مکلی قبرستان عالمی ورثے میں مزید کتنے دن کا مہمان ہے

حکومتی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے مکلی کے قدیم ترین قبرستان کو عالمی ورثے کی فہرست سے نکالے جانے کا خدشہ ہے

حکومتی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے اس قدیم ترین قبرستان کو عالمی ورثے کی فہرست سے نکالے جانے کا خدشہ ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

یوں تو دنیا کا سب سے بڑا قبرستان وادی السلام کے نام سے عراق کے شہر نجف میں ہے جو کہ 1400 سال سے قائم و دا ئم ہے، اس قبرستان کا کل رقبہ 6 مر بع کلو میٹر ہے اور یہاں 50 لاکھ سے زا ئد لوگ دفن ہیں۔ اس قبرستان میں روزانہ کم و بیش 200 مُردے دفنائے جاتے ہیں، جبکہ عراق کے فوجی جو جنگوں میں برسر پیکار رہتے ہیں، وہ محاذ پر جانے سے قبل اس قبرستان میں کھڑے ہو کر دعاگو ہوتے ہیں کہ اگر لڑائی کے دوران وہ زندگی کی با زی ہار جائیں تو انہیں اسی قبرستان میں سپرد خاک ہونے کی سعادت نصیب ہوـ

یہ قبرستان ایک ایسا قبرستان ہے جہاں صرف عراقی باشندے ہی دفن نہیں بلکہ یہاں ہندوستان، پاکستان اور ایران کے مرحومین بھی مدفون ہیں۔ اس قبرستان میں اب تک 50 لاکھ لوگ مدفون ہوچکے، لہٰذا اسے دنیا کے سب سے بڑے قبرستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اور اسی وجہ سے یو نیسکو نے اسے عالمی ورثے کا در جہ دے رکھا ہے۔ اس قبرستان کے علاوہ پاکستان کے صو بہ سندھ میں ٹھٹھہ کے علا قے میں مکلی کا قبرستان ہے جہاں 14ویں صدی سے لے کر 18ویں صدی تک کے بڑے بڑے بادشاہ، بزرگان دین، صوفیائے کرام اور شعرا آسودہ خاک ہیں۔ یونیسکو نے اس قبرستان کو بھی 1981 میں عالمی ورثے میں شامل کیا اور اسی حوالے سے اسے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

اس قبرستان کے حوالے سے بتایا جا تا ہے کہ سماع خان کے16 ویں بادشاہ جام نظام الدین نندا نے جب ایک نیا شہر بسانے کےلیے اپنے مشیروں سے جگہ دریافت کی تو انہوں نے انہیں اس بات کا مشورہ دیا کہ مکلی کے علا قے میں شہر کو بسایا جائے، لیکن کیونکہ اس علا قے میں اونچے نیچے ٹیلوں کی بھرمار تھی۔ جب بادشاہ نے اپنے مشیروں سے اس بات کی تجویز مانگی کہ کیا اس شہر کو ٹیلوں کے اوپر بسایا جائے؟ جواب میں مشیروں نے ٹیلوں کے اوپر شہر آباد کرنے سے منع کر تے ہوئے کہا کہ اگر شہر کو ٹیلوں کے اوپر بسایا گیا تو یہاں بسنے والے لوگ پتھر کی طرح سخت دل، جاہل اور گنوار ہونگے، لہذا اس شہر کو ٹیلوں اور پہاڑوں کے نیچے آباد کیا جائے، کیونکہ نیچے بسنے والوں کے دل نرم ہونگے اور وہ با شعور ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1494 عیسویں میں شہر کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا نام پہاڑ کے نیچے ہونے کے سبب ''تہہ تہہ'' رکھا گیا جو بعد میں بگڑ کر ٹھٹھہ ہوگیا۔ اس شہر میں جو لوگ آباد ہوئے وہ انتہائی نرم خو، فراغ دل اور مہمان نواز ثا بت ہوئے۔

ان کے شعور کا یہ عالم تھا کہ صنعت، حرفت اور تجارت میں اس شہر نے اتنی ترقی کی کہ دور دراز سے لوگ تجارت کی خاطر اسی شہر میں آنے لگے۔ یہاں تک کے یہ شہر علم و دانش کا مرکز بن گیا اور یہاں 300 سے زائد مدارس قائم ہوگئے جہاں خراسان، ایران اور دیگر ممالک کے طلبہ نا صرف تعلیم کے حصول کے لیے آنے لگے، بلکہ بڑی تعداد میں بزرگان دین اور صوفیائے کرام نے بھی اس شہر کا رخ کیا؛ جس کی بنیاد پر شہر ٹھٹھہ نے اپنی ترقی کا سفر سالوں میں نہیں بلکہ دنوں میں طے کیا۔ پھر اس شہر میں پہلے محمود غزنوی اور بعدازاں محمد بن قاسم کی آمد ہوئی اور اس شہر نے مزید ترقی کی۔ کیونکہ ٹھٹھہ شہر ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا اور یہاں لوگوں کی بڑی تعداد جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی قیام پذیر تھی، لہذا ان کی ضرورت کے مطابق یہاں قبرستان بھی بنایا گیا جس کا نام مائی مکلی کی نسبت سے ''مکلی قبرستان'' رکھا گیا۔


یہ قبرستان جو شہر کراچی سے 98 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، 8 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں بڑے بڑے مسلمان بادشاہ، شہنشاہ، درویش، بزرگان دین اور علما آسودہ خاک ہیں۔ ان کی قدیم ترین قبریں سب سے پہلے ہندو آرکیٹیکچرز کے ہاتھوں تیار ہوئیں، بعد ازاں مسلم آرکیٹیکچرز نے یہاں مقبروں اور قبروں پر نمایاں کام کیا۔ اسی کے پیش نظر قبرستان کے اندر ہندو فن تعمیر سمیت مسلمانوں کی فن تعمیر نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بیشتر مقبروں پر نام کے کتبے تو نہیں لیکن اس بات کی شناخت کے لیے کہ آیا یہ مردوں کی قبر ہے یا عورتوں کی، اس سلسلے میں پتھروں پر کاریگری کرتے ہوئے مردوں کی قبر کی علامت کے طور پر تلوار، کلہاڑی، گھڑ سوار کے اشارے دیے گئے ہیں۔ جبکہ عورتوں کی قبر کی پہچان کے لیے ان کی قبروں پر جھمکے، پائل، کنگن، گلے کے ہار، نیکلس پتھروں پر کنندہ ہیں۔ مکلی کے اس قدیم قبرستان میں شاہجہاں دور کے بادشاہ جام نظام الدین، صوفی بزرگ حماد جیلانی، مشہور صوفی بزرگ عبداللہ شاہ اصحابی، مائی مکلی سمیت لاتعداد بزرگوں، بادشاہوں، ملکہ، شہزادوں، سپا ہیوں اور علا قائی قبا ئلی سر داروں کی قبریں موجود ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ مکلی کے قبرستان میں ایک لاکھ سے زائد لوگ آسودہ خاک ہیں، اور ان میں سے ہر ایک علم و فن کے حوالے سے یکتا ہے۔ اس قدیم قبرستان جو عالمی ورثے میں شامل ہے، میں ایسے لاتعداد بزرگان دین آسودہ خاک ہیں جن کے عقیدت مند آج بھی دور دراز سے آ کر نا صرف ان بزرگان دین کے مزار پر فاتحہ خوانی کر تے ہیں بلکہ منتیں اور مرادیں بھی مانگتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مزارات پر آنے والے زائرین کی نا صرف مرادیں پوری ہوتی ہیں، بلکہ انہیں مہلک بیماریوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ یہ قدیم قبرستان جو پہلے محکمہ آ ثار قدیمہ کے پاس تھا، 18ویں ترمیم کے بعد اسے سندھ کے محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات کے حوالے کردیا گیا جو اس قدیم ورثے کو محفوظ نہیں کر پائی۔ جس کے سبب نا صرف لوگ مقبروں پر لگے ہوئے ٹائلز اتار کر لے گئے بلکہ علاقہ مکینوں نے یہاں نئی قبریں بنانا شروع کردیں، جن کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ گئی۔ جبکہ عالمی ورثہ قرار دیے گئے اس قبرستان پر تجاوزات قائم ہوگئے، یہاں تک کے قبرستان کے اندر ہی گرڈ اسٹیشن، محکمہ صحت کے دفتر سمیت لا تعداد مکانات بھی بن گئے۔

اس حوالے سے جب یونیسکو کے عالمی ورثے کا مشن قبرستان کے حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے چند سال قبل قبرستان پہنچا تو انہوں نے وہاں قبروں کی مخدوش حالت دیکھ کر اسے عالمی ورثے کی فہرست سے نکالنے کی دھمکی دے دی، جس پر محکمہ ثقافت و سیاحت کے ذمہ داران نے ان سے معافی تلافی کی۔ یونیسکو مشن نے نئے سرے سے اپنے مطالبات کی فہرست پیش کی جس میں کہا گیا کہ قبرستان کے چاروں طرف چار دیواری قائم کرنے کے ساتھ ساتھ تجاوزات ختم کیے جائیں گے اور ایک بار پھر مقبروں اور قبروں کی مرمت کرائی جا ئے گی۔

ان امور کی انجام دہی کے لیے ایک سال کی مہلت فراہم کی۔ مگر ایک سال تو کیا، کئی سال گزر جانے اور بڑے پیمانے پر فنڈز خرچ کیے جانے کے باوجود اب تک نہ تو قبرستان کے اطراف میں چار دیواری قائم کی جا سکی ہے اور نہ ہی مقبروں اور قبروں کی مخدوش حالت کو بہتر کیا جا سکا ہے۔ اس غفلت اور لاپرواہی کی بنا پر یونیسکو عالمی ورثے کے اجلاس میں جو ماہ جولائی میں متوقع ہے، اس قدیم ترین قبرستان کو عالمی ورثے کی فہرست سے نکالے جانے کا خدشہ ہے۔ نہ صرف عالمی ٹائٹل سے محروم ہونے، بلکہ اس قدیم ورثے کی دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا بھی امکان ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story