تاریخ کا سفر
تاریخ کا سفر ڈاکٹر مبارک علی پر ان کے احباب کے تاثرات پر مبنی ایک سنجیدہ ادبی شہ پارہ ہے، جو خود ایک تاریخ ہے۔
1960ء کے عشرے میں جب ہم بچپن سے لڑکپن کی حدود میں قدم رکھ رہے تھے، تو اس وقت مذہبی شدت پسندی نے وہ شکل اختیار نہیں کی تھی،جس نے آج پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔لیکن معاشرہ اس تہذیبی نرگسیت میں بہر حال ضرور مبتلا تھاجو مسلم معاشروں کا کئی صدیوں سے خاصاچلی آرہی ہے۔
یہی سبب تھاکہ اس زمانے میں ہر پڑھے لکھے متوسط گھرانے میں نسیم حجازی کے ناول ضرور موجود ہوتے تھے، کیونکہ ایک عام یہ تاثر تھا کہ ان کے ناول مسلمانوں کی تابناک تاریخ کی تمثیلی شکل ہیں۔اس لیے اس زمانے میں جب کہ بچوں کوعام طور پر رومانوی ناولوں پڑھنے کی اجازت نہیں ہواکرتی تھی، نسیم حجازی کے ناول پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ہمارے گھر میں بھی ان کے کئی ناول موجود تھے،جنھیں آٹھویں اور نویں جماعت کے دوران پڑھنے کا موقع ملا۔
ہم بھی اپنے زمانہ طالب علمی کے اس ابتدائی دور میں ان ناولوں کی بدولت فکری نرگسیت کے اسیر ہوئے اور اسے اپنی گم گشتہ تاریخ سمجھنے لگے تھے۔ ہوسکتاہے کہ یہ سلسلہ جاری رہتا، مگر بھلا ہو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ، جس کے کالج پہنچتے ہی ہم رکن بنے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ تنظیمیں اسلحہ رکھنے کی ترغیب دینے کے بجائے بحث ومباحثہ اور دلیل ومکالمہ کے ذریعے اپنے نظریات پروان چڑھانے کو ترجیح دیتی تھیں۔اس مقصد کے لیے باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ وار اسٹڈی سرکلزکا انعقاد ہواکرتا تھا،جن میں مختلف سیاسی و سماجی امور پربحث و مباحثہ ہواکرتا تھا،جو کتب بینی کے بغیرممکن نہیں تھا۔اس لیے طلبہ تنظیموں سے وابستہ نوجوان نصابی کتب کے علاوہ سیاست، تاریخ اور مختلف سماجی علوم کا بالخصوص مطالعہ کیا کرتے تھے، تاکہ ان نشستوں میں دوران گفتگو کسی قسم کی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چنانچہ کتب بینی ہماری زندگی کا جزو لاینفک بنی اور تاریخ جسے عموماً ماضی کے گذرے واقعات اور جابر حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کی داستان سمجھاجاتا تھا،ایک اہم سماجی علم کے طورپر متعارف ہوا۔
مگرپاکستانی معاشرے میں تاریخ کو کبھی وہ مقام حاصل نہیںرہا جو پوری دنیا میں اس مضمون کو حاصل ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اور درباری دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ حقیقت اور سچائی کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے اور ایسے موضوعات سے دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ان عقائد ونظریات کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو،جنھیں وہ ریاست کے منطقی جواز کے طور پر شدومد سے پیش کرتا رہا ہے۔
اس لیے روز اول ہی سے دلیل کی بنیاد پرمکالمے کے دروازے بند کرکے خردافروزی،عقلیت پسندی اور روشن خیالی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔یہاں معاملہ صرف فوجی آمریتوں پر ہی موقوف نہیں ہے، بلکہ سیاسی حکومتیں بھی مسلم امہ کا حصہ بننے کے خبط میں ایسے اقدامات کرتی رہتی ہیں، جن سے فکری ارتقاء کا راستہ رک رہاہے۔
اس لیے نصاب تعلیم خاص طور پر سماجی علوم کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ1953ء میں پہلی اور 1960ء میں ایوب خان نے دوسری تعلیمی پالیسی تشکیل دی تو ان دونوں پالیسیوں میں سب سے زیادہ تاریخ کو تختہ مشق بنایا گیا۔ایوب خان نے تو اسکول کی سطح پر تاریخ کی علیحدہ مضمون حیثیت ہی کو ختم کرکے اسے معاشرتی علوم کا حصہ بنادیا۔اس طرح تاریخ کوایک مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ پیش کرنے کے تصور کو تقویت حاصل ہوئی۔
ایک ایسے ماحول میں جہاں سچائی اور حقائق کی نفی کی جاتی ہو،تاریخ سمیت مختلف سماجی علوم پر تجزیاتی کتب کی دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہی سبب تھا کہ تاریخ پرانگریزی میں تو درجنوں کتابیں موجود تھیں، جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی تھیں۔ البتہ اردومیں تاریخ پر جو کتب دستیاب تھیں وہ زیادہ تر واقعاتی یا ایک خاص نقطہ نظر کے تحت لکھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مختلف موضوعات پراردوسمیت مقامی زبانوں میں نہ تو تحقیقی مواد سامنے آرہا تھا اور نہ ہی دنیا بھر میں شایع ہونے والی کتب کے تراجم ہوپا رہے تھے۔
مارکیٹ میں گنتی کی چند کتب ایسی تھیں، جنھیں تجزیاتی کہا جاسکتا تھا۔ ان میں باری علیگ کی'' کمپنی بہادر کی حکومت'' کے علاوہ چند دیگرمصنفین کی کتابیں شامل تھیں۔ 1970ء کے عشرے میں سبطِ حسن مرحوم نے تاریخ کا مارکسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی بنیاد ڈالی۔ ان کی کتب ، جن میں موسیٰ سے مارکس تک، ماضی کے مزار اور پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء وغیرہ شامل ہیں، تاریخ کو ایک نئے انداز اور نئے زاویے سے دیکھنے اورسمجھنے کا شعور پیداہوتا ہے۔اس لیے لوگ ان کی تحریروں کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئے۔
مگر1970ء کے عشرے کے آخری برسوں میں سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ تاریخ سے ایک نام ابھرکر سامنے آیا، جس کے تاریخ کے مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین نے تعلیم یافتہ روشن خیال افراد کے علاوہ متوشش شہریوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ ڈاکٹر مبارک علی ہیں، جنہوں نے تاریخ کوجدید سماجی اور سیاسی مسائل کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے عام قاری کو یہ سمجھایا کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور حکمرانوں کی نہیں ہوتی،بلکہ اس کا گہرا تعلق عوام کے مختلف طبقات سے بھی ہوتا ہے، جس میں ان کے رویوں اور طرز حیات کا احاطہ تاریخ کو ایک نیا رخ دیتا ہے۔
یوں انھوں نے جن موضوعات کا انتخاب کیا، وہ سب عوامی دلچسپی کے موضوعات تھے۔جیسے تاریخ اور دانشور،تاریخ اور عورت، تاریخ اور علماء، تاریخ اور سیاست، غلامی اور نسل پرستی اور تاریخ اور معاشرہ جیسی کتب تحریر کرکے انھوں نے تاریخ کو شہنشاہوں اور سلاطین کی مدح سرائی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ سندھ:خاموش آواز، تاریخ شناسی، تاریخ کے بدلتے نظریات،برصغیر میں مسلمان معاشرے کا المیہ سمیت تاریخ کے مختلف موضوعات پر اردو اور انگریزی میں 75 کے قریب کتب تحریر کیں۔اس کے علاوہ 1999ء سے سہ ماہی جریدہ تاریخ بھی شایع کر رہے ہیں ،جس کے اب تک 46شمارے شایع ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس جب ان کے دوستوں کے علم میں یہ بات آئی کہ اپریل2013ء میں ڈاکٹر صاحب 72برس کے ہونے جا رہے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہ خیال آیاتھا کہ ان کی 72ویں سالگرہ پر انھیں ایسا تحفہ پیش کیا جائے جو ہر لحاظ سے ان کے شایان ِشان اور یادگارہو۔ سو یہ ذمے داری ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے سنبھالی،جو خود ایک بڑے محقق اور سماجی علوم کے ماہر ہیں۔ڈاکٹر ریاض شیخ نے ملک بھر کے اہل قلم سے مسلسل رابطے کرکے انھیں ڈاکٹرمبارک علی کی شخصیت اور ان کی کاوشوں پر اظہار خیال کے لیے آمادہ کیا۔
جسے تمام دوستوں نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کیا۔ یوں ڈاکٹر مبارک علی کی ذات سے عقیدت اور ان کے کام سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے ان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو '' تاریخ کا سفر'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔اس کتاب میں جرمنی کی بوخم یونیورسٹی میں ان کے ساتھ موجود ڈاکٹر ایچ آر احمد کے علاوہ 42ادیبوں،دانشوروںاورصحافیوں کے علاوہ چندطلبا وطالبات نے بھی اپنے تاثرات پیش کیے ہیں،جو نوجوان نسل میں ان کی مقبولیت کو ظاہرکرتی ہے۔
تاریخ کا سفر ڈاکٹر مبارک علی پر ان کے احباب کے تاثرات پر مبنی ایک سنجیدہ ادبی شہ پارہ ہے، جو خود ایک تاریخ ہے اور ڈاکٹر مبارک علی کی شخصیت اور فن پر تحقیق کرنے والے محققین کے لیے ایک نادر دستاویزکی شکل اختیار کرگئی ہے۔
اس وقت میرے سامنے یہ کتاب'' تاریخ کا سفر'' رکھی ہوئی ہے۔اس کتاب میں دیگر انتہائی اہم اہل قلم دانشوروں کے علاوہ ایک مختصر مضمون میری بیٹی ارم کا بھی ہے، جس کی زندگی میں ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے۔وہ پری میڈیکل کی طالبہ تھی اور ڈاکٹر صاحب کی تحریروں سے متاثر ہوکر اس نے میڈیکل میں داخلہ لینے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے تاریخ میں ماسٹرز کرنے کو ترجیح دی۔ آج وہ اس مضمون میں ایم اے کرچکی ہے اوراپنے فیصلے پر انتہائی مطمئن ہے۔
ہم ڈاکٹر مبارک علی کے ممنون ہیں کہ انھوں نے صرف ہماری نسل کو ہی تاریخ کے صحیح تصور سے آگہی نہیں دی ہے،بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے نئی نسل کی بھی فکری آبیاری کی ہے اور بڑھتی ہوئی جنون پرستی کے خلاف ایک نئی فکری فصیل تعمیر کی ہے،جو مستقبل میں لازمی طور پر اپنا کردار ادا کرے گی۔تاریخ کا سفر تاریخ پبلی کیشنزکے زیر اہتمام فکشن ہائوس نے شایع کی ہے ۔اس کی قیمت 600 روپے ہے جو طالب علموں کے لیے زیادہ ہے۔طلبا وطالبات کی اس کتاب تک رسائی کے لیے ہم امید کرتے ہیں کہ پبلیشر خصوصی رعایت کا اہتمام کریں گے۔
یہی سبب تھاکہ اس زمانے میں ہر پڑھے لکھے متوسط گھرانے میں نسیم حجازی کے ناول ضرور موجود ہوتے تھے، کیونکہ ایک عام یہ تاثر تھا کہ ان کے ناول مسلمانوں کی تابناک تاریخ کی تمثیلی شکل ہیں۔اس لیے اس زمانے میں جب کہ بچوں کوعام طور پر رومانوی ناولوں پڑھنے کی اجازت نہیں ہواکرتی تھی، نسیم حجازی کے ناول پڑھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ہمارے گھر میں بھی ان کے کئی ناول موجود تھے،جنھیں آٹھویں اور نویں جماعت کے دوران پڑھنے کا موقع ملا۔
ہم بھی اپنے زمانہ طالب علمی کے اس ابتدائی دور میں ان ناولوں کی بدولت فکری نرگسیت کے اسیر ہوئے اور اسے اپنی گم گشتہ تاریخ سمجھنے لگے تھے۔ ہوسکتاہے کہ یہ سلسلہ جاری رہتا، مگر بھلا ہو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا ، جس کے کالج پہنچتے ہی ہم رکن بنے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ تنظیمیں اسلحہ رکھنے کی ترغیب دینے کے بجائے بحث ومباحثہ اور دلیل ومکالمہ کے ذریعے اپنے نظریات پروان چڑھانے کو ترجیح دیتی تھیں۔اس مقصد کے لیے باقاعدگی کے ساتھ ہفتہ وار اسٹڈی سرکلزکا انعقاد ہواکرتا تھا،جن میں مختلف سیاسی و سماجی امور پربحث و مباحثہ ہواکرتا تھا،جو کتب بینی کے بغیرممکن نہیں تھا۔اس لیے طلبہ تنظیموں سے وابستہ نوجوان نصابی کتب کے علاوہ سیاست، تاریخ اور مختلف سماجی علوم کا بالخصوص مطالعہ کیا کرتے تھے، تاکہ ان نشستوں میں دوران گفتگو کسی قسم کی خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چنانچہ کتب بینی ہماری زندگی کا جزو لاینفک بنی اور تاریخ جسے عموماً ماضی کے گذرے واقعات اور جابر حکمرانوں کی چیرہ دستیوں کی داستان سمجھاجاتا تھا،ایک اہم سماجی علم کے طورپر متعارف ہوا۔
مگرپاکستانی معاشرے میں تاریخ کو کبھی وہ مقام حاصل نہیںرہا جو پوری دنیا میں اس مضمون کو حاصل ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ اور درباری دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ حقیقت اور سچائی کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے اور ایسے موضوعات سے دامن بچانے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ان عقائد ونظریات کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو،جنھیں وہ ریاست کے منطقی جواز کے طور پر شدومد سے پیش کرتا رہا ہے۔
اس لیے روز اول ہی سے دلیل کی بنیاد پرمکالمے کے دروازے بند کرکے خردافروزی،عقلیت پسندی اور روشن خیالی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔یہاں معاملہ صرف فوجی آمریتوں پر ہی موقوف نہیں ہے، بلکہ سیاسی حکومتیں بھی مسلم امہ کا حصہ بننے کے خبط میں ایسے اقدامات کرتی رہتی ہیں، جن سے فکری ارتقاء کا راستہ رک رہاہے۔
اس لیے نصاب تعلیم خاص طور پر سماجی علوم کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ1953ء میں پہلی اور 1960ء میں ایوب خان نے دوسری تعلیمی پالیسی تشکیل دی تو ان دونوں پالیسیوں میں سب سے زیادہ تاریخ کو تختہ مشق بنایا گیا۔ایوب خان نے تو اسکول کی سطح پر تاریخ کی علیحدہ مضمون حیثیت ہی کو ختم کرکے اسے معاشرتی علوم کا حصہ بنادیا۔اس طرح تاریخ کوایک مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ پیش کرنے کے تصور کو تقویت حاصل ہوئی۔
ایک ایسے ماحول میں جہاں سچائی اور حقائق کی نفی کی جاتی ہو،تاریخ سمیت مختلف سماجی علوم پر تجزیاتی کتب کی دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہی سبب تھا کہ تاریخ پرانگریزی میں تو درجنوں کتابیں موجود تھیں، جو عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی تھیں۔ البتہ اردومیں تاریخ پر جو کتب دستیاب تھیں وہ زیادہ تر واقعاتی یا ایک خاص نقطہ نظر کے تحت لکھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں مختلف موضوعات پراردوسمیت مقامی زبانوں میں نہ تو تحقیقی مواد سامنے آرہا تھا اور نہ ہی دنیا بھر میں شایع ہونے والی کتب کے تراجم ہوپا رہے تھے۔
مارکیٹ میں گنتی کی چند کتب ایسی تھیں، جنھیں تجزیاتی کہا جاسکتا تھا۔ ان میں باری علیگ کی'' کمپنی بہادر کی حکومت'' کے علاوہ چند دیگرمصنفین کی کتابیں شامل تھیں۔ 1970ء کے عشرے میں سبطِ حسن مرحوم نے تاریخ کا مارکسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کی بنیاد ڈالی۔ ان کی کتب ، جن میں موسیٰ سے مارکس تک، ماضی کے مزار اور پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء وغیرہ شامل ہیں، تاریخ کو ایک نئے انداز اور نئے زاویے سے دیکھنے اورسمجھنے کا شعور پیداہوتا ہے۔اس لیے لوگ ان کی تحریروں کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئے۔
مگر1970ء کے عشرے کے آخری برسوں میں سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ تاریخ سے ایک نام ابھرکر سامنے آیا، جس کے تاریخ کے مختلف موضوعات پر لکھے گئے مضامین نے تعلیم یافتہ روشن خیال افراد کے علاوہ متوشش شہریوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ یہ ڈاکٹر مبارک علی ہیں، جنہوں نے تاریخ کوجدید سماجی اور سیاسی مسائل کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے عام قاری کو یہ سمجھایا کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور حکمرانوں کی نہیں ہوتی،بلکہ اس کا گہرا تعلق عوام کے مختلف طبقات سے بھی ہوتا ہے، جس میں ان کے رویوں اور طرز حیات کا احاطہ تاریخ کو ایک نیا رخ دیتا ہے۔
یوں انھوں نے جن موضوعات کا انتخاب کیا، وہ سب عوامی دلچسپی کے موضوعات تھے۔جیسے تاریخ اور دانشور،تاریخ اور عورت، تاریخ اور علماء، تاریخ اور سیاست، غلامی اور نسل پرستی اور تاریخ اور معاشرہ جیسی کتب تحریر کرکے انھوں نے تاریخ کو شہنشاہوں اور سلاطین کی مدح سرائی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ سندھ:خاموش آواز، تاریخ شناسی، تاریخ کے بدلتے نظریات،برصغیر میں مسلمان معاشرے کا المیہ سمیت تاریخ کے مختلف موضوعات پر اردو اور انگریزی میں 75 کے قریب کتب تحریر کیں۔اس کے علاوہ 1999ء سے سہ ماہی جریدہ تاریخ بھی شایع کر رہے ہیں ،جس کے اب تک 46شمارے شایع ہوچکے ہیں۔
گزشتہ برس جب ان کے دوستوں کے علم میں یہ بات آئی کہ اپریل2013ء میں ڈاکٹر صاحب 72برس کے ہونے جا رہے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہ خیال آیاتھا کہ ان کی 72ویں سالگرہ پر انھیں ایسا تحفہ پیش کیا جائے جو ہر لحاظ سے ان کے شایان ِشان اور یادگارہو۔ سو یہ ذمے داری ڈاکٹر ریاض احمد شیخ نے سنبھالی،جو خود ایک بڑے محقق اور سماجی علوم کے ماہر ہیں۔ڈاکٹر ریاض شیخ نے ملک بھر کے اہل قلم سے مسلسل رابطے کرکے انھیں ڈاکٹرمبارک علی کی شخصیت اور ان کی کاوشوں پر اظہار خیال کے لیے آمادہ کیا۔
جسے تمام دوستوں نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے قبول کیا۔ یوں ڈاکٹر مبارک علی کی ذات سے عقیدت اور ان کے کام سے دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نے ان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، جو '' تاریخ کا سفر'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے۔اس کتاب میں جرمنی کی بوخم یونیورسٹی میں ان کے ساتھ موجود ڈاکٹر ایچ آر احمد کے علاوہ 42ادیبوں،دانشوروںاورصحافیوں کے علاوہ چندطلبا وطالبات نے بھی اپنے تاثرات پیش کیے ہیں،جو نوجوان نسل میں ان کی مقبولیت کو ظاہرکرتی ہے۔
تاریخ کا سفر ڈاکٹر مبارک علی پر ان کے احباب کے تاثرات پر مبنی ایک سنجیدہ ادبی شہ پارہ ہے، جو خود ایک تاریخ ہے اور ڈاکٹر مبارک علی کی شخصیت اور فن پر تحقیق کرنے والے محققین کے لیے ایک نادر دستاویزکی شکل اختیار کرگئی ہے۔
اس وقت میرے سامنے یہ کتاب'' تاریخ کا سفر'' رکھی ہوئی ہے۔اس کتاب میں دیگر انتہائی اہم اہل قلم دانشوروں کے علاوہ ایک مختصر مضمون میری بیٹی ارم کا بھی ہے، جس کی زندگی میں ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے۔وہ پری میڈیکل کی طالبہ تھی اور ڈاکٹر صاحب کی تحریروں سے متاثر ہوکر اس نے میڈیکل میں داخلہ لینے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے تاریخ میں ماسٹرز کرنے کو ترجیح دی۔ آج وہ اس مضمون میں ایم اے کرچکی ہے اوراپنے فیصلے پر انتہائی مطمئن ہے۔
ہم ڈاکٹر مبارک علی کے ممنون ہیں کہ انھوں نے صرف ہماری نسل کو ہی تاریخ کے صحیح تصور سے آگہی نہیں دی ہے،بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے نئی نسل کی بھی فکری آبیاری کی ہے اور بڑھتی ہوئی جنون پرستی کے خلاف ایک نئی فکری فصیل تعمیر کی ہے،جو مستقبل میں لازمی طور پر اپنا کردار ادا کرے گی۔تاریخ کا سفر تاریخ پبلی کیشنزکے زیر اہتمام فکشن ہائوس نے شایع کی ہے ۔اس کی قیمت 600 روپے ہے جو طالب علموں کے لیے زیادہ ہے۔طلبا وطالبات کی اس کتاب تک رسائی کے لیے ہم امید کرتے ہیں کہ پبلیشر خصوصی رعایت کا اہتمام کریں گے۔