شاخ نازک
سیکیورٹی گارڈ کی وردی اس کے جرم کے ارتکاب میں معاونت کرتی ہے۔
KARACHI:
لڑکی کے حوالے سے دو نوعمر لڑکوں میں جھگڑا ہوا، اور ایک دوست کے گارڈ نے دوسرے کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا،طاقت ور لوگوں نے اسے فرارکروا دیا۔اب ہلاک ہوجانے والے لڑکے کا باپ رو رہا ہے کہ اس کا سترہ سالہ بیٹا مارا گیا۔ لیکن یہ پہلا اس طرح کا کیس تو نہیں ہے۔ پہلے شاہ زیب کیس میں بھی یہی ہوا تھا اور یہ تو وہ واردات ہے جس کی تھانے میں رپورٹ درج ہوئی،کیونکہ یہ واقعہ کلفٹن میں بہت سارے لوگوں کے سامنے پیش آیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ واقعات پیش کیوں آتے ہیں؟ اور سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے بڑھتے ہوئے میل جول پر ان کے والدین کی نظر کیوں نہیں ہوتی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کم عمر لڑکے کو باپ نے گن مین کیوں دیا تھا اور اسے اکیلے جانے کی اجازت کیوں تھی؟ پھر یہ کہ والد محترم نے گن مین یعنی سیکیورٹی گارڈ سے یہ کیوں کہا کہ کوئی اگر ان کے بیٹے کو کچھ کہے تو فائرنگ کردینا؟ سیکیورٹی گارڈ اب کبھی ہاتھ نہیں لگے گا۔
کیونکہ سیکیورٹی ایجنسی کی روایت ہے کہ بے روزگار لوگوں کو کم معاوضے پر ملازم رکھ کر ان کے جعلی پتے اپنے پاس رکھ لیتی ہے کیونکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے مالکان بہت با اثر ہوتے ہیں، ان کے اہم لوگوں سے روابط ہوتے ہیں، بلکہ بیشتر سیکیورٹی ایجنسیاں انھی با اثر حضرات کی ہیں۔ اسی لیے آئے دن بینکوں میں ڈکیتیاں یہی سیکیورٹی گارڈ کر رہے ہیں۔ جو دراصل عادی مجرم اور نوسر باز ہیں۔ سیکیورٹی گارڈ کی وردی اس کے جرم کے ارتکاب میں معاونت کرتی ہے اور یہ ڈکیتیاں اور قتل کرکے باآسانی اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
لیکن میرا سوال اس وقت دوسرا ہے کیونکہ اس واردات کی ساری تفصیلات لوگ اخبارات میں پڑھ اور ٹی وی چینلز پر تفصیل سے دیکھ چکے ہیں۔ جو خواتین وحضرات درس گاہوں سے وابستہ ہیں ان سے پوچھیے تو ہوش ربا اور شرمناک حقائق آپ کے سامنے آتے ہیں۔ جن پر اساتذہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کوئی استاد اگر کسی غلط حرکت پر ڈانٹتا ہے یا سزا دیتا ہے تو بااثر والدین کے بچے استاد کا تبادلہ کروادیتے ہیں یا نوکری ہی سے نکلوادیتے ہیں۔ اس لیے اپنی روزی بچانے کے لیے وہ طلبا وطالبات کی غلط حرکات پر ہونٹ سی لیتے ہیں۔
ویسے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں انتظامیہ یعنی مالکان کی طرف سے تدریسی عملے کو خاص ہدایت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات پر اسٹوڈنٹ کو نہ ٹوکیں اور نہ ڈانٹیں۔ پیرنٹس،ٹیچرز میٹنگ سے پہلے باقاعدہ نوٹس کے ذریعے اساتذہ کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ والدین میں سے کوئی کیسا ہی ٹیڑھا یا نامعقول سوال کرے، بلکہ کسی استاد کی بے عزتی بھی کرے تو انھیں جواب نہیں دینا ہے۔ خاموش رہنا ہے۔ کیونکہ یہ اسٹوڈنٹ ان کے ''کلائنٹ'' ہیں۔ جب استاد اور شاگرد کے درمیان کاروباری رشتہ رہ جائے تو اخلاقی زوال کے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔
دراصل سارے فساد کی جڑ اسکولوں اور کالجوں میں مخلوط ذریعہ تعلیم ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کو نادانی اور کم عمری کی وجہ سے اچھی اور بری بات میں تمیز نہیں ہوتی۔ فلموں کی بے ہودگی، انٹرنیٹ پر دستیاب غیر اخلاقی مواد اور دو نمبر کے پیسے سے خریدا ہوا بڑا سا گھر،چمکتی گاڑی، نوکر چاکر تمام اخلاقی اقدار کو پامال کردیتے ہیں۔ جنس مخالف کی کشش تیرہ سے بیس سال تک بہت خطرناک ہوتی ہے۔ والدین اسکول بھیجنے کے بعد بالکل لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔
رہی سہی کسر کوچنگ سینٹرز پوری کردیتے ہیں۔ آج عزت صرف پیسے کی ہے۔ دو نمبر کے کاروبار اور رشوت سے کمائے گئے پیسے کے حامل افراد جانتے ہیں کہ دکھاوا ہی سب کچھ ہے۔ اس لیے نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کو اکیلے گاڑی چلاتے دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ ''پردے کے پیچھے کیا ہے'' جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ پیسہ تہذیب نہیں لاتا۔کیونکہ راتوں رات امیر بننا اب کوئی مشکل نہیں۔ ہم بدقسمت لوگوں پر مسلط حکمرانوں اور سیاست دانوں نے کرپشن کو ایک اعزاز بنا دیا ہے۔ لیکن تہذیب و شائستگی ورثے میں ملتی ہے۔
یہ اعلیٰ نسب لوگوں کی میراث ہے۔ وہ دولت سے محروم بھی ہوجائیں تو ان کی گفتگو اور چہرے ان کی تہذیب و شرافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ آئے دن تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں محبوس جو لوگ گالم گلوچ اور توتکار کرتے نظر آتے ہیں وہ ان کا کچا چٹھا کھول دیتا ہے۔اقتدار کی دیگ کے سالن سے لت پت ہونے کے باوجود وہ نہ اپنا لہجہ تبدیل کرسکتے ہیں نہ مخالفین کے لیے اپنی لمبی زبان کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ پیسہ آتے ہی ایسے لوگ جن کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں ہوتا، اپنا علاقہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ اور ایسے ہی خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کے ''معاملات'' اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔
سولہ اور سترہ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے؟ بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ بچے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن آزادانہ ماحول، کو ایجوکیشن، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولیات نے انھیں وقت سے پہلے بالغ کردیا ہے۔ جنس مخالف میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے، آزاد ماحول میں کسی بات پر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں اور پھر وہ بھیانک نتائج نکلتے ہیں کہ ماں باپ ساری عمر روتے ہیں، لیکن کوئی استاد، رشتے دار یا محلے دار انھیں ان کے بچوں کے ''کارناموں'' سے آگاہ کرنا چاہے تو وہ آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔ جب نتائج سامنے آتے ہیں تو سر پکڑ کر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔
لیکن جس وقت انھیں اولاد پر نظر رکھنی چاہیے اس وقت وہ آوارگی میں وقت ضایع کرتے ہیں اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک عام نظارہ ہے کہ نودولتیوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہر غم سے بے نیاز ہوٹلوں میں، برگر شاپس میں اور پارکوں میں بے حجابانہ حرکات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ پنڈی کے ایوب پارک میں نوجوان بے حجابانہ شیشہ پیتے اور جوڑوں کی شکل میں آزادانہ گھومتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی مناظر میں نے کراچی اور لاہور کے پارکوں اور دیگر جگہوں پر بھی دیکھے۔ کراچی میں تو بڑے بڑے نام ور کالجوں اور اسکولوں کی طالبات کو ان کے یونیفارم میں دوپہر کے وقت پیزا اور برگر شاپس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ناظم آباد میں ایک ہوٹل جو اب بند ہوگیا ہے۔ دوپہر کے وقت وہاں کے طلباوطالبات سے بھرا ہوتا تھا۔
مائیں اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ باپ بے چارہ فکرمعاش میں دن بھر گھر سے باہر۔ بیگم صاحبہ کو سہیلیوں سے گپ شپ کرنے اور کوکنگ کے پروگرام دیکھنے سے فرصت نہیں۔ وہ بھی اس لیے نہیں کہ کوئی اچھی ڈش پکانی سیکھیں بلکہ اس لیے کہ کھانا پکانے والی ماڈل نے کپڑے اور جیولری کون سی پہنی ہے؟
پودوں کو بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے بیج ڈالا جاتا ہے، پھر پنیری لگتی ہے۔ پھر پنیری کو دوسرے گملے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ چاروں طرف جنگلا لگایا جاتا ہے تاکہ پودا بڑھوتری کے زمانے میں ادھر ادھر نہ نکل جائے۔ جب وہ بھرپورطریقے سے تناور پودا بن جاتا ہے تو جنگلا ہٹا دیا جاتا ہے اور پودا اپنی بہترین دیکھ بھال کی بنا پر سیدھا بڑھتا ہے اور بہترین پھل اور پھول دیتا ہے۔ لیکن اولاد۔۔۔۔۔۔ جو سب سے زیادہ نازک پودے ہوتے ہیں انھیں نادان اور خودپرست مائیں یونہی تیز ہواؤں اور خراب ماحول میں چھوڑ دیتی ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ اسکول بھیجنے کے بعد ان کی ذمے داری ختم ہوگئی ہے۔ رہ گیا استاد۔۔۔۔۔تو وہ بے چارہ کس کھیت کی مولی ہے؟ میں نے متعدد بار انھی کالموں کے ذریعے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ جب جب ہم نے طلبا وطالبات یا محلے میں سے کسی بچے کی والدہ کو اس کی نازیبا حرکات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہمیشہ ناراضگی سہنی پڑی بلکہ بعض اوقات یہ بھی سننا پڑا کہ آپ کا کام صرف پڑھانا ہے۔ ''ہمارے بچے کیا کرتے ہیں، کس سے ملتے ہیں، کہاں جاتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے'' اور پھر جب اخبارات اور ٹی وی پر کلیجہ پیٹتے ماں باپ نظر آتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ کاش! یہ اپنی آنکھیں پہلے ہی کھلی رکھتے۔
گارڈ کے ساتھ بیٹے کو بھیجتے ہوئے یہ ضرور جان لیتے کہ نوعمر بیٹا کن مشاغل میں مبتلا ہے۔ اور جس لڑکی کی خاطر ایک بچہ موت کے منہ میں چلا گیا،اس کی مصروفیات کیا ہیں، وہ موبائل پر کس سے باتیں کرتی رہتی ہے؟ کاش! اس لڑکی کی ماں نے کبھی اس کا موبائل چیک کیا ہوتا، وہ یہ جان پاتیں کہ لاتعداد SMS کس کو بھیجے جاتے ہیں،فون کالز کس کے لیے ہیں؟ لیکن میں نے کہا نا کہ پیسہ ظاہری ترقی تو لاتا ہے لیکن شرافت اور اخلاقیات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔
لڑکی کے حوالے سے دو نوعمر لڑکوں میں جھگڑا ہوا، اور ایک دوست کے گارڈ نے دوسرے کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا،طاقت ور لوگوں نے اسے فرارکروا دیا۔اب ہلاک ہوجانے والے لڑکے کا باپ رو رہا ہے کہ اس کا سترہ سالہ بیٹا مارا گیا۔ لیکن یہ پہلا اس طرح کا کیس تو نہیں ہے۔ پہلے شاہ زیب کیس میں بھی یہی ہوا تھا اور یہ تو وہ واردات ہے جس کی تھانے میں رپورٹ درج ہوئی،کیونکہ یہ واقعہ کلفٹن میں بہت سارے لوگوں کے سامنے پیش آیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ واقعات پیش کیوں آتے ہیں؟ اور سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے بڑھتے ہوئے میل جول پر ان کے والدین کی نظر کیوں نہیں ہوتی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کم عمر لڑکے کو باپ نے گن مین کیوں دیا تھا اور اسے اکیلے جانے کی اجازت کیوں تھی؟ پھر یہ کہ والد محترم نے گن مین یعنی سیکیورٹی گارڈ سے یہ کیوں کہا کہ کوئی اگر ان کے بیٹے کو کچھ کہے تو فائرنگ کردینا؟ سیکیورٹی گارڈ اب کبھی ہاتھ نہیں لگے گا۔
کیونکہ سیکیورٹی ایجنسی کی روایت ہے کہ بے روزگار لوگوں کو کم معاوضے پر ملازم رکھ کر ان کے جعلی پتے اپنے پاس رکھ لیتی ہے کیونکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے مالکان بہت با اثر ہوتے ہیں، ان کے اہم لوگوں سے روابط ہوتے ہیں، بلکہ بیشتر سیکیورٹی ایجنسیاں انھی با اثر حضرات کی ہیں۔ اسی لیے آئے دن بینکوں میں ڈکیتیاں یہی سیکیورٹی گارڈ کر رہے ہیں۔ جو دراصل عادی مجرم اور نوسر باز ہیں۔ سیکیورٹی گارڈ کی وردی اس کے جرم کے ارتکاب میں معاونت کرتی ہے اور یہ ڈکیتیاں اور قتل کرکے باآسانی اپنی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔
لیکن میرا سوال اس وقت دوسرا ہے کیونکہ اس واردات کی ساری تفصیلات لوگ اخبارات میں پڑھ اور ٹی وی چینلز پر تفصیل سے دیکھ چکے ہیں۔ جو خواتین وحضرات درس گاہوں سے وابستہ ہیں ان سے پوچھیے تو ہوش ربا اور شرمناک حقائق آپ کے سامنے آتے ہیں۔ جن پر اساتذہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ کوئی استاد اگر کسی غلط حرکت پر ڈانٹتا ہے یا سزا دیتا ہے تو بااثر والدین کے بچے استاد کا تبادلہ کروادیتے ہیں یا نوکری ہی سے نکلوادیتے ہیں۔ اس لیے اپنی روزی بچانے کے لیے وہ طلبا وطالبات کی غلط حرکات پر ہونٹ سی لیتے ہیں۔
ویسے بھی پرائیویٹ اسکولوں میں انتظامیہ یعنی مالکان کی طرف سے تدریسی عملے کو خاص ہدایت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات پر اسٹوڈنٹ کو نہ ٹوکیں اور نہ ڈانٹیں۔ پیرنٹس،ٹیچرز میٹنگ سے پہلے باقاعدہ نوٹس کے ذریعے اساتذہ کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ والدین میں سے کوئی کیسا ہی ٹیڑھا یا نامعقول سوال کرے، بلکہ کسی استاد کی بے عزتی بھی کرے تو انھیں جواب نہیں دینا ہے۔ خاموش رہنا ہے۔ کیونکہ یہ اسٹوڈنٹ ان کے ''کلائنٹ'' ہیں۔ جب استاد اور شاگرد کے درمیان کاروباری رشتہ رہ جائے تو اخلاقی زوال کے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔
دراصل سارے فساد کی جڑ اسکولوں اور کالجوں میں مخلوط ذریعہ تعلیم ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کو نادانی اور کم عمری کی وجہ سے اچھی اور بری بات میں تمیز نہیں ہوتی۔ فلموں کی بے ہودگی، انٹرنیٹ پر دستیاب غیر اخلاقی مواد اور دو نمبر کے پیسے سے خریدا ہوا بڑا سا گھر،چمکتی گاڑی، نوکر چاکر تمام اخلاقی اقدار کو پامال کردیتے ہیں۔ جنس مخالف کی کشش تیرہ سے بیس سال تک بہت خطرناک ہوتی ہے۔ والدین اسکول بھیجنے کے بعد بالکل لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔
رہی سہی کسر کوچنگ سینٹرز پوری کردیتے ہیں۔ آج عزت صرف پیسے کی ہے۔ دو نمبر کے کاروبار اور رشوت سے کمائے گئے پیسے کے حامل افراد جانتے ہیں کہ دکھاوا ہی سب کچھ ہے۔ اس لیے نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کو اکیلے گاڑی چلاتے دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ ''پردے کے پیچھے کیا ہے'' جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ پیسہ تہذیب نہیں لاتا۔کیونکہ راتوں رات امیر بننا اب کوئی مشکل نہیں۔ ہم بدقسمت لوگوں پر مسلط حکمرانوں اور سیاست دانوں نے کرپشن کو ایک اعزاز بنا دیا ہے۔ لیکن تہذیب و شائستگی ورثے میں ملتی ہے۔
یہ اعلیٰ نسب لوگوں کی میراث ہے۔ وہ دولت سے محروم بھی ہوجائیں تو ان کی گفتگو اور چہرے ان کی تہذیب و شرافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ آئے دن تھری پیس سوٹ اور ٹائی میں محبوس جو لوگ گالم گلوچ اور توتکار کرتے نظر آتے ہیں وہ ان کا کچا چٹھا کھول دیتا ہے۔اقتدار کی دیگ کے سالن سے لت پت ہونے کے باوجود وہ نہ اپنا لہجہ تبدیل کرسکتے ہیں نہ مخالفین کے لیے اپنی لمبی زبان کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ پیسہ آتے ہی ایسے لوگ جن کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں ہوتا، اپنا علاقہ تبدیل کرلیتے ہیں۔ اور ایسے ہی خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کے ''معاملات'' اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔
سولہ اور سترہ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے؟ بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ بچے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن آزادانہ ماحول، کو ایجوکیشن، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولیات نے انھیں وقت سے پہلے بالغ کردیا ہے۔ جنس مخالف میں کشش محسوس ہونے لگتی ہے، آزاد ماحول میں کسی بات پر کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں اور پھر وہ بھیانک نتائج نکلتے ہیں کہ ماں باپ ساری عمر روتے ہیں، لیکن کوئی استاد، رشتے دار یا محلے دار انھیں ان کے بچوں کے ''کارناموں'' سے آگاہ کرنا چاہے تو وہ آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔ جب نتائج سامنے آتے ہیں تو سر پکڑ کر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔
لیکن جس وقت انھیں اولاد پر نظر رکھنی چاہیے اس وقت وہ آوارگی میں وقت ضایع کرتے ہیں اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ ایک عام نظارہ ہے کہ نودولتیوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہر غم سے بے نیاز ہوٹلوں میں، برگر شاپس میں اور پارکوں میں بے حجابانہ حرکات میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ پنڈی کے ایوب پارک میں نوجوان بے حجابانہ شیشہ پیتے اور جوڑوں کی شکل میں آزادانہ گھومتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہی مناظر میں نے کراچی اور لاہور کے پارکوں اور دیگر جگہوں پر بھی دیکھے۔ کراچی میں تو بڑے بڑے نام ور کالجوں اور اسکولوں کی طالبات کو ان کے یونیفارم میں دوپہر کے وقت پیزا اور برگر شاپس میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ناظم آباد میں ایک ہوٹل جو اب بند ہوگیا ہے۔ دوپہر کے وقت وہاں کے طلباوطالبات سے بھرا ہوتا تھا۔
مائیں اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔ باپ بے چارہ فکرمعاش میں دن بھر گھر سے باہر۔ بیگم صاحبہ کو سہیلیوں سے گپ شپ کرنے اور کوکنگ کے پروگرام دیکھنے سے فرصت نہیں۔ وہ بھی اس لیے نہیں کہ کوئی اچھی ڈش پکانی سیکھیں بلکہ اس لیے کہ کھانا پکانے والی ماڈل نے کپڑے اور جیولری کون سی پہنی ہے؟
پودوں کو بھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے بیج ڈالا جاتا ہے، پھر پنیری لگتی ہے۔ پھر پنیری کو دوسرے گملے میں منتقل کیا جاتا ہے۔ چاروں طرف جنگلا لگایا جاتا ہے تاکہ پودا بڑھوتری کے زمانے میں ادھر ادھر نہ نکل جائے۔ جب وہ بھرپورطریقے سے تناور پودا بن جاتا ہے تو جنگلا ہٹا دیا جاتا ہے اور پودا اپنی بہترین دیکھ بھال کی بنا پر سیدھا بڑھتا ہے اور بہترین پھل اور پھول دیتا ہے۔ لیکن اولاد۔۔۔۔۔۔ جو سب سے زیادہ نازک پودے ہوتے ہیں انھیں نادان اور خودپرست مائیں یونہی تیز ہواؤں اور خراب ماحول میں چھوڑ دیتی ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ اسکول بھیجنے کے بعد ان کی ذمے داری ختم ہوگئی ہے۔ رہ گیا استاد۔۔۔۔۔تو وہ بے چارہ کس کھیت کی مولی ہے؟ میں نے متعدد بار انھی کالموں کے ذریعے اپنے قارئین کو بتایا ہے کہ جب جب ہم نے طلبا وطالبات یا محلے میں سے کسی بچے کی والدہ کو اس کی نازیبا حرکات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہمیشہ ناراضگی سہنی پڑی بلکہ بعض اوقات یہ بھی سننا پڑا کہ آپ کا کام صرف پڑھانا ہے۔ ''ہمارے بچے کیا کرتے ہیں، کس سے ملتے ہیں، کہاں جاتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے'' اور پھر جب اخبارات اور ٹی وی پر کلیجہ پیٹتے ماں باپ نظر آتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ کاش! یہ اپنی آنکھیں پہلے ہی کھلی رکھتے۔
گارڈ کے ساتھ بیٹے کو بھیجتے ہوئے یہ ضرور جان لیتے کہ نوعمر بیٹا کن مشاغل میں مبتلا ہے۔ اور جس لڑکی کی خاطر ایک بچہ موت کے منہ میں چلا گیا،اس کی مصروفیات کیا ہیں، وہ موبائل پر کس سے باتیں کرتی رہتی ہے؟ کاش! اس لڑکی کی ماں نے کبھی اس کا موبائل چیک کیا ہوتا، وہ یہ جان پاتیں کہ لاتعداد SMS کس کو بھیجے جاتے ہیں،فون کالز کس کے لیے ہیں؟ لیکن میں نے کہا نا کہ پیسہ ظاہری ترقی تو لاتا ہے لیکن شرافت اور اخلاقیات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔