یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں…
غریبوں کا درد رکھنے والا حبیب جالب۔ قیام پاکستان سے قبل بھی بھٹکا اور جب پاکستان بن گیا تب بھی در بدر۔
بچپن میں، میں نے بابا فضلو سے پوچھا کہ '' پاگل کیا ہوتا ہے ؟ '' تو اس نے جواب دیا '' جس نے پا لئی گل ...... او پاگل ''!
بابا فضل عرف بابا فضلو ان پڑھ اور افیمی ہونے کے باوجود بہت سے پڑھے لکھے جاہلوں سے زیادہ باشعور تھا۔ سفید بال ٗ سیاہ رنگت اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے وہ ایک منحنی سا شخص تھا۔ پاگل یا دیوانے کی مزید تعریف بابا فضلو نے کچھ یوں بیان کی کہ دیوانہ اگر زمین پر ہے تو روزانہ میلا لگا رہتا ہے اگر مر کے زمین میں چلا جائے تو سالانہ میلہ لگا رہتا ہے۔ دیوانہ وہ جو دنیاوی آسائشیں ترک کر کے پر خار راستوں پر چل نکلے اور چلتا ہی چلا جائے۔ خود کو وہ من موجی سمجھے اور دنیا اسے دیوانہ کہے۔
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟
ایسا ہی ایک دیوانہ وہ تھا جو بنارس سے سو میل دور شمال میں اپنی وسیع و عریض سلطنت کا لاڈلا شہزادہ تھا۔ پیدا ہوا تو اس کا نام سدھارتھ رکھا گیا۔ زندگی میں مکمل عیش و آرام تھا۔ ایک دن ہرن کے شکار پر گیا ٗنشانہ لگایا تیر کمان سے نکلنے ہی والا تھا کہ دیکھا ہرن اپنے انجام سے بے خبر نرم نرم گھاس کھا رہا ہے۔ سدھارتھ نے سوچا اس نے میرا کیا بگاڑا ہے میں اسے کیوں قتل کروں؟ دل بھر آیا۔ پھر اک دن گھڑ سواری کرتے ہوئے ریس کے اختتام سے چند لمحے قبل گھوڑے کو ہانپتا ہوا پایا تو سوچا میں اس کی لگام کسوں گا تو اسے تکلیف ہوگی۔ جیت کا جشن تو میں منائوں گا مگر گھوڑا بے چارہ اتنا ظلم کیوں سہے ؟30برس کی عمر میں سدھارتھ نے دنیا طاق دی۔ جنگل میں بسیرا کیا ٗخود کو پہچانا ۔ راج گڑھ گیا۔ پھر پٹنہ گیا۔ اب سدھارتھ شہزادہ نہیں تھا۔ جب گیا تھا تب حسین لباس میں ملبوس تھا۔ اب اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ سدھارتھ اب گوتم بدھ بن چکا تھا۔ اس نے اپنی دیوانگی سے نا صرف خود کو بدل دیا بلکہ لاکھوں کروڑوں پیروکار بھی بنا لیے۔
ایک اور بھی دیوانہ تھا۔ یہ سیاہ فام افریقی باشندہ ٗ جنوبی افریقہ میں سب سے بڑی تحریک کا روح رواں تھا۔ دنیا اسے نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے۔ پڑھا لکھا قابل انسان تھا۔ اچھی بھلی زندگی گذار رہا تھا۔ بیوی ٗ بچے خوش حال گھرانہ ٗ مگر نسلی تعصب سے تنگ آ گیا۔ اس پر تبدیلی کا جنون سوار ہو گیا۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کو ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ جب پر امن احتجاج سے بات نہ بنی تو اس نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا اور قید ہو گیا۔ جب27سال جیل کاٹ کر باہر نکلا تو سب کو معاف کردیا۔ جنوبی افریقہ کا پہلا جمہوری صدر منتخب ہوا اس پر جوانی میں تشددٗ بغاوت اور نقص ِ امن کے لاتعداد مقدمات قائم ہوئے۔ اس کی جوانی کے بہترین سال جیل کی کال کوٹھڑی میں ختم ہوگئے۔ یہ جب آزاد ہوا تو اس نے امن کی بات کی۔ امن کا ایسا داعی بنا کہ گوروں نے ہی اسے امن کا نوبل انعام دیا۔
ایک اور دیوانہ ہمارا اپنا فیض تھا۔ فیض احمد فوج میں بھرتی ہوا۔ جب لیفٹینٹ کرنل بنا تو فوج کی نوکری چھوڑ دی۔ بھلا دیوانگی اور نوکری کب ساتھ چلتی ہیں؟ اس کی دیوانگی کی پہلی آزمائش اس وقت ہوئی جب فیض کو9مارچ1951ء میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا۔ پھر منٹگمری جیل میں قید تنہائی۔مگر اس نے اپنی روش نہیں بدلی۔
متاع ِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خود دل میں ڈبولی انگلیاں میں نے
زباں پر مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
ایک خوش حال گھرانے سے تعلق کے باوجود اس دیوانے کو سکون کہاں تھا۔ آمریت کے خلاف لکھا تو قلم توڑ دی گئی۔ مگر خون جگر ابلتا رہا اور آمر بلکتا رہا۔ آمر کو پھر بھی سکون نہ ملا اور فیض کو جلا وطن کر دیا ۔ کبھی روس ٗ کبھی برطانیہ تو کبھی بیروت میں جلا وطنی کاٹی۔ نہ آمریت سے سمجھوتہ کیا اور نہ ہی '' مفاہمت '' کی پالیسی اختیار کی۔ایک دیوانہ ایسا بھی تھا جسے سکون ہی نہ تھا ۔ علم و ادب کا ایسا چراغ کہ جب وہ جلتا تو منظر کے ساتھ ساتھ ایمان بھی روشن ہو جاتا۔ غریبوں کا درد رکھنے والا حبیب جالب۔ قیام پاکستان سے قبل بھی بھٹکا اور جب پاکستان بن گیا تب بھی در بدر۔ مگر حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا اپنی آوارگی پر خود ہی لکھا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
حیدر بخش جتوئی نے سندھ ہاری تحریک چلائی تو حبیب جالب پیش پیش تھے۔ طبقاتی تقسیم کے خلاف لڑنا ہی اس کا مقصد تھا۔ 1960 اور1970کے درمیان متعدد بار پابند سلاسل ہوئے۔ انقلابی شاعری سے خوف کھاتے ہوئے مجموعہ کلام '' سر مقتل '' کو حکومت وقت نے ضبط کر لیا۔ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تو عقوبت خانوں میں قید رہے۔ '' ایوبی دور '' کے آئین کو اس دیوانے نے نہیں مانا۔
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا
1970ء میں جب یحیٰی خان نے اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد نہ کیا اور اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھائے تو حبیب جالب پکار اٹھے
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
آمروں نے تو جو ظلم کیا سو کیا خود ذوالفقار علی بھٹو نے حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کروا دیا۔
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو۔ ورنہ تھانے چلو
ایسا ہی ایک دیوانہ شہرت اور آسائش کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ کہ نا جانے اس کے من میں کیا سمائی جو اس نے ''پی ٹی آئی'' بنائی۔ کبھی اس کی پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہا گیا تو کبھی میڈیا میں اس کا ٹھٹھا اڑایا گیا۔ عمران خان نے جب سیاست کا آغاز کیا تو پاکستان کے روایتی سیاستدانوں اور سیاسی مبصرین کے لیے یہ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہ تھا مگر پھر بھی یہ دیوانہ لگا ہی رہا اور آج بہت سے پاکستانیوں خصوصاً نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ کیا ضرورت تھی پاکستان کی سیاست کے پرخار رستوں پر چلنے کی؟ دشمنیاں مول لینے کی؟ نہ کاروبار کو تقویت دینا مقصود تھا کیونکہ وہ تھا ہی نہیں اور نہ ہی جاگیر کی حفاظت مقصود تھی ۔نہ خاندانی دشمنیاں نبھانی تھیں اور نہ شہرت کی پیاس تھی اور نہ ہی مقدمات ختم کروانے تھے۔ اگر یہ کچھ نہ تھا تو پھر ایک ہی چیز رہ جاتی ہے جسے جنون کہتے ہیں اور یہ خاصیت سب دیوانوں میں یکساں ہوتی ہے۔یہ دیوانے کسی منطق کے محتاج نہیں یہ لوگ عیش و عشرت،ٗ دولت اور نمود و نمائش کے پجاریوں کی فہم سے ماورا لوگ ہوتے ہیں۔
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں سے کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
بابا فضل عرف بابا فضلو ان پڑھ اور افیمی ہونے کے باوجود بہت سے پڑھے لکھے جاہلوں سے زیادہ باشعور تھا۔ سفید بال ٗ سیاہ رنگت اور چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجائے وہ ایک منحنی سا شخص تھا۔ پاگل یا دیوانے کی مزید تعریف بابا فضلو نے کچھ یوں بیان کی کہ دیوانہ اگر زمین پر ہے تو روزانہ میلا لگا رہتا ہے اگر مر کے زمین میں چلا جائے تو سالانہ میلہ لگا رہتا ہے۔ دیوانہ وہ جو دنیاوی آسائشیں ترک کر کے پر خار راستوں پر چل نکلے اور چلتا ہی چلا جائے۔ خود کو وہ من موجی سمجھے اور دنیا اسے دیوانہ کہے۔
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا؟
ایسا ہی ایک دیوانہ وہ تھا جو بنارس سے سو میل دور شمال میں اپنی وسیع و عریض سلطنت کا لاڈلا شہزادہ تھا۔ پیدا ہوا تو اس کا نام سدھارتھ رکھا گیا۔ زندگی میں مکمل عیش و آرام تھا۔ ایک دن ہرن کے شکار پر گیا ٗنشانہ لگایا تیر کمان سے نکلنے ہی والا تھا کہ دیکھا ہرن اپنے انجام سے بے خبر نرم نرم گھاس کھا رہا ہے۔ سدھارتھ نے سوچا اس نے میرا کیا بگاڑا ہے میں اسے کیوں قتل کروں؟ دل بھر آیا۔ پھر اک دن گھڑ سواری کرتے ہوئے ریس کے اختتام سے چند لمحے قبل گھوڑے کو ہانپتا ہوا پایا تو سوچا میں اس کی لگام کسوں گا تو اسے تکلیف ہوگی۔ جیت کا جشن تو میں منائوں گا مگر گھوڑا بے چارہ اتنا ظلم کیوں سہے ؟30برس کی عمر میں سدھارتھ نے دنیا طاق دی۔ جنگل میں بسیرا کیا ٗخود کو پہچانا ۔ راج گڑھ گیا۔ پھر پٹنہ گیا۔ اب سدھارتھ شہزادہ نہیں تھا۔ جب گیا تھا تب حسین لباس میں ملبوس تھا۔ اب اس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ یہ سدھارتھ اب گوتم بدھ بن چکا تھا۔ اس نے اپنی دیوانگی سے نا صرف خود کو بدل دیا بلکہ لاکھوں کروڑوں پیروکار بھی بنا لیے۔
ایک اور بھی دیوانہ تھا۔ یہ سیاہ فام افریقی باشندہ ٗ جنوبی افریقہ میں سب سے بڑی تحریک کا روح رواں تھا۔ دنیا اسے نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے۔ پڑھا لکھا قابل انسان تھا۔ اچھی بھلی زندگی گذار رہا تھا۔ بیوی ٗ بچے خوش حال گھرانہ ٗ مگر نسلی تعصب سے تنگ آ گیا۔ اس پر تبدیلی کا جنون سوار ہو گیا۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی کو ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ جب پر امن احتجاج سے بات نہ بنی تو اس نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا اور قید ہو گیا۔ جب27سال جیل کاٹ کر باہر نکلا تو سب کو معاف کردیا۔ جنوبی افریقہ کا پہلا جمہوری صدر منتخب ہوا اس پر جوانی میں تشددٗ بغاوت اور نقص ِ امن کے لاتعداد مقدمات قائم ہوئے۔ اس کی جوانی کے بہترین سال جیل کی کال کوٹھڑی میں ختم ہوگئے۔ یہ جب آزاد ہوا تو اس نے امن کی بات کی۔ امن کا ایسا داعی بنا کہ گوروں نے ہی اسے امن کا نوبل انعام دیا۔
ایک اور دیوانہ ہمارا اپنا فیض تھا۔ فیض احمد فوج میں بھرتی ہوا۔ جب لیفٹینٹ کرنل بنا تو فوج کی نوکری چھوڑ دی۔ بھلا دیوانگی اور نوکری کب ساتھ چلتی ہیں؟ اس کی دیوانگی کی پہلی آزمائش اس وقت ہوئی جب فیض کو9مارچ1951ء میں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا۔ پھر منٹگمری جیل میں قید تنہائی۔مگر اس نے اپنی روش نہیں بدلی۔
متاع ِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خود دل میں ڈبولی انگلیاں میں نے
زباں پر مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
ایک خوش حال گھرانے سے تعلق کے باوجود اس دیوانے کو سکون کہاں تھا۔ آمریت کے خلاف لکھا تو قلم توڑ دی گئی۔ مگر خون جگر ابلتا رہا اور آمر بلکتا رہا۔ آمر کو پھر بھی سکون نہ ملا اور فیض کو جلا وطن کر دیا ۔ کبھی روس ٗ کبھی برطانیہ تو کبھی بیروت میں جلا وطنی کاٹی۔ نہ آمریت سے سمجھوتہ کیا اور نہ ہی '' مفاہمت '' کی پالیسی اختیار کی۔ایک دیوانہ ایسا بھی تھا جسے سکون ہی نہ تھا ۔ علم و ادب کا ایسا چراغ کہ جب وہ جلتا تو منظر کے ساتھ ساتھ ایمان بھی روشن ہو جاتا۔ غریبوں کا درد رکھنے والا حبیب جالب۔ قیام پاکستان سے قبل بھی بھٹکا اور جب پاکستان بن گیا تب بھی در بدر۔ مگر حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا اپنی آوارگی پر خود ہی لکھا۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
حیدر بخش جتوئی نے سندھ ہاری تحریک چلائی تو حبیب جالب پیش پیش تھے۔ طبقاتی تقسیم کے خلاف لڑنا ہی اس کا مقصد تھا۔ 1960 اور1970کے درمیان متعدد بار پابند سلاسل ہوئے۔ انقلابی شاعری سے خوف کھاتے ہوئے مجموعہ کلام '' سر مقتل '' کو حکومت وقت نے ضبط کر لیا۔ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تو عقوبت خانوں میں قید رہے۔ '' ایوبی دور '' کے آئین کو اس دیوانے نے نہیں مانا۔
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا
1970ء میں جب یحیٰی خان نے اقتدار منتخب نمائندوں کے سپرد نہ کیا اور اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھائے تو حبیب جالب پکار اٹھے
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
آمروں نے تو جو ظلم کیا سو کیا خود ذوالفقار علی بھٹو نے حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کروا دیا۔
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو۔ ورنہ تھانے چلو
ایسا ہی ایک دیوانہ شہرت اور آسائش کی بلندیوں کو چھو رہا تھا۔ کہ نا جانے اس کے من میں کیا سمائی جو اس نے ''پی ٹی آئی'' بنائی۔ کبھی اس کی پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہا گیا تو کبھی میڈیا میں اس کا ٹھٹھا اڑایا گیا۔ عمران خان نے جب سیاست کا آغاز کیا تو پاکستان کے روایتی سیاستدانوں اور سیاسی مبصرین کے لیے یہ ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہ تھا مگر پھر بھی یہ دیوانہ لگا ہی رہا اور آج بہت سے پاکستانیوں خصوصاً نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکا ہے۔ کیا ضرورت تھی پاکستان کی سیاست کے پرخار رستوں پر چلنے کی؟ دشمنیاں مول لینے کی؟ نہ کاروبار کو تقویت دینا مقصود تھا کیونکہ وہ تھا ہی نہیں اور نہ ہی جاگیر کی حفاظت مقصود تھی ۔نہ خاندانی دشمنیاں نبھانی تھیں اور نہ شہرت کی پیاس تھی اور نہ ہی مقدمات ختم کروانے تھے۔ اگر یہ کچھ نہ تھا تو پھر ایک ہی چیز رہ جاتی ہے جسے جنون کہتے ہیں اور یہ خاصیت سب دیوانوں میں یکساں ہوتی ہے۔یہ دیوانے کسی منطق کے محتاج نہیں یہ لوگ عیش و عشرت،ٗ دولت اور نمود و نمائش کے پجاریوں کی فہم سے ماورا لوگ ہوتے ہیں۔
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں سے کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں