ڈومور کا پھر مطالبہ

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات اور پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات اور پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ فوٹو: فائل

امریکی پرنسپل نائب معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیاء ایلس ویلز نے کابل کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے پاکستان سے ''ڈومور'' کا روایتی مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو طالبان پر دباؤ بڑھانے اور انھیں مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان نے اہم کردار ادا کرنا ہے لیکن ہم نے ابھی تک اس کی طرف سے کوئی پائیدار اور فیصلہ کن اقدام نہیں دیکھا۔

پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لایا یہاں تک کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے مری میں دونوں کو ایک میز پر لا بٹھایا لیکن یہ امریکا ہی تھا جس نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ان مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔

امریکا کے اس منافقانہ رویے اور چالبازیوں نے طالبان کے اعتماد کو مجروح کیا اور انھوں نے مذاکرات کے بجائے مختلف جنگی کارروائیوں اور خود کش حملوں کے ذریعے امریکا اور افغان حکومت کا ناک میں دم کر دیا۔ پاکستان نے امریکا اور افغان حکومت کو بارہا سمجھایا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ میں نہیں مذاکرات میں مضمر ہے' اس راستے کے سوا جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا اس سے امن نہیں آئے گا۔ شاید امریکا کو یقین تھا کہ وہ طالبان کو دبانے میں کامیاب ہو جائے گا۔


اس دوران اس نے پاکستان پر ڈومور کا مطالبہ دہرانا شروع کر دیا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کے ذریعے اسے دباؤ میں لانے کی کوشش کی۔ اب امریکا کو ادراک ہو گیا کہ جس منصوبے پر وہ عمل پیرا ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات اور پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے جس کا اعتراف ایلس ویلز نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ اگر پاکستان ہمارے ساتھ کام نہیں کرتا تو ہمارے لیے اہداف کا حصول بہت مشکل ہو گا، طالبان کی جانب سے امن مذاکرات سے مسلسل پہلو تہی اور انکار ناقابل قبول ہے، عید کے دوران افغانستان میںجنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس اقدام نے ہر ایک کے لیے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ مسئلے کا مذاکراتی سیاسی حل نکالنے کے حوالے سے اپنی کوششوں کا اعادہ کرے، افغان حکومت اور امریکا پیشگی شرائط کے بغیر بات چیت کے لیے آمادہ ہیں اور اب طالبان نے اس کا جواب دینا ہے، اب فیصلہ طالبان رہنماؤں نے کرنا ہے جو افغانستان میں مقیم نہیں اور مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل میں رکاوٹ ہیں۔

افغان صدراشرف غنی نے افغانستان میں قیام امن میں پاکستان کے کردارکوایک بار پھر تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان مل کر دہشتگردی کا خاتمہ کریںگے، دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تحریری فریم ورک طے پا گیا ہے۔ انھوں نے طالبان کومذاکرات کی دوبارہ دعوت دیتے ہوئے کہا کہ وہ جب چاہیں گے حکومت دوبارہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔

امریکا اور افغان حکومت پہلے طالبان سے مشروط مذاکرات کا عندیہ دے رہے تھے لیکن اب انھوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے پیشگی شرائط کے بغیر طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ امریکا کو افغانستان کے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے پاکستان کے مفادات کا خیال رکھنا پڑے گا اگر وہ پاکستانی مفادات کو زک پہنچاتا ہے تو افغانستان میں قیام امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اسے پاکستان پر بلاجواز دباؤ ڈالنے کی روش ترک کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے امن عمل کے لیے پیش کیے گئے منصوبے پر غور کرنا چاہیے۔
Load Next Story