میرا شہر میری ذمے داری

پانی کی صورت حال کو ہی دیکھ لیں، قلت آب نے شہر بھر کو پریشان کر رکھا ہے

ایک حدیث کا شعری ترجمہ ہے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یہ شعر بہت معنی خیز اور قابل تقلید ہے، اگر اس کو صحیح معنوں میں سمجھا جائے تو بہت سے مسائل کا حل نکل سکتا ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بہت سی باتوں کی طرح ہم نے اِس اہم شعر کو نصاب میں پڑھ کر نصاب میں ہی رہنے دیا، ورنہ ہمارے پیارے پاکستان اور خاص طور پر شہر قائد کہلانے والے کراچی کی حالت ایسی نہ ہوتی جو اس وقت نظر آرہی ہے۔

ذرا تصور کریں، بھوک اور پیاس سے نڈھال، زخموں سے چور، کیچڑ میں لتھڑا ہوا بیمار شخص علاج کے لیے اسپتال پہنچے، ڈاکٹر اس کو بہت سا دلاسہ اور تسلیاں دیں، علاج بھی شروع کریں، آپریشن کی بھی تیاری کی جائے اور کچھ دیر میں آلات جراحی سے لیس مسیحا اس کے بدن کے مختلف حصوں پر نشتر چلائیں، لیکن پھر اچانک آپریشن اور علاج ادھورا چھوڑ کر دوسرے مشاغل میں مصروف ہوجائیں اور اس مریض کے رشتے دار بھی اس کو چھوڑ کر اپنے اپنے مسائل کا راگ الاپنے لگ جائیں، ایک دوسرے کو مریض کی حالت زار کا ذمے دار ٹھہرانے لگیں تو اس بے چارے کا کیا حال ہوگا؟ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آجاتی ہے۔

اب آپ اس مریض کی جگہ پر اپنے شہر کراچی کو رکھیں اور سارے شہری دیگر کرداروں میں ڈھل جائیں تو ہمیں بتائیں کہ کیا واقعی ''عروس البلاد'' کہے جانے والے کراچی کی حالت ایسی ہی نہیں، جیسی اس نڈھال، بھوکے پیاسے، زخمی مریض کی ہوگی؟ اور ہم کیا سب مل کر وہی کردار ادا نہیں کررہے جو اس کے مسیحاؤں نے، اس کے رشتے داروں نے مل کر ادا کیا تھا؟

یہ ایک انتہائی تلخ اور افسوسناک حقیقت ہے کہ اس سوال کا جواب ''ہاں'' ہے۔ کراچی میں رہنے والے اور ''کراچی والے'' کہلائے جانے والے وہ کردار ادا نہیں کررہے یا نہیں کرپا رہے جس کا نتیجہ شہر کے لیے انتہائی مثبت نکلے۔ ہم سب جو کراچی میں رہتے ہیں، مختلف مسائل اور مشکلات پر حکومت، ارباب اقتدار و اختیار اور ذمے دار اداروں کو تو برا بھلا کہتے ہیں، تنقید کرتے ہیں لیکن اپنی اپنی سطح پر ہم لوگ شہر کی بھلائی کے لیے کیا کررہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں، یہ ایک مشکل سوال ہے۔

دیکھا جائے تو کراچی برسوں سے مسلسل مختلف قسم کے مسائل کا شکار رہا ہے، امن و امان کی ابتر صورتحال اور جرائم کی شرح میں بہتری نے اہل شہر کو تھوڑا بہت سکھ ضرور دیا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے مسائل، مشکلات اور الجھنیں ایسی ہیں جن کا تدارک بہت ضروری ہے۔


کراچی والوں کے لیے جو مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں وہ صاف پانی کی فراہمی اور شہر سے کچرے کا صفایا۔ یقینی طور پر ایسے تمام مسائل حل کرنا، لوگوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا اور بروقت ان کے گھروں میں صاف پانی پہنچانا حکومت اور اس کے متعلقہ اداروں کا فرض ہے، لیکن میں تھوڑی مختلف بات کرنا چاہوں گا کہ ان تمام مسائل کے حل میں ہر شہری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ شہر کے ہر گھر کے مکین اگر اپنی طرف سے شہر کی صفائی ستھرائی اور بہتری میں تھوڑا تھوڑا حصہ ڈالیں، تو یقین مانیں کہ مسائل اگر حل نہیں ہوں گے تو بھی مسائل و مشکلات کی شدت کافی حد تک کم ہوجائے گی۔

پانی کی صورت حال کو ہی دیکھ لیں، قلت آب نے شہر بھر کو پریشان کر رکھا ہے، اللہ کی مصلحت ہے کہ بارشیں نہ ہونے سے شہر کو پانی فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ حب ڈیم آہستہ آہستہ خشک ہورہا ہے، لیکن جو پانی شہر کو دیا جارہا ہے اس کی غیر منصفانہ تقسیم نے مشکلات بڑھا دی ہیں۔

اس کے علاوہ ہم لوگ بطور شہری خود بھی قلت آب کی سنگین صورتحال کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، کیونکہ جب اللہ کے کرم سے گھروں میں پانی آرہا ہوتا ہے تو کافی جگہ دیکھا گیا ہے کہ زیر زمین ٹینک اور چھتوں پر موجود ٹنکیاں بھر جاتی ہیں اور پانی باہر آنا شروع ہوجاتا ہے لیکن اکثر لوگ یا تو سو رہے ہوتے ہیں یا کہیں اور مصروف ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پانی کا بیشتر حصہ ضایع ہوجاتا ہے۔

ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جب ہماری ضرورت کے مطابق پانی آجائے اور ہم کچھ پانی آیندہ دنوں کے لیے ذخیرہ بھی کرلیں تو مین لائن کا کنکشن بند کردیا جائے تاکہ پانی ضایع نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے اس طرح کرنے سے وہی پانی جو ضایع ہوتا ہے کسی دوسرے گھر کو مل جائے۔ پھر واٹر بورڈ کی مین لائنوں سے نکلنے والا پانی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گرمی کے موسم میں اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس جگہ پر پکنک مناتے ہیں لیکن ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جس کی وجہ سے رساؤ ختم ہوسکے اور اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ضایع نہ ہو۔

اس کے علاوہ ہر شہری کی ذمے داری ہونی چاہیے کہ وہ کچرے کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگائے، اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ بہت بری بات ہے کہ گھر صاف کرکے کوڑا کرکٹ باہر گلی میں اچھال دیا جائے۔ شہر کے تقریباً ہر علاقے میں کچرا کنڈیاں موجود ہیں، اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر کچرے کو وہاں پھینکیں یا روزانہ کچرا لینے کے لیے آنے والوں کو کچرا دیں تو ہمارے محلے اور گلیاں کافی حد تک صاف نظر آسکتی ہیں۔ ہر گھر صاف ہوگا تو محلہ صاف ستھرا نظر آئے گا، محلہ صاف رہے گا تو علاقہ دیگر مقامات کی نسبت منفرد اور اچھا رہے گا اور اسی طرح شہر کی مجموعی صورتحال میں بہتری آنی شروع ہوجائے گی۔

شہر کو صاف رکھنے کی ہفتہ وار یا ماہانہ مہم اچھی چیز ہے لیکن یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کو بھرپور طریقے سے سال بھر جاری رہنا چاہیے، جبھی ہمارے شہر کا چہرہ پھر سے مسکرانے لگے گا۔ حکومت اور اداروں پر تنقید بہت آسان ہے اور یہ تعمیر و اصلاح کے لیے ہونی بھی چاہیے لیکن اگر ہم صرف حکام بالا اور حکومتی اداروں پر ہی سب کچھ چھوڑ دیں گے تو صورتحال کبھی مکمل طور پر بہتر نہیں ہوگی۔

مشہور کہاوت ہے کہ Charity Begins at Home لہٰذا شہر کو صاف کرنے کا مشن ہر شہری اپنے اپنے گھر سے شروع کرے گا تو نتیجہ یقیناً مثبت نکلے گا۔ کوئی چیز کھا کر اس کے برتن یا کاغذ وہیں پھینک دینا ہم لوگوں کا معمول ہے،جب ہم لوگ بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین پر پابندی سے عمل کرتے ہیں یا عمل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن اپنے ملک میں اپنے شہر میں ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہیں رکھتے۔

دیکھا گیا ہے کہ ڈسٹ بن ہونے اور نوٹس بورڈ پر ہدایات ہونے کے باوجود شہر کے مختلف تفریحی مقامات پر کوڑا اور مختلف استعمال شدہ چیزوں کا بکھرا ہونا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہوتا کہ ابھی شہر کی ترقی اور بہتری کے لیے عوام کی جانب سے بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جس شہر میں ہم رہ رہے ہیں اسے اپنا سمجھنا ضروری ہے، جب ہم اپنے کپڑوں پر کوئی مٹی کا ذرہ، یا گندے پانی کی چھینٹ نہیں آنے دیتے تو شہر بھی تو ہمارا ہے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارا شہر ہے تو ذمے داری بھی ہماری ہے۔
Load Next Story