آرمی چیف کی تقریر انتخابات کے التوا کی افواہیں دم توڑ گئیں

بعد از انتخابات سیاست کی راہ بھی متعین ہوگئی، خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا امکان نہیں

بعد از انتخابات سیاست کی راہ بھی متعین ہوگئی، خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کا امکان نہیں. فوٹو:فائل

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی یوم شہدا پر تقریر نے بعد از انتخابات سیاست کی راہ متعین کردی، 'آرمی ڈاکٹرائن' نظر آنے والی آرمی چیف کی تقریر میں عام انتخابات میں کامیاب ہونے والی جماعت یا جماعتوں کیلیے واضح پیغام ہے اور اس کے ساتھ ہی اس تقریر سے انتخابات کے التوا کے حوالے سے افواہیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔

آرمی چیف نے اپنی تقریر میں طالبان کے ساتھ مشروط مذاکرات کا بھی عندیہ دیا مگر اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ فوج غیر مشروط مذاکرات کو پسند نہیں کر رہی جیسا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں جے یو آئی اور اے این پی نے کل جماعتی کانفرنسز کی ہیں اور مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فی الوقت دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے سیاسی قیادت منقسم ہے، جنرل کیانی دہشت گردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے بحث کی وجہ سے بھی بے چین نظر آئے اور انھوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ جنگ ہماری ہے۔ آرمی چیف کے کچھ عرصے قبل نظریہ پاکستان کے حوالے سے بیانات کو بھی شامل کیا جائے تو یہ ایک مکمل پیکیج ہے۔




ایک طرف جہاں انھوں نے اسلامی فلاحی ریاست کی بات کی، وہیں انھوں نے بندوق کے زور پر نظریات مسلط کرنے کوبھی رد کیا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے اور عمران خان اورنواز شریف خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دے رہے ہیں۔ عمران خان خارجہ پالیسی کے حوالے سے زیادہ کھل کربول رہے ہیں جبکہ نواز شریف محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کا ردعمل بھی اہم ہوگا کہ وہ کوئی سخت لائن لیتی ہیں یا خاموشی اختیارکرتی ہیں،جنرل کیانی کی تقریر میں دہشت گردی کے حوالے سے تقسیم ختم کرنے کا بھی پیغام ہے اور مستقبل میں خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی مگر صاف ستھری حکومت اور گڈ گورننس کیلیے اقدامات کیے جائیں گے۔ سیاسی قیادت 'آرمی ڈاکٹرائن' کو قبول کرتی ہے یا نہیں، یہ نئی حکومت کیلیے پہلا چیلنج ہوگا مگر نواز شریف اور عمران خان انتخابات سے قبل کوئی بڑا وعدہ کرنے سے احتراز کریں گے۔

Recommended Stories

Load Next Story