مصافحہ اور معانقہ۔۔۔
احساس کے اظہار کا بہترین طریقہ
دنیا میں اپنے محسوسات اور احترام کا اظہار کرنے کے لیے بہت سے طریقے رائج ہیں۔ عموماً ہم الفاظ کا بہترین چناؤ ہی اظہار کا بہترین طریقہ تصور کرتے ہیں، لیکن تعلیم اور سائنس کی ترقی نے دنیا کی ہیئت تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ اب روز بہ روز نئی تحقیقات اور نئی معلومات اور ان کے حیرت انگیز نتائج سامنے آرہے ہیں۔
آج کل مغرب میں زبانی اظہار کی نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ مؤثر مانا جارہا ہے اور اسی کو اہمیت بھی دی جارہی ہے۔ اعلیٰ طبقوں میں تو ''باڈی لینگویج'' ایک باقاعدہ فن کی شکل اختیار کرگیا ہے، بہت سارے متاثر کن لفظوں کے چناؤکے بجائے زیادہ اچھا نہیں کہ آپ ایک مسکراہٹ کے ساتھ پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر یا معانقہ کرکے اپنے مخاطب کا دل جیت لیں؟
ایک معروف مفکر کا کہنا ہے: ہاتھ ملانے یعنی مصافحہ کرنے میں ایک راز مخفی ہوتا ہے اور اس راز سے وہی بہ خوبی واقف ہوتے ہیں جو جسمانی زبان کو بہ خوبی جانتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں۔''
آپ اپنے کسی عزیز یادوںست سے کئی دنوں بعد مل رہے ہیں اور آپ نے گرم جوشی کے ساتھ اس سے معانقہ کر کے اس کا حال احوال پوچھا تواس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا اور اگر آپ نے اس سے سرسری سا مصافحہ کیا اور احوال پوچھا تو اس کی کیفیت اور آنکھوں میں کوئی خاص قسم کی چمک پیدانہ ہوگی۔ گویا حرکات اور سکنات کے ساتھ اظہار کا طریقہ بہت کامیاب اور مختصر ہے۔ اس میں آپ کو زبان سے کم الفاظ میں اپنے رفیق اور ساتھی کو اپنی مکمل کیفیت بتانے میں حددرجہ مدد مل جاتی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں کمیونی کیشن کے ایک پروفیسر جارج فاسٹربھی باڈی لینگویج کو دور حاضر کا ایک کامیاب نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں: ''آپ سر توڑ کوشش کے باوجود چند سیکنڈ کے لیے ایسے جامع، مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کرسکتے ہیں، جن کے بولنے سے آپ کو حسب منشا نتیجہ حاصل ہوسکے، جب کہ چند سیکنڈ کا پرجوش مصافحہ آپ کو توقع سے بڑھ کر نتائج دے سکتا ہے۔ وجہ یہی کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی عہدے پر کیوں فائز نہ ہو،اپنے مقابل سے بھرپور توجہ اور خلوص چاہتا ہے ،جو آگے بڑھ کر ہاتھ ملا لینے سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
ایک مشہور ماہر نفسیات ووڈ کہتی ہیں:''کسی بھی شخص کو آپ سے پہلی ملاقات میں آپ کے بارے میں کوئی تاثر قائم کرنے میں محض 90 سیکنڈ لگتے ہیں اور اگر یہ 90 سیکنڈ وہ ہوں کہ جب آپ اس سے گرم جوشی سے ہاتھ ملا رہے ہیں تو یہ عمل آپ کے فائدے میں ہوگا, خصوصاً اگر آپ اس شخص سے کاروباری معاملات کا آغاز کرنے جارہے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ آپ کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔''
پینی ووڈ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہزاروں الفاظ کے استعمال سے کہیں زیادہ گہرے اثرات پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر مل سکتے ہیں۔''
اسی طرح جب ہم انٹرویو کے لیے کسی ادارے میں جاتے ہیں تو سننے والا ہمارے تاثرات،آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ، ہاتھوں کی حرکات و سکنات اور چہرے کے زاویوں کو بھی پرکھتا ہے۔ غرض مکمل شخصیت کا جائزہ لے کر ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔
بہ حیثیت استاد آپ اپنے طلبہ و طالبات کو اعضا کے اظہار سے بہترین طریقے سے موضوع سمجھا سکتے ہیں۔ بہ حیثیت ماں آپ اپنے بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر، ہاتھوں کو تھام کر اسے تحفظ کا احساس دلاسکتی ہیں۔
بہ حیثیت بیوی آپ اپنے شریک سفر کو بھی اپنی تشکر آمیزنگاہوں سے اپنے مضبوط تعلق کا اعتماد دے سکتی ہیں۔ بہ حیثیث ورکر آپ اپنے باس کو کسی متوقع کامیابی پر مسکراہٹ کے ساتھ جیت کے اظہار کو انگوٹھے سے وی کا نشان بناکر بتاسکتے ہیں۔ غرض ہر ہر جگہ اور شعبے میں اس طریقہ اظہار کو اپنا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان اگر ہم اس اظہار محبت یا اظہار احساسات پر غور کریں تو ہمیں ہمارے رہبر و ہادی حضور پاکﷺ نے بھی یہی تعلیم دی اور فرمایا:''سلام کی تکمیل مصافحہ میں ہے۔''
اور اپنے عزیز رشتہ دار اوردوست واحباب سے اگر کئی دن بعد ملو توان سے معانقہ کرو یہ تمہاری ان سے محبت اور گرم جوشی کا بہترین اظہار ہوگا۔
اسی طرح ہم دیکھیں کہ ہم اپنے گھر والوں ماں باپ، اولاد خصوصاً چھوٹے بچوں سے جب محبت کی نگاہ سے دیکھ کر مسکرا کر اشاروں کنایوں میں محبت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی خوشی بھی بڑی انوکھی اور نرالی ہوتی ہے۔ اس طرح کے اظہار کے ساتھ لفظوں کی کمی بیشی بھی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود کو منوانے اور کامیابیوں کا زینہ طے کرنے میں یہ طریقہ کافی مددگار ثابت ہورہا ہے البتہ مسکراہٹ اورگرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں، اگر ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو باقی چھوٹی منزلیں بھی خود بہ خود طے ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ کی باڈی لینگویج آپ کے الفاظ کو سہارا دے رہی ہے تو پھر یہی آپ کی کامیابی کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے۔
آج کل مغرب میں زبانی اظہار کی نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ مؤثر مانا جارہا ہے اور اسی کو اہمیت بھی دی جارہی ہے۔ اعلیٰ طبقوں میں تو ''باڈی لینگویج'' ایک باقاعدہ فن کی شکل اختیار کرگیا ہے، بہت سارے متاثر کن لفظوں کے چناؤکے بجائے زیادہ اچھا نہیں کہ آپ ایک مسکراہٹ کے ساتھ پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر یا معانقہ کرکے اپنے مخاطب کا دل جیت لیں؟
ایک معروف مفکر کا کہنا ہے: ہاتھ ملانے یعنی مصافحہ کرنے میں ایک راز مخفی ہوتا ہے اور اس راز سے وہی بہ خوبی واقف ہوتے ہیں جو جسمانی زبان کو بہ خوبی جانتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں۔''
آپ اپنے کسی عزیز یادوںست سے کئی دنوں بعد مل رہے ہیں اور آپ نے گرم جوشی کے ساتھ اس سے معانقہ کر کے اس کا حال احوال پوچھا تواس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوگا اور اگر آپ نے اس سے سرسری سا مصافحہ کیا اور احوال پوچھا تو اس کی کیفیت اور آنکھوں میں کوئی خاص قسم کی چمک پیدانہ ہوگی۔ گویا حرکات اور سکنات کے ساتھ اظہار کا طریقہ بہت کامیاب اور مختصر ہے۔ اس میں آپ کو زبان سے کم الفاظ میں اپنے رفیق اور ساتھی کو اپنی مکمل کیفیت بتانے میں حددرجہ مدد مل جاتی ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں کمیونی کیشن کے ایک پروفیسر جارج فاسٹربھی باڈی لینگویج کو دور حاضر کا ایک کامیاب نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں: ''آپ سر توڑ کوشش کے باوجود چند سیکنڈ کے لیے ایسے جامع، مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کرسکتے ہیں، جن کے بولنے سے آپ کو حسب منشا نتیجہ حاصل ہوسکے، جب کہ چند سیکنڈ کا پرجوش مصافحہ آپ کو توقع سے بڑھ کر نتائج دے سکتا ہے۔ وجہ یہی کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی عہدے پر کیوں فائز نہ ہو،اپنے مقابل سے بھرپور توجہ اور خلوص چاہتا ہے ،جو آگے بڑھ کر ہاتھ ملا لینے سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
ایک مشہور ماہر نفسیات ووڈ کہتی ہیں:''کسی بھی شخص کو آپ سے پہلی ملاقات میں آپ کے بارے میں کوئی تاثر قائم کرنے میں محض 90 سیکنڈ لگتے ہیں اور اگر یہ 90 سیکنڈ وہ ہوں کہ جب آپ اس سے گرم جوشی سے ہاتھ ملا رہے ہیں تو یہ عمل آپ کے فائدے میں ہوگا, خصوصاً اگر آپ اس شخص سے کاروباری معاملات کا آغاز کرنے جارہے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ آپ کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔''
پینی ووڈ یہ بھی کہتی ہیں کہ ہزاروں الفاظ کے استعمال سے کہیں زیادہ گہرے اثرات پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر مل سکتے ہیں۔''
اسی طرح جب ہم انٹرویو کے لیے کسی ادارے میں جاتے ہیں تو سننے والا ہمارے تاثرات،آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ، ہاتھوں کی حرکات و سکنات اور چہرے کے زاویوں کو بھی پرکھتا ہے۔ غرض مکمل شخصیت کا جائزہ لے کر ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔
بہ حیثیت استاد آپ اپنے طلبہ و طالبات کو اعضا کے اظہار سے بہترین طریقے سے موضوع سمجھا سکتے ہیں۔ بہ حیثیت ماں آپ اپنے بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر، ہاتھوں کو تھام کر اسے تحفظ کا احساس دلاسکتی ہیں۔
بہ حیثیت بیوی آپ اپنے شریک سفر کو بھی اپنی تشکر آمیزنگاہوں سے اپنے مضبوط تعلق کا اعتماد دے سکتی ہیں۔ بہ حیثیث ورکر آپ اپنے باس کو کسی متوقع کامیابی پر مسکراہٹ کے ساتھ جیت کے اظہار کو انگوٹھے سے وی کا نشان بناکر بتاسکتے ہیں۔ غرض ہر ہر جگہ اور شعبے میں اس طریقہ اظہار کو اپنا کر کامیابی کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان اگر ہم اس اظہار محبت یا اظہار احساسات پر غور کریں تو ہمیں ہمارے رہبر و ہادی حضور پاکﷺ نے بھی یہی تعلیم دی اور فرمایا:''سلام کی تکمیل مصافحہ میں ہے۔''
اور اپنے عزیز رشتہ دار اوردوست واحباب سے اگر کئی دن بعد ملو توان سے معانقہ کرو یہ تمہاری ان سے محبت اور گرم جوشی کا بہترین اظہار ہوگا۔
اسی طرح ہم دیکھیں کہ ہم اپنے گھر والوں ماں باپ، اولاد خصوصاً چھوٹے بچوں سے جب محبت کی نگاہ سے دیکھ کر مسکرا کر اشاروں کنایوں میں محبت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی خوشی بھی بڑی انوکھی اور نرالی ہوتی ہے۔ اس طرح کے اظہار کے ساتھ لفظوں کی کمی بیشی بھی نظر انداز ہوجاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود کو منوانے اور کامیابیوں کا زینہ طے کرنے میں یہ طریقہ کافی مددگار ثابت ہورہا ہے البتہ مسکراہٹ اورگرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں، اگر ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو باقی چھوٹی منزلیں بھی خود بہ خود طے ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ کی باڈی لینگویج آپ کے الفاظ کو سہارا دے رہی ہے تو پھر یہی آپ کی کامیابی کی سیڑھی کا پہلا قدم ہے۔