مسجد ملا جیون لاہور کی گمشدہ تاریخی مسجد
ملا احمد جیون کئی کتب کے مصنف اور مفسر قرآن تھے، آپ اورنگزیب عالمگیر کے استاد بھی تھے
مسجد ملا جیون لوہاری منڈی کوچہ میاں عاشق میں موجود ہے۔ ملّا احمد جیون کی پیدائش 1047 ہجری میں ہوئی۔ ملا احمد جیون کی قوت حافظہ حیرت انگیز تھی۔ آپ کئی کتب کے مصنف اور مفسر قرآن بھی تھے۔ آپ اپنے وقت کے علمائے عظام اور فقہائے کرام میں سے تھے اور آپ اورنگزیب عالمگیر کے استاد بھی تھے۔ ملا احمد جیون اور اورنگزیب کے متعلق کئی واقعات زبان زد عام ہیں۔
آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے شہروں میں قیام کیا۔ لاہور میں آپ شاہ عالم کے ساتھ تشریف لائے تھے جب کہ شاہ عالم بن اورنگزیب کو لاہور کا گورنر بنایا گیا تھا۔ جب شاہ عالم کا انتقال ہوگیا تو آپ واپس دہلی تشریف لے گئے۔
میں خاصی دیر اس مسجد کو تلاش کرتا رہا۔ آخرکار ایک صاحب سے گزارش کی کہ راستہ سمجھا دیں تو اتفاق سے وہ مسجد ملا احمد جیون کے امام مسجد تھے۔ ان کے ساتھ مسجد پہنچا تو انہوں چترالی چائے پیش کی اور مسجد سے متعلق بتانا شروع کیا۔ امام صاحب نے بتایا کہ مسجد ملا جیون خاصی قدیم مسجد ہے لیکن مسجد کی تعمیر نو ہوچکی ہے۔ مسجد کی موجودہ عمارت میں قدیم عمارت کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
میں نے کتب میں بہت تلاش کیا مگر مجھے اس مسجد سے متعلق کچھ نہیں ملا۔ یہ بات حل طلب ہے کہ یہ مسجد ملا احمد جیون نے خود تعمیر کی یا ان کے نام پر تعمیر کی گئی۔ مسجد کہ باہر جو تختی لگی ہے اس پر درج ہے:
امام مسجد صاحب جو یہاں چالیس سال سے امام ہیں، ان کا تو کہنا تھا کہ یہ مسجد ملا احمد جیون نے خود تعمیر کروائی تھی جب وہ لاہور میں موجود تھے۔ اب اگر یہ مسجد اتنی قدیم ہے تو اس کا ذکر کتابوں میں کیوں موجود نہیں؟ (یا پھر یہ میری ہی ناکامی ہے کہ اس کا تذکرہ تلاش نہ کر پایا۔) بہرحال، مسجد اتنی قدیم نہ بھی ہو تو اس کے باہر لگی تختی سے اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ 1885 میں اس مسجد کو تعمیر کیا گیا یا مرمت ہوئی۔
مسجد کے ارد گرد بلند و بالا عمارتیں ہیں جن کے باعث مسجد نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ مسجد کا داخلی دروازہ بہت چھوٹا ہے البتہ اندر سے مسجد کی عمارت خاصی شاندار ہے۔ مسجد کے سامنے کوئی قدیم حویلی بھی تھی جس کا اب صرف ملبہ نظر آتا ہے۔ اس مسجد کی تاریخ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے شہروں میں قیام کیا۔ لاہور میں آپ شاہ عالم کے ساتھ تشریف لائے تھے جب کہ شاہ عالم بن اورنگزیب کو لاہور کا گورنر بنایا گیا تھا۔ جب شاہ عالم کا انتقال ہوگیا تو آپ واپس دہلی تشریف لے گئے۔
میں خاصی دیر اس مسجد کو تلاش کرتا رہا۔ آخرکار ایک صاحب سے گزارش کی کہ راستہ سمجھا دیں تو اتفاق سے وہ مسجد ملا احمد جیون کے امام مسجد تھے۔ ان کے ساتھ مسجد پہنچا تو انہوں چترالی چائے پیش کی اور مسجد سے متعلق بتانا شروع کیا۔ امام صاحب نے بتایا کہ مسجد ملا جیون خاصی قدیم مسجد ہے لیکن مسجد کی تعمیر نو ہوچکی ہے۔ مسجد کی موجودہ عمارت میں قدیم عمارت کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔
میں نے کتب میں بہت تلاش کیا مگر مجھے اس مسجد سے متعلق کچھ نہیں ملا۔ یہ بات حل طلب ہے کہ یہ مسجد ملا احمد جیون نے خود تعمیر کی یا ان کے نام پر تعمیر کی گئی۔ مسجد کہ باہر جو تختی لگی ہے اس پر درج ہے:
تعمیر کردہ مولانا جیون کوچہ میاں عاشق
بانی مسجد نظام الدین ولد شمس الدین 1303ھ (1885)
مرمت 1393ھ (1973)، تعمیر نو 1413ھ (1992)
امام مسجد صاحب جو یہاں چالیس سال سے امام ہیں، ان کا تو کہنا تھا کہ یہ مسجد ملا احمد جیون نے خود تعمیر کروائی تھی جب وہ لاہور میں موجود تھے۔ اب اگر یہ مسجد اتنی قدیم ہے تو اس کا ذکر کتابوں میں کیوں موجود نہیں؟ (یا پھر یہ میری ہی ناکامی ہے کہ اس کا تذکرہ تلاش نہ کر پایا۔) بہرحال، مسجد اتنی قدیم نہ بھی ہو تو اس کے باہر لگی تختی سے اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ 1885 میں اس مسجد کو تعمیر کیا گیا یا مرمت ہوئی۔
مسجد کے ارد گرد بلند و بالا عمارتیں ہیں جن کے باعث مسجد نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ مسجد کا داخلی دروازہ بہت چھوٹا ہے البتہ اندر سے مسجد کی عمارت خاصی شاندار ہے۔ مسجد کے سامنے کوئی قدیم حویلی بھی تھی جس کا اب صرف ملبہ نظر آتا ہے۔ اس مسجد کی تاریخ کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔