بلڈ مون انسانی مقدر اور اقتدار
قدیم روایات عقائد توہم پرستی خوف کی شکل میں آج بھی اس کے خون میں دوڑتے ہیں اور کیوں نہ ہو کائنات ہی اتنی پیچیدہ ہے
MULTAN:
اکسویں صدی کا سب سے طویل چاند گرہن جولائی کے مہینے میں نظر آئے گا۔ یوں تو ہر سال کئی چاند گرہن مختلف دورانیے کے ہوتے ہیں لیکن جولائی کا چاند گرہن اپنی طوالت میں سب سے زیادہ ہوگا۔ یہ چاند گرہن 27 اور 28 جولائی کو نظر آئے گا۔
ماہرین فلکیات نے سائنس میگزین کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مکمل گرہن تقریباً پونے دو گھنٹے تک نظر آئے گا۔ جب کہ چاند کو لگنے والے گرہن کا مشاہدہ تقریباً چار گھنٹے تک کیا جاسکے گا۔ چاند کو گرہن اس وقت لگتا ہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے۔ اس صورت میں جب زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے تو اسے چاند کو گرہن لگنا کہتے ہیں۔
جولائی کا چاند گرہن اس لیے طویل وقت تک جاری رہے گا کیونکہ اس وقت چاند زمین کے تاریک ترین حصے سے براہ راست گزرے گا جس سے چاند پر سرخ رنگ کی پرچھائیں نظر آئے گی۔ چنانچہ چاند کی رنگت سرخ رنگ کی نظر آئے گی۔ سرخ رنگ کی وجہ سے ایسا چاند Blood Moon کہلاتا ہے یعنی خون رنگ چاند۔ اس وقت چاند زمین سے انتہائی زیادہ فاصلے پر ہوگا جس کے نتیجے میں چاند کو زمین کی تاریک پرچھائیں سے نکلنے میں زیادہ وقت لگے گا۔
سائنس میگزین نے بتایا کہ یہ گرہن پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر 24 منٹ پر شروع ہوگا۔ دوپہر ڈھائی بجے تک پورا گرہن زدہ یعنی بلڈ مون دیکھا جاسکے گا۔ دوپہر دو بج کر 22 منٹ پر گرہن اپنے عروج پر ہوگا۔ جب کہ چار بج کر 13 منٹ پر گرہن ختم ہوگا۔ اس گرہن کے چند دن بعد ہی مریخ زمین کے قریب ترین فاصلے سے ہوکر گزرے گا۔ اس سے پہلے مریخ 2003ء میں زمین کے اتنے قریب سے گزرا تھا۔ یہ جولائی کے مہینے کی 31 تاریخ ہوگی جب مریخ زمین کے انتہائی قریب ہوگا۔
گرہن زمانہ قدیم سے خوف کا باعث رہے ہیں۔ جب چاند اور سورج اپنی روشنی جزوی یا کلی طور پر کھو بیٹھتے تھے تو ہزاروں سال قبل کا قدیم انسان دہشت کے باعث ہولناک آوازیں نکالتا۔ ایک طرف وحشی جنگلی جانوروں سے بچاؤ دوسری طرف سال میں کئی مرتبہ سورج اور چاند گرہنوں کی آفت۔ مکمل چاند اور سورج گرہن سے انھیں لگتا کہ دنیا بس اب ختم ہونے والی ہے۔ گرہن ہوں یا زلزلے انسان کے لیے بے پناہ خوف کا باعث رہے ہیں۔
اچانک قدموں تلے زمین کا ہلنا گھروں اور بلند و بالا عمارتوں کا جھولنا، گرنا زمین میں بڑی بڑی دڑاڑیں پیدا ہوجانا، زلزلے اس وقت بھی آتے تھے جب انسان کا زمین پر وجود بھی نہیں تھا۔ یہ ایسے ویسے زلزلے نہیں تھے بلکہ یہ اس قدر خوفناک زلزلے تھے کہ ان کی وجہ سے سمندروں نے اپنی جگہ بدل لی۔ آج کے پہاڑ اس وقت کی نشانی ہیں۔ کچھ براعظم ان شدید زلزلوں سے ایک دوسرے سے دور ہوگئے جو دور تھے وہ نزدیک ہوگئے۔
ان خوفناک قدرتی آفات نے گرانڈیل ڈینوسار جیسے جانوروں کا خاتمہ کردیا۔ گرہنوں سے خوف کھانا تو ہم پرستی قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس گرہنوں اور زلزلوں کی وجوہات تو بتاسکتی ہے لیکن انسانوں کے اندر چھپا لاکھوں سال کا خوف ختم نہیں کرسکی۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا انسان جدید ترین ہونے کے باوجود اپنی فطرت میں قدیم ترین ہے۔ اس کے تحت الشعور میں قدیم ماضی کا تسلسل آج بھی چل رہا ہے۔
قدیم روایات عقائد توہم پرستی خوف کی شکل میں آج بھی اس کے خون میں دوڑتے ہیں اور کیوں نہ ہو کائنات ہی اتنی پیچیدہ ہے۔ حال ہی میں فوت ہوجانے والے برطانوی سائنس دان نے انکشاف کیا، کائنات صرف ایک نہیں بے شمار کائنات ہیں۔ اب تک تو صرف ایک کائنات پڑھنے میں تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کی پیچیدگی اور گہرائی میں جائیں تو سر چکرانے لگتا ہے۔
نوری سال یعنی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ میں سفر۔ یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل۔ انسانی کل علم لاکھوں سال کے سفر کے باوجود کائنات کے حوالے سے اے بی سی ڈی پر مشتمل ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ کائنات تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم اپنی زمین کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے سادہ لوح بقراط اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کائنات کا آخری سچ تو ان کے پاس ہی ہے۔
جاپان سائنس کے حوالے سے دنیا کی صف اول کی قوموں میں شامل ہے لیکن آج بھی جاپانی قوم کی ایک بہت بڑی اکثریت جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہے۔ امریکا اور دیگر یورپی اقوام کا بھی یہی حال ہے۔ ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں۔ یعنی جدید سائنس نے انسان کا کچھ زیادہ نہیں بگاڑا۔
گرہن سیاسی بھی ہوتے ہیں جیسے نواز شریف کے اقتدار کو گرہن لگ گیا ہے۔ رائز اینڈ رائز آف نواز شریف آخر کار 30 سال بعد ان کی قسمت کا ستارہ زوال کا شکار ہوگیا۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا، اچانک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لوح تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے۔ عروج سے زوال، زوال سے عروج۔ ہر عروج کا زوال ہے۔ ہر زندگی کے بعد موت ہے۔ زوال اور موت ہمارے جینٹک کوڈ میں طے ہوتے ہیں۔
انسانوں کی طرح قوموں، ملکوں اور خطوں کی بھی تقدیر ہوتی ہے۔ کہیں تباہی و بربادی خون کے دریا بہیں گے۔ کہیں خوشحالی اور یہ سب کچھ کتنے عرصے تک رہے گا۔ آقا اور غلام قومیں بھی پہلے سے طے ہوتی ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پڑھ لیں۔ تاریخ کے نازک موڑ پر ہمیشہ مقدر نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ماضی میں نواز شریف جن قوتوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور جنہوں نے نواز شریف کی کئی دہائیوں تک اندھی حمایت کی انھی قوتوں نے انھیں ٹھکرا دیا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام کی حمایت کافی نہیں ہوتی۔ عوام کی غیر معمولی حمایت تو تختہ دار تک ہی لے جاتی ہے۔ کائنات بہت پراسرار ہے۔ انسان تو خاموش تماشائی ہے۔ جولائی اور جولائی کا آخر بہت احتیاط طلب ہے۔ قتل و غارت تباہی و بربادی مالی و جانی نقصان انفرادی اجتماعی طور پر احتیاط طلب وقت۔
٭... بیگم کلثوم نواز کی صحت کے حوالے سے حساس وقت 10 سے 26 جولائی ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
اکسویں صدی کا سب سے طویل چاند گرہن جولائی کے مہینے میں نظر آئے گا۔ یوں تو ہر سال کئی چاند گرہن مختلف دورانیے کے ہوتے ہیں لیکن جولائی کا چاند گرہن اپنی طوالت میں سب سے زیادہ ہوگا۔ یہ چاند گرہن 27 اور 28 جولائی کو نظر آئے گا۔
ماہرین فلکیات نے سائنس میگزین کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مکمل گرہن تقریباً پونے دو گھنٹے تک نظر آئے گا۔ جب کہ چاند کو لگنے والے گرہن کا مشاہدہ تقریباً چار گھنٹے تک کیا جاسکے گا۔ چاند کو گرہن اس وقت لگتا ہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے۔ اس صورت میں جب زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے تو اسے چاند کو گرہن لگنا کہتے ہیں۔
جولائی کا چاند گرہن اس لیے طویل وقت تک جاری رہے گا کیونکہ اس وقت چاند زمین کے تاریک ترین حصے سے براہ راست گزرے گا جس سے چاند پر سرخ رنگ کی پرچھائیں نظر آئے گی۔ چنانچہ چاند کی رنگت سرخ رنگ کی نظر آئے گی۔ سرخ رنگ کی وجہ سے ایسا چاند Blood Moon کہلاتا ہے یعنی خون رنگ چاند۔ اس وقت چاند زمین سے انتہائی زیادہ فاصلے پر ہوگا جس کے نتیجے میں چاند کو زمین کی تاریک پرچھائیں سے نکلنے میں زیادہ وقت لگے گا۔
سائنس میگزین نے بتایا کہ یہ گرہن پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر 24 منٹ پر شروع ہوگا۔ دوپہر ڈھائی بجے تک پورا گرہن زدہ یعنی بلڈ مون دیکھا جاسکے گا۔ دوپہر دو بج کر 22 منٹ پر گرہن اپنے عروج پر ہوگا۔ جب کہ چار بج کر 13 منٹ پر گرہن ختم ہوگا۔ اس گرہن کے چند دن بعد ہی مریخ زمین کے قریب ترین فاصلے سے ہوکر گزرے گا۔ اس سے پہلے مریخ 2003ء میں زمین کے اتنے قریب سے گزرا تھا۔ یہ جولائی کے مہینے کی 31 تاریخ ہوگی جب مریخ زمین کے انتہائی قریب ہوگا۔
گرہن زمانہ قدیم سے خوف کا باعث رہے ہیں۔ جب چاند اور سورج اپنی روشنی جزوی یا کلی طور پر کھو بیٹھتے تھے تو ہزاروں سال قبل کا قدیم انسان دہشت کے باعث ہولناک آوازیں نکالتا۔ ایک طرف وحشی جنگلی جانوروں سے بچاؤ دوسری طرف سال میں کئی مرتبہ سورج اور چاند گرہنوں کی آفت۔ مکمل چاند اور سورج گرہن سے انھیں لگتا کہ دنیا بس اب ختم ہونے والی ہے۔ گرہن ہوں یا زلزلے انسان کے لیے بے پناہ خوف کا باعث رہے ہیں۔
اچانک قدموں تلے زمین کا ہلنا گھروں اور بلند و بالا عمارتوں کا جھولنا، گرنا زمین میں بڑی بڑی دڑاڑیں پیدا ہوجانا، زلزلے اس وقت بھی آتے تھے جب انسان کا زمین پر وجود بھی نہیں تھا۔ یہ ایسے ویسے زلزلے نہیں تھے بلکہ یہ اس قدر خوفناک زلزلے تھے کہ ان کی وجہ سے سمندروں نے اپنی جگہ بدل لی۔ آج کے پہاڑ اس وقت کی نشانی ہیں۔ کچھ براعظم ان شدید زلزلوں سے ایک دوسرے سے دور ہوگئے جو دور تھے وہ نزدیک ہوگئے۔
ان خوفناک قدرتی آفات نے گرانڈیل ڈینوسار جیسے جانوروں کا خاتمہ کردیا۔ گرہنوں سے خوف کھانا تو ہم پرستی قرار دیا جاتا ہے۔ سائنس گرہنوں اور زلزلوں کی وجوہات تو بتاسکتی ہے لیکن انسانوں کے اندر چھپا لاکھوں سال کا خوف ختم نہیں کرسکی۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا انسان جدید ترین ہونے کے باوجود اپنی فطرت میں قدیم ترین ہے۔ اس کے تحت الشعور میں قدیم ماضی کا تسلسل آج بھی چل رہا ہے۔
قدیم روایات عقائد توہم پرستی خوف کی شکل میں آج بھی اس کے خون میں دوڑتے ہیں اور کیوں نہ ہو کائنات ہی اتنی پیچیدہ ہے۔ حال ہی میں فوت ہوجانے والے برطانوی سائنس دان نے انکشاف کیا، کائنات صرف ایک نہیں بے شمار کائنات ہیں۔ اب تک تو صرف ایک کائنات پڑھنے میں تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کی پیچیدگی اور گہرائی میں جائیں تو سر چکرانے لگتا ہے۔
نوری سال یعنی روشنی کی رفتار سے ایک سیکنڈ میں سفر۔ یعنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل۔ انسانی کل علم لاکھوں سال کے سفر کے باوجود کائنات کے حوالے سے اے بی سی ڈی پر مشتمل ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ کائنات تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم اپنی زمین کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے سادہ لوح بقراط اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کائنات کا آخری سچ تو ان کے پاس ہی ہے۔
جاپان سائنس کے حوالے سے دنیا کی صف اول کی قوموں میں شامل ہے لیکن آج بھی جاپانی قوم کی ایک بہت بڑی اکثریت جادو ٹونے پر یقین رکھتی ہے۔ امریکا اور دیگر یورپی اقوام کا بھی یہی حال ہے۔ ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں۔ یعنی جدید سائنس نے انسان کا کچھ زیادہ نہیں بگاڑا۔
گرہن سیاسی بھی ہوتے ہیں جیسے نواز شریف کے اقتدار کو گرہن لگ گیا ہے۔ رائز اینڈ رائز آف نواز شریف آخر کار 30 سال بعد ان کی قسمت کا ستارہ زوال کا شکار ہوگیا۔ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا، اچانک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لوح تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوتا ہے۔ عروج سے زوال، زوال سے عروج۔ ہر عروج کا زوال ہے۔ ہر زندگی کے بعد موت ہے۔ زوال اور موت ہمارے جینٹک کوڈ میں طے ہوتے ہیں۔
انسانوں کی طرح قوموں، ملکوں اور خطوں کی بھی تقدیر ہوتی ہے۔ کہیں تباہی و بربادی خون کے دریا بہیں گے۔ کہیں خوشحالی اور یہ سب کچھ کتنے عرصے تک رہے گا۔ آقا اور غلام قومیں بھی پہلے سے طے ہوتی ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پڑھ لیں۔ تاریخ کے نازک موڑ پر ہمیشہ مقدر نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ماضی میں نواز شریف جن قوتوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور جنہوں نے نواز شریف کی کئی دہائیوں تک اندھی حمایت کی انھی قوتوں نے انھیں ٹھکرا دیا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام کی حمایت کافی نہیں ہوتی۔ عوام کی غیر معمولی حمایت تو تختہ دار تک ہی لے جاتی ہے۔ کائنات بہت پراسرار ہے۔ انسان تو خاموش تماشائی ہے۔ جولائی اور جولائی کا آخر بہت احتیاط طلب ہے۔ قتل و غارت تباہی و بربادی مالی و جانی نقصان انفرادی اجتماعی طور پر احتیاط طلب وقت۔
٭... بیگم کلثوم نواز کی صحت کے حوالے سے حساس وقت 10 سے 26 جولائی ہے۔
سیل فون:۔ 0346-4527997