منشور کہاں ہے

سیاسی جماعتوں کے نزدیک منشور کی کوئی اہمیت نہیں،رسمی خانہ پُری، لیپاپوتی، مبالغہ آمیز، ناقابل یقین وعدے

منشور کے بجائے روایتی بازی گری اور لچھے دار تقریروں پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ فوٹو: فائل

انتخابی مہمات کے پنڈال دل کش نعروں سے گونج رہے ہیں۔ سیاست داں ایک مرتبہ پھر پُرکشش وعدوں کے ساتھ اپنے اپنے حلقۂ انتخاب میں عوام کے درمیان موجود ہیں اور مخالف امیدوار کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔

سیاسی قائدین اور امیدواروں کی بڑی بڑی تصاویر، نعروں پر مبنی بینرز اور دیگر تشہیری مواد کی تیاری تو عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی شروع کردی گئی تھی، لیکن سیاسی جماعتیں انتخابی منشور سے غافل نظر آئیں اور اب اس سلسلے میں خانہ پُری یا لیپاپوتی شروع کردی ہے۔

منشور کا اجرا کسی بھی انتخابی عمل کا اہم ترین اور بنیادی مرحلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے جمہوریت پسند اسے رتّی بھر اہمیت دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ ہاں، اس حوالے سے شور اٹھے اور کوئی اس جانب توجہ دلا دے تو چند صفحات کالے کرنے میں دیر بھی نہیں لگاتے۔ یوں بھی لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ چند نکاتی منشور جاری کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور اب بھی یہی کیا گیا ہے۔ انتخابات سَر پر ہیں، مگر ماہ دو ماہ پہلے تو کیا چند روز قبل تک کسی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا تھا۔ یہ جماعتیں پچھلے چند ماہ کے دوران جوڑ توڑ کی سیاست کے ساتھ پُرکشش انتخابی مواد کی تیاریوں میں اتنی ''مصروف'' رہیں کہ اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ اب عجلت میں منشور کے نام پر مبالغہ آمیز اور ناقابل یقین وعدوں کا ڈھیر لگایا جارہا ہے۔

حقیقی جمہوری معاشروں اور باشعور اقوام کی طرف دیکھیں تو ان کے لیے انتخابی پروگرام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں نہ صرف جامع اور مفصل منشور عوام کے سامنے رکھا جاتا ہے بلکہ امیدوار اپنے منشور کی وضاحت بھی کرتے ہیں، مگر ہمارا کلچر اس سے مختلف ہے۔ چند روز قبل منشور کے نام پر محض درجن، دو درجن نکات کے بعد اب پیپلز پارٹی کا چند صفحات پر مشتمل کتابچہ بھی منظرِ عام پر آگیا اور سنا تھاکہ مسلم لیگ ن بھی انتخابی منشور کی تیاری میں جُٹ گئی ہے۔ تادمِ تحریر ن لیگ اور تحریکِ انصاف کی جانب سے باقاعدہ انتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا گیا۔

انتخابی منشور کسی جماعت کی اہلیت اور اس کی منصوبہ سازی کی صلاحیت کا اظہار بھی ہے اور بتاتا ہے کہ کوئی جماعت کس طرح مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کو حل کرسکتی ہے۔ انتخابی منشور اس بات کا بھی ثبوت ہوتا ہے کہ ووٹروں کے مسائل اور مطالبات کو کوئی جماعت کتنی اہمیت دیتی ہے اور وہ عوام کی امیدوں پر پورا کرنے میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ اس کا طرزِ حکم رانی کیا ہوگا، اقتدار سنبھال کر کس حکمتِ عملی کے تحت آگے بڑھے گی، اس کے نزدیک اجتماعی ترقی اور خوش حالی کیا ہے۔ یہ منشور بتاتا ہے کہ کسی سیاسی قیادت کی نظر میں ملک اور عوام کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اہداف کا بھی ذکر کرتی ہیں۔ ووٹر اسی منشور کی بنیاد پر بعد میں منتخب نمائندوں کا احتساب کرسکتا ہے۔

انتخابات سے قبل اور بَروقت ایک جامع اور مفصل منشور کا اعلان اور زمینی حقائق کے مطابق ایسے وعدے جن کی مقررہ مدت میں تکمیل ممکن ہو، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایسا منشور پیش کیا جائے جس کی بنیاد پر انتخابی امیدوار اعتماد سے ووٹر کے درمیان جائے اور اسے یقین ہو کہ اس کی جماعت کا منشور محض فریب اور جھوٹ کا پلندہ نہیں بلکہ قیادت نے وعدوں کو عملی شکل دینے کے لیے ضروری وسائل اور طریقۂ کار بھی طے کر لیا ہے۔ منشور میں خارجہ و داخلہ امور، اقتصادی پالیسی پر واضح اور تفصیلی مؤقف پیش کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شعبوں میں اصلاحات اور اجتماعی ترقی و خوش حالی سے متعلق نکات لازمی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں توانائی اور قلتِ آب کا مسئلہ حل کرنے کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر ایک اہم معاملہ ہے جب کہ عالمی مالیاتی اداروں سے لیا گیا قرض چکانے کے حوالے سے بھی بہت سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور اس حوالے سے ٹھوس اور جامع پالیسی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم کوئی بھی جماعت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ ملک کو قرضوں سے کیسے نجات دلائے گی اور کیا اقتدار میں آکر مزید قرضہ لے گی؟

دوسری طرف زراعت کا شعبہ اصلاحات اور توجہ چاہتا ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس کی آمدن کا بڑا انحصار زرعی اجناس پر ہے۔ ہمارے کاشت کار زرعی پانی اور پیداوار بڑھانے کے لیے سہولیات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اسی طرح جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی نظام اپنی بدترین صورت میں آج بھی موجود ہے، جس کا خاتمہ کئی دوسرے مسائل اور تباہی کا راستہ روک سکتا ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے، نئے تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کا قیام بھی ناگزیر ہے، لیکن سیاسی جماعتوں نے اس پر کوئی جامع اور قابلِ عمل پروگرام نہیں دیا ہے۔ کرپشن ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن کسی بڑی سیاسی جماعت کا اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اور جامع پروگرام سامنے نہیں آیا ہے۔

ایک عام تاثر تو یہی ہے کہ عوام جذباتی وابستگی اور جلسوں میں دھواں دھار تقاریر اور پُرجوش نعروں کے علاوہ ہوا کا رخ دیکھ کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سیاسی طور پر باشعور افراد بھی اکثر اسی کے زیرِ اثر ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہاں مفادات کا ذکر نہیں، ورنہ مالی و سیاسی فائدے بھی لوگوں کی سیاسی رائے اور انتخاب بدلنے کا سبب بنتے ہیں۔

بہت سے ووٹرز ایسے بھی ہیں، جو ایک سیاسی جماعت سے جُڑے ہیں، تو چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹتے یا شاذ ہی اپنی سیاسی رائے بدلتے ہیں۔ دیہات میں جاگیرداروں کا کسی پارٹی یا انتخابی اتحاد کی طرف جھکاؤ اور حمایت اہم ہوتی ہے، جب کہ بہت سے حلقوں میں منشور اور سیاسی جماعت سے قطع نظر 'کم برے' امیدوار کا انتخاب ترجیح رہتا ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو آگاہی اور شعور دیں کہ انہیں انتخابی منشور کا جائزہ لے کر ووٹ جیسی امانت کا استعمال کرنا چاہیے۔

ووٹروں کو یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں اقتصادی اور سماجی مسائل کو جاننے اور سمجھنے کی کتنی صلاحیت ہے اور کوئی پارٹی مسائل کو حل کرنے کا کیا طریقہ اپنائے گی اور کیا منصوبہ بندی کرے گی۔ اسی طرح سابق حکم راں جماعت کے نمائندوں سے انتخابی مہم کے دوران عوام کو پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے پچھلے دور میں جو انتخابی وعدے پورے نہیں کیے ، اس کی کیا وجہ ہے۔

مثال کے طور پر ن لیگ نے گزشتہ انتخابات میں دو سال کے اندر توانائی کے بحران کے خاتمے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر آج پانچ سال بعد بھی اس حوالے سے صورتِ حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ شاید بہت سی جگہ لوڈشیڈنگ بہتر ہوئی ہو، لیکن پورے ملک میں مجموعی طور پر آج بھی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران جیسے مسائل موجود ہیں۔ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں اور دیہات کے ووٹرز کی اکثریت ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حوالے سے شعور اور آگاہی نہیں رکھتی۔

اس کے علاوہ ان کی اکثریت برادری اور قبائلی نظام کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی نمائندہ ایک مرتبہ پھر ان کی ترجمانی کے لیے اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے جس نے پانچ برس کے دوران ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا اور اپنے حلقے کا رخ نہیں کیا تھا۔ بدقسمتی سے عوام کی اکثریت اپنے ووٹ کی اہمیت اور بنیادی حقوق کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتی۔ گاؤں، دیہات ہی نہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے ووٹرز بھی نعروں اور وعدوں سے آسانی سے بہل جاتے ہیں۔ تاہم اس بار متعدد حلقوں میں اہم اور بااثر امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم کے دوران لوگوں کے چبھتے ہوئے سوالات اور احتجاج کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی ویڈیوز گردش میں ہیں اور ان کے اس طرزِ عمل نے سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو پریشان کر دیا ہے۔ اگر پڑھا لکھا طبقہ خصوصاً نوجوان ووٹر اپنے حلقوں میں قدم رکھنے والے پرانے چہروں سے ان کے دورِ حکومت میں اپنے انتخابی حلقے میں کیے گئے کاموں سے متعلق سوالات کریں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ اس بار امیدوار اپنے حلقوں کے عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔

دوسری طرف موروثی سیاست بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کارکنوں اور ووٹروں کو چاہیے کہ اپنی جماعت کی قیادت پر زور دیں کہ انتخابی ٹکٹ صرف پارٹی کے سرگرم اور عوام سے مخلص لوگوں کو جاری کریں۔ یہ کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے اپنے ووٹروں سے جھوٹے وعدے کیے اور انہیں خواب دکھائے اور دوسری طرف عوام کے پاس بھی دو ہی راستے تھے۔ ایک تو وہ سب کو مسترد کردیں اور الیکشن کے دن ووٹ ہی نہ دیں، یا پھر کسی ایک پر اعتبار کرکے اسے اسمبلی تک پہنچا دیں اور پھر منتخب نمائندے کی اپنے ووٹروں سے وعدہ خلافی کا انتظار کریں اور پانچ سال تک اپنے فیصلے پر پچھتاتے رہیں۔

انتخابی منشور کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی تیاری بھی یقیناً ایک غور طلب کام ہے۔ یہ چند گھنٹوں کا کام نہیں۔ جامع اور مفصل منشور کسی نکتہ رس، بیدار مغز اور مدبّر محرر کا تقاضا کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں نظریاتی اور تجربہ کار اراکین کے علاوہ اہلِ دانش، سیاسی اور اقتصادی امور کے ماہرین سے مدد لے سکتی ہیں، لیکن یہ تو اس وقت ہوگا جب ان کی نیت ٹھیک ہوگی، ان کی منزل تو ایوان ہیں، اقتدار کی طمع ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مارشل لاء اور فوجی مداخلت کے بعد اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آمروں نے سیاست دانوں کو استعمال کیا جس نے مفاد اور موقع پرستی کی سیاست کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور یوں بعد کے برسوں میں ایوانوں میں پہنچنے والی جمہوری قوتیں بس نام کی تھیں۔ 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک کوئی بھی سیاسی جماعت جامع منشور پیش نہیں کرسکی اور اب تو محض رسم پوری کی جارہی ہے۔ اگر یہ کہیں تو کیا غلط ہے کہ اکثر سیاسی جماعتیں اس طرف سے یک سر غافل تھیں، اور میڈیا میں اس حوالے سے سوالات اٹھائے جانے کے بعد خانہ پُری کردی گئی۔ یوں جو کام غور و فکر اور تدبر کا متقاضی تھا، چند دنوں میں نمٹا دیا گیا۔

2018 کے الیکشن کی بات کی جائے تو منشور کے سلسلے میں متحدہ مجلسِ عمل(ایم ایم اے) نے پہل کی اور 12 نکاتی منشور پیش کیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹو زرداری نے 68 صفحات پر مشتمل اپنا انتخابی منشور پیش کیا، مگر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی تادمِ تحریر یہ نہ کرسکی۔ عمران خان نے کراچی میں 100 روزہ پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ شہباز شریف نے بھی یہاں تقریر کے دوران قیام امن کو اپنی جماعت کا کارنامہ گنواتے ہوئے پینے کے پانی کی فراہمی، صفائی کے نظام کی درستی اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی جیسے وعدے کیے اور چلتے بنے۔ کسی نے مذکورہ قائدین سے نہ پوچھا کہ ان کا تحریری منشور کہاں ہے؟


جب انتخابی مہم کے دوران ہی منشور کا ذکر نہیں ہوتا، تو پچھلے منشور پر عمل درآمد سے متعلق سوال دیوانے کا خواب لگتا ہے جب کہ جمہوریت کا حُسن یہی ہے کہ سیاسی نمائندے عوام کے آگے جواب دہ ہوں، لیکن یہاں کا سیاسی کلچر ایسا ہے کہ کوئی نہیں پوچھتا آپ نے کیا کیا؟ اور آپ کے پاس کیا پروگرام ہے۔ پہلے مرحلے میں ہماری جماعتوں اور امیدواروں کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح کاغذات نام زدگی کے موقع پر ہی تگڑے مخالف امیدوار کو باہر کردیا جائے، تاکہ کم سے کم مشکلات کے ساتھ جیت کی راہ ہم وار ہوسکے۔ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے، طاقت ور اور بااثر امیدوار اپنے مخالف امیدوار کو اوچھے ہتھکنڈوں سے دنگل سے باہر ہو جانے پر مجبور کردیتا ہے، جس کے بعد 'بلامقابلہ' فتح کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔

ماضی میں جھانکیں تو 1970ء کے انتخابات میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کا اہتمام کیا تھا اور اس وقت ملک کے اخبارات میں ان سے متعلق تجزیے بھی شایع ہوتے تھے۔ آج الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے جس میں انتخابی امیدواروں کو اپنے حلقے میں عوام کے درمیان وعدے اور جیت کے دعوے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جب کہ اخبارات میں بھی ان امیدواروں کے جلسوں اور کارنر میٹنگوں کی تصاویر شایع ہوتی ہیں، مگر کیمرے کی آنکھ عوام کو کسی جماعت کا منشور پڑھتے اور اس پر تبصرہ کرتے نہیں دکھاتی۔ 1970ء کے انتخابات پر ماہرِ امور سیاسیات Craig Baxter نے اپنی کتاب پاکستان ووٹس میں جب کہ فلپ ای جونز نے کتاب اپنی کتاب Pakistan People's Party: Rise to Power میں پی پی پی کے قیام اور 1970ء کے انتخابات پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دور میں پارٹی منشور کو اہمیت دی جاتی تھی۔ بعد میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ پیپلز پارٹی نے اس زمانے میں انتہائی قابل اور نظریاتی شخصیات کی مدد سے اپنا منشور تیار کیا تھا۔ ان میں جے اے رحیم، ماہر اقتصادیات ڈاکٹر مبشر حسن، حنیف رامے اور سوشلسٹ شیخ محمد رشید شامل تھے۔

پاکستان میں انتخابی عمل کے نگراں ادارے کے سربراہ مدثر رضوی کے مطابق انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے قبل سیاسی جماعتوں کے منشور آجاتے اور الیکشن اسی کی بنیاد پر لڑا جاتا تو اس سے سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی ظاہر ہوتی۔ منشور پیش کیے بغیر لوگوں کے پاس کسی کو قبول یا رد کرنے کا پیمانہ کیا ہو گا۔ سیاسی امور کے ماہرین کے مطابق ووٹر کیسے امیدواروں کا موازنہ کرسکتے ہیں، جب کوئی پروگرام یا ایجنڈا ہی نہیں تو پھر فیصلہ کس بنیاد پر ہو گا۔

معروف محقق اور ماہر سیاسیات ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا منشور سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، نوے فی صد امیدوار اپنی جماعت کے منشور سے لاعلم ہوتے ہیں اور یہ منشور نمائشی ہوتا ہے۔ ان کے مطابق منشور کا اعلان ہوا بھی تو یہ میڈیا میں تشہیر کے لیے ہوگا اور اس سے آگے بات نہیں بڑھے گی۔ ہمارے ہاں نظام ہی ایسا ہے اور لوگ بھی برادری، خاندان اور مختلف قبائل کے سربراہوں کے اشارے پر ووٹ دینے گھروں سے نکل آتے ہیں اور ان سے کوئی سوال نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ وہی لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں جو پہلے بھی اپنے حلقوں کے عوام کو پانی، تعلیم و صحت کی سہولتیں نہیں دے سکے تھے۔

عمران خان نے لاہور میں دس نکاتی پروگرام پیش کیا، مگر کسی نے یہ سوال تک نہیں کیا کہ اس میں ملک کی خارجہ پالیسی پر تو ایک سطر تک شامل نہیں ہے، اب امیدوار قومی سیاست کے بجائے حلقوں تک محدود رہتے ہیں اور اس کی ابتدا جنرل ضیاالحق کے دور حکومت سے ہوئی جب غیر جماعتی انتخابات منعقد کیے گئے۔ ان انتخابات میں کام یاب ہونے والوں نے حلقوں کی سیاست شروع کر دی اور نتیجہ یہ نکلا کہ قومی ایشوز بحث مباحثے سے باہر ہو گئے۔ تب سے سیاسی جماعتیں اسی ڈھب پر چل رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق رکن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو بھی سیاسی جماعتوں کے منشور سے کوئی سروکار نہیں۔ کسی بھی جماعت کی رجسٹریشن کے لیے صرف پارٹی کا آئین طلب کیا جاتا ہے اور منشور کے بارے میں انہیں کوئی ہدایت جاری نہیں کی جاتی۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو کسی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور انتخابی جیت میں اس کا منشور ہی کلیدی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پاکستان میں اسے رسمی کارروائی سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔ گویا، ہم جس طرح دوسرے معاملات میں پس ماندگی کی قابل رحم صورت پیش کرتے ہیں اسی طرح اس معاملے میں بھی قلاش ہو چکے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ہمارے انتخابات اب تک محض متعلقہ شخصیات کی بازی گری اور ان کی سحر طراز نعرہ بازیوں، گلے بازیوں اور لچھے دار تقریروں تک محدود ہے۔ دکھاتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!! ایسے مناظر دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں ویران اور دماغ کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔

2018 کے انتخابی منشور

پیپلز پارٹی کے قائد بلاول بھٹوزرداری نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی جدوجہد جاری رکھنے، فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرکے الیکشن ایک ساتھ کرانے کا اعلان کیا ہے۔ انتخابی منشور میں نوکریاں فراہم کرنے کے لیے ایک نیا سرکاری ادارہ قائم کرنے، بھوک مٹاؤ پروگرام شروع کرنے، کاشت کاروں کو سبسڈی دینے کے لیے اقدامات کے علاوہ خارجہ پالیسی سے متعلق اہداف شامل ہیں۔ اس منشور میں معیشت کی بہتری کی بات تو کی گئی ہے، لیکن اس حوالے سے خصوصاً اضافی رقوم کے بارے میں نہیں بتایا گیا کہ اسے حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہوگا، اور کیا ان کی حکومت اس کے لیے قرضے لے گی؟ اس منشور کو 'بی بی کا وعدہ نبھانا ہے، پاکستان کو بچانا ہے' کا نام دیا گیا ہے۔

متحدہ مجلس عمل ( ایم ایم اے) نے 12 نکاتی منشور میں ملک میں نظام مصطفی کے نفاذ، ختم نبوت و اسلامی دفعات کے تحفظ، آزاد خارجہ پالیسی، ڈیمز کی تعمیر، مفت تعلیم و علاج اور روزگار کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی منشور میں امن و سلامتی، ملکی استحکام کے ساتھ تعلیم اور صحت کی فراہمی کے نکات سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد خارجہ پالیسی کا قیام، دہشت گردی کی وجوہات پر توجہ دینا، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا اور دیگر مسائل کا حل اے این پی کی ترجیح ہو گا۔

اسی طرح مجلس وحدت المسلمین پاکستان نے بھی اپنا انتخابی منشور ''ہم بنائیں گے قائد و اقبال کا پاکستان'' کے نام سے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ قائد و اقبال کا پاکستان ایسا ہو گا جس میں بالادست طبقہ غریب عوام، بے آسرا لوگوں، اقلیتوں کا استحصال نہ کرسکے۔ پاکستان میں بسنے والے عوام کو بلاتفریق ترقی کے برابر مواقع میسر ہوں، جہاں حکم راں عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اور جہاں طرز حکم رانی سادہ ہو۔ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے، شدت پسندی کے سدباب کے لیے کوشش جاری رکھیں گے۔ اس جماعت نے کرپشن کے خلاف بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ نہ صرف ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے بلکہ ناسور ہے اور داخلی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے، اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ قومی احتساب بیورو کو مکمل طور پر انتظامی اور مالی خود مختاری دی جائے گی جب کہ تعلیمی اور معاشی ایمرجینسی کے نفاذ کی کوششیںکریں گئے، بے روزگاری اور توانائی کا بحران ختم کریں گے۔

یہ بھی سنا گیا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے انتخابی منشور پر کام جاری ہے جس میں سستی بجلی کی فراہمی، ٹرانسمیشن لائنوں کی بہتری اور ہر شہری کے لیے ہیلتھ کارڈ کی فراہمی کا وعدہ شامل ہو گا۔ اگر ن لیگ اب انتخابی منشور جاری کرتی ہے تو کیا یہ اس کا سنجیدہ طرزِ عمل کہلائے گا اور کیا ووٹرز کے پاس اتنا وقت ہو گا کہ وہ اس منشور کو بہتر طریقے سے سمجھیں، اس پر بحث کریں اور دیگر جماعتوں کے منشور سے موازنہ کر کے اپنے ووٹ کا فیصلہ کریں؟ لیگی قیادت جس نے ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ بلند کیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ بھی ووٹروں کو عزت دے۔ دیکھا جائے تو انتخابی منشور کے اجرا کی طرف سے بے پروائی برتنا ہرگز عوام دوستی اور سنجیدگی کا مظہر نہیں۔

2013 کے وعدے

نواز شریف نے صنعتی شعبوں کو ترقی، مصنوعات سازی کو فروغ دینے اور انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کرنے اور اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی بات کی تھی۔ اُس منشور میں روزگار، کم آمدنی والے طبقے کو رہائش اور ٹیکس اصلاحات پر زور دیا گیا تھا جب کہ زراعت پر توجہ دینے کے ساتھ خارجہ پالیسی، تعلیم اور صحت کی سہولیات کے علاوہ اقتدار میں آ کر دو سال کے دوران لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، مگر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے 2013 میں روٹی کپڑا اور مکان کی بات کرتے ہوئے علم، صحت سب کو کام، دہشت سے محفوظ عوام، اونچا ہو جمہور کا نام جیسی قافیہ پیمائی کر کے عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

تحریکِ انصاف نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے علاوہ تین ماہ میں کرپشن ختم کرنے، انصاف اور توانائی میں اضافے کے لیے ایمرجینسی لگانے اور امیر و غریب کی تفریق مٹانے کی بات کی تھی۔

مسلم لیگ ق نے کسانوں سے ہم دردی جتائی تھی اور دہشت گردی، غربت اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے اور کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

متحدہ قومی مومنٹ نے وڈیروں اور جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے، تعلیم و صحت کا بنیادی حق دینے کے علاوہ پی آئی اے، ریلوے، اور پاکستان اسٹیل ملز سمیت تمام اداروں کو مستحکم کرنے اور توانائی کا بحران ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
Load Next Story