الیکشن 2018 مہنگے ترین ہوںگے
یہ کیسے الیکشن ہیں جس میں صرف کروڑ پتی اور ارب پتی خاندان وراثت کے مالک ہی الیکشن لڑیں۔
KARACHI:
الیکشن 2018، 25 جولائی کو ہونے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں الیکشن مہم زور شور سے جاری ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر چھوٹے بڑے احتجاج بھی ہورہے ہیں۔ یہ الیکشن اس مرتبہ ججز حضرات اور فوج کی نگرانی میں ہورہے ہیں۔ مقابلہ بازی کا بھی زور ہے، خاص کر پنجاب میں تیزی زیادہ ہے۔
بڑے بڑے صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیردار، بیوروکریٹ، بڑے بڑے اثاثوں کے مالک، لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ اربوں روپیہ کے بینک بیلنس غیر ملکی بینکوں کے اکاؤنٹس اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک، ملک کے عوام کی قسمت بدلنے، ملکی حالت کو بہتر کرنے، غیر ملکی امداد نہ لینے، ورلڈ بینک اور IMF سے قرضہ نہ لینے کی بھی یقین دہانی کرارہے ہیں، تعلیم اور صحت کو عام آدمی تک رسائی کرانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
عدلیہ کا احترام کرنے اور فوج سمیت تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔ گویا اب عوام آنے والی حکومت کا انتظار کریں، ملک کے حالات بہتر ہوجائیںگے، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، پانی کا بھی بہتر انتظام ہوگا، شہروں سے کوڑا کرکٹ اور گندگی کا خاتمہ ہوجائے گا، گٹر اور نالوں کو ٹھیک کیا جائے گا، بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے گا، کرپشن کی لعنت کو بھی ختم کریںگے اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
مگر اب یہاں یہ سوال، جواب طلب ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنا منشور عوام تک نہیں پہنچایا ہے۔ کیا کسی جماعت نے ملک کے محنت کشوں، کسانوں، ہاریوں، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں، تاریخ نویسوں، طالب علموں، نوجوان، کھلاڑیوں، فنکاروں، قلم کاروں کو بھی 5 فیصد ٹکٹ دیے ہیں۔
ملک کے نگران وزیراعظم ناصر الملک جوکہ سابق چیف جسٹس ہیں، اس طرح چیف الیکشن کمشنر رضا حسین صاحب بھی جسٹس رہے ہیں اور نیب کے چیئرمین جاوید اقبال بھی جسٹس رہے ہیں۔ چاروں نگراں حکومتوں، وزرائے اعلیٰ بھی بے داغ تصور کیے جارہے ہیں۔
امید ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہوںگے، مگر الیکشن کمیشن کے سامنے امیدواروں نے جو اپنے نامزدگی فارم کے ساتھ اپنی جائیداد یا پراپرٹی کا حلف نامے جمع کرائے ہیں، ان میں لکھ پتی تو کم بلکہ ارب پتی کھرب پتی نمایندے ہی الیکشن لڑیںگے، عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو الیکشن لڑنا جانتا ہے اس کو ٹکٹ دیںگے۔ کیا ایک غریب آدمی امیدوار نہیں بن سکتا؟
اب آپ دیکھیں سب سے زائد مالیت کے اثاثہ جو ظاہر کیے گئے ہیں وہ پیپلزپارٹی خیبر پختونخوا کے سابق وفاقی وزیر اور ایم این اے ارباب جہانگیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر کے 7 ارب تین کروڑ سے زائد اثاثے موجود ہیں۔ اسی طرح نوجوان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اثاثے بھی اربوں کے ہیں۔ عمران خان کے اثاثوں کا شمار ہی نہیں ہے۔
نواز شریف، مریم نواز کے اثاثوں کا بھی شمار نہیں، مقدمات چل رہے ہیں، شہباز شریف اور ان کی دونوں بیویوں کے اثاثے بھی زیادہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی کسی سے کم نہیں، صرف ایک جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہیں جن کے اثاثے سب سے کم ہیں، اسی طرح عوامی ورکرز پارٹی خیبر پختونخوا کے 12 امیدوار میں فانوس گجر کے بھی اثاثے کم ہیں۔
کیا اس صورتحال میں کوئی ایک مزدور رہنما، کسان رہنما، ہاری کوئی پڑھا لکھا دانشور، صحافی، لکھاری، ماہر معیشت، شاعر، ادیب بھی الیکشن لڑسکتا ہے؟ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی اپنی فیس بڑھاکر 20 ہزار تا 40 ہزار کردی ہے، اسی طرح الیکشن اخراجات بھی 20 لاکھ تا 40 لاکھ کردیے ہیں۔
یہ کیسے الیکشن ہیں جس میں صرف کروڑ پتی اور ارب پتی خاندان وراثت کے مالک ہی الیکشن لڑیں، وزیراعظم بنیں گے، وزیر بنیں گے اور عوام کی حالت کو بدل دیں؟ پھر حکومت ختم ہونے سے قبل ہی اپنی تنخواہیں اور الاؤنسز میں خود ہی اضافہ کرلیا ہے، جہازوں کے ٹکٹ مفت سفر، بجلی کے بل 65 ہزار، مفت علاج، جو پہلے ہی مالدار اور خوشحال ہیں، انھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔
عوام کا برا حال ہے۔ نہ پانی، نہ بجلی، نہ صحت، نہ تعلیم، نہ رہائش، نہ روزگار۔ کم از کم تنخواہ جوکہ خود حکمرانوں نے 15 تا 16 ہزار مقرر کی ہے، کم از کم اس پر ہی عمل در آمد کرادو۔ ہر پارٹی اپنے منشور میں اپنے بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوام کی خوشحالی کے بارے میں اعلان کرے۔ اتنی دولت اور جائیداد کماچکے ہیں اب خدارا رحم کریں اور بس کردیں؟
ہماری چیف جسٹس صاحب سے اپیل ہوگی کہ کم از کم ارب پتی حکمرانوں کو الیکشن لڑنے سے پہلے ان سے ٹیکس ضرور وصول کرلیں۔ ابھی تازہ خبر کے تحت مظفر گڑھ کے ایک امیدوار کے پاس 4 کھرب اور 3 ارب کی زمین اور گاؤں موجود ہے، بقول امیداوار یہ جائیداد اس کے دادا اور باپ کی جائیداد تھی، جو اب عدالت نے 88 سال بعد اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے مگر اس نے کوئی ٹیکس نہیں دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔
آنے والے الیکشن میں عوام سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ اچھے امیدوار منتخب ہوسکیں۔ آیندہ الیکشن میں اچھی حکومت بن سکے۔ ہم یہ بھی سیاسی جماعتوں سے اپیل کریں گے کہ پاکستان کے محنت کشوں، ہاریوں، کسانوں کو بھی خواتین کی طرح 33 فیصد مخصوص نشستیں محفوظ کی جائیں، جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے، روزگار کے مواقع پید کیے جائیں، تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جائے، ریٹائرڈ اور بیوہ کو مکان بناکر دیے جائیں، بے زمین کسانوں میں زمین الاٹ کی جائے، تمام عارضی کچے TLA ملازمین کو مستقل کیا جائے، تمام MNA اور MPA سے حلف لیا جائے کہ وہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوںگے اور علاقے کے عوام کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کریں گے۔
الیکشن میں ہر ایک پارٹی قانونی طور پر ٹیکس ادا کرے گی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے قانونی اقدامات کرے گی۔ کاش ہمارے ملک میں ایک اچھی اور دیانت دار حکومت بن سکے، پاکستان کے غریب محنت کش عوام اور دیہاتوں میں رہنے والے غریب ہاری، کسان کو بہتر سہولتیں مل سکیں اور ملک سے بے روزگاری، بھتہ خوری اور لوٹ مار کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔
پاکستان کے عوام کسی ایک شہر اور دیہات میں اپنی بہتر زندگی گزارسکیں، اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنے منشور اور پارٹی کے رہنما اصولوں کے تحت ایک اچھا پروگرام دے کر ملک سے جاگیرداری، سرمایہ داری، کرپشن سے پاک پیارے پاکستان کو ایک اچھا ملک بناسکیں۔
ہمارے ملک کے ساتھ اور اس سے قبل سامراج سے آزادی کے بعد ترقی کی راہ پر چل پڑے ہیں خاص کر چین، شمالی کوریا، بنگلا دیش، ملائیشیا اور متحدہ امارات کے صحراؤں میں ترقی ہوگئی ہے انھوں نے ریگستان کو بھی سرسبز بنادیا ہے، دبئی اور سعودی عرب 1970 تک صحرا ریگستان تھے وہ آج کہاں تک پہنچ گئے ہیں ہم 70 برس بعد بھی ترقی نہ کرسکے، پانی کا بحران بڑا اہم مسئلہ ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اتنی بڑی دولت حکمرانوں یا پھر الیکشن لڑنے والوں کے پاس کہاں سے آئی، کس کو تحفے میں بڑی بڑی زمینیں بڑے بڑے شہروں میں بنگلے کیسے ملے۔ ہمارے ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق نے اپنے گھر کی مالیت صرف چند لاکھ ظاہر کی جب کہ دوسری جانب غیر ملکی اکاؤنٹ جن میں دبئی، لندن، برطانیہ اور خاص کر سوئٹزر لینڈ میں 22 ارب ڈالر کن حضرات کے جمع ہیں۔
خدارا رحم کریں اور اپنی دولت پاکستان کے غریب عوام کے لیے پاکستان کے خزانے میں جمع کرائیں تاکہ ملکی قرضہ ختم ہو اور پاکستان کے عوام کو پینے کا پانی مل سکے کوئی ایک گاؤں یا شہر بہتر بن سکے۔ آخر میں عبوری حکومت اور جسٹس صاحبان سے اپیل ہے کہ بروقت الیکشن کراکے غریب عوام کے دکھوں کا حل تلاش کریں اور غیر ملکوں میں جمع شدہ کرپشن کا پیسہ واپس لائیں۔
الیکشن 2018، 25 جولائی کو ہونے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں الیکشن مہم زور شور سے جاری ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر چھوٹے بڑے احتجاج بھی ہورہے ہیں۔ یہ الیکشن اس مرتبہ ججز حضرات اور فوج کی نگرانی میں ہورہے ہیں۔ مقابلہ بازی کا بھی زور ہے، خاص کر پنجاب میں تیزی زیادہ ہے۔
بڑے بڑے صنعت کار، سرمایہ دار، جاگیردار، بیوروکریٹ، بڑے بڑے اثاثوں کے مالک، لاکھوں نہیں کروڑوں بلکہ اربوں روپیہ کے بینک بیلنس غیر ملکی بینکوں کے اکاؤنٹس اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادوں کے مالک، ملک کے عوام کی قسمت بدلنے، ملکی حالت کو بہتر کرنے، غیر ملکی امداد نہ لینے، ورلڈ بینک اور IMF سے قرضہ نہ لینے کی بھی یقین دہانی کرارہے ہیں، تعلیم اور صحت کو عام آدمی تک رسائی کرانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
عدلیہ کا احترام کرنے اور فوج سمیت تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں۔ گویا اب عوام آنے والی حکومت کا انتظار کریں، ملک کے حالات بہتر ہوجائیںگے، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، پانی کا بھی بہتر انتظام ہوگا، شہروں سے کوڑا کرکٹ اور گندگی کا خاتمہ ہوجائے گا، گٹر اور نالوں کو ٹھیک کیا جائے گا، بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے گا، کرپشن کی لعنت کو بھی ختم کریںگے اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
مگر اب یہاں یہ سوال، جواب طلب ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنا منشور عوام تک نہیں پہنچایا ہے۔ کیا کسی جماعت نے ملک کے محنت کشوں، کسانوں، ہاریوں، شاعروں، دانشوروں، صحافیوں، تاریخ نویسوں، طالب علموں، نوجوان، کھلاڑیوں، فنکاروں، قلم کاروں کو بھی 5 فیصد ٹکٹ دیے ہیں۔
ملک کے نگران وزیراعظم ناصر الملک جوکہ سابق چیف جسٹس ہیں، اس طرح چیف الیکشن کمشنر رضا حسین صاحب بھی جسٹس رہے ہیں اور نیب کے چیئرمین جاوید اقبال بھی جسٹس رہے ہیں۔ چاروں نگراں حکومتوں، وزرائے اعلیٰ بھی بے داغ تصور کیے جارہے ہیں۔
امید ہے کہ صاف شفاف الیکشن ہوںگے، مگر الیکشن کمیشن کے سامنے امیدواروں نے جو اپنے نامزدگی فارم کے ساتھ اپنی جائیداد یا پراپرٹی کا حلف نامے جمع کرائے ہیں، ان میں لکھ پتی تو کم بلکہ ارب پتی کھرب پتی نمایندے ہی الیکشن لڑیںگے، عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو الیکشن لڑنا جانتا ہے اس کو ٹکٹ دیںگے۔ کیا ایک غریب آدمی امیدوار نہیں بن سکتا؟
اب آپ دیکھیں سب سے زائد مالیت کے اثاثہ جو ظاہر کیے گئے ہیں وہ پیپلزپارٹی خیبر پختونخوا کے سابق وفاقی وزیر اور ایم این اے ارباب جہانگیر اور ان کی اہلیہ عاصمہ عالمگیر کے 7 ارب تین کروڑ سے زائد اثاثے موجود ہیں۔ اسی طرح نوجوان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اثاثے بھی اربوں کے ہیں۔ عمران خان کے اثاثوں کا شمار ہی نہیں ہے۔
نواز شریف، مریم نواز کے اثاثوں کا بھی شمار نہیں، مقدمات چل رہے ہیں، شہباز شریف اور ان کی دونوں بیویوں کے اثاثے بھی زیادہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی کسی سے کم نہیں، صرف ایک جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہیں جن کے اثاثے سب سے کم ہیں، اسی طرح عوامی ورکرز پارٹی خیبر پختونخوا کے 12 امیدوار میں فانوس گجر کے بھی اثاثے کم ہیں۔
کیا اس صورتحال میں کوئی ایک مزدور رہنما، کسان رہنما، ہاری کوئی پڑھا لکھا دانشور، صحافی، لکھاری، ماہر معیشت، شاعر، ادیب بھی الیکشن لڑسکتا ہے؟ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی اپنی فیس بڑھاکر 20 ہزار تا 40 ہزار کردی ہے، اسی طرح الیکشن اخراجات بھی 20 لاکھ تا 40 لاکھ کردیے ہیں۔
یہ کیسے الیکشن ہیں جس میں صرف کروڑ پتی اور ارب پتی خاندان وراثت کے مالک ہی الیکشن لڑیں، وزیراعظم بنیں گے، وزیر بنیں گے اور عوام کی حالت کو بدل دیں؟ پھر حکومت ختم ہونے سے قبل ہی اپنی تنخواہیں اور الاؤنسز میں خود ہی اضافہ کرلیا ہے، جہازوں کے ٹکٹ مفت سفر، بجلی کے بل 65 ہزار، مفت علاج، جو پہلے ہی مالدار اور خوشحال ہیں، انھیں کچھ تو خیال کرنا چاہیے۔
عوام کا برا حال ہے۔ نہ پانی، نہ بجلی، نہ صحت، نہ تعلیم، نہ رہائش، نہ روزگار۔ کم از کم تنخواہ جوکہ خود حکمرانوں نے 15 تا 16 ہزار مقرر کی ہے، کم از کم اس پر ہی عمل در آمد کرادو۔ ہر پارٹی اپنے منشور میں اپنے بنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے عوام کی خوشحالی کے بارے میں اعلان کرے۔ اتنی دولت اور جائیداد کماچکے ہیں اب خدارا رحم کریں اور بس کردیں؟
ہماری چیف جسٹس صاحب سے اپیل ہوگی کہ کم از کم ارب پتی حکمرانوں کو الیکشن لڑنے سے پہلے ان سے ٹیکس ضرور وصول کرلیں۔ ابھی تازہ خبر کے تحت مظفر گڑھ کے ایک امیدوار کے پاس 4 کھرب اور 3 ارب کی زمین اور گاؤں موجود ہے، بقول امیداوار یہ جائیداد اس کے دادا اور باپ کی جائیداد تھی، جو اب عدالت نے 88 سال بعد اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے مگر اس نے کوئی ٹیکس نہیں دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے۔
آنے والے الیکشن میں عوام سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ اچھے امیدوار منتخب ہوسکیں۔ آیندہ الیکشن میں اچھی حکومت بن سکے۔ ہم یہ بھی سیاسی جماعتوں سے اپیل کریں گے کہ پاکستان کے محنت کشوں، ہاریوں، کسانوں کو بھی خواتین کی طرح 33 فیصد مخصوص نشستیں محفوظ کی جائیں، جاگیرداری کا خاتمہ کیا جائے، روزگار کے مواقع پید کیے جائیں، تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جائے، ریٹائرڈ اور بیوہ کو مکان بناکر دیے جائیں، بے زمین کسانوں میں زمین الاٹ کی جائے، تمام عارضی کچے TLA ملازمین کو مستقل کیا جائے، تمام MNA اور MPA سے حلف لیا جائے کہ وہ بدعنوانی میں ملوث نہیں ہوںگے اور علاقے کے عوام کے مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کریں گے۔
الیکشن میں ہر ایک پارٹی قانونی طور پر ٹیکس ادا کرے گی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے قانونی اقدامات کرے گی۔ کاش ہمارے ملک میں ایک اچھی اور دیانت دار حکومت بن سکے، پاکستان کے غریب محنت کش عوام اور دیہاتوں میں رہنے والے غریب ہاری، کسان کو بہتر سہولتیں مل سکیں اور ملک سے بے روزگاری، بھتہ خوری اور لوٹ مار کرپشن کا خاتمہ ہوسکے۔
پاکستان کے عوام کسی ایک شہر اور دیہات میں اپنی بہتر زندگی گزارسکیں، اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ اپنے منشور اور پارٹی کے رہنما اصولوں کے تحت ایک اچھا پروگرام دے کر ملک سے جاگیرداری، سرمایہ داری، کرپشن سے پاک پیارے پاکستان کو ایک اچھا ملک بناسکیں۔
ہمارے ملک کے ساتھ اور اس سے قبل سامراج سے آزادی کے بعد ترقی کی راہ پر چل پڑے ہیں خاص کر چین، شمالی کوریا، بنگلا دیش، ملائیشیا اور متحدہ امارات کے صحراؤں میں ترقی ہوگئی ہے انھوں نے ریگستان کو بھی سرسبز بنادیا ہے، دبئی اور سعودی عرب 1970 تک صحرا ریگستان تھے وہ آج کہاں تک پہنچ گئے ہیں ہم 70 برس بعد بھی ترقی نہ کرسکے، پانی کا بحران بڑا اہم مسئلہ ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ اتنی بڑی دولت حکمرانوں یا پھر الیکشن لڑنے والوں کے پاس کہاں سے آئی، کس کو تحفے میں بڑی بڑی زمینیں بڑے بڑے شہروں میں بنگلے کیسے ملے۔ ہمارے ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق نے اپنے گھر کی مالیت صرف چند لاکھ ظاہر کی جب کہ دوسری جانب غیر ملکی اکاؤنٹ جن میں دبئی، لندن، برطانیہ اور خاص کر سوئٹزر لینڈ میں 22 ارب ڈالر کن حضرات کے جمع ہیں۔
خدارا رحم کریں اور اپنی دولت پاکستان کے غریب عوام کے لیے پاکستان کے خزانے میں جمع کرائیں تاکہ ملکی قرضہ ختم ہو اور پاکستان کے عوام کو پینے کا پانی مل سکے کوئی ایک گاؤں یا شہر بہتر بن سکے۔ آخر میں عبوری حکومت اور جسٹس صاحبان سے اپیل ہے کہ بروقت الیکشن کراکے غریب عوام کے دکھوں کا حل تلاش کریں اور غیر ملکوں میں جمع شدہ کرپشن کا پیسہ واپس لائیں۔