تذبذب کا شکار
(ن) لیگ نے پنجاب میں اپنے اقتدار کے لیے (ق) لیگ کے منحرف ارکان اسمبلی کو ساتھ ملایا تھا۔
KARACHI:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو وہ صدر آصف علی زرداری سے وزارت عظمیٰ کا حلف نہیں لیں گے، قبل ازیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف نے سابق حکومت میں شامل کسی پارٹی سے اتحاد کیا ہے نہ انتخابات کے بعد کرے گی۔
عمران خان جس سیاسی انتہاپسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں اور کسی سیاسی لچک کے بھی وہ موڈ میں نہیں ہیں جب کہ سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا اور ہر سیاسی رہنما اور جماعت کو کہیں نہ کہیں کسی سیاسی مصلحت، اقتدار اور سیاسی مفاد کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی واضح فرق ہے۔
جمہوریت مشاورت کا نام ہے جس میں پارٹی کے قائد یا سربراہ کو پارٹی کے سینئر رہنماؤں، مرکزی کونسل اور اپنے صوبائی عہدیداروں سے مشاورت کرنا لازمی ہوتا ہے اور وہ اگر مشاورت نہ کرے اور من مانے فیصلے کرے تو وہ آمر شمار ہوتا ہے اور جمہوریت میں شخصی اور من مانے فیصلے کارگر نہیں ہوتے۔ حال ہی میں عمران خان کو بھی اپنا ایک من مانا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا جو انھوں نے پارٹی رہنماؤں کی مشاورت کے بغیر شخصی طور پر کیا تھا کہ تحریک انصاف ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد دھرنے میں شریک ہو گی اور بعد میں انھیں اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
نواز شریف کے لیے شیخ رشید کہہ چکے ہیں کہ مغرور اور ضدی ہیں۔ یہی بات شریف برادران کے لیے چوہدری برادران بھی کہہ چکے ہیں اور عام طور پر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں نواز شریف چوہدریوں کے لیے لچک کا مظاہرہ کر لیتے تو وہ صدر پاکستان منتخب ہو سکتے تھے۔
(ن) لیگ نے پنجاب میں اپنے اقتدار کے لیے (ق) لیگ کے منحرف ارکان اسمبلی کو ساتھ ملایا تھا۔ صدر زرداری کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اس (ق) لیگ سے اتحاد کرنا پڑا تھا جسے وہ قاتل لیگ قرار دے چکے تھے۔ اے این پی نے اسی پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا تھا جس کے پہلے وزیر اعظم بھٹو نے اے این پی کے قائد ولی خان پر بغاوت کا مقدمہ بنایا تھا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب سیاسی قائدین کو اپنے مخالفین سے اتحاد کرنا پڑا، مگر عمران خان نے اپنے مخالف تمام سیاستدانوں اور جماعتوں کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے جس سے وہ آیندہ بھی تعلق نہ رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
پینترا تو عمران خان ماضی میں بدل چکے ہیں، پہلے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی بعد میں مخالف ہو گئے۔ بعد میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد کے خلاف سخت بیانات دیے اور لندن جا کر عدالتی کارروائی کا بھی بڑا شور مچایا اور پھر ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے، گزشتہ سال انھیں کراچی میں اپنے جلسے کے لیے اندرون خانہ متحدہ کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی جس کے بعد وہ متحدہ کے سلسلے میں اپنی زبان بندی وہ خود ہی کر چکے ہیں اور اب عمران خان کا ذاتی منشور صرف اور صرف شریف برادران پر ذاتی تنقید ہو کر رہ گیا ہے۔
صدر زرداری اور پیپلزپارٹی کے خلاف عمران خان بہت کم بولتے ہیں یا معمولی تنقید کر کے وہ صدر زرداری اور نواز شریف کو آپس میں جوڑ کو توڑنے کی بات کرتے ہیں جو جڑے ہی نہیں۔ صدر زرداری میاں نواز شریف کے اتنے خلاف نہیں ہیں جتنے نواز شریف ہیں اور اس مخالفت میں نواز شریف نے سماجی تعلق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا تھا اور صدر زرداری کو اپنے بھائی کی تعزیت کے لیے اپنے گھر آنے کے لیے وقت نہیں دیا تھا۔
عمران خان بھی بعض معاملات میں نواز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان کی اور (ن) لیگ کی مخالفت کو سیاست سے زیادہ ذاتی مخالفت اور سیاسی دشمنی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہر تقریر (ن) لیگ کی مخالفت سے زیادہ شریف برادران پر ذاتی تنقید بن کر رہ گئی ہے جس میں وہ اب اخلاق کا بھی خیال نہیں رکھتے جیسے انھوں نے نوازشریف کو اپنی تقاریر میں متعدد بار ''او ۔۔۔۔نواز شریف!'' کہہ کر پکارا ہے جب کہ نواز شریف نے کبھی عمران خان کا نام بھی اپنی تقریر میں نہیں لیا اور انھیں کھلاڑی کہہ کر ضرور پکارا ہے۔
نواز شریف چوہدری شجاعت سے سخت مخالفت کے باوجود چوہدری شجاعت کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے۔ ان سے ملے جب کہ عمران خان نے ایک تقریب میں موجود ہوتے ہوئے نواز شریف سے ملنا گوارا نہیں کیا تھا جب کہ شاہ محمود قریشی جا کر نواز شریف سے ملے تھے۔
عمران خان نے بھی موجودہ ہونے والے انتخابات میں نوازشریف کی طرح تنہا پرواز کرنے کا ثبوت دے دیا ہے اور اپنے آیندہ کے بھی پروگرام کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی سابق حکومت کے اتحادیوں سے تعلق قائم نہیں کریں گے۔
حیرت ہے کہ عمران خان اب بھی صدر زرداری سے حلف نہ لینے کا کہہ رہے ہیں جب کہ آیندہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو آئین کے تحت صدر پاکستان سے حلف لینے کا پابند بنایا گیا ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ نو منتخب وزیر اعظم ملک کے صدر سے حلف نہ لے۔
عام تاثر ہے کہ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت بھی نہیں لے سکے گی اور جس پارٹی کی نشستیں زیادہ ہوں گی اسے دوسری پارٹیوں سے اتحاد کر کے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہو گی تو کیا عمران خان نے طے کر لیا ہے کہ وہ تنہا اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اگر تحریک انصاف حکومت بنانے جیسی پوزیشن میں تنہا آ گئی تو وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے لیے عمران خان چار ماہ ستمبر تک صدر زرداری کی مدت پوری کرنے کا انتظار کریں گے اور نگراں حکومت کو بھی ستمبر تک برقرار رکھنا چاہیں گے۔ ایسی صورت حال میں لگتا ہے عمران خان خود تذبذب کا شکار ہیں۔ انھیں توقع ہے کہ نہ وہ اکثریت لے سکیں گے نہ وہ سابق اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے کہ وزیر اعظم منتخب ہو کر صدر زرداری سے حلف لینے کی نوبت آئے۔
نواز شریف نے متحدہ سے سخت مخالفت کے باوجود یہ نہیں کہا کہ اگر انھیں اکثریت حاصل کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ متحدہ کی حمایت حاصل نہیں کریں گے۔ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر ہوتی ہے نہ سیاسی مخالفت کو دشمنی بنا لیا جاتا ہے اور نہ ہی سخت رویہ اپنایا جاتا ہے بلکہ لچک ضروری ہوتی ہے مگر عمران خان نے اپنے بیانات سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاسی مخالفت، ضد اور انا میں نواز شریف سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو وہ صدر آصف علی زرداری سے وزارت عظمیٰ کا حلف نہیں لیں گے، قبل ازیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف نے سابق حکومت میں شامل کسی پارٹی سے اتحاد کیا ہے نہ انتخابات کے بعد کرے گی۔
عمران خان جس سیاسی انتہاپسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں اور کسی سیاسی لچک کے بھی وہ موڈ میں نہیں ہیں جب کہ سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں ہوتا اور ہر سیاسی رہنما اور جماعت کو کہیں نہ کہیں کسی سیاسی مصلحت، اقتدار اور سیاسی مفاد کے لیے لچک کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی واضح فرق ہے۔
جمہوریت مشاورت کا نام ہے جس میں پارٹی کے قائد یا سربراہ کو پارٹی کے سینئر رہنماؤں، مرکزی کونسل اور اپنے صوبائی عہدیداروں سے مشاورت کرنا لازمی ہوتا ہے اور وہ اگر مشاورت نہ کرے اور من مانے فیصلے کرے تو وہ آمر شمار ہوتا ہے اور جمہوریت میں شخصی اور من مانے فیصلے کارگر نہیں ہوتے۔ حال ہی میں عمران خان کو بھی اپنا ایک من مانا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا جو انھوں نے پارٹی رہنماؤں کی مشاورت کے بغیر شخصی طور پر کیا تھا کہ تحریک انصاف ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد دھرنے میں شریک ہو گی اور بعد میں انھیں اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
نواز شریف کے لیے شیخ رشید کہہ چکے ہیں کہ مغرور اور ضدی ہیں۔ یہی بات شریف برادران کے لیے چوہدری برادران بھی کہہ چکے ہیں اور عام طور پر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں نواز شریف چوہدریوں کے لیے لچک کا مظاہرہ کر لیتے تو وہ صدر پاکستان منتخب ہو سکتے تھے۔
(ن) لیگ نے پنجاب میں اپنے اقتدار کے لیے (ق) لیگ کے منحرف ارکان اسمبلی کو ساتھ ملایا تھا۔ صدر زرداری کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اس (ق) لیگ سے اتحاد کرنا پڑا تھا جسے وہ قاتل لیگ قرار دے چکے تھے۔ اے این پی نے اسی پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا تھا جس کے پہلے وزیر اعظم بھٹو نے اے این پی کے قائد ولی خان پر بغاوت کا مقدمہ بنایا تھا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب سیاسی قائدین کو اپنے مخالفین سے اتحاد کرنا پڑا، مگر عمران خان نے اپنے مخالف تمام سیاستدانوں اور جماعتوں کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے جس سے وہ آیندہ بھی تعلق نہ رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔
پینترا تو عمران خان ماضی میں بدل چکے ہیں، پہلے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی بعد میں مخالف ہو گئے۔ بعد میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد کے خلاف سخت بیانات دیے اور لندن جا کر عدالتی کارروائی کا بھی بڑا شور مچایا اور پھر ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے، گزشتہ سال انھیں کراچی میں اپنے جلسے کے لیے اندرون خانہ متحدہ کی حمایت حاصل کرنا پڑی تھی جس کے بعد وہ متحدہ کے سلسلے میں اپنی زبان بندی وہ خود ہی کر چکے ہیں اور اب عمران خان کا ذاتی منشور صرف اور صرف شریف برادران پر ذاتی تنقید ہو کر رہ گیا ہے۔
صدر زرداری اور پیپلزپارٹی کے خلاف عمران خان بہت کم بولتے ہیں یا معمولی تنقید کر کے وہ صدر زرداری اور نواز شریف کو آپس میں جوڑ کو توڑنے کی بات کرتے ہیں جو جڑے ہی نہیں۔ صدر زرداری میاں نواز شریف کے اتنے خلاف نہیں ہیں جتنے نواز شریف ہیں اور اس مخالفت میں نواز شریف نے سماجی تعلق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا تھا اور صدر زرداری کو اپنے بھائی کی تعزیت کے لیے اپنے گھر آنے کے لیے وقت نہیں دیا تھا۔
عمران خان بھی بعض معاملات میں نواز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور ان کی اور (ن) لیگ کی مخالفت کو سیاست سے زیادہ ذاتی مخالفت اور سیاسی دشمنی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہر تقریر (ن) لیگ کی مخالفت سے زیادہ شریف برادران پر ذاتی تنقید بن کر رہ گئی ہے جس میں وہ اب اخلاق کا بھی خیال نہیں رکھتے جیسے انھوں نے نوازشریف کو اپنی تقاریر میں متعدد بار ''او ۔۔۔۔نواز شریف!'' کہہ کر پکارا ہے جب کہ نواز شریف نے کبھی عمران خان کا نام بھی اپنی تقریر میں نہیں لیا اور انھیں کھلاڑی کہہ کر ضرور پکارا ہے۔
نواز شریف چوہدری شجاعت سے سخت مخالفت کے باوجود چوہدری شجاعت کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے۔ ان سے ملے جب کہ عمران خان نے ایک تقریب میں موجود ہوتے ہوئے نواز شریف سے ملنا گوارا نہیں کیا تھا جب کہ شاہ محمود قریشی جا کر نواز شریف سے ملے تھے۔
عمران خان نے بھی موجودہ ہونے والے انتخابات میں نوازشریف کی طرح تنہا پرواز کرنے کا ثبوت دے دیا ہے اور اپنے آیندہ کے بھی پروگرام کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی سابق حکومت کے اتحادیوں سے تعلق قائم نہیں کریں گے۔
حیرت ہے کہ عمران خان اب بھی صدر زرداری سے حلف نہ لینے کا کہہ رہے ہیں جب کہ آیندہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو آئین کے تحت صدر پاکستان سے حلف لینے کا پابند بنایا گیا ہے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ نو منتخب وزیر اعظم ملک کے صدر سے حلف نہ لے۔
عام تاثر ہے کہ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت بھی نہیں لے سکے گی اور جس پارٹی کی نشستیں زیادہ ہوں گی اسے دوسری پارٹیوں سے اتحاد کر کے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہو گی تو کیا عمران خان نے طے کر لیا ہے کہ وہ تنہا اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور اگر تحریک انصاف حکومت بنانے جیسی پوزیشن میں تنہا آ گئی تو وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے لیے عمران خان چار ماہ ستمبر تک صدر زرداری کی مدت پوری کرنے کا انتظار کریں گے اور نگراں حکومت کو بھی ستمبر تک برقرار رکھنا چاہیں گے۔ ایسی صورت حال میں لگتا ہے عمران خان خود تذبذب کا شکار ہیں۔ انھیں توقع ہے کہ نہ وہ اکثریت لے سکیں گے نہ وہ سابق اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملائیں گے کہ وزیر اعظم منتخب ہو کر صدر زرداری سے حلف لینے کی نوبت آئے۔
نواز شریف نے متحدہ سے سخت مخالفت کے باوجود یہ نہیں کہا کہ اگر انھیں اکثریت حاصل کرنے کی ضرورت پڑی تو وہ متحدہ کی حمایت حاصل نہیں کریں گے۔ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر ہوتی ہے نہ سیاسی مخالفت کو دشمنی بنا لیا جاتا ہے اور نہ ہی سخت رویہ اپنایا جاتا ہے بلکہ لچک ضروری ہوتی ہے مگر عمران خان نے اپنے بیانات سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ سیاسی مخالفت، ضد اور انا میں نواز شریف سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔