شفاف الیکشن قوم کا مقدر ہیں
ملکی سیاسی صورتحال کا تجزیہ اپنے منشور میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ آج پاکستان مفلوج ہوچکا ہے
ملکی سیاست امید افزا تبدیلیوں کے دشت کی مسافرہے۔ایک طرف عدالتی اور دوسری جانب اسے ادارہ جاتی تجربوں ، حکومتی اقدامات، الیکشن کمیشن کی ہدایات کے قانونی مراحل درپیش ہیں ، تاہم اس سارے جمہوری عمل کا تعمیری پہلو یہ ہے کہ سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا مجموعی طرز عمل اور آیندہ انتخابات کے انعقاد پر یقین کافی حد تک مستحکم ہے، کیونکہ الیکشن کے التوا کی بلاجواز قیاس آرائیوں کی کوئی اخلاقی یا زمینی حقائق سے کوئی نسبت ہوتی تو سیاسی جماعتوں میں الیکشن کی گہماگہمی کا یہ عالم نہ ہوتا، اس وقت قانونی اور آئینی معاملات سمیت داخلی اور خارجی محاذ پر قوم جس نکتہ پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے اور نگران حکومت نے اپنے مشن کا بنیادی فلسفہ جس حکمت عملی سے منسلک کیا ہے وہ انتخابات کی بروقت اور شفاف انعقاد کی ذمے داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیئر اور فری الیکشن کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
امیدواروں کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ بھی سسٹم کی تطہیر، نئے طرز حکمرانی کے خواب کی تعبیر اور فرسودہ طرز حکومت سے عوام کی بیزاری کا کوئی علاج دریافت کرنے سے عبارت ہے، انتخابی اصلاحات اگر وقت پر ہوتیں ، پارلیمنٹ اپنا فعال کردار انتخابی قوانین کی افادیت و معنویت کے حوالہ سے ادا کرتی جو اس نے دیگر امور اور ایشوز پر قانون سازی کی مد میں کیے تھے اور الیکٹرول ادارہ پر عوام کے اعتماد کو مستحکم کرنے پر سیاسی اشتراک عمل پر نتیجہ خیز پیش رفت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ انتخابات کے انعقاد میں بے یقینی کا عنصر سر اٹھاتا، اب بھی کوئی ذی شعور پاکستانی اس مغالطہ یا فریب کا شکار نہیں ہوسکا ہے کہ انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں مگر ہنوز دلی دور است۔ ایسا کوئی منظرنامہ نہیں ہے، سیاسی افق پر کوئی بے یقینی نہیں، جمہوری پروسیس کے تحت نگراں انتظامیہ ،الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو تمام حقائق کا ادراک ہے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اس حقیقت سے لا علم نہیں کہ آیندہ انتخابات ''ایک اور الیکشن'' سے قطعی مختلف مشن ہے۔ یہ ملکی سیاسی تقدیر بدلنے سے مشروط ٹاسک ہے جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 25 جولائی کو قوم اقتدار کی پرامن منتقلی کے تیسرے تجربہ سے روشناس ہونے جارہی ہے، سیاسی جماعتوں نے ابھی باضابطہ الیکشن مہم کا پروگرام جاری نہیں کیا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے بڑے جلسے پہلے ہی منعقد ہوچکے، مگر حالیہ دنوں میں انتخابی رابطے ، کارنر میٹنگز اورمیڈیا ٹاکس میں مختلف سیاست دانوں اور امیدواروں نے جو سحر باندھا ہے وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عدالتی پروسیس ،کاغذات نامزدگی قبول ومسترد کیے جانے اور اپیلیٹ ٹریبونلز یا ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا سلسلہ جمہوری روایات اور پارلمانیت سے مشروط ہے، کہیں سے ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا۔
بڑے سیاست دان سمیت عام شہری بھی کاغذات نامزدگی داخل کرا چکے ہیں، اہم سیاسی جماعتوں میں الیکٹ ایبلز کی غیر مشروط قبولیت اور پھر ان سے ٹکٹوں کی واپسی سے پیدا شدہ گھمبیرتا نے جمہوری عمل کی جدلیات کو اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات بڑھ گئے ہیں اور مرکزی رہنما جہانگیر ترین تمام تر انتخابی سرگرمیاں چھوڑ کر لندن روانہ ہوگئے جب کہ عمران خان نے ناراض رہنماؤں کو منالیا ہے ،انھوں نے دربار بابا فرید پر حاضری دی، کامیابی کے لیے دعا کی۔میڈیا کے مطابق مسلم لیگ ن کی یو ٹرن پالیسیوں سے پارٹی میں انتشار ہے ، جن اہم سیاستدانوں سے یوٹرن کے شکوے ہیں ان کے اپنے اہداف اور مجبوریاں ہیں، مین اسٹریم جماعتیں اپنی ترجیحات ، حلقوں کی ڈائنامزم ، ووٹرز کی سوچ اور الیکشن لڑنے کے لیے اپنے جمہوری حق کے استعمال سمیت مختلف خدشات، تحفظات اور اندیشوںکے گرداب سے بچنا بھی چاہتی ہیں جب کہ عوام کی نظریں آیندہ الیکشن کی شفافیت ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کی تمنا سے عبارت ہے۔چنانچہ اس سمت میں ایک پیش رفت پارٹی منشور کے بلاتاخیر اعلان سے ہے اور اس میں پی پی نے مثبت اور قابل قدر پیش قدمی کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات کے لیے پیپلزپارٹی کا منشور پیش کردیا، منشور میں جمہوریت اور معیشت مضبوط کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی انقلابی اقدامات کے ذریعے معیشت کومستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کاخاتمہ کرکے ملک میں خوش حالی لائے گی اور سرائیکی صوبے کا قیام، ایف سی آر کا خاتمہ، فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام اورگلگت بلتستان وآزادکشمیرکے الیکشن پاکستان کے ساتھ کرانے کے علاوہ گلگت بلتستان میں امتیازی قوانین کا خاتمہ کرے گی۔ بلاول نے کہاکہ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے، دھرنوں اور پارلیمان پر لعنت سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ہمیں جمہوریت اور پارلیمان کا استحصال منظور نہیں۔ بلاول نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں سابق صدر آصف زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران بطور پارٹی سربراہ اپنا پہلا جب کہ پارٹی کا 11واں منشور پیش کیا۔پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی صورتحال کا تجزیہ اپنے منشور میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ آج پاکستان مفلوج ہوچکا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کے باوجود پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ احتساب کے نام پر تمام ادارے تباہ کردیے گئے، پارلیمنٹ خاموش تماشائی بن کر ریاست و معیشت کو لاحق خطرات دیکھتی رہی۔ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جارہی ہے، منشور میں واضح کیا گیا کہ پیپلزپارٹی کو سینسر اور ملاوٹ شدہ جمہوریت قبول نہیں، پیپلزپارٹی معیاری جمہوریت کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی۔ طلبایونین اور ٹریڈ یونین پر پابندی ختم کی جائے گی، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریںگے، منشور میں پہلی مرتبہ لانگ ویج کا پیکیج متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت کسی کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ن لیگ ، پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم' پی ایس پی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے لائیں۔
اطلاع کے مطابق 25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے ٹکٹ ریٹرننگ افسران کو جمع کروانا شروع کر دیے، آج امیدواروں کو نشانات الاٹ کیے جائیں گے۔ تفصیل کے مطابق گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کے شیڈول کے مطابق سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ریٹرننگ افسران کو جمع کروانا شروع کردیے ہیں جب کہ امیدواروں کو نشانات بھی الاٹ کیے جارہے ہیں ، پارٹی ٹکٹس جمع کروانے کی آج آخری تاریخ ہے۔
بہرحال بنیادی سوال جسے جمہوری معنوں میں لیا جائے تو وہ یہی ہے کہ انتخابات سر پر پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو یکسوئی سے انتخابات کی تیاریاں کرنے کا موقع اور فری ہینڈ ملنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کریں، جس کنٹرولڈ جمہوریت کا خدشہ درپیش ہے وہ کوئی دیو مالائی کہانی یا الف لیلوی داستان بھی نہیں، سب لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، معروف جمہوری خطوط پر سیاسی عمل جاری رکھا جائے، بلوچستان طرز کی ڈرامائی کارروائی کا کوئی فارمولہ قومی انتخابات سے نتھی نہیں ہونا چاہیے، قوم کو یقین دلانا ناگزیر ہے کہ انتخابات سے قبل شفاف طرز حکمرانی کی سمت سفر کا آغاز احتساب کی اخلاقی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے۔حکمران فیفا ورلڈ کپ کے انتظامات پر نظر ڈالیں، ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں، کوئی سپراسٹار ریفری سے اف تک نہیں کرسکتا، لیکن کھیل پر کوئی پابندی نہیں، دنیا دیکھ رہی ہے۔ اب 25 جولائی کا میدان بھی فی الفور سجنا چاہیے تاکہ ووٹرز فیصلہ پولنگ بوتھ پر جاکر کریں۔ الیکشن کمیشن کی راہ میں کوئی دیوار نہیںآنی چاہیے۔
امیدواروں کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ بھی سسٹم کی تطہیر، نئے طرز حکمرانی کے خواب کی تعبیر اور فرسودہ طرز حکومت سے عوام کی بیزاری کا کوئی علاج دریافت کرنے سے عبارت ہے، انتخابی اصلاحات اگر وقت پر ہوتیں ، پارلیمنٹ اپنا فعال کردار انتخابی قوانین کی افادیت و معنویت کے حوالہ سے ادا کرتی جو اس نے دیگر امور اور ایشوز پر قانون سازی کی مد میں کیے تھے اور الیکٹرول ادارہ پر عوام کے اعتماد کو مستحکم کرنے پر سیاسی اشتراک عمل پر نتیجہ خیز پیش رفت ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ انتخابات کے انعقاد میں بے یقینی کا عنصر سر اٹھاتا، اب بھی کوئی ذی شعور پاکستانی اس مغالطہ یا فریب کا شکار نہیں ہوسکا ہے کہ انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں مگر ہنوز دلی دور است۔ ایسا کوئی منظرنامہ نہیں ہے، سیاسی افق پر کوئی بے یقینی نہیں، جمہوری پروسیس کے تحت نگراں انتظامیہ ،الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو تمام حقائق کا ادراک ہے۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی اس حقیقت سے لا علم نہیں کہ آیندہ انتخابات ''ایک اور الیکشن'' سے قطعی مختلف مشن ہے۔ یہ ملکی سیاسی تقدیر بدلنے سے مشروط ٹاسک ہے جس کی روشنی میں الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 25 جولائی کو قوم اقتدار کی پرامن منتقلی کے تیسرے تجربہ سے روشناس ہونے جارہی ہے، سیاسی جماعتوں نے ابھی باضابطہ الیکشن مہم کا پروگرام جاری نہیں کیا کیونکہ سیاسی جماعتوں کے بڑے جلسے پہلے ہی منعقد ہوچکے، مگر حالیہ دنوں میں انتخابی رابطے ، کارنر میٹنگز اورمیڈیا ٹاکس میں مختلف سیاست دانوں اور امیدواروں نے جو سحر باندھا ہے وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عدالتی پروسیس ،کاغذات نامزدگی قبول ومسترد کیے جانے اور اپیلیٹ ٹریبونلز یا ریٹرننگ افسران کے فیصلوں کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا سلسلہ جمہوری روایات اور پارلمانیت سے مشروط ہے، کہیں سے ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا۔
بڑے سیاست دان سمیت عام شہری بھی کاغذات نامزدگی داخل کرا چکے ہیں، اہم سیاسی جماعتوں میں الیکٹ ایبلز کی غیر مشروط قبولیت اور پھر ان سے ٹکٹوں کی واپسی سے پیدا شدہ گھمبیرتا نے جمہوری عمل کی جدلیات کو اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے۔ تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات بڑھ گئے ہیں اور مرکزی رہنما جہانگیر ترین تمام تر انتخابی سرگرمیاں چھوڑ کر لندن روانہ ہوگئے جب کہ عمران خان نے ناراض رہنماؤں کو منالیا ہے ،انھوں نے دربار بابا فرید پر حاضری دی، کامیابی کے لیے دعا کی۔میڈیا کے مطابق مسلم لیگ ن کی یو ٹرن پالیسیوں سے پارٹی میں انتشار ہے ، جن اہم سیاستدانوں سے یوٹرن کے شکوے ہیں ان کے اپنے اہداف اور مجبوریاں ہیں، مین اسٹریم جماعتیں اپنی ترجیحات ، حلقوں کی ڈائنامزم ، ووٹرز کی سوچ اور الیکشن لڑنے کے لیے اپنے جمہوری حق کے استعمال سمیت مختلف خدشات، تحفظات اور اندیشوںکے گرداب سے بچنا بھی چاہتی ہیں جب کہ عوام کی نظریں آیندہ الیکشن کی شفافیت ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کی تمنا سے عبارت ہے۔چنانچہ اس سمت میں ایک پیش رفت پارٹی منشور کے بلاتاخیر اعلان سے ہے اور اس میں پی پی نے مثبت اور قابل قدر پیش قدمی کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے عام انتخابات کے لیے پیپلزپارٹی کا منشور پیش کردیا، منشور میں جمہوریت اور معیشت مضبوط کرنے کے عزم کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی انقلابی اقدامات کے ذریعے معیشت کومستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کاخاتمہ کرکے ملک میں خوش حالی لائے گی اور سرائیکی صوبے کا قیام، ایف سی آر کا خاتمہ، فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام اورگلگت بلتستان وآزادکشمیرکے الیکشن پاکستان کے ساتھ کرانے کے علاوہ گلگت بلتستان میں امتیازی قوانین کا خاتمہ کرے گی۔ بلاول نے کہاکہ اداروں کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا چاہیے، دھرنوں اور پارلیمان پر لعنت سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، ہمیں جمہوریت اور پارلیمان کا استحصال منظور نہیں۔ بلاول نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں سابق صدر آصف زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران بطور پارٹی سربراہ اپنا پہلا جب کہ پارٹی کا 11واں منشور پیش کیا۔پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی صورتحال کا تجزیہ اپنے منشور میں ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ آج پاکستان مفلوج ہوچکا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کے باوجود پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ احتساب کے نام پر تمام ادارے تباہ کردیے گئے، پارلیمنٹ خاموش تماشائی بن کر ریاست و معیشت کو لاحق خطرات دیکھتی رہی۔ آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جارہی ہے، منشور میں واضح کیا گیا کہ پیپلزپارٹی کو سینسر اور ملاوٹ شدہ جمہوریت قبول نہیں، پیپلزپارٹی معیاری جمہوریت کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی۔ طلبایونین اور ٹریڈ یونین پر پابندی ختم کی جائے گی، مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کریںگے، منشور میں پہلی مرتبہ لانگ ویج کا پیکیج متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت کسی کو ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ن لیگ ، پی ٹی آئی ، ایم کیو ایم' پی ایس پی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے لائیں۔
اطلاع کے مطابق 25جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے والے سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں نے ٹکٹ ریٹرننگ افسران کو جمع کروانا شروع کر دیے، آج امیدواروں کو نشانات الاٹ کیے جائیں گے۔ تفصیل کے مطابق گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کے شیڈول کے مطابق سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ریٹرننگ افسران کو جمع کروانا شروع کردیے ہیں جب کہ امیدواروں کو نشانات بھی الاٹ کیے جارہے ہیں ، پارٹی ٹکٹس جمع کروانے کی آج آخری تاریخ ہے۔
بہرحال بنیادی سوال جسے جمہوری معنوں میں لیا جائے تو وہ یہی ہے کہ انتخابات سر پر پہنچ چکے ہیں۔ اس وقت امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو یکسوئی سے انتخابات کی تیاریاں کرنے کا موقع اور فری ہینڈ ملنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کریں، جس کنٹرولڈ جمہوریت کا خدشہ درپیش ہے وہ کوئی دیو مالائی کہانی یا الف لیلوی داستان بھی نہیں، سب لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، معروف جمہوری خطوط پر سیاسی عمل جاری رکھا جائے، بلوچستان طرز کی ڈرامائی کارروائی کا کوئی فارمولہ قومی انتخابات سے نتھی نہیں ہونا چاہیے، قوم کو یقین دلانا ناگزیر ہے کہ انتخابات سے قبل شفاف طرز حکمرانی کی سمت سفر کا آغاز احتساب کی اخلاقی بنیاد کو مضبوط کرنا ہے۔حکمران فیفا ورلڈ کپ کے انتظامات پر نظر ڈالیں، ڈسپلن اسی کو کہتے ہیں، کوئی سپراسٹار ریفری سے اف تک نہیں کرسکتا، لیکن کھیل پر کوئی پابندی نہیں، دنیا دیکھ رہی ہے۔ اب 25 جولائی کا میدان بھی فی الفور سجنا چاہیے تاکہ ووٹرز فیصلہ پولنگ بوتھ پر جاکر کریں۔ الیکشن کمیشن کی راہ میں کوئی دیوار نہیںآنی چاہیے۔