پر اکثر کڑا اور سخت وقت بھی آیا اور اس کی قیادت کو 1999ء میں جبراً ملک بدر بھی کردیا گیا، لیکن چوہدری نثار کی زبان سے کبھی ایک لفظ بھی ان کی حمایت میں نہیں بولا گیا۔ وہ بس خاموشی سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایک طرف ہوگئے۔ نا پارٹی چھوڑی اور نہ پارٹی کے لیے مقتدر قوتوں سے لڑے۔ ان دنوں بیگم کلثوم نواز پارٹی کے دیگر کارکنوں کے ساتھ سڑکوں اور میدانوں میں اپنے شوہر کے لیے لڑتی رہیں لیکن وہ ان کی مدد کو نہیں آئے۔ مگر جب عوام نے اقتدار ایک بار پھر میاں صاحب کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ بلاجھجھک پارٹی کے پرانے کارکن کی حیثیت سے کابینہ میں شامل ہوگئے۔

بلاشبہ انھوں نے پارٹی کو اپنے صائب مشورے بھی دیے ہوں گے لیکن کبھی کبھار پارٹی کی قیادت کو ان کے مشوروں سے بہت سخت نقصان بھی پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کا مفید مشورہ بھی چوہدری صاحب نے ہی دیا تھا۔ وہ چونکہ پارٹی کے اندر اور پارٹی سے باہر بھی ہمیشہ ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے رہے، لہٰذا ایسے اہم فیصلوں میں ان سے مشورہ کرنا یقیناً لازمی تصور کیا جاتا تھا۔ وزیراعظم نے جتنی بار نئے آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا، سب میں چوہدری صاحب ضرور شامل رہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میاں نواز شریف ان سے پوچھے بغیر بالا ہی بالا اتنا اہم اور بڑا فیصلہ کرپاتے۔ یہ اور بات ہے کہ ان فیصلوں کے نتائج بعد ازاں اکیلے میاں صاحب ہی کو بھگتنے پڑے۔

اب چوہدری صاحب کو پارٹی کی قیادت سے کچھ گلے شکوے ہیں۔ ان کی خواہش اور فطری مجبوری یہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ پارٹی ان سے مشورہ اگر کرے تو وہ ان کے مشورے پر مکمل عملدرآمد بھی کرے۔ ہوسکتا ہے پاناما کیس میں بھی انھوں نے میاں صاحب کو کچھ ایسے ہی صائب مشورے دیے ہوں، لیکن چونکہ اس بار میاں صاحب نے انھیں خیال خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان پر عملدرآمد سے انکار کردیا تھا، لہٰذا وہ ان سے ناراض ہوگئے۔

چوہدری نثار نے گزشتہ دنوں اپنے اور میاں صاحب کے درمیان کشیدہ تعلقات سے متعلق وضاحتیں پیش کرتے ہوئے ارشاد کیا تھا کہ میں مسلم لیگ میں 1985ء سے کام کرتا آیا ہوں اور 34 سال پر محیط اس طویل بندھن میں وہ ہمیشہ میاں نواز شریف کا بوجھ اٹھاتے آئے ہیں، میاں صاحب کا کوئی قرض ان پر نہیں ہے، بلکہ ان کا قرض میاں صاحب پر نکلتا ہے۔ میاں صاحب سے اس تعلق کو وہ جب اب بوجھ سمجھنے لگے ہیں تو ہمیں بے ساختہ مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کی ایک غزل کا یہ مصرع یاد آگیا۔


قطع نظر اس کے کہ کون کس کا بوجھ اٹھاتا آیا ہے، چوہدری صاحب کو چاہیے کہ وہ اگر اس تعلق کو اب ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں تو ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس بوجھ کو اتار پھینکیں، ہچکچاہٹ اور تذبذب سے کام نہ لیں۔ جو فیصلہ کرنا ہے ببانگ دہل کرلیں، ایسا نہ ہو کہ شیخ رشید جیسے لوگ بعد میں ان کا مذاق بناتے پھریں۔ اور پھر وہ یہ بھی نہ کہتے پھریں کہ میں نے اگر زباں کھولی تو میاں صاحب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ایک پریس کانفرنس میں میاں صاحب کے خلاف سخت انداز میں اور دوسری میں ذرا ہلکا اور نرم رویہ۔ ایسا نہ کریں۔

جو بات بھی دل کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی ہے اسے کھل کر عوام کے سامنے رکھ دیں۔ الیکشن جیتنے کے لیے پارٹی ٹکٹ بھی نہیں چاہیے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حمایت کے بغیر شکست کا خوف بھی دل و دماغ پر طاری ہوجائے۔ اس طرح شش و پنج میں کوئی معرکہ سر نہیں ہوا کرتا۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ 34 سال میں کس نے کس کا بوجھ اٹھایا ہے۔ میاں صاحب کو الیکشن جیتنے کے لیے کبھی آپ کی حمایت یا سرپرستی کی ضرورت نہیں رہی، آپ کو بہرحال ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کی شناخت اور پہچان درکار رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) میں اگر آپ کے بقول سو سو خامیاں ہیں جب کہ اس کے برعکس خان صاحب کی پارٹی میں آپ کو محض دس خامیاں ہی دکھائی دیتی ہیں تو پھر دیر کس بات کی، کم خامیوں والی پارٹی کیوں جوائن نہیں کرلیتے۔ لیکن شاید آپ کو بھی پتہ ہے کہ خان صاحب کو الیکٹیبلز سے زیادہ اے ٹی ایم مشینوں کی ضرورت ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ وہ صرف اس شخص کو اپنی پارٹی میں اہم درجہ اور مقام دینا چاہتے ہیں جو اپنی تجوریوں کے منہ خان صاحب کے لیے کھول کر رکھ دے۔ وہ اس غلط فہمی کے بہت بڑے شکار ہیں کہ الیکشن صرف پیسوں ہی سے لڑا جاسکتا ہے۔ کردار اور سیرت ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جناب جسٹس وجیہہ الدین، جسٹس حامد خان اور مخدوم جاوید ہاشمی ان کی شخصیت شناسی اور سیاسی بصیرت کی بہترین مثالیں ہیں۔

چوہدری نثار نے اب تک کسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ نہیں لیا ہے۔ وہ ہنوز آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ان کی انتخابی مہم جاری ہے جب کہ ان کے مقابل ن لیگ نے راجہ قمرالسلام کو امیدوار بھی نامزد کرلیا ہے جسے نیپ نے ایک مقدمہ میں گزشتہ روز گرفتار کیا ہے، نواز شریف نے ان کی گرفتاری کو افسوسناک قراردیا ہے۔لگتا ہے 29 جون تک یہی صورتحال برقرار رہی تو چار پانچ دنوں میں چوہدری نثار کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا جب وہ اپنے حلقے میں مسلم لیگ (ن) کی شناخت اور لیبل کے بغیر عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔

کچھ کچھ اندازہ تو انھیںاب تک کی ہونے والی کارنر میٹنگز سے ہوچکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے تلخ اور ترش لہجے میں اب وہ شدت باقی نہیں رہی جو گزشتہ چند ماہ میں وہ اپنی پریس کانفرنسوں میں دکھاتے رہے ہیں۔ ان کے اس بدلتے رویے نے مسلم لیگ (ن) کی مخالف صفوں میں مایوسی پھیلادی ہے، جو اس انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسلم لیگ کی یہ بڑی وکٹ کب گرکر کسی اور پارٹی میں شامل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ چوہدری نثار فی الحال کسی اور پارٹی میں جانے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ الیکشن کے بعد ہی اب کوئی فیصلہ کرپائیں گے۔

الیکشن میں فتح ہو یا شکست، اس کی پرواہ کیے بغیر ملک کے ہر حلقے سے ن لیگ نے اپنے امیدوار سامنے لائی ہے۔اب واضح طور پر چوہدری صاحب کی حمایت کا اعلان یا پھر مخالفت کا باب بند ہوچکا۔ چوہدری صاحب اگر جیت گئے تو وہ کسی طور مسلم لیگ (ن) کے ممنون اور مشکور نہیں ہوں گے اور بدقسمتی سے ہار گئے تو ہزیمت چوہدری نثار اور مسلم لیگ (ن) دونوں کا مقدر بنے گی۔ اسی لیے پارٹی کے موجودہ صدر شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ ناراض چوہدری نثار کو اگر منا سکتے ہیں تو منا لیں ورنہ بلاخوف و خطر ان کے مقابلے پر اپنے مضبوط امیدوار قمرالاسلام کی جیت کے لیے پارٹی محنت کرے۔
Load Next Story