ناپسندیدگی کا اظہار کیوں نہیں
ایسا موقع ملک کے ووٹروں کو بھی مل جائے اور بوگس ووٹنگ نہ ہو تو حقائق سامنے آسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 31 مئی کو ختم ہونے والی پارلیمنٹ کو ایک تجویز دی تھی کہ بیلٹ پیپر میں جہاں امیدواروں کے نام اور انتخابی نشانات شایع کیے جاتے ہیں وہاں ایک خانہ ایسا بھی بنایا جائے جس پر ووٹر مہر لگا کر کسی بھی امیدوار کو ناپسندیدگی کے باعث اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب سے کسی بھی امیدوار کو اپنے ووٹ کا اہل نہیں سمجھتا۔
2018 کے عام انتخابات میں گوکہ الیکشن لڑنے کے رجحان میں کمی آئی ہے اور الیکشن کمیشن کے مطابق 2013 کے مقابلے میں امیدواروں کی تعداد میں سات ہزار امیدواروں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ امیدواروں کی کمی کی وجہ انتخابی بھاری فیس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے نامزدگی فارموں میں موجود سخت شرائط بھی ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پارٹیاں بنانے کے سلسلے میں سخت شرائط کے بھی اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور نئی پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے بھاری فیس اور کارکنوں کی کمی کم ازکم دو ہزار کی پابندی کی وجہ کے باوجود ایک سو سے زائد سیاسی پارٹیاں رجسٹریشن کراسکی ہیں جن کی تعداد پہلے تین سو کے لگ بھگ تھی اور پارٹی رجسٹریشن اتنی آسان تھی کہ جس کے ساتھ اس کے گھر والے بھی نہیں تھے وہ بھی اپنی نام نہاد سیاسی پارٹی کا سربراہ بنا ہوا تھا۔
چند ہزار روپے خرچہ کرکے اپنی پارٹی رجسٹرڈ کروا کر انتخابی نشان الاٹ کرانے والا خود کو بڑا سیاسی لیڈر سمجھتا تھا اور ہر ضمنی انتخابات کے موقع پر خود امیدوار بلکہ بیلٹ پیپر پر اپنے انتخابی نشان اور اپنے نام کی اشاعت سے اپنی ذاتی تشہیر کا شوق پورا کرلیتا تھا جب کہ اسے پانچ دس ووٹ ہی ملتے تھے، مگر وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے الیکشن کمیشن کے بڑے بیلٹ پیپر کا مالی بوجھ اور ووٹروں پر ذہنی بوجھ بڑھا دیتا تھا۔ راقم نے اس سے قبل اپنے ایک کالم میں ایک ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تفصیل بھی شایع کی تھی۔
گزشتہ ضمنی انتخابات میں رجسٹرڈ جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی بھاری تعداد میں انتخابات میں امیدوار بنتے تھے اور الیکشن کمیشن کو ایک بہت بڑا بیلٹ پیپر شایع کرانا پڑتا تھا جس کے کاغذ اور پرنٹنگ اور بائنڈنگ پر نہ صرف بھاری اخراجات آتے تھے بلکہ لاتعداد امیدواروں کے بیلٹ پیپر پر نام اور انتخابی نشان اور ملتے جلتے انتخابی نشانات کے باعث اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام اور انتخابی نشان تلاش کرنے میں دشواری اور وقت بھی ضایع ہوتا تھا۔
الیکشن کمیشن کو لاتعداد سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کے لیے سخت شرائط عائد کرنا پڑیں تو پارٹیوں کی بڑی تعداد کم ہوگئی اور اب 2018 ء کے انتخابات میں نامزدگی کاغذات میں بھی سخت شرائط لگائیں جس سے ملک میں گزشتہ کے برعکس سات ہزار امیدوار کم ہوئے جس سے الیکشن کمیشن کو انتخابی فیس میں نقصان تو ہوا مگر بڑے بڑے بیلٹ پیپر چھپوانے سے بھی نجات ملے گی کیونکہ بعض لوگوں نے انتخابات کو مذاق بنایا ہوا تھا جس کی اب حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ نوجوانوں اور پوش علاقوں کے ووٹروں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ووٹروں نے گھروں میں بیٹھنے کے بجائے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ گزشتہ تین عشروں سے عام انتخابات میں عوام مسلسل عدم دلچسپی ظاہر کرکے ووٹ دینے گھروں سے نہیں نکلتے کیونکہ پہلے دو بڑی پارٹیاں تھیں جو باریاں لیا کرتی تھیں اور لوگ بار بار دونوں کو آزما کر مایوس ہوا کرتے تھے جس کے بعد گزشتہ انتخابات سے پی ٹی آئی تیسری قوت بنی تو عوام نے امید لگا کر اسے تیسری بڑی پارٹی بنایا مگر 2018 میں لوگ دیکھ کر حیران ہیں کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وہی پرانے سیاسی چہرے الیکٹ ایبل افراد اور سیاسی موقع پرست اب عمران خان کے ساتھی بن گئے ہیں جو پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے انتخابی نشانات پر الیکشن لڑتے تھے اور اب وہ نئے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں ہیں۔ بڑھکیں مارنے اور متاثر کن تقریریں کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے اب پھر کہا ہے کہ ہم گندے سیاسی نظام کا حصہ بنے ہیں نہ بنیں گے اور اب تو آرٹیکل 62-63 بھی شہید ہوچکا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک پہلے بھی اسی نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لے کر ناکام ہوتی رہی ہے کیونکہ یہاں نظام بدلنا ہے نہ چہرے صرف سیاسی پارٹیاں ہی بدلی جاتی رہی ہیں اور آیندہ بھی یہی ہونا ہے اور پی ٹی آئی کو آزمانے کے بعد عوام کے پاس وہی تین چار بڑی پارٹیوں کے امیدوار سامنے آرہے ہیں جنھیں وہ ماضی میں ووٹ دے کر دیکھ چکے ہیں تو اب ان کے پاس دو ہی آپشن ہیں کہ پھر کسی نہ کسی کو ووٹ دینے آئیں یا گھر بیٹھ کر تماشا دیکھیں اور فریق نہ بنیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنے عوام کو یہ حق دے رکھا ہے کہ اگر وہ کسی سیاسی پارٹی یا امیدوار کو پسند نہیں کرتے تو بیلٹ پیپر کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں اور ناپسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے تمام امیدواروں پر اپنے عدم اعتماد کے اظہار کے لیے مخصوص ناپسندیدگی کے خانے پر مہر لگاتے ہیں۔ ایسا موقع ملک کے ووٹروں کو بھی مل جائے اور بوگس ووٹنگ نہ ہو تو حقائق سامنے آسکتے ہیں اور امیدواروں کی مقبولیت ظاہر ہوسکتی ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں گوکہ الیکشن لڑنے کے رجحان میں کمی آئی ہے اور الیکشن کمیشن کے مطابق 2013 کے مقابلے میں امیدواروں کی تعداد میں سات ہزار امیدواروں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ امیدواروں کی کمی کی وجہ انتخابی بھاری فیس کے علاوہ الیکشن کمیشن کے نامزدگی فارموں میں موجود سخت شرائط بھی ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پارٹیاں بنانے کے سلسلے میں سخت شرائط کے بھی اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور نئی پارٹی کی رجسٹریشن کے لیے بھاری فیس اور کارکنوں کی کمی کم ازکم دو ہزار کی پابندی کی وجہ کے باوجود ایک سو سے زائد سیاسی پارٹیاں رجسٹریشن کراسکی ہیں جن کی تعداد پہلے تین سو کے لگ بھگ تھی اور پارٹی رجسٹریشن اتنی آسان تھی کہ جس کے ساتھ اس کے گھر والے بھی نہیں تھے وہ بھی اپنی نام نہاد سیاسی پارٹی کا سربراہ بنا ہوا تھا۔
چند ہزار روپے خرچہ کرکے اپنی پارٹی رجسٹرڈ کروا کر انتخابی نشان الاٹ کرانے والا خود کو بڑا سیاسی لیڈر سمجھتا تھا اور ہر ضمنی انتخابات کے موقع پر خود امیدوار بلکہ بیلٹ پیپر پر اپنے انتخابی نشان اور اپنے نام کی اشاعت سے اپنی ذاتی تشہیر کا شوق پورا کرلیتا تھا جب کہ اسے پانچ دس ووٹ ہی ملتے تھے، مگر وہ اپنی ذاتی تشہیر کے لیے الیکشن کمیشن کے بڑے بیلٹ پیپر کا مالی بوجھ اور ووٹروں پر ذہنی بوجھ بڑھا دیتا تھا۔ راقم نے اس سے قبل اپنے ایک کالم میں ایک ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تفصیل بھی شایع کی تھی۔
گزشتہ ضمنی انتخابات میں رجسٹرڈ جماعتوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی بھاری تعداد میں انتخابات میں امیدوار بنتے تھے اور الیکشن کمیشن کو ایک بہت بڑا بیلٹ پیپر شایع کرانا پڑتا تھا جس کے کاغذ اور پرنٹنگ اور بائنڈنگ پر نہ صرف بھاری اخراجات آتے تھے بلکہ لاتعداد امیدواروں کے بیلٹ پیپر پر نام اور انتخابی نشان اور ملتے جلتے انتخابی نشانات کے باعث اپنے پسندیدہ امیدوار کا نام اور انتخابی نشان تلاش کرنے میں دشواری اور وقت بھی ضایع ہوتا تھا۔
الیکشن کمیشن کو لاتعداد سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کے لیے سخت شرائط عائد کرنا پڑیں تو پارٹیوں کی بڑی تعداد کم ہوگئی اور اب 2018 ء کے انتخابات میں نامزدگی کاغذات میں بھی سخت شرائط لگائیں جس سے ملک میں گزشتہ کے برعکس سات ہزار امیدوار کم ہوئے جس سے الیکشن کمیشن کو انتخابی فیس میں نقصان تو ہوا مگر بڑے بڑے بیلٹ پیپر چھپوانے سے بھی نجات ملے گی کیونکہ بعض لوگوں نے انتخابات کو مذاق بنایا ہوا تھا جس کی اب حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ نوجوانوں اور پوش علاقوں کے ووٹروں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن لانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ووٹروں نے گھروں میں بیٹھنے کے بجائے پی ٹی آئی کو ووٹ دیے تھے اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے تھے۔ گزشتہ تین عشروں سے عام انتخابات میں عوام مسلسل عدم دلچسپی ظاہر کرکے ووٹ دینے گھروں سے نہیں نکلتے کیونکہ پہلے دو بڑی پارٹیاں تھیں جو باریاں لیا کرتی تھیں اور لوگ بار بار دونوں کو آزما کر مایوس ہوا کرتے تھے جس کے بعد گزشتہ انتخابات سے پی ٹی آئی تیسری قوت بنی تو عوام نے امید لگا کر اسے تیسری بڑی پارٹی بنایا مگر 2018 میں لوگ دیکھ کر حیران ہیں کہ تبدیلی کے دعوے کرنے والی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے وہی پرانے سیاسی چہرے الیکٹ ایبل افراد اور سیاسی موقع پرست اب عمران خان کے ساتھی بن گئے ہیں جو پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے انتخابی نشانات پر الیکشن لڑتے تھے اور اب وہ نئے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں ہیں۔ بڑھکیں مارنے اور متاثر کن تقریریں کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے اب پھر کہا ہے کہ ہم گندے سیاسی نظام کا حصہ بنے ہیں نہ بنیں گے اور اب تو آرٹیکل 62-63 بھی شہید ہوچکا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک پہلے بھی اسی نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لے کر ناکام ہوتی رہی ہے کیونکہ یہاں نظام بدلنا ہے نہ چہرے صرف سیاسی پارٹیاں ہی بدلی جاتی رہی ہیں اور آیندہ بھی یہی ہونا ہے اور پی ٹی آئی کو آزمانے کے بعد عوام کے پاس وہی تین چار بڑی پارٹیوں کے امیدوار سامنے آرہے ہیں جنھیں وہ ماضی میں ووٹ دے کر دیکھ چکے ہیں تو اب ان کے پاس دو ہی آپشن ہیں کہ پھر کسی نہ کسی کو ووٹ دینے آئیں یا گھر بیٹھ کر تماشا دیکھیں اور فریق نہ بنیں۔
دنیا کے بہت سے ممالک نے اپنے عوام کو یہ حق دے رکھا ہے کہ اگر وہ کسی سیاسی پارٹی یا امیدوار کو پسند نہیں کرتے تو بیلٹ پیپر کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں اور ناپسندیدہ امیدوار کو ووٹ دینے کی بجائے تمام امیدواروں پر اپنے عدم اعتماد کے اظہار کے لیے مخصوص ناپسندیدگی کے خانے پر مہر لگاتے ہیں۔ ایسا موقع ملک کے ووٹروں کو بھی مل جائے اور بوگس ووٹنگ نہ ہو تو حقائق سامنے آسکتے ہیں اور امیدواروں کی مقبولیت ظاہر ہوسکتی ہے۔