جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی
ہماری جمہوریت دو ستون پر کھڑی ہے، ایک الیکٹیبلز، یعنی جہاں بیانیہ ثانوی ہوجاتاہے
جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی، ماڈرن ریاست کے بنیادی ستون ہیں۔ یہ دونوں ستون ماڈرن ریاست کے پیمانے میں شفاف تو نہیں لیکن ان کا کوئی نعم البدل بھی نہیں اور ان سے بہتر کوئی حل بھی نہیں۔ کیپٹلزم سے نکلتی معیشت قدراً قوانین کے ضابطے میں بھی آئی مگر دو فکر، ایک مارکیٹ کو قانون کے دائرے میں رکھو، دوسرا laissez fair کے مارکیٹ کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ جمہوریت کے اندر بہت نشیب و فراز آئے مگر آئین کے اندر انسانی حقوق کا آئین کی ریڑھ کی ہڈی بن جانا اور جمہوریت کا آئین کے تابع ہوجانا اور آئین کی basic structure theory کا بننا، یہ تمام مظہر ارتقاء سے نکلے۔
پہلے جمہوریت برطانیہ میں شرفاؤں کی بازی تھی، House of Lords میں صرف لارڈ بیٹھتے تھے۔ انقلاب اور مختلف تحریکوں نے بالآخر House of Common کو طاقتور بنایا اور ہاؤس آف لارڈز کو ثانوی طاقت۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ میں اسٹاک ایکسچینج کے آنے سے عام آدمی حصص خریدنے کے لائق ہوگیا۔ عام آدمی ہنرمند ہوا، معیار زندگی بہتر ہوا، اس لیے بہت سارے انفرااسٹرکچر کے پراجیکٹ سامنے آئے، بہت پیسہ آیا، کالونیز میں سرمایہ کاری ہوئی۔
مگر شب ہجراں جو ہم پہ گزری سو گزری
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
جو ملحقہ کالونیز پر گزری سو گزری، اس کے برعکس برطانیہ کے عام شہری کو آزادی نصیب ہوئی اور سرمایہ اور سرمایہ کاری ملی اور سرمایہ یہاں سے وہاں منتقل ہوا۔ کیپٹلزم کا زور ٹوٹا، مارکیٹ کے اندر Monopoly کو قوانین کے ذریعے گھسنے سے روکا گیا اور oligopoly کو بھی، تاکہ cartel نہ بن سکے۔ لیکن دلی ابھی دور است، دنیا کی جمہوریتوں میں جو بحران آیا وہ کچھ اور نوعیت کا تھا، جس پر کبھی بحث کریں گے مختلف زاویے کے ساتھ جب کہ پہلے کیا بھی ہے۔
ہماری جمہوریت دو ستون پر کھڑی ہے، ایک الیکٹیبلز، یعنی جہاں بیانیہ ثانوی ہوجاتاہے اور دوسرا خود بیانیہ جہاں الیکٹیبل ثانوی ہوجاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان مخصوص حلقوں میں معاشی تعلقات کا معیار کیا ہے؟ اگر یہ تعلقات پسماندہ ہیں، لوگ ہنرمند نہیں، مڈل کلاس کمزور ہے تو پلڑا الیکٹیبلز کی طرف جھکے گا۔ لیکن اگر اسی حلقے کے باشندے سو فیصد خواندگی کی شرح رکھتے ہیں، ہنرمند ہیں، بھرپور مڈل کلاس ہے، تو وہاں ووٹ دینے کا معیار قدراً آزاد ہے، لیکن جو بیانیہ ایسے حلقوں میں بنیاد بنتا ہے اس بیانیہ کو بھی ضرور دیکھا جائے گا۔ مثال کی طور پر یورپ اور آمریکا میں دائیں بازو نے islam phobia اور emigrant سے insecurity کو اچھالا گیا اور مقامی ووٹر کو ڈرایا گیا ہے کہ آپ کی ثقافت آپ کے ذریعہ معاش اور آپ کی تاریخ باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
یہ اسٹرٹیجی یہاں بھی اپنائی گئی تھی۔ پشتون اگر بیانیہ پر ووٹ دیں گے تو یا پشتون قوم پرستوں کو دیں گے، یا مذہبی جماعتوں کو دیں گے یا پھر پی ٹی آئی کو دیں گے۔ ایسے بھی دور آئے جب پشتونوں نے پیپلز پارٹی کو جتوایا تھا۔ اسی طرح پی ایم ایل (ن) بھی سینٹرل پنجاب میں گھر رکھتی ہے اور وہاں کا ووٹ بیانیہ سے اثر لینے کی طرف زیادہ جھکا ہوا ہے۔ یہاں پر مذہبی ووٹ کا رجحان بھی موجود ہے۔
لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کی جمہوریت کا زیادہ جھکاؤ الیکٹیبلز کی طرف ہے۔ ہماری جمہوریت ماضی میں شاید اتنا جھکاؤ نہیں رکھتی تھی، جتنا آج رکھتی ہے۔ الیکشن میں عام آدمی کھڑا نہیں ہوسکتا، جب کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے، آئین عام آدمی کے حق کو محفوظ کرتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ الیکشن اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی اس کو afford نہیں کرسکتا، الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں روپے درکار ہیں، جوکہ عام آدمی کی سکت نہیں۔ پارلیمنٹ ایوان زیرین اور ایوان بالا پر مشتمل ہے، لیکن دونوں میںاشرافیہ ہی آئی ہے۔ پارٹیاں ٹکٹ اسی ترتیب سے دیتی ہیں، یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ الیکشن لڑنے والے کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ خرچہ اٹھا سکے اور جو اتنا خرچ کرکے آتا ہے وہ بیوقوف تو نہیں، یا پھر یوں کہیے کہ ان کو قوم کا اتنا درد نہیں، وہ الیکشن کے میدان میں اس لیے آتا ہے کہ وہ پاور حاصل کرسکے، اقتدار کے گرد رہ سکے۔ اقتدار وہ چیز ہے جس کے گرد شرفاء گھومتے ہیں اور اقتدار کے گرد گھومنا اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
جمہوریت کا یہ عکس ہماری مارکیٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں Construction of Business مخصوص لوگوں کی monopoly ہے۔ اور یہ بھی ایک سنی ہوئی بات ہے کہ پنجاب میں poultry کے بزنس پر کسی ایک مخصوص خاندان کی اجارہ داری ہے، تبھی تو اسحاق ڈار کہتے تھے کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہوگئے ہیں تو عوام مرغی کھائیں۔ ہر طرف مونوپلی اور cartel کا راج ہے۔ جب چاہیں دواؤں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ بڑے بڑے پروجیکٹ لاکر بڑی بڑی کمیشن لے کر ان کو ڈالر میں convert کرکے ملک سے باہر بھیجا جائے۔ یہ جو اشرافیہ آج اسمبلی میں موجود ہے یا جو اپر مڈل کلاس، جن کا ایک پیر اس ملک میں تو دوسرا باہر ملک میں، یا بلاول بھٹو جنھوں نے اپنی جائیداد جو کمیشن کو بتائی اس کا آدھے سے زیادہ حصہ ملک سے باہر ہے۔ فریال تالپور جو اس ملک کی امیر ترین عورت ہے۔ کل کا آصف زرداری جو نوابشاہ میں 85 کے دور میں سیر سپاٹے کیا کرتا تھا، یا جو میاں صاحب خود ہیں، یا عمران خان ہیں، یا جہانگیر ترین ہے، یہ سب امیر لوگ ہیں۔ اس ملک کی سپر اپر کلاس ہے۔ غرض کہ یہ الیکشن امیروں کا ہے، یہ جمہوریت امیروں کی ہے اور یہ مارکیٹ بھی امیروں کی ہے۔
ایک طرف الیکٹیبلز، وڈیرے، نواب، خان، چوہدری اور پیر ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ڈیرے ہمیشہ آباد رہیں۔ بندوقوں سے ان کی محافظوں کی پریڈ ہوتی رہے۔ تھانے اور پٹواری پر ان کا دباؤ ہو۔ لوگ جاہل ہوں، اسکول، صحت کے نظام تباہ و برباد ہوں، بری حکمرانی ہو، تاکہ لوگ ان کے سامنے جھکے رہیں اور برادری، قبائلی و جرگے کے نظام ہمیشہ زندہ رہیں۔
ایک دو مثالیں میں آپ کو دیتا چلوں کسی زمانے میں اے ڈی خواجہ، دادو میں بطور ایس پی تعنیات تھے۔ موصوف اپنے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیتے تھے۔ علاقے کے وڈیرے پریشان ہوئے کہ اگر عام لوگ خود ایس پی کے پاس داد فریاد لے جاسکتے ہیں تو پھر ان کے ڈیروں کا کیا ہوگا۔
یہ جو بالآخر ہم نے فاٹا کو تحلیل کردیا، یہ کیا تھا، ستر سال کے بعد ہمیں یہ پتا چلا کہ یہ تو وہ black whole ہے جو پورے ملک کو اپنے اندر نگل لے گا۔ بالکل اسی طرح یہ جو الیکٹیبلز ہیں، یہ بلیک ہول ہے، جو ہماری معشیت کو ٹھوس ستونوں پر نہیں کھڑ ا ہونے دے رہا۔ ہماری جمہوریت خود یرغمال ہے۔ ایسے بھی ویسے بھی۔ ہماری مارکیٹ میں consumer دشمن لوگوں کا راج، یہاں کی پارلیمنٹ عوامی مفاد کے لیے قانون سازی کم اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی زیادہ کرتی ہے۔
اگر اس جمہوریت کو controlled رکھنا ہے تو پھر جان لیجیے کہ ہمارے معاشی تعلقات بھی بہت سست رفتاری سے ٹوٹیں گے، اور جب یہ فرسودہ معاشی تعلقات، سست رفتاری سے ٹوٹیں گے تو پھر ہمارے ملک پر قرضوں کا حجم اور بڑھے گا۔ اور ہمارے balance of payment پر ایک خطرناک مرحلہ آرہا ہے، ہماری مجموعی جمہوری، سیاسی اداروں کے دیوالیہ پن کا عکس ہے۔ اس ملک کو اس وقت ایک جامع و ٹھوس انداز میں ان سب باتوں کا ادارک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پہلے جمہوریت برطانیہ میں شرفاؤں کی بازی تھی، House of Lords میں صرف لارڈ بیٹھتے تھے۔ انقلاب اور مختلف تحریکوں نے بالآخر House of Common کو طاقتور بنایا اور ہاؤس آف لارڈز کو ثانوی طاقت۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ میں اسٹاک ایکسچینج کے آنے سے عام آدمی حصص خریدنے کے لائق ہوگیا۔ عام آدمی ہنرمند ہوا، معیار زندگی بہتر ہوا، اس لیے بہت سارے انفرااسٹرکچر کے پراجیکٹ سامنے آئے، بہت پیسہ آیا، کالونیز میں سرمایہ کاری ہوئی۔
مگر شب ہجراں جو ہم پہ گزری سو گزری
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے
جو ملحقہ کالونیز پر گزری سو گزری، اس کے برعکس برطانیہ کے عام شہری کو آزادی نصیب ہوئی اور سرمایہ اور سرمایہ کاری ملی اور سرمایہ یہاں سے وہاں منتقل ہوا۔ کیپٹلزم کا زور ٹوٹا، مارکیٹ کے اندر Monopoly کو قوانین کے ذریعے گھسنے سے روکا گیا اور oligopoly کو بھی، تاکہ cartel نہ بن سکے۔ لیکن دلی ابھی دور است، دنیا کی جمہوریتوں میں جو بحران آیا وہ کچھ اور نوعیت کا تھا، جس پر کبھی بحث کریں گے مختلف زاویے کے ساتھ جب کہ پہلے کیا بھی ہے۔
ہماری جمہوریت دو ستون پر کھڑی ہے، ایک الیکٹیبلز، یعنی جہاں بیانیہ ثانوی ہوجاتاہے اور دوسرا خود بیانیہ جہاں الیکٹیبل ثانوی ہوجاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان مخصوص حلقوں میں معاشی تعلقات کا معیار کیا ہے؟ اگر یہ تعلقات پسماندہ ہیں، لوگ ہنرمند نہیں، مڈل کلاس کمزور ہے تو پلڑا الیکٹیبلز کی طرف جھکے گا۔ لیکن اگر اسی حلقے کے باشندے سو فیصد خواندگی کی شرح رکھتے ہیں، ہنرمند ہیں، بھرپور مڈل کلاس ہے، تو وہاں ووٹ دینے کا معیار قدراً آزاد ہے، لیکن جو بیانیہ ایسے حلقوں میں بنیاد بنتا ہے اس بیانیہ کو بھی ضرور دیکھا جائے گا۔ مثال کی طور پر یورپ اور آمریکا میں دائیں بازو نے islam phobia اور emigrant سے insecurity کو اچھالا گیا اور مقامی ووٹر کو ڈرایا گیا ہے کہ آپ کی ثقافت آپ کے ذریعہ معاش اور آپ کی تاریخ باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے خطرے میں ہے۔
یہ اسٹرٹیجی یہاں بھی اپنائی گئی تھی۔ پشتون اگر بیانیہ پر ووٹ دیں گے تو یا پشتون قوم پرستوں کو دیں گے، یا مذہبی جماعتوں کو دیں گے یا پھر پی ٹی آئی کو دیں گے۔ ایسے بھی دور آئے جب پشتونوں نے پیپلز پارٹی کو جتوایا تھا۔ اسی طرح پی ایم ایل (ن) بھی سینٹرل پنجاب میں گھر رکھتی ہے اور وہاں کا ووٹ بیانیہ سے اثر لینے کی طرف زیادہ جھکا ہوا ہے۔ یہاں پر مذہبی ووٹ کا رجحان بھی موجود ہے۔
لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کی جمہوریت کا زیادہ جھکاؤ الیکٹیبلز کی طرف ہے۔ ہماری جمہوریت ماضی میں شاید اتنا جھکاؤ نہیں رکھتی تھی، جتنا آج رکھتی ہے۔ الیکشن میں عام آدمی کھڑا نہیں ہوسکتا، جب کہ آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے، آئین عام آدمی کے حق کو محفوظ کرتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ الیکشن اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی اس کو afford نہیں کرسکتا، الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں روپے درکار ہیں، جوکہ عام آدمی کی سکت نہیں۔ پارلیمنٹ ایوان زیرین اور ایوان بالا پر مشتمل ہے، لیکن دونوں میںاشرافیہ ہی آئی ہے۔ پارٹیاں ٹکٹ اسی ترتیب سے دیتی ہیں، یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ الیکشن لڑنے والے کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ وہ خرچہ اٹھا سکے اور جو اتنا خرچ کرکے آتا ہے وہ بیوقوف تو نہیں، یا پھر یوں کہیے کہ ان کو قوم کا اتنا درد نہیں، وہ الیکشن کے میدان میں اس لیے آتا ہے کہ وہ پاور حاصل کرسکے، اقتدار کے گرد رہ سکے۔ اقتدار وہ چیز ہے جس کے گرد شرفاء گھومتے ہیں اور اقتدار کے گرد گھومنا اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔
جمہوریت کا یہ عکس ہماری مارکیٹ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہاں Construction of Business مخصوص لوگوں کی monopoly ہے۔ اور یہ بھی ایک سنی ہوئی بات ہے کہ پنجاب میں poultry کے بزنس پر کسی ایک مخصوص خاندان کی اجارہ داری ہے، تبھی تو اسحاق ڈار کہتے تھے کہ ٹماٹر اگر مہنگے ہوگئے ہیں تو عوام مرغی کھائیں۔ ہر طرف مونوپلی اور cartel کا راج ہے۔ جب چاہیں دواؤں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ بڑے بڑے پروجیکٹ لاکر بڑی بڑی کمیشن لے کر ان کو ڈالر میں convert کرکے ملک سے باہر بھیجا جائے۔ یہ جو اشرافیہ آج اسمبلی میں موجود ہے یا جو اپر مڈل کلاس، جن کا ایک پیر اس ملک میں تو دوسرا باہر ملک میں، یا بلاول بھٹو جنھوں نے اپنی جائیداد جو کمیشن کو بتائی اس کا آدھے سے زیادہ حصہ ملک سے باہر ہے۔ فریال تالپور جو اس ملک کی امیر ترین عورت ہے۔ کل کا آصف زرداری جو نوابشاہ میں 85 کے دور میں سیر سپاٹے کیا کرتا تھا، یا جو میاں صاحب خود ہیں، یا عمران خان ہیں، یا جہانگیر ترین ہے، یہ سب امیر لوگ ہیں۔ اس ملک کی سپر اپر کلاس ہے۔ غرض کہ یہ الیکشن امیروں کا ہے، یہ جمہوریت امیروں کی ہے اور یہ مارکیٹ بھی امیروں کی ہے۔
ایک طرف الیکٹیبلز، وڈیرے، نواب، خان، چوہدری اور پیر ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ڈیرے ہمیشہ آباد رہیں۔ بندوقوں سے ان کی محافظوں کی پریڈ ہوتی رہے۔ تھانے اور پٹواری پر ان کا دباؤ ہو۔ لوگ جاہل ہوں، اسکول، صحت کے نظام تباہ و برباد ہوں، بری حکمرانی ہو، تاکہ لوگ ان کے سامنے جھکے رہیں اور برادری، قبائلی و جرگے کے نظام ہمیشہ زندہ رہیں۔
ایک دو مثالیں میں آپ کو دیتا چلوں کسی زمانے میں اے ڈی خواجہ، دادو میں بطور ایس پی تعنیات تھے۔ موصوف اپنے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھول دیتے تھے۔ علاقے کے وڈیرے پریشان ہوئے کہ اگر عام لوگ خود ایس پی کے پاس داد فریاد لے جاسکتے ہیں تو پھر ان کے ڈیروں کا کیا ہوگا۔
یہ جو بالآخر ہم نے فاٹا کو تحلیل کردیا، یہ کیا تھا، ستر سال کے بعد ہمیں یہ پتا چلا کہ یہ تو وہ black whole ہے جو پورے ملک کو اپنے اندر نگل لے گا۔ بالکل اسی طرح یہ جو الیکٹیبلز ہیں، یہ بلیک ہول ہے، جو ہماری معشیت کو ٹھوس ستونوں پر نہیں کھڑ ا ہونے دے رہا۔ ہماری جمہوریت خود یرغمال ہے۔ ایسے بھی ویسے بھی۔ ہماری مارکیٹ میں consumer دشمن لوگوں کا راج، یہاں کی پارلیمنٹ عوامی مفاد کے لیے قانون سازی کم اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی زیادہ کرتی ہے۔
اگر اس جمہوریت کو controlled رکھنا ہے تو پھر جان لیجیے کہ ہمارے معاشی تعلقات بھی بہت سست رفتاری سے ٹوٹیں گے، اور جب یہ فرسودہ معاشی تعلقات، سست رفتاری سے ٹوٹیں گے تو پھر ہمارے ملک پر قرضوں کا حجم اور بڑھے گا۔ اور ہمارے balance of payment پر ایک خطرناک مرحلہ آرہا ہے، ہماری مجموعی جمہوری، سیاسی اداروں کے دیوالیہ پن کا عکس ہے۔ اس ملک کو اس وقت ایک جامع و ٹھوس انداز میں ان سب باتوں کا ادارک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔