ہم لوہا کوٹنے والے
میں نے مزدوروں کی بات کی کہ ان کے لیڈروں کو چھوڑکر وہ خود کسی بھی الیکشن وغیرہ سے بے خبر ہیں۔
یہ وہ دن ہیں جب ہر پاکستانی خواہ وہ کہیں بھی ہے صرف الیکشن کے لیے سوچ رہا ہے سوائے ان چند مزدوروں کے جن کا ہم یہ دن منا رہے ہیں اور ہر کوئی چھٹی پر ہے سوائے میرے اور میرے ساتھیوں کے کیونکہ کل اخبار کو شایع ہونا ہے اور اس کے صفحوں کا پیٹ ہمیں بھرنا ہے۔
میں نے مزدوروں کی بات کی کہ ان کے لیڈروں کو چھوڑکر وہ خود کسی بھی الیکشن وغیرہ سے بے خبر ہیں اور یہ بات مجھے کوئی نصف صدی پہلے کے ایک مزدور نے بتائی تھی یا یاد دلائی تھی وہ لاہور کی مشہور لوہا مارکیٹ میں لوہے پر کام کر رہا تھا یعنی لوہا کوٹ رہا تھا۔ میرے جیسا کوئی بابو اس کے قریب سے گزرا اور اسے لوہے کی سلاخ کو ہتھوڑے سے سیدھا کرتے دیکھ کر کہا کہ بھائی صاحب آپ کو معلوم نہیں کہ ہم آج آزاد ہو گئے ہیں۔ اس نے ہتھوڑے کی ضرب روکتے ہوئے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے۔ میرے بھائی مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم انگریز کے غلام تھے اب ہم کسی کے بھی غلام نہیں ہیں۔
اچھا تو پھر ہم لوہا کوٹنا چھوڑ کر کوئی آسان کام کریں گے۔ نہیں بھائی صاحب آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ کام کر کے ملک کو مضبوط بنائیں۔ اس پر مزدور نے جواب دیا کہ آپ کا مطلب ہے ہم اپنے کارخانے دار کے لیے اور زیادہ کام کریں تو بھائی صاحب ہمیں انگریز کی غلامی میں بھی لوہا کوٹنا تھا اب آزادی کے بعد بھی لوہا کوٹیں گے ویسے میں نے اتنا سنا ہے کہ اب ہم سب پاکستانی ہوں گے یعنی ہمارا نام و پتہ بدل جائے گا۔ تو خواتین و حضرات ایک مزدور کے ساتھ ایک باشعور پاکستانی کا یہ مکالمہ ہماری غلامی اور آزادی کے درمیان مکالمہ ہے۔
میری عمر بھی لوہا کوٹنے یعنی قلم چلانے میں گزر گئی اور آج جب مجھے بس آرام ہی کرنا چاہیے اور دنیا داری کے کام چھوڑ دینے چاہئیں میں یہ کالم لکھ رہا ہوں یعنی لوہا کوٹ رہا ہوں، اس کی ضرب کی دھمک سے میرا بوڑھا جسم لرز رہا ہے مگر میں ضرب پر ضرب لگاتا چلا جا رہا ہوں کیونکہ میرے اخبار نے کل پھر چھپنا ہے اور مجھے اس میں حاضر ہونا ہے۔ میرا اخبار ہر روز چھپتا رہے گا میرا ہاتھ روزانہ ضرب پر ضرب لگاتا رہے گا میرا جسم اس ضرب کی دھمک سے نہیں اپنی کمزوری سے لرزتا رہے گا تاآنکہ کسی دن نڈھال ہو کر یہ لرزش بند ہو جائے گی اور میرا کوئی زندہ ساتھی میرے بارے میں شاید چار سطری خبر اسی اخبار میں درج کرا دے گا جس میں اس دن میرا کالم نہیں ہوگا۔
تو جناب یہ ہے کہ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن اور اس دن کے ایک مزدورکی کہانی، روز مرہ کی برسوں پرانی کہانی اور اسی کہانی کے دوران اس مزدور کے ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ملک کے ذمے دار اور بااختیار لوگ قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ 11 مئی کو یہ الیکشن ضرور ہوں گے اس دن ہمارے نئے آقا نمودار ہوں گے۔ کئی بار میں نے الوئوں کے بارے میں ایک نظم نقل کی ہے اس کا آخری شعر کہ ''صبح صادق ضرور آئے گی ہم کو اندھا ضرور ہونا ہے''۔
میں اپنے نئے منتخب حکمرانوں کا ابھی سے خیر مقدم کرتا ہوں اس سے قبل پانچ برس تک ہم نے ایسے ہی منتخب حکمرانوں کی غلامی کی ہے اور مسلسل لوہا کوٹا ہے۔ ان برسوں نے ہماری محنت کو ہمارے جسموں میں گویا سمو دیا ہے ہمارے کمزور بھوکے جسموں میں کچھ اور ہو یا نہ ہو خون کی جگہ یہی دن رات کی مسلسل مشقت ضرور دوڑ رہی ہے۔
یاد آیا ایک پرانی امریکی فلم میں مشہور زمانہ اداکار چارلی چپلن کسی کارخانے میں مزدوری کرتا ہے اور یہی ہتھوڑا چلاتا ہے اس کی نوکری بدل جاتی ہے مگر ہتھوڑا چلانے میں اس کے ہاتھ جو حرکت کیا کرتے تھے وہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ ہر کام کرتے ہوئے بلکہ باتیں کرتے ہوئے بھی ہاتھوں کو اسی طرح اوپر نیچے کرتا رہتا ہے جیسے ہتھوڑا چلا رہا ہو۔ اگر میں یا میرا کوئی ساتھی آپ سے گفتگو کرتے ہوئے ہاتھوں کو ایک خاص حرکت دے جیسے وہ کچھ لکھ رہا ہے تو آپ حیران نہ ہوں یہ یوم مئی کی ایک ادا ہے کسی مزدور کی ایک عادت ہے جب تک یہ مزدور کسی دوسری مزدوری میں کسی نئی عادت کا عادی نہیں ہو جائے گا وہ ایسی ہی حرکت کرتا رہے گا لکھتا رہے گا۔
انسانوں کی تباہی یا آبادی انسانوں کے ہاتھ میں ہے ہمارے نئے حکمران ہو سکتا ہے ایسے انسان ہوں یا ان کی اکثریت ایسے انسانوں کی ہو یا ان میں ایسے انسانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو جو اپنے جیسے انسانوں اپنے ہموطنوں سے ان کی کسی غلطی کا انتقام نہ لے، زیادہ نہیں بس ایک معمول کی نارمل زندگی گزارنے کا موقع دے دے یا پھر ان نئے حکمرانوں میں چند ایک ایسے لوگ ہوں منہ پھٹ اور سمجھوتہ نہ کرنے کے قائل ہاتھ اٹھا کر بات کرنے والے اور بدی کو طاقت سے روکنے والے۔
اس کا طریقہ ہمارے ہادی و رہنما حضرت محمد ﷺ نے واضح کر دیا ہے کہ جب برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو ایسا نہ کر سکو تو اسے زبان سے روکو اور یہ بھی نہ کر سکو تو اسے دل سے برا سمجھو اور یہ صرف دل سے برا سمجھنا کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے۔ آج کا پاکستانی برائی کو اپنے سامنے ناچتا گاتا دیکھ رہا ہے وہ ایسے ہاتھوں کے انتظار میں ہے جو اسے زبردستی روک دیں صرف زبان اور دل سے برا جاننے کی اب گنجائش باقی نہیں رہی۔ پاکستانیوں کو برائی کے خلاف شمشیر پرست رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ اسے بدتمیزی نہ سمجھا جائے تو کشتوںکے پشتے لگانے والوں کی ضرورت ہے۔ غضب خدا کا ہمارے ساتھ جو حال ہی میں ہو چکا ہے ان زخموں سے خون رس رہا ہے۔ ان زخموں کا علاج کسی ظالم کے خون کی مرہم سے ہی ممکن ہے۔
ہمیں یقین دلایا جا رہا ہے کہ 11 مئی کو ضرور الیکشن ہوں گے انشاء اللہ ہوں گے اور ایسی یقین دہانی ملک کی سب سے زیادہ طاقت والی سرکار نے کرائی ہے۔ ہمیں یقین ہے لیکن ایک ایسے الیکشن کی خواہش ہے کہ جس کے نتیجے میں انسانوں کی حکومت قائم ہو۔ صرف انسانوں کی۔ ورنہ ہم لوہا تو کوٹتے ہی رہیں گے کہ روزی کمانی ہے۔
میں نے مزدوروں کی بات کی کہ ان کے لیڈروں کو چھوڑکر وہ خود کسی بھی الیکشن وغیرہ سے بے خبر ہیں اور یہ بات مجھے کوئی نصف صدی پہلے کے ایک مزدور نے بتائی تھی یا یاد دلائی تھی وہ لاہور کی مشہور لوہا مارکیٹ میں لوہے پر کام کر رہا تھا یعنی لوہا کوٹ رہا تھا۔ میرے جیسا کوئی بابو اس کے قریب سے گزرا اور اسے لوہے کی سلاخ کو ہتھوڑے سے سیدھا کرتے دیکھ کر کہا کہ بھائی صاحب آپ کو معلوم نہیں کہ ہم آج آزاد ہو گئے ہیں۔ اس نے ہتھوڑے کی ضرب روکتے ہوئے پوچھا اس کا کیا مطلب ہے۔ میرے بھائی مطلب یہ ہے کہ پہلے ہم انگریز کے غلام تھے اب ہم کسی کے بھی غلام نہیں ہیں۔
اچھا تو پھر ہم لوہا کوٹنا چھوڑ کر کوئی آسان کام کریں گے۔ نہیں بھائی صاحب آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ کام کر کے ملک کو مضبوط بنائیں۔ اس پر مزدور نے جواب دیا کہ آپ کا مطلب ہے ہم اپنے کارخانے دار کے لیے اور زیادہ کام کریں تو بھائی صاحب ہمیں انگریز کی غلامی میں بھی لوہا کوٹنا تھا اب آزادی کے بعد بھی لوہا کوٹیں گے ویسے میں نے اتنا سنا ہے کہ اب ہم سب پاکستانی ہوں گے یعنی ہمارا نام و پتہ بدل جائے گا۔ تو خواتین و حضرات ایک مزدور کے ساتھ ایک باشعور پاکستانی کا یہ مکالمہ ہماری غلامی اور آزادی کے درمیان مکالمہ ہے۔
میری عمر بھی لوہا کوٹنے یعنی قلم چلانے میں گزر گئی اور آج جب مجھے بس آرام ہی کرنا چاہیے اور دنیا داری کے کام چھوڑ دینے چاہئیں میں یہ کالم لکھ رہا ہوں یعنی لوہا کوٹ رہا ہوں، اس کی ضرب کی دھمک سے میرا بوڑھا جسم لرز رہا ہے مگر میں ضرب پر ضرب لگاتا چلا جا رہا ہوں کیونکہ میرے اخبار نے کل پھر چھپنا ہے اور مجھے اس میں حاضر ہونا ہے۔ میرا اخبار ہر روز چھپتا رہے گا میرا ہاتھ روزانہ ضرب پر ضرب لگاتا رہے گا میرا جسم اس ضرب کی دھمک سے نہیں اپنی کمزوری سے لرزتا رہے گا تاآنکہ کسی دن نڈھال ہو کر یہ لرزش بند ہو جائے گی اور میرا کوئی زندہ ساتھی میرے بارے میں شاید چار سطری خبر اسی اخبار میں درج کرا دے گا جس میں اس دن میرا کالم نہیں ہوگا۔
تو جناب یہ ہے کہ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن اور اس دن کے ایک مزدورکی کہانی، روز مرہ کی برسوں پرانی کہانی اور اسی کہانی کے دوران اس مزدور کے ملک میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور ملک کے ذمے دار اور بااختیار لوگ قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ 11 مئی کو یہ الیکشن ضرور ہوں گے اس دن ہمارے نئے آقا نمودار ہوں گے۔ کئی بار میں نے الوئوں کے بارے میں ایک نظم نقل کی ہے اس کا آخری شعر کہ ''صبح صادق ضرور آئے گی ہم کو اندھا ضرور ہونا ہے''۔
میں اپنے نئے منتخب حکمرانوں کا ابھی سے خیر مقدم کرتا ہوں اس سے قبل پانچ برس تک ہم نے ایسے ہی منتخب حکمرانوں کی غلامی کی ہے اور مسلسل لوہا کوٹا ہے۔ ان برسوں نے ہماری محنت کو ہمارے جسموں میں گویا سمو دیا ہے ہمارے کمزور بھوکے جسموں میں کچھ اور ہو یا نہ ہو خون کی جگہ یہی دن رات کی مسلسل مشقت ضرور دوڑ رہی ہے۔
یاد آیا ایک پرانی امریکی فلم میں مشہور زمانہ اداکار چارلی چپلن کسی کارخانے میں مزدوری کرتا ہے اور یہی ہتھوڑا چلاتا ہے اس کی نوکری بدل جاتی ہے مگر ہتھوڑا چلانے میں اس کے ہاتھ جو حرکت کیا کرتے تھے وہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ ہر کام کرتے ہوئے بلکہ باتیں کرتے ہوئے بھی ہاتھوں کو اسی طرح اوپر نیچے کرتا رہتا ہے جیسے ہتھوڑا چلا رہا ہو۔ اگر میں یا میرا کوئی ساتھی آپ سے گفتگو کرتے ہوئے ہاتھوں کو ایک خاص حرکت دے جیسے وہ کچھ لکھ رہا ہے تو آپ حیران نہ ہوں یہ یوم مئی کی ایک ادا ہے کسی مزدور کی ایک عادت ہے جب تک یہ مزدور کسی دوسری مزدوری میں کسی نئی عادت کا عادی نہیں ہو جائے گا وہ ایسی ہی حرکت کرتا رہے گا لکھتا رہے گا۔
انسانوں کی تباہی یا آبادی انسانوں کے ہاتھ میں ہے ہمارے نئے حکمران ہو سکتا ہے ایسے انسان ہوں یا ان کی اکثریت ایسے انسانوں کی ہو یا ان میں ایسے انسانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہو جو اپنے جیسے انسانوں اپنے ہموطنوں سے ان کی کسی غلطی کا انتقام نہ لے، زیادہ نہیں بس ایک معمول کی نارمل زندگی گزارنے کا موقع دے دے یا پھر ان نئے حکمرانوں میں چند ایک ایسے لوگ ہوں منہ پھٹ اور سمجھوتہ نہ کرنے کے قائل ہاتھ اٹھا کر بات کرنے والے اور بدی کو طاقت سے روکنے والے۔
اس کا طریقہ ہمارے ہادی و رہنما حضرت محمد ﷺ نے واضح کر دیا ہے کہ جب برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو ایسا نہ کر سکو تو اسے زبان سے روکو اور یہ بھی نہ کر سکو تو اسے دل سے برا سمجھو اور یہ صرف دل سے برا سمجھنا کمزور ترین ایمان کی نشانی ہے۔ آج کا پاکستانی برائی کو اپنے سامنے ناچتا گاتا دیکھ رہا ہے وہ ایسے ہاتھوں کے انتظار میں ہے جو اسے زبردستی روک دیں صرف زبان اور دل سے برا جاننے کی اب گنجائش باقی نہیں رہی۔ پاکستانیوں کو برائی کے خلاف شمشیر پرست رہنمائوں کی ضرورت ہے۔ اسے بدتمیزی نہ سمجھا جائے تو کشتوںکے پشتے لگانے والوں کی ضرورت ہے۔ غضب خدا کا ہمارے ساتھ جو حال ہی میں ہو چکا ہے ان زخموں سے خون رس رہا ہے۔ ان زخموں کا علاج کسی ظالم کے خون کی مرہم سے ہی ممکن ہے۔
ہمیں یقین دلایا جا رہا ہے کہ 11 مئی کو ضرور الیکشن ہوں گے انشاء اللہ ہوں گے اور ایسی یقین دہانی ملک کی سب سے زیادہ طاقت والی سرکار نے کرائی ہے۔ ہمیں یقین ہے لیکن ایک ایسے الیکشن کی خواہش ہے کہ جس کے نتیجے میں انسانوں کی حکومت قائم ہو۔ صرف انسانوں کی۔ ورنہ ہم لوہا تو کوٹتے ہی رہیں گے کہ روزی کمانی ہے۔