متحدہ مجلس عمل نے الیکشن مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا
خیبرپختونخوا سے مجموعی طور پر7سیاسی جماعتوں کے مرکزی سربراہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں
سیاسی جماعتیں ٹکٹوں کے معاملے پر تاحال الجھی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی حد تک یہ جماعتیں اپنی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے شروع نہیں کر پائیں اور توقع یہی کی جا رہی ہے کہ امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ ہونے کے بعد ہی اصل مہم شروع ہوگی۔
تاہم متحدہ مجلس عمل اس معاملے میں دیگر جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے جس نے پشاور میں بڑے اوردبنگ انداز کے جلسے کا انعقاد کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیاہے،ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر مذہبی جماعتوں کے جو قائدین آج یکجا ہوئے ہیں یہی قائدین 2002ء میں بھی موجود تھے تاہم اس وقت اور آج کے حالات میں فرق ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے کو انتخابات میں کامیابی کے لیے یقینی طور پر اپنی مہم کو زیادہ موثر انداز میں چلانا ہوگا تاکہ عوام کی زیادہ سے زیادہ سپورٹ حاصل کی جاسکے،ایم ایم اے سمیت تمام جماعتوں کا اصل ٹاکرا تحریک انصاف کے ساتھ ہی ہوگا اس لیے ان سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کی ہوا اورانتخابی مہم کو مد نظررکھتے ہوئے ہی اپنی صف بندی کرنی ہوگی۔
گزشتہ عام انتخابات میں تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کوتحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا تھا اور تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی تاہم اس پوزیشن میں ہرگز نہیں تھی کہ وہ حکومت بنا سکے لیکن جب مسلم لیگ(ن) نے مولانا فضل الرحمٰن کو گرین سگنل نہیں دیا تو اس کے بعد پی ٹی آئی کے لیے صوبہ میں حکومت سازی کی راہ ہموار ہوگئی جس کے بعد جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی بھی اس سے آن ملیں اور ساتھ ہی آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے بھی پی ٹی آئی کا رخ کیا جس کے بعد تحریک انصاف صوبہ میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تاہم اگرگزشتہ عام انتخابات کے نتائج پر بھی نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام(ف) نے بیس سے زائد ایسی نشستیں ہاریں جہاں ان کے انفرادی طور پر حاصل کردہ ووٹ یکجا کرنے کے بعد تحریک انصاف یا دیگر پارٹیوں کے امیدواروں سے زیادہ تھے۔ تاہم ان دونوں پارٹیوںکے الگ ہونے کی وجہ سے یہ نشستیں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں مگر اس مرتبہ جے یوآئی اور جماعت اسلامی دونوں اکٹھی میدان میں اتر رہی ہیں تو یقینی طور پر صورت حال بھی الگ ہوگی۔
جہاں سب کی نظریں تحریک انصاف پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ جولائی میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتی ہے، وہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے پر بھی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کہ ایم ایم اے کس حد تک عوامی رائے کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں شامل دو بڑی پارٹیوں نے گزشتہ پانچ سال حکومتوں میں گزارے ہیں جس کے نقصانات کے ساتھ فوائد بھی بہرکیف موجود ہیں جن سے موثر انداز میں فائدہ لیاجا سکتا ہے۔
تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ صوبہ بھر میں یہ دونوں جماعتیں ہر جگہ مشترکہ طور پر شاید فائدہ نہ لے سکیں اور ہر ضلع کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کو اپنے، اپنے طور پر بھی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی کیونکہ کئی اضلاع ایسے ہیں کہ جہاں یا تو جماعت اسلامی کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر جے یوآئی مضبوط پوزیشن میں نہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے دیگر مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ ایڈجسٹمنٹ کی جا سکے۔
جس طرح 2013ء کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کی حد تک صوبہ بھر کی سطح پر کسی بھی سیاسی جماعت نے اتحاد نہیں کیا تھا وہی صورت حال اس مرتبہ بھی انتخابات کے موقع پر درپیش ہے اور خیبرپختونخوا میں صوبائی سطح پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کر رہی، تاہم اضلاع کی سطح پر مقامی حالات کے مطابق سیاسی پارٹیاں ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں رابطوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس حوالے سے قدرے مشکلات اس لیے درپیش آرہی ہیں کہ اب بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے امیدواروں کے نام فائنل نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے انتظار کیاجا رہاہے کہ امیدواروں کے نام فائنل ہوں تو اس کی روشنی ہی میں ایڈجسٹمنٹ کے معاملات کو آگے بڑھایاجائے اوریقینی طور پر ماہ جولائی شروع ہونے پر سیاسی جماعتوں میں ایڈجسٹمنٹ کا سلسلہ بھی شروع ہوجائیگا جس کے باعث مختلف اضلاع کی سطح پر صورت حال میں تبدیلی ضرور ہوگی۔
اس حوالے سے زیادہ مشکلات تحریک انصاف کو درپیش ہوں گی کیونکہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ تحریک انصاف کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکے گی، پی ٹی آئی کے گزشتہ دور میں صوبہ میں پارٹنر رہنے والی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ بن کر جے یوآئی کے ساتھ انتخابی مہم چلارہی ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کا ہدف ہی تحریک انصاف ہے، مسلم لیگ (ن)اور اے این پی کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کی ایڈجسٹمنٹ کا کوئی امکان نہیں، نہ ہی جے یوآئی (ف)کے ساتھ کسی بھی جگہ پر پی ٹی آئی کے اکٹھے ہونے کا سوچا جاسکتاہے۔
تاہم بعض حلقے اس بات کا امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ مقامات پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ممکنہ طور پر ایڈجسٹمنٹ کریں تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ ایسا ہونے کے بھی امکانات نہایت کم ہیں، مذکورہ حالات میں تحریک انصاف تنہائی کا شکار نظر آرہی ہے جو بظاہر تو پی ٹی آئی کے حق میں نہیں تاہم پی ٹی آئی کا نظریہ یہ ہے کہ ایسا ان کے حق میں ہے کیونکہ اس طریقے سے وہ اپنی قوت بازو کے زور پر میدان میں اتریں گے اور خود کو آزمائیں گے۔
خیبرپختونخوا سے مجموعی طور پر7سیاسی جماعتوں کے مرکزی سربراہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے یقینی طور پرگہما گہمی گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی، جمیعت علماء اسلام(ف)کے مرکزی امیرمولانا فضل الرحمٰن،امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اورقومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ ڈیرہ اسماعیل خان، دیر اورچارسدہ سے باالترتیب میدان میں اتریں گے اس لیے ان حلقوں پر خصوصی طور پر سب کی نظریں ہونگی کیونکہ پارٹیوں کے سربراہوں کی ہار یا جیت،دونوں ہی بڑے معنی رکھتی ہیں، مذکورہ حلقوں کے ساتھ بنوں، ملاکنڈ اور سوات انتہائی فوکسڈ ہونگے کیونکہ بنوں سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ اکرم خان درانی سے ہوگا،دونوں کے لیے مذکورہ نشست کا حصول نہایت اہم ہے۔
تاہم متحدہ مجلس عمل اس معاملے میں دیگر جماعتوں پر سبقت لے گئی ہے جس نے پشاور میں بڑے اوردبنگ انداز کے جلسے کا انعقاد کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیاہے،ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر مذہبی جماعتوں کے جو قائدین آج یکجا ہوئے ہیں یہی قائدین 2002ء میں بھی موجود تھے تاہم اس وقت اور آج کے حالات میں فرق ہونے کی وجہ سے ایم ایم اے کو انتخابات میں کامیابی کے لیے یقینی طور پر اپنی مہم کو زیادہ موثر انداز میں چلانا ہوگا تاکہ عوام کی زیادہ سے زیادہ سپورٹ حاصل کی جاسکے،ایم ایم اے سمیت تمام جماعتوں کا اصل ٹاکرا تحریک انصاف کے ساتھ ہی ہوگا اس لیے ان سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی کی ہوا اورانتخابی مہم کو مد نظررکھتے ہوئے ہی اپنی صف بندی کرنی ہوگی۔
گزشتہ عام انتخابات میں تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کوتحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا تھا اور تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بن کر ابھری تھی تاہم اس پوزیشن میں ہرگز نہیں تھی کہ وہ حکومت بنا سکے لیکن جب مسلم لیگ(ن) نے مولانا فضل الرحمٰن کو گرین سگنل نہیں دیا تو اس کے بعد پی ٹی آئی کے لیے صوبہ میں حکومت سازی کی راہ ہموار ہوگئی جس کے بعد جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی بھی اس سے آن ملیں اور ساتھ ہی آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے بھی پی ٹی آئی کا رخ کیا جس کے بعد تحریک انصاف صوبہ میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تاہم اگرگزشتہ عام انتخابات کے نتائج پر بھی نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام(ف) نے بیس سے زائد ایسی نشستیں ہاریں جہاں ان کے انفرادی طور پر حاصل کردہ ووٹ یکجا کرنے کے بعد تحریک انصاف یا دیگر پارٹیوں کے امیدواروں سے زیادہ تھے۔ تاہم ان دونوں پارٹیوںکے الگ ہونے کی وجہ سے یہ نشستیں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں مگر اس مرتبہ جے یوآئی اور جماعت اسلامی دونوں اکٹھی میدان میں اتر رہی ہیں تو یقینی طور پر صورت حال بھی الگ ہوگی۔
جہاں سب کی نظریں تحریک انصاف پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ جولائی میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں کس حد تک کامیابی حاصل کرتی ہے، وہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے پر بھی نظریں ٹکی ہوئی ہیں کہ ایم ایم اے کس حد تک عوامی رائے کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں شامل دو بڑی پارٹیوں نے گزشتہ پانچ سال حکومتوں میں گزارے ہیں جس کے نقصانات کے ساتھ فوائد بھی بہرکیف موجود ہیں جن سے موثر انداز میں فائدہ لیاجا سکتا ہے۔
تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ صوبہ بھر میں یہ دونوں جماعتیں ہر جگہ مشترکہ طور پر شاید فائدہ نہ لے سکیں اور ہر ضلع کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے جمعیت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کو اپنے، اپنے طور پر بھی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی کیونکہ کئی اضلاع ایسے ہیں کہ جہاں یا تو جماعت اسلامی کا ووٹ بنک نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر جے یوآئی مضبوط پوزیشن میں نہیں یہی وجہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کے دیگر مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ بھی جاری ہے تاکہ ایڈجسٹمنٹ کی جا سکے۔
جس طرح 2013ء کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کی حد تک صوبہ بھر کی سطح پر کسی بھی سیاسی جماعت نے اتحاد نہیں کیا تھا وہی صورت حال اس مرتبہ بھی انتخابات کے موقع پر درپیش ہے اور خیبرپختونخوا میں صوبائی سطح پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے علاوہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد نہیں کر رہی، تاہم اضلاع کی سطح پر مقامی حالات کے مطابق سیاسی پارٹیاں ایڈجسٹمنٹ کریں گی۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے آپس میں رابطوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس حوالے سے قدرے مشکلات اس لیے درپیش آرہی ہیں کہ اب بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے امیدواروں کے نام فائنل نہیں کیے جاسکے جس کی وجہ سے انتظار کیاجا رہاہے کہ امیدواروں کے نام فائنل ہوں تو اس کی روشنی ہی میں ایڈجسٹمنٹ کے معاملات کو آگے بڑھایاجائے اوریقینی طور پر ماہ جولائی شروع ہونے پر سیاسی جماعتوں میں ایڈجسٹمنٹ کا سلسلہ بھی شروع ہوجائیگا جس کے باعث مختلف اضلاع کی سطح پر صورت حال میں تبدیلی ضرور ہوگی۔
اس حوالے سے زیادہ مشکلات تحریک انصاف کو درپیش ہوں گی کیونکہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ تحریک انصاف کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ہو سکے گی، پی ٹی آئی کے گزشتہ دور میں صوبہ میں پارٹنر رہنے والی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ بن کر جے یوآئی کے ساتھ انتخابی مہم چلارہی ہے جبکہ قومی وطن پارٹی کا ہدف ہی تحریک انصاف ہے، مسلم لیگ (ن)اور اے این پی کے ساتھ بھی پی ٹی آئی کی ایڈجسٹمنٹ کا کوئی امکان نہیں، نہ ہی جے یوآئی (ف)کے ساتھ کسی بھی جگہ پر پی ٹی آئی کے اکٹھے ہونے کا سوچا جاسکتاہے۔
تاہم بعض حلقے اس بات کا امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ کچھ مقامات پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی ممکنہ طور پر ایڈجسٹمنٹ کریں تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ ایسا ہونے کے بھی امکانات نہایت کم ہیں، مذکورہ حالات میں تحریک انصاف تنہائی کا شکار نظر آرہی ہے جو بظاہر تو پی ٹی آئی کے حق میں نہیں تاہم پی ٹی آئی کا نظریہ یہ ہے کہ ایسا ان کے حق میں ہے کیونکہ اس طریقے سے وہ اپنی قوت بازو کے زور پر میدان میں اتریں گے اور خود کو آزمائیں گے۔
خیبرپختونخوا سے مجموعی طور پر7سیاسی جماعتوں کے مرکزی سربراہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے یقینی طور پرگہما گہمی گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی، جمیعت علماء اسلام(ف)کے مرکزی امیرمولانا فضل الرحمٰن،امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اورقومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ ڈیرہ اسماعیل خان، دیر اورچارسدہ سے باالترتیب میدان میں اتریں گے اس لیے ان حلقوں پر خصوصی طور پر سب کی نظریں ہونگی کیونکہ پارٹیوں کے سربراہوں کی ہار یا جیت،دونوں ہی بڑے معنی رکھتی ہیں، مذکورہ حلقوں کے ساتھ بنوں، ملاکنڈ اور سوات انتہائی فوکسڈ ہونگے کیونکہ بنوں سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کی نشست پر مقابلے کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں جہاں ان کا مقابلہ اکرم خان درانی سے ہوگا،دونوں کے لیے مذکورہ نشست کا حصول نہایت اہم ہے۔