اسلامی تعلیمات اور اصلاحِ معاشرہ
جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ مجموعی لحاظ سے خرابی اور بگاڑ کا شکار ہے۔
معاشرے کا کردار کسی بھی ملک و قوم کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پر ممالک اور اقوام کی خوش حالی اور فلاح و بہبود کا انحصار ہوتا ہے، جس ملک و قوم کو ایک اچھا اور بہترین معاشرہ نصیب ہو، خوش حالی اور فلاح و بہبود اس کا مقدر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوتا ہے تو خوش حالی اور فلاح و بہبود جیسی نعمتیں اس ملک و قوم سے کوسوں دور چلی جاتی ہیں۔
جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ مجموعی لحاظ سے خرابی اور بگاڑ کا شکار ہے۔ جھوٹ، بددیانتی، بدعنوانی، قتل و غارت، لوٹ مار، لسانیت، عصبیت، لڑائی جھگڑے وغیرہ یہ سب وہ خرابیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہیں۔ اور ان کی وجہ سے ہمارا ملک اور معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہم من حیث القوم بہ خوبی واقف بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ '' معاشرہ بہت خراب ہوچکا ہے'' جیسے جملے ہمیں اکثر اپنے ارد گرد کے ماحول میں سننے کو ملتے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی جانب کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دراصل اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ معاشرے کی حقیقت ہی سے واقف نہیں ہے یا پھر اس کی طرف توجہ نہیں ہے۔ اس لیے معاشرے کی حقیقت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
معاشرہ، بنیادی طور پر افراد کے اجتماع کو کہا جاتا ہے۔ کسی بھی جگہ ایک ساتھ رہنے والے افراد کو مجموعی لحاظ سے معاشرہ کہا جاتا ہے۔ گویا معاشرہ دراصل افراد ہی کا نام ہے۔ پس جب معاشرہ افراد سے بنتا ہے تو پھر اس لحاظ سے اس کی اصلاح و بگاڑ کا دارو مدار بھی افراد کی اصلاح و بگاڑ پر ہے۔ اس لیے معاشرے کی اصلاح کے لیے فرد کی اصلاح بہت زیادہ ضروری ہے۔ اب ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد معاشرے کو بُرا بھلا کہنا تو ضروری سمجھتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خود وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے خود اس کا بھی انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے تو وہ خود اس سے بری الذمہ ہرگز نہیں ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بنیادی سوچ کا من حیث القوم ہمارے اندر پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی سوچ انشاء اﷲ معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ جب معاشرے میں بسنے والا ہر فرد اس سوچ کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اصلاح کی فکر کرنا شروع کردے گا اور معاشرے کی اصلاح کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا کردار بھی ادا کرتا رہے گا تو پھر ایک نیک اور صالح معاشرے کا وجود میں آنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے دین اسلام میں بیان کردہ معاشرتی احکام اور مسائل سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بہ جا معاشرتی احکام و مسائل کا بیان ہے، ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے البتہ قرآن کریم کی سورۃ الحجرات میں یک جا طور پر چند انتہائی اہم معاشرتی احکام مذکور ہیں اور اس مناسبت سے یہ سورہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ذیل میں ان احکام کو ترتیب وار مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
٭ کسی بھی خبر پر بغیر تحقیق یقین کرکے اس پر عملی کاروائی کرنا :
یہ ایک بہت ہی خطرناک معاشرتی برائی ہے اور معاشرے میں یہ بہت عام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ تحقیق کی زحمت کیے بغیر کسی بھی بات پر یقین کرلیا جاتا ہے بل کہ اس پر عملی کارروائی بھی شروع کردی جاتی ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ خبر جھوٹ اور غلط تھی لیکن اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ندامت ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی کے متعلق کوئی خبر یا بات ہو تو اس پر یقین کرنے اور کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرنا ایک انتہائی اہم معاشرتی ذمے داری ہے۔
٭ لڑائی جھگڑے کرنے والوں میں صلح کرانا:
معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان اختلافات اور بسا اوقات لڑائی جھگڑے کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ ایسی صورت حال میں باقی لوگوں کے لیے محض تماشا دیکھنے کے بہ جائے غیر جانب داری اور عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان صلح صفائی کرکے ان کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو ختم کرانا ایک اہم معاشرتی ذمے داری ہے۔ پھر اگر بالفرض ان میں سے ایک فریق دوسرے کے خلاف ظلم پر اتر آئے تو پھر ظالم جب تک اس ظلم سے باز نہ آجائے، مظلوم کی نصرت و حمایت کرنا بھی ضروری ہے۔
٭ کسی دوسرے مسلمان بھائی بہن کا مذاق اڑانا :
یہ ایک انتہائی مذموم معاشرتی عمل ہے جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ دراصل دین اسلام میں ہر مسلمان کی عزت نفس کا بہت خیال رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے ہر ایسا عمل جواس عزت نفس کو مجروح کرے، اس سے منع کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کسی کے مذاق اور تمسخر اڑانے سے یقینا اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اس لیے یہ عمل ممنوع ہے۔ اﷲ تعالی نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مخاطب کرکے اس عمل سے بچنے کا حکم دیا ہے، جس سے اس کی برائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہ ہر حال یہ بھی ایک بڑی معاشرتی برائی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ طعنہ زنی :
طعنہ زنی ایک مذموم عمل ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو طرح طرح کی اور برسوں پرانی باتوں پر طعنے دے کر اذیت دینا عام ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ ایک دوسرے کو بُرے القابات سے پکارنا :
معاشرے میں بسنے والے افراد کا ایک دوسرے کو بُرے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا دراصل ایک دوسر ے کی عز ت نفس سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل عزت و احترام کے اس رشتے کے بھی منافی ہے جس کا ایک معاشرے کے لوگوں کے درمیان موجود ہونا نہایت ضروری ہے، اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کو اچھے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا کرنا چاہیے، یہی دین اسلام کی تعلیم ہے۔
٭ دوسروں کے متعلق منفی سوچ اور بدگمانی:
انسان کی سوچ اس کے افعال و اعمال میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ اور عملی اقدام کرتا ہے اس کی بنیاد اس کی سوچ ہوتی ہے کیوں کہ انسان ہر معاملے میں سب سے پہلے اپنی عقل کے ذریعے سوچنے کے بعد دل سے فیصلہ کرتا ہے اور اس کے بعد آخر میں اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہناتا ہے اس بنا پر انسان کی سوچ کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سوچ کے درست ہو نے کی ایک اہم اور بنیادی جہت یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ ہمیشہ ہر وقت منفی نہ رکھے بل کہ مثبت رکھے۔ اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ کرے، جو بھی عملی اقدام کرے خواہ اس کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہو یا دوسروں سے ہو، اس کی بنیاد صرف منفی سوچ نہ ہو کیوں کہ جس فیصلے اور عمل کی بنیاد مثبت سوچ کے بہ جائے صرف منفی سوچ ہوتی ہے اس کے نتائج بھی منفی ہی ظاہر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مذہب اسلام نے دوسروں کے متعلق بلا کسی وجہ کے منفی سوچ قایم کرنے اور بدگمانی کرنے سے منع کیا ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ ایک دوسرے کی ٹوہ اور جاسوسی :
ایک معاشرے میں رہنے والے افراد کوایک دوسرے کی کم زوریوں اور برائیوں کی جستجُو میں لگے رہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے آپس میں اعتماد کا رشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے جو ایک معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہر انسان کو اپنی کم زوریوں اور برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔
٭ غیبت کرنا :
کسی دوسرے مسلمان کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا غیبت کہلاتی ہے۔ دین اسلام نے اس سے بہت سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ اﷲ تعالی نے قرآن کریم کی اسی سورہ میں اس عمل کو دوسرے مردہ مسلمان کے گوشت کو کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ جناب رسول اکرم ﷺ نے اس کو زنا سے بھی بدتر گناہ قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے کے خواص و عوام میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اس کی برائی ہی اب دلوں سے ختم ہوچکی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکر ہے، اس لیے اس قبیح فعل کی برائی دل میں پیدا کرنا اور اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
٭ مساوات :
یہ ایک انتہائی اہم معاشرتی اصول ہے جس کو اس سورہ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور یہی ماقبل میں مذکور معاشرتی برائیوں سے بچنے کا ایک آسان نسخہ بھی ہے۔ دراصل انسان جب غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کرتا ہے، دوسروں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کو بُرے القابات سے یاد کرتا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے ان تمام معاشرتی برائیوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں مساوات کی تعلیم دی گئی ہے کہ بنی نوع انسان سب آدم و حوا علیھما السلام کی اولاد ہیں، کسی کو دوسرے پر رنگ، نسل، قوم قبیلے یا کسی اور سبب سے کو ئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ فضیلت و برتری کا ایک ہی معیار ہے اور وہ تقوی یعنی اﷲ تعالی کا ڈر اور خوف ہے۔
یہ چند اہم معاشرتی احکام ہیں جن کو اﷲ تعالی نے بندوں کے لیے اس سورہ میں بیان کیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی برائیوں میں سے ایک بڑی برائی آپس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہیں۔ کسی بھی ذریعے اور رشتے سے باہم منسلک افراد کے درمیان نفرت، اختلافات اور لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ ہیں، میاں بیوی کا رشتہ ہو، قرابت داری کا رشتہ ہو، مالک اور ملازم کا رشتہ ہو، کاروباری رشتہ ہو وغیرہ، ان سب رشتوں میں جڑے ہوئے افراد کے مابین اختلافات اور لڑائی جھگڑے کثرت کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی وجہ سے جلد یا بہ دیر یہ رشتے ختم ہوجاتے ہیں اور اگر باقی بھی رہتے ہیں تب بھی الفت اور محبت کا عنصر تو بہ ہر حال مفقود ہوتا ہے۔
اگر ہم پس پردہ اس کے اسباب اور وجوہات پر غور کریں تو ہمیں اس سب کے پیچھے بنیادی اور کلیدی کردار ان مذکورہ معاشرتی احکام سے رُوگردانی کا نظر آئے گا۔ اس لیے اگر ہم معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، معاشرے سے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ اور اس میں امن و محبت اور سکون و اطمینان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن و حدیث میں ذکر کردہ ان معاشرتی احکام کو اپنانا ہوگا، اور بات پھر وہی ہے کہ یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ افراد ہی سے معاشرہ بنتا ہے، اگر ہم سب نے معاشرتی احکام کو سیکھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے اور معاشرہ کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی نیت کرلی اور ایسا کر دکھایا تو یقینا اسی سے انشاء اﷲ ایک نیک اور اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا۔
جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ مجموعی لحاظ سے خرابی اور بگاڑ کا شکار ہے۔ جھوٹ، بددیانتی، بدعنوانی، قتل و غارت، لوٹ مار، لسانیت، عصبیت، لڑائی جھگڑے وغیرہ یہ سب وہ خرابیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کے لیے ناسور بن چکی ہیں۔ اور ان کی وجہ سے ہمارا ملک اور معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہم من حیث القوم بہ خوبی واقف بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ '' معاشرہ بہت خراب ہوچکا ہے'' جیسے جملے ہمیں اکثر اپنے ارد گرد کے ماحول میں سننے کو ملتے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کی جانب کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دراصل اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ معاشرے کی حقیقت ہی سے واقف نہیں ہے یا پھر اس کی طرف توجہ نہیں ہے۔ اس لیے معاشرے کی حقیقت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
معاشرہ، بنیادی طور پر افراد کے اجتماع کو کہا جاتا ہے۔ کسی بھی جگہ ایک ساتھ رہنے والے افراد کو مجموعی لحاظ سے معاشرہ کہا جاتا ہے۔ گویا معاشرہ دراصل افراد ہی کا نام ہے۔ پس جب معاشرہ افراد سے بنتا ہے تو پھر اس لحاظ سے اس کی اصلاح و بگاڑ کا دارو مدار بھی افراد کی اصلاح و بگاڑ پر ہے۔ اس لیے معاشرے کی اصلاح کے لیے فرد کی اصلاح بہت زیادہ ضروری ہے۔ اب ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ ہر فرد معاشرے کو بُرا بھلا کہنا تو ضروری سمجھتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خود وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے خود اس کا بھی انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہے تو وہ خود اس سے بری الذمہ ہرگز نہیں ہے۔ معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بنیادی سوچ کا من حیث القوم ہمارے اندر پیدا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہی سوچ انشاء اﷲ معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ جب معاشرے میں بسنے والا ہر فرد اس سوچ کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اصلاح کی فکر کرنا شروع کردے گا اور معاشرے کی اصلاح کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنا کردار بھی ادا کرتا رہے گا تو پھر ایک نیک اور صالح معاشرے کا وجود میں آنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے دین اسلام میں بیان کردہ معاشرتی احکام اور مسائل سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں جا بہ جا معاشرتی احکام و مسائل کا بیان ہے، ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے البتہ قرآن کریم کی سورۃ الحجرات میں یک جا طور پر چند انتہائی اہم معاشرتی احکام مذکور ہیں اور اس مناسبت سے یہ سورہ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ذیل میں ان احکام کو ترتیب وار مختصر وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔
٭ کسی بھی خبر پر بغیر تحقیق یقین کرکے اس پر عملی کاروائی کرنا :
یہ ایک بہت ہی خطرناک معاشرتی برائی ہے اور معاشرے میں یہ بہت عام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ تحقیق کی زحمت کیے بغیر کسی بھی بات پر یقین کرلیا جاتا ہے بل کہ اس پر عملی کارروائی بھی شروع کردی جاتی ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ خبر جھوٹ اور غلط تھی لیکن اس وقت تیر کمان سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ندامت ہی ہوتی ہے۔ اس لیے کسی کے متعلق کوئی خبر یا بات ہو تو اس پر یقین کرنے اور کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کرنا ایک انتہائی اہم معاشرتی ذمے داری ہے۔
٭ لڑائی جھگڑے کرنے والوں میں صلح کرانا:
معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان اختلافات اور بسا اوقات لڑائی جھگڑے کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ ایسی صورت حال میں باقی لوگوں کے لیے محض تماشا دیکھنے کے بہ جائے غیر جانب داری اور عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان صلح صفائی کرکے ان کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کو ختم کرانا ایک اہم معاشرتی ذمے داری ہے۔ پھر اگر بالفرض ان میں سے ایک فریق دوسرے کے خلاف ظلم پر اتر آئے تو پھر ظالم جب تک اس ظلم سے باز نہ آجائے، مظلوم کی نصرت و حمایت کرنا بھی ضروری ہے۔
٭ کسی دوسرے مسلمان بھائی بہن کا مذاق اڑانا :
یہ ایک انتہائی مذموم معاشرتی عمل ہے جس سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ دراصل دین اسلام میں ہر مسلمان کی عزت نفس کا بہت خیال رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے ہر ایسا عمل جواس عزت نفس کو مجروح کرے، اس سے منع کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کسی کے مذاق اور تمسخر اڑانے سے یقینا اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اس لیے یہ عمل ممنوع ہے۔ اﷲ تعالی نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ مخاطب کرکے اس عمل سے بچنے کا حکم دیا ہے، جس سے اس کی برائی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہ ہر حال یہ بھی ایک بڑی معاشرتی برائی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ طعنہ زنی :
طعنہ زنی ایک مذموم عمل ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو طرح طرح کی اور برسوں پرانی باتوں پر طعنے دے کر اذیت دینا عام ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ ایک دوسرے کو بُرے القابات سے پکارنا :
معاشرے میں بسنے والے افراد کا ایک دوسرے کو بُرے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا دراصل ایک دوسر ے کی عز ت نفس سے کھیلنے کے مترادف ہے اور یہ عمل عزت و احترام کے اس رشتے کے بھی منافی ہے جس کا ایک معاشرے کے لوگوں کے درمیان موجود ہونا نہایت ضروری ہے، اس لیے اس سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کو اچھے ناموں اور القابات سے پکارنا اور یاد کرنا کرنا چاہیے، یہی دین اسلام کی تعلیم ہے۔
٭ دوسروں کے متعلق منفی سوچ اور بدگمانی:
انسان کی سوچ اس کے افعال و اعمال میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ اور عملی اقدام کرتا ہے اس کی بنیاد اس کی سوچ ہوتی ہے کیوں کہ انسان ہر معاملے میں سب سے پہلے اپنی عقل کے ذریعے سوچنے کے بعد دل سے فیصلہ کرتا ہے اور اس کے بعد آخر میں اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہناتا ہے اس بنا پر انسان کی سوچ کا درست ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سوچ کے درست ہو نے کی ایک اہم اور بنیادی جہت یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ ہمیشہ ہر وقت منفی نہ رکھے بل کہ مثبت رکھے۔ اپنی زندگی میں جو بھی فیصلہ کرے، جو بھی عملی اقدام کرے خواہ اس کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہو یا دوسروں سے ہو، اس کی بنیاد صرف منفی سوچ نہ ہو کیوں کہ جس فیصلے اور عمل کی بنیاد مثبت سوچ کے بہ جائے صرف منفی سوچ ہوتی ہے اس کے نتائج بھی منفی ہی ظاہر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ مذہب اسلام نے دوسروں کے متعلق بلا کسی وجہ کے منفی سوچ قایم کرنے اور بدگمانی کرنے سے منع کیا ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔
٭ ایک دوسرے کی ٹوہ اور جاسوسی :
ایک معاشرے میں رہنے والے افراد کوایک دوسرے کی کم زوریوں اور برائیوں کی جستجُو میں لگے رہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے آپس میں اعتماد کا رشتہ بھی ختم ہوجاتا ہے جو ایک معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہر انسان کو اپنی کم زوریوں اور برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کی فکر کرنا چاہیے۔
٭ غیبت کرنا :
کسی دوسرے مسلمان کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا غیبت کہلاتی ہے۔ دین اسلام نے اس سے بہت سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ اﷲ تعالی نے قرآن کریم کی اسی سورہ میں اس عمل کو دوسرے مردہ مسلمان کے گوشت کو کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ جناب رسول اکرم ﷺ نے اس کو زنا سے بھی بدتر گناہ قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ مرض ہمارے معاشرے کے خواص و عوام میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اس کی برائی ہی اب دلوں سے ختم ہوچکی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا لمحۂ فکر ہے، اس لیے اس قبیح فعل کی برائی دل میں پیدا کرنا اور اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
٭ مساوات :
یہ ایک انتہائی اہم معاشرتی اصول ہے جس کو اس سورہ کے آخر میں بیان کیا گیا ہے اور یہی ماقبل میں مذکور معاشرتی برائیوں سے بچنے کا ایک آسان نسخہ بھی ہے۔ دراصل انسان جب غیبت، طعن و تشنیع اور عیب جوئی کرتا ہے، دوسروں کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کو بُرے القابات سے یاد کرتا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے ان تمام معاشرتی برائیوں کو بیان کرنے کے بعد آخر میں مساوات کی تعلیم دی گئی ہے کہ بنی نوع انسان سب آدم و حوا علیھما السلام کی اولاد ہیں، کسی کو دوسرے پر رنگ، نسل، قوم قبیلے یا کسی اور سبب سے کو ئی فضیلت و برتری حاصل نہیں ہے۔ فضیلت و برتری کا ایک ہی معیار ہے اور وہ تقوی یعنی اﷲ تعالی کا ڈر اور خوف ہے۔
یہ چند اہم معاشرتی احکام ہیں جن کو اﷲ تعالی نے بندوں کے لیے اس سورہ میں بیان کیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کی برائیوں میں سے ایک بڑی برائی آپس کے اختلافات اور لڑائی جھگڑے ہیں۔ کسی بھی ذریعے اور رشتے سے باہم منسلک افراد کے درمیان نفرت، اختلافات اور لڑائی جھگڑے معمول کا حصہ ہیں، میاں بیوی کا رشتہ ہو، قرابت داری کا رشتہ ہو، مالک اور ملازم کا رشتہ ہو، کاروباری رشتہ ہو وغیرہ، ان سب رشتوں میں جڑے ہوئے افراد کے مابین اختلافات اور لڑائی جھگڑے کثرت کے ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی وجہ سے جلد یا بہ دیر یہ رشتے ختم ہوجاتے ہیں اور اگر باقی بھی رہتے ہیں تب بھی الفت اور محبت کا عنصر تو بہ ہر حال مفقود ہوتا ہے۔
اگر ہم پس پردہ اس کے اسباب اور وجوہات پر غور کریں تو ہمیں اس سب کے پیچھے بنیادی اور کلیدی کردار ان مذکورہ معاشرتی احکام سے رُوگردانی کا نظر آئے گا۔ اس لیے اگر ہم معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں، معاشرے سے اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ اور اس میں امن و محبت اور سکون و اطمینان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن و حدیث میں ذکر کردہ ان معاشرتی احکام کو اپنانا ہوگا، اور بات پھر وہی ہے کہ یہ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ افراد ہی سے معاشرہ بنتا ہے، اگر ہم سب نے معاشرتی احکام کو سیکھ کر ان کے مطابق زندگی گزارنے اور معاشرہ کی اصلاح میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی نیت کرلی اور ایسا کر دکھایا تو یقینا اسی سے انشاء اﷲ ایک نیک اور اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا۔