خوش باش یمن لہولہان
آج بھی ایران، شمالی کوریا اور یمن کو تنہا کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہے۔
یمن عرب کا نخلستان کہلاتا تھا اور دنیا کے لوگ اسے خوش باش یمن کے نام سے پکار تے تھے۔ اس لیے بھی کہ خوشبو بکھیرنے والے 'لوبان' کے جنگلات یمن کی خصوصیت تھے، جسے وہ برآمد بھی کرتے تھے۔
قدیم تاریخ میں باغ عدن کا تذکرہ اکثر سب نے سنا ہو گا۔ اس لیے کہ یہ جنت نظیر سرسبز و شاداب علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا، مگر آج اس یمن میں ہر طرف بارود کی بو نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے، قدیم شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ چہار طرف خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں۔ سامراجیوں نے اس پر گدھوں کی طرح یلغار کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر یہاں عوام کے لیے غذائی ترسیل نہ کی گئی تو ایک کروڑ انسان غذائی قلت اور قحط سے مر سکتے ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کا ایک وفد یمن جائے گا۔
سوویت یونین جب سوشلسٹ ملک تھا، اس وقت جنوبی یمن بھی سوشلسٹ ملک تھا، جب کہ شمالی یمن میں سرمایہ داری تھی اور یہ سعودی عرب کا سامراجی اتحادی تھا۔ جب دونوں یمن ایک ہوئے تو یہاں عالمی سامراج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ پورے یمن کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا زیر نگیں بنا لیا۔ اب یہاں کے مختلف قبائل سامراجیوں کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ یمن پر دھاوا بولنے کے لیے ایک نام نہاد 'اسلامی اتحاد' بنا ہے، جسے آزاد دنیا میں 'امریکی سعودی اتحاد' کہا جاتا ہے۔
دنیا میں کل 52 سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں، جن میں 34 ممالک اسلامی اتحاد میں شامل ہیں۔ ان میں وسطی ایشیائی ممالک کے بیشتر ممالک، مشرق یورپ کے ممالک، جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک، کوہ قاف اور ایشیائے کوچک کے مسلم ممالک شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، قطر، ترکی، لبنان، شام اور لیبیا بھی شامل نہیں ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب نے اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکا سے خریدا ہے۔
سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، کویت، اردن وغیرہ اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لیے امریکا سے اتحاد بنایا ہوا ہے اور بے دریغ اسلحہ خریدا جارہا ہے۔ ادھر ایرانی ملا اشرافیہ اپنا مسلک مشرق وسطیٰ پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں نبرد آزما ہے، جب کہ یمنی عوام اور حوثی باغی یمن کی آمریت اور سعودی مداخلت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
جنوبی یمن میں اکثر عوام اپنے مسائل پر ردعمل کرتے ہوئے، ہڑتالیں کرتے ہیں اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستا نی فوج کو بھیجنے کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ردعمل آیا تھا، مگر بعد میں سعودی امداد کے عوض ہماری حکومت نے کچھ فوج بھیجی۔ کہا یہ گیا کہ فوج یمنی عوام کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں بلکہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔
سعودی حکمرانوں نے برملا اس اتحاد کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا ہدف ایران ہے۔ اب ایران اگر مسلم ملک ہے تو اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے کیا اس اتحاد کو بننا چاہیے تھا یا نہیں؟ بے قصور اور معصوم یمنی بچے قتل گاہوں کے شکار ہو چکے ہیں۔ خواتین اور ضعیف بھی لاکھوں کی تعداد میں مارے جا چکے ہیں۔
اس کے برعکس ادھر اسرائیل جب بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرتا ہے تو غیر مسلم ممالک فرانس، برازیل، کیوبا، وینیزویلا، بولیوویا، روس اور چین سمیت سو سے زیادہ ممالک نے احتجاج کیا، جب کہ 'اسلامی اتحاد' نے صرف بیان پر ہی گزارا کیا۔ ان کو تو یمینیوں کو مارنے سے فرصت نہیں، اسرائیل کے خلاف کیونکر لڑیں گے۔
اگر مشرق وسطیٰ کے سارے ممالک اسرائیل سے اپنے تمام تر تعلقات ختم کر لیں تو اسرائیل کل ہی ہتھیار ڈال دے گا۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ بیان دیتے ہیں کہ ''ہم عرب کے سنی مسلمانوں کے ساتھ ہیں''۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اور عرب بادشاہتیں بشمول مصر نے ایک غیر علامیہ اتحاد بنا رکھا ہے۔
اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان بیت المقدس میں احتجاج کے دوران ہلاک ہوتے ہیں، جب کہ عرب بادشاہتیں، فرانس، وینیزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور بولیویا سے بھی پیچھے رہ کر ہلکا پھلکا احتجاج کر دیتے ہیں۔ امریکی سامراج دنیا بھر میں عوام کو دھوکا دینے اور اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایسے اتحاد بناتے آ رہے ہیں اور بنا رہے ہیں۔ بغداد پیکٹ، سیٹو، سینٹو، آر سی ڈی، خلیج تعاون کونسل وغیرہ ان کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
آج بھی ایران، شمالی کوریا اور یمن کو تنہا کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہے۔ مگر آج کل حالات کچھ بدلے ہوئے ہیں۔ یوکرین، کریمیا، شام، عراق اور افغانستان میں امریکی سامراج شکست سے دوچار ہے۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ کے خاتمے، شمالی کوریا کے تنازع اور بیت المقدس کے ایشوز پر اسے ہزیمت اٹھانی پڑی اور امریکی سامراج ان تینوں ایشوز پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔ اسی طرح اب وہ یمن میں بھی تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ ماضی کے دوست اب اس سے کھٹکنے لگے ہیں۔ جیسا کہ روس، شام، قطر اور ترکی پہلے کی طرح اب سامراجی اتحادی نہیں رہے۔
گزشتہ دنوں اردن کے عوام نے ٹیکس عاید کرنے کے خلاف زبردست احتجاجی ریلی نکالی۔ سعودی عرب عوام کے دباؤ میں آ کر عوام اور خواتین کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہورہا ہے۔ یمن میں بھی اس کے کچھ اتحادی اس سے الگ ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اب سعودی عرب، بحرین، اومان، اردن، عرب امارات اور کویت سے بھی بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا اور یمن تمام سامرا جی مداخلت، گھیراؤ اور قبضوں سے آزاد ہوکر پھر ایک سوشلسٹ ملک بنے گا۔ ہر چند کہ پورے عرب اور دنیا بھر کے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک بے ریاستی اور غیر طبقاتی معاشرے میں مضمر ہے۔
قدیم تاریخ میں باغ عدن کا تذکرہ اکثر سب نے سنا ہو گا۔ اس لیے کہ یہ جنت نظیر سرسبز و شاداب علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا، مگر آج اس یمن میں ہر طرف بارود کی بو نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے، قدیم شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ چہار طرف خون کے چھینٹے نظر آتے ہیں۔ سامراجیوں نے اس پر گدھوں کی طرح یلغار کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر یہاں عوام کے لیے غذائی ترسیل نہ کی گئی تو ایک کروڑ انسان غذائی قلت اور قحط سے مر سکتے ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کا ایک وفد یمن جائے گا۔
سوویت یونین جب سوشلسٹ ملک تھا، اس وقت جنوبی یمن بھی سوشلسٹ ملک تھا، جب کہ شمالی یمن میں سرمایہ داری تھی اور یہ سعودی عرب کا سامراجی اتحادی تھا۔ جب دونوں یمن ایک ہوئے تو یہاں عالمی سامراج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ پورے یمن کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا زیر نگیں بنا لیا۔ اب یہاں کے مختلف قبائل سامراجیوں کی پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ یمن پر دھاوا بولنے کے لیے ایک نام نہاد 'اسلامی اتحاد' بنا ہے، جسے آزاد دنیا میں 'امریکی سعودی اتحاد' کہا جاتا ہے۔
دنیا میں کل 52 سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں، جن میں 34 ممالک اسلامی اتحاد میں شامل ہیں۔ ان میں وسطی ایشیائی ممالک کے بیشتر ممالک، مشرق یورپ کے ممالک، جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک، کوہ قاف اور ایشیائے کوچک کے مسلم ممالک شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ایران، عراق، قطر، ترکی، لبنان، شام اور لیبیا بھی شامل نہیں ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب نے اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکا سے خریدا ہے۔
سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، کویت، اردن وغیرہ اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لیے امریکا سے اتحاد بنایا ہوا ہے اور بے دریغ اسلحہ خریدا جارہا ہے۔ ادھر ایرانی ملا اشرافیہ اپنا مسلک مشرق وسطیٰ پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں نبرد آزما ہے، جب کہ یمنی عوام اور حوثی باغی یمن کی آمریت اور سعودی مداخلت کے خلاف سینہ سپر ہیں۔
جنوبی یمن میں اکثر عوام اپنے مسائل پر ردعمل کرتے ہوئے، ہڑتالیں کرتے ہیں اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ سعودی عرب میں پاکستا نی فوج کو بھیجنے کے خلاف پارلیمنٹ میں زبردست ردعمل آیا تھا، مگر بعد میں سعودی امداد کے عوض ہماری حکومت نے کچھ فوج بھیجی۔ کہا یہ گیا کہ فوج یمنی عوام کے خلاف لڑنے کے لیے نہیں بلکہ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔
سعودی حکمرانوں نے برملا اس اتحاد کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارا ہدف ایران ہے۔ اب ایران اگر مسلم ملک ہے تو اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے کیا اس اتحاد کو بننا چاہیے تھا یا نہیں؟ بے قصور اور معصوم یمنی بچے قتل گاہوں کے شکار ہو چکے ہیں۔ خواتین اور ضعیف بھی لاکھوں کی تعداد میں مارے جا چکے ہیں۔
اس کے برعکس ادھر اسرائیل جب بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرتا ہے تو غیر مسلم ممالک فرانس، برازیل، کیوبا، وینیزویلا، بولیوویا، روس اور چین سمیت سو سے زیادہ ممالک نے احتجاج کیا، جب کہ 'اسلامی اتحاد' نے صرف بیان پر ہی گزارا کیا۔ ان کو تو یمینیوں کو مارنے سے فرصت نہیں، اسرائیل کے خلاف کیونکر لڑیں گے۔
اگر مشرق وسطیٰ کے سارے ممالک اسرائیل سے اپنے تمام تر تعلقات ختم کر لیں تو اسرائیل کل ہی ہتھیار ڈال دے گا۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ بیان دیتے ہیں کہ ''ہم عرب کے سنی مسلمانوں کے ساتھ ہیں''۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل اور عرب بادشاہتیں بشمول مصر نے ایک غیر علامیہ اتحاد بنا رکھا ہے۔
اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان بیت المقدس میں احتجاج کے دوران ہلاک ہوتے ہیں، جب کہ عرب بادشاہتیں، فرانس، وینیزویلا، کیوبا، شمالی کوریا اور بولیویا سے بھی پیچھے رہ کر ہلکا پھلکا احتجاج کر دیتے ہیں۔ امریکی سامراج دنیا بھر میں عوام کو دھوکا دینے اور اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایسے اتحاد بناتے آ رہے ہیں اور بنا رہے ہیں۔ بغداد پیکٹ، سیٹو، سینٹو، آر سی ڈی، خلیج تعاون کونسل وغیرہ ان کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔
آج بھی ایران، شمالی کوریا اور یمن کو تنہا کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہے۔ مگر آج کل حالات کچھ بدلے ہوئے ہیں۔ یوکرین، کریمیا، شام، عراق اور افغانستان میں امریکی سامراج شکست سے دوچار ہے۔ ایران سے ایٹمی معاہدہ کے خاتمے، شمالی کوریا کے تنازع اور بیت المقدس کے ایشوز پر اسے ہزیمت اٹھانی پڑی اور امریکی سامراج ان تینوں ایشوز پر تنہائی کا شکار ہوا ہے۔ اسی طرح اب وہ یمن میں بھی تنہائی کا شکار ہورہا ہے۔ ماضی کے دوست اب اس سے کھٹکنے لگے ہیں۔ جیسا کہ روس، شام، قطر اور ترکی پہلے کی طرح اب سامراجی اتحادی نہیں رہے۔
گزشتہ دنوں اردن کے عوام نے ٹیکس عاید کرنے کے خلاف زبردست احتجاجی ریلی نکالی۔ سعودی عرب عوام کے دباؤ میں آ کر عوام اور خواتین کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہورہا ہے۔ یمن میں بھی اس کے کچھ اتحادی اس سے الگ ہوگئے ہیں۔ اسی طرح اب سعودی عرب، بحرین، اومان، اردن، عرب امارات اور کویت سے بھی بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا اور یمن تمام سامرا جی مداخلت، گھیراؤ اور قبضوں سے آزاد ہوکر پھر ایک سوشلسٹ ملک بنے گا۔ ہر چند کہ پورے عرب اور دنیا بھر کے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک بے ریاستی اور غیر طبقاتی معاشرے میں مضمر ہے۔