نجی کمپنی ایم ایم اے کا 20 ارب کا فراڈ انتظامیہ دبئی فرار
سیکڑوں پاکستانی جمع پونجی سے محروم،گلوکارہ عینی کے شوہراورکمپنی ڈائریکٹرنورید نے تردید کردی
ISLAMABAD:
پاکستان میں ایک اور ''ڈبل شاہ'' کیس کا انکشاف ہوا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ پرائیویٹ کاروباری ادارے ''ایم ایم اے'' گروپ نے اوپن مارکیٹ سے پرکشش منافع کا جھانسہ دے کر عوام سے 18سے20 ارب روپے ہتھیالیے ہیں اور گروپ کی انتظامیہ ملک سے فرار ہوگئی ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو معلوم ہوا ہے کہ ایم ایم اے نے سرمایہ کاروں کو 16فیصد منافعے کا لالچ دیا تھا۔ یہ گروپ2012میں منظرعام پر آیا تھا اور اس نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ملک بھر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں استقبالیہ تقریبات اور پریزنٹیشن کا اہتمام کیا تھا۔ ایم ایم اے گروپ کا ایک ڈائریکٹر ملک نورید اعوان ہے جس نے پاپ سنگر عینی علی سے شادی کرکے شہرت حاصل کی وہ ان استقبالیہ تقریبات کا روح رواں تھا۔ اس گروپ نے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم کا بھی سہارا لیا اور ایک سال کے مختصر عرصے میں ایم ایم اے نے بظاہر ایک بینک، انویسٹمنٹ کمپنی، ائیرلائن اور فوریکس کمپنی بنا کر مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھالی تاہم عملاً ان میں سے صرف ایئرلائن کا ہی حقیقی وجود تھا۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آٓف پاکستان کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایئرلائن کمپنی ایک پرائیویٹ فرم کے طور پر رجسٹرڈ تھی جس کے 2 ڈائریکٹر ملک نورید اعوان اور نورالعین تھے۔
ایم ایم اے نے بطور ادارہ سالانہ اجلاس عام اور دیگر رپورٹیں جمع کرانے سمیت کئی قانونی کارراوئیوں کا تردد نہیں کیا۔ ایم ایم اے کے واحد قانونی ونگ ایئرلائن کا بھی صرف کاغذوں میں وجود تھا اوراس کا کوئی طیارہ موجود نہیں تھا۔ ڈبل شاہ اور ایم ایم اے میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں نے لالچی سرمایہ کاروں کو ہدف بنایا اور ان سے اربوں روپے نکلوائے۔ ڈبل شاہ کی طرح ایم ایم اے کے ڈائریکٹر اور سینیر مینجمنٹ بھی دبئی فرار ہوگئی۔ اس فراڈ سے متاثرہ ایبٹ آباد کے ایک شخص انصار احمد نے بتایا کہ میں نے 16فیصد منافعے کے لیے گزشتہ دسمبر میں 25لاکھ روپے کا سرمایہ لگایا اور اب 2ماہ سے کمپنی کا اسلام آباد میں ہیڈ آفس بند ہے۔ کوئی مجھے یہ نہیں بتاتا کہ ایم ایم اے نے دفتر کیوں بند کیا اور میں کس سے اپنی محنت کی کمائی کے بارے میں پوچھوں۔
اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ہر روز ہیڈ آفس کے چکر لگانے والا انصار احمد واحد شخص نہیں۔ اس جیسے سیکڑوں دیگر افراد بھی مایوسی کے عالم میں دفتر کا دروازہ بند دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں اور اپنی جمع پونجی واپس نہ ملنے کی ان کی امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کی ایک ہفتے کی مسلسل کوششوں پر ایم ایم اے کے نام نہاد ترجمان فیصل خان نے ملک نورید اعوان جو کہ دبئی میں ہیں کا یہ جواب بھجوایا کہ ایم ایم اے اس بات کی واشگاف تردید کرتی ہے کہ اس نے کبھی عوام سے سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم جمع کی۔ نورید اعوان نے دعویٰ کیا کہ ایم ایم اے گروپ آف کمپنیز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی سزا دی جارہی ہے تاہم زمینی حقائق ان دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ انصار احمد اور دیگر متاثرین کی چیخ وپکار اس فراڈ کا حجم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ پینتھر سیکیورٹی کمپنی کے ایک گارڈ کا یہ کہنا بھی نورید اعوان کی بات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انہیں اسلام آباد میں ایم ایم اے کا بند دفتر ہونے سے متاثرین کے غیض وغضب کا سامنا ہے۔
پاکستان میں ایک اور ''ڈبل شاہ'' کیس کا انکشاف ہوا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ پرائیویٹ کاروباری ادارے ''ایم ایم اے'' گروپ نے اوپن مارکیٹ سے پرکشش منافع کا جھانسہ دے کر عوام سے 18سے20 ارب روپے ہتھیالیے ہیں اور گروپ کی انتظامیہ ملک سے فرار ہوگئی ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو معلوم ہوا ہے کہ ایم ایم اے نے سرمایہ کاروں کو 16فیصد منافعے کا لالچ دیا تھا۔ یہ گروپ2012میں منظرعام پر آیا تھا اور اس نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ملک بھر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں استقبالیہ تقریبات اور پریزنٹیشن کا اہتمام کیا تھا۔ ایم ایم اے گروپ کا ایک ڈائریکٹر ملک نورید اعوان ہے جس نے پاپ سنگر عینی علی سے شادی کرکے شہرت حاصل کی وہ ان استقبالیہ تقریبات کا روح رواں تھا۔ اس گروپ نے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم کا بھی سہارا لیا اور ایک سال کے مختصر عرصے میں ایم ایم اے نے بظاہر ایک بینک، انویسٹمنٹ کمپنی، ائیرلائن اور فوریکس کمپنی بنا کر مارکیٹ میں اپنی دھاک بٹھالی تاہم عملاً ان میں سے صرف ایئرلائن کا ہی حقیقی وجود تھا۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آٓف پاکستان کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ایئرلائن کمپنی ایک پرائیویٹ فرم کے طور پر رجسٹرڈ تھی جس کے 2 ڈائریکٹر ملک نورید اعوان اور نورالعین تھے۔
ایم ایم اے نے بطور ادارہ سالانہ اجلاس عام اور دیگر رپورٹیں جمع کرانے سمیت کئی قانونی کارراوئیوں کا تردد نہیں کیا۔ ایم ایم اے کے واحد قانونی ونگ ایئرلائن کا بھی صرف کاغذوں میں وجود تھا اوراس کا کوئی طیارہ موجود نہیں تھا۔ ڈبل شاہ اور ایم ایم اے میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں نے لالچی سرمایہ کاروں کو ہدف بنایا اور ان سے اربوں روپے نکلوائے۔ ڈبل شاہ کی طرح ایم ایم اے کے ڈائریکٹر اور سینیر مینجمنٹ بھی دبئی فرار ہوگئی۔ اس فراڈ سے متاثرہ ایبٹ آباد کے ایک شخص انصار احمد نے بتایا کہ میں نے 16فیصد منافعے کے لیے گزشتہ دسمبر میں 25لاکھ روپے کا سرمایہ لگایا اور اب 2ماہ سے کمپنی کا اسلام آباد میں ہیڈ آفس بند ہے۔ کوئی مجھے یہ نہیں بتاتا کہ ایم ایم اے نے دفتر کیوں بند کیا اور میں کس سے اپنی محنت کی کمائی کے بارے میں پوچھوں۔
اسلام آباد کے بلیو ایریا میں ہر روز ہیڈ آفس کے چکر لگانے والا انصار احمد واحد شخص نہیں۔ اس جیسے سیکڑوں دیگر افراد بھی مایوسی کے عالم میں دفتر کا دروازہ بند دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں اور اپنی جمع پونجی واپس نہ ملنے کی ان کی امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔ ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کی ایک ہفتے کی مسلسل کوششوں پر ایم ایم اے کے نام نہاد ترجمان فیصل خان نے ملک نورید اعوان جو کہ دبئی میں ہیں کا یہ جواب بھجوایا کہ ایم ایم اے اس بات کی واشگاف تردید کرتی ہے کہ اس نے کبھی عوام سے سرمایہ کاری کے لیے کوئی رقم جمع کی۔ نورید اعوان نے دعویٰ کیا کہ ایم ایم اے گروپ آف کمپنیز کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی سزا دی جارہی ہے تاہم زمینی حقائق ان دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ انصار احمد اور دیگر متاثرین کی چیخ وپکار اس فراڈ کا حجم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ پینتھر سیکیورٹی کمپنی کے ایک گارڈ کا یہ کہنا بھی نورید اعوان کی بات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انہیں اسلام آباد میں ایم ایم اے کا بند دفتر ہونے سے متاثرین کے غیض وغضب کا سامنا ہے۔