پاکستان فلم انڈسٹری میں مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں علی ظفر
عہد کیا تھا کہ بولی وڈ میں پاکستان کی بدنامی کاباعث نہیں بنوں گا‘ ممتاز گلوکار اور اداکار علی ظفر سے بات چیت
' چھنو کی آنکھ میں اک نشا ہے ' سے شہرت کی بلندیوں کوچھونے والے گلوکارعلی ظفر آج کسی تعارف کے محتا ج نہیں ہیں۔ میوزک ، ایکٹنگ اورماڈلنگ کے شعبوں میں جس طرح سے انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
کہنے کوتووہ ایک مصور( سکیچ آرٹسٹ ) تھے لیکن جس طرح سے انہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے پڑوسی ملک بھارت میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے، اس پرہرایک پاکستانی ان پرفخر کرتا ہے۔ بالی وڈ جیسی فلم نگری ، جہاں پاکستانیوں کوکھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا تھا ، وہاں علی ظفر کے چاہنے والوں کی آج بڑی تعداد بستی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب علی ظفرنے پاکستان میں کام کرنے کی ٹھانی توبہت ساری مخالفت کے باوجود بالی وڈ کے سب سے بڑے فلمساز ادارے یش راج فلمز نے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی فلم کودنیا بھرمیں ریلیز کرنے کی ذمہ داری اٹھالی۔ اس سلسلہ میں باقاعدہ معاہدہ کیا گیا اورعلی ظفرکوسوچی سمجھی سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کے بعد بھی یش راج بینرنے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔
یہ ایک طرح سے علی ظفرکے بہترین فنکار اور انسان ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ اس کے علاوہ اگردیکھا جائے تویش راج بینرز ایک ایسا ادارہ ہے جوصرف اورصرف بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان اورسلمان خان کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس فیصلے سے یہ اندازہ تولگایا جاسکتا ہے کہ علی ظفرنے واقعی ہی اس معیارکا کام کیا ہے کہ جس کودیکھتے ہوئے بالی وڈ والے بھی ان کی فلم ریلیزکرنے کو تیار ہوچکے ہیں۔
ویسے توعلی ظفر بالی وڈ میں 'میرے برادر کی دلہن'، 'لندن پیرس نیویارک' ، ' چشم بددور ' اور'کل دل ' جیسی فلموں میں کام کرچکے ہیں لیکن اب وہ پاکستان میں فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان فلموں میں نا صرف وہ ایکٹنگ کرتے دکھائی دینگے، بلکہ وہ میوزک اورفلمسازی کے شعبوں میں بھی اپنی خدمات انجام دینگے۔ پاکستان میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے حوالے سے گزشتہ دنوںعلی ظفرنے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا، جوقارئین کی نذرہے۔
علی ظفرکا کہنا تھا کہ میری زندگی کی شروعات بہت ہی معمولی انداز میں ہوئی تھی۔ میں نے ' این سی اے ' سے ڈگری حاصل کی اوراس کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے بطورسکیچ آرٹسٹ مقامی فائیوسٹارہوٹل میں صرف پانچ سوروپے کے عوض لوگوں کے سکیچ بنانے لگے۔ خوش شکل اورخوش گفتارہونے کی وجہ سے انہیں ماڈلنگ کی آفرز ہونے لگیں اور وہ ٹی وی کمرشلز، فوٹوشوٹس اورمختلف معروف گلوکاروں کے ویڈیوزمیں بطورماڈل دکھائی دینے لگے۔
اس وقت تک بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ؟ مگرمیں نے دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ ایک طرف ماڈلنگ کے پراجیکٹس تھے تودوسری جانب فوٹوشوٹس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن مجھے موسیقی سے بے پناہ لگاؤ تھا ۔ میں اکثراپنے قریبی دوستوں کے درمیان اورگھر میں سجنے والی محفلوں میں گایا کرتا تھا اورمستقبل میں میوزک کوہی بطورپروفیشن اپنانا چاہتا تھا۔ میں نے اپنا ایک البم ریکارڈ کیا اوراس کے ویڈیو پرکام شروع کیا۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جب قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے توپھر سب کچھ اچھا ہوجاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم تھا اورمیرے والدین کی دعائیں تھیں کہ میرا پہلا گیت ''چھنو کی آنکھ'' راتوں رات بے حد مقبول ہوگیا۔ میوزک انڈسٹری میں تواس گیت نے زبردست رسپانس پایا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھرمیں بھی اس کے چرچے ہونے لگے۔ یوں کہئے کہ اس گیت نے مجھے ایک ہی رات میں سپرسٹاربنا دیا۔ یہ وہ پہلا گیت تھا جس نے مجھے پہچان تھی۔ اس گیت کے بعد میوزک کنسرٹس ہونے لگے اورمیں نے بطورپاپ سٹار میوزک کی دنیا میں کام شروع کردیا۔
اس گیت کے بعد دنیا بھرمیں پرفارم کرنے کا موقع ملا اورجہاں بھی میں گیا لوگوں نے بے حد پیارکیا۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ ہاں میں نے ایک درست پروفیشن کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے بعد میوزک کا سلسلہ توجاری تھا اورمیرے گیت لوگوں میں مقبولیت حاصل کررہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے بالی وڈ سے فلموں میں کام کرنے کی آفرز شروع ہونے لگیں۔ لیکن میں اس بات کوسمجھتا تھا کہ مجھے بالی وڈ میں کام کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا ، جس سے پاکستان کی بدنامی ہو۔ میں نے فلمی دنیا میں انٹری دی اورپہلی ہی فلم کوزبردست رسپانس ملا۔
ایک طرف تومجھے بالی وڈ نے اپنایا تودوسری جانب پاکستان میں بھی میری توقعات سے بڑھ کا چاہت ملی۔ اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے مجھے بالی وڈ کے سب سے بڑے فلمساز ادارے یش راج بینرز اپنی فلم میں سائن کیا، جوبطورپاکستانی اورنوجوان فنکارکے میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔
بالی وڈ میں کترینہ کیف اوررنویرسنگھ سمیت بہت سے معروف فنکاروں کے ساتھ کام کیااوریہ تجربہ بہت ہی اچھا رہا۔ بالی وڈ میں ایک طرف تومیرے کام کوپسند کیا جا رہا تھا ، وہیں میوزک کے شعبے میں بھی میری خدمات حاصل کی جارہی تھیں۔ اس دوران مجھے پاکستان میں بننے والی فلموں میں بھی کام کی پیشکش ہونے لگی تھیں لیکن کبھی کسی پراجیکٹ کی کہانی جاندارنہ ہوتی توکبھی کسی میں کردار۔
دوسری جانب بھارتی فلم نگری میں سب اچھا چل رہا تھا کہ پھر اچانک پاکستان اوربھارت کے حالات میں کشیدگی بڑھنے لگی اورمیں نے اپنے زیرتکمیل پراجیکٹس کوتیزی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد دنیا کے بیشترممالک میں منعقدہ میوزک کنسرٹس پرکام کرنے کوترجیح دی۔ میں جب پاکستان پہچنا تویہاں پرایک مرتبہ پھرسے مجھے مختلف فلمساز اداروں کی طرف سے کام کی آفرزہوئیں لیکن میں کچھ ہٹ کراورمنفرد کرنا چاہتا تھا۔ کچھ عرصہ انتظارکیا اورپھر خود سے فلم پروڈیوس کرنے کی ٹھان لی۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میں دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری میں کام کرچکا تھا اوراس دوران میں نے وہاں پربہت کچھ سیکھا بھی تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں کچھ ایسا کام کروں جس سے پاکستان کا نام فلمسازی کے شعبے میں نمایاں ہو اورہم وقت ضائع کئے بغیرہی انٹرنیشنل مارکیٹ کے قریب پہنچ سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں علی ظفرنے کہا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اب بہت سی مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں بہترین کام کیا جارہا ہے۔ باصلاحیت فنکاراورتکنیکارفارمولا فلموں کی بجائے اب کچھ نئے موضوعات پرکام کررہے ہیں۔ ایک بات جوسب سے اچھی ہے کہ ہرکوئی ایسی فلمیں بنانے کوترجیح دے رہا ہے، جس سے پاکستانی فلم اورسینما کی ترقی ہوسکے۔
اس وقت دنیا بھرمیں بننے والی فلموں کی بڑی تعداد ایسی ہے، جس کا مقصد عوام کوتفریح فراہم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں بننے والی زیادہ ترفلمیں جوعوام میں مقبول ہوئی ہیں، وہ مزاح سے بھرپوراوررومانٹک ہیں۔ ان فلموں میںبہت سی فلمیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے ذریعے معاشرے کے اہم مسائل کواجاگرکیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ میرے نزدیک توبہت ہی اچھا ہے۔
اسی طرح سے اب ہمارے ہاں بھی بہت سے اہم مسائل کوفلموں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سے میری پہچان ہے اوراس کا نام روشن کرنا میرے لئے سب سے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اپنے کام کوہمیشہ ایمانداری سے انجام دوں ، تاکہ دنیا بھرمیں پاکستان کا سافٹ امیج پہنچ سکے۔
کہنے کوتووہ ایک مصور( سکیچ آرٹسٹ ) تھے لیکن جس طرح سے انہوں نے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے پڑوسی ملک بھارت میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے، اس پرہرایک پاکستانی ان پرفخر کرتا ہے۔ بالی وڈ جیسی فلم نگری ، جہاں پاکستانیوں کوکھلے دل سے قبول نہیں کیا جاتا تھا ، وہاں علی ظفر کے چاہنے والوں کی آج بڑی تعداد بستی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب علی ظفرنے پاکستان میں کام کرنے کی ٹھانی توبہت ساری مخالفت کے باوجود بالی وڈ کے سب سے بڑے فلمساز ادارے یش راج فلمز نے پہلی مرتبہ کسی پاکستانی فلم کودنیا بھرمیں ریلیز کرنے کی ذمہ داری اٹھالی۔ اس سلسلہ میں باقاعدہ معاہدہ کیا گیا اورعلی ظفرکوسوچی سمجھی سازش کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کے بعد بھی یش راج بینرنے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔
یہ ایک طرح سے علی ظفرکے بہترین فنکار اور انسان ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ اس کے علاوہ اگردیکھا جائے تویش راج بینرز ایک ایسا ادارہ ہے جوصرف اورصرف بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان اورسلمان خان کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس فیصلے سے یہ اندازہ تولگایا جاسکتا ہے کہ علی ظفرنے واقعی ہی اس معیارکا کام کیا ہے کہ جس کودیکھتے ہوئے بالی وڈ والے بھی ان کی فلم ریلیزکرنے کو تیار ہوچکے ہیں۔
ویسے توعلی ظفر بالی وڈ میں 'میرے برادر کی دلہن'، 'لندن پیرس نیویارک' ، ' چشم بددور ' اور'کل دل ' جیسی فلموں میں کام کرچکے ہیں لیکن اب وہ پاکستان میں فلمیں پروڈیوس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان فلموں میں نا صرف وہ ایکٹنگ کرتے دکھائی دینگے، بلکہ وہ میوزک اورفلمسازی کے شعبوں میں بھی اپنی خدمات انجام دینگے۔ پاکستان میں اپنی بے پناہ مصروفیات کے حوالے سے گزشتہ دنوںعلی ظفرنے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا، جوقارئین کی نذرہے۔
علی ظفرکا کہنا تھا کہ میری زندگی کی شروعات بہت ہی معمولی انداز میں ہوئی تھی۔ میں نے ' این سی اے ' سے ڈگری حاصل کی اوراس کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے بطورسکیچ آرٹسٹ مقامی فائیوسٹارہوٹل میں صرف پانچ سوروپے کے عوض لوگوں کے سکیچ بنانے لگے۔ خوش شکل اورخوش گفتارہونے کی وجہ سے انہیں ماڈلنگ کی آفرز ہونے لگیں اور وہ ٹی وی کمرشلز، فوٹوشوٹس اورمختلف معروف گلوکاروں کے ویڈیوزمیں بطورماڈل دکھائی دینے لگے۔
اس وقت تک بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ میں مستقبل میں کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ؟ مگرمیں نے دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ ایک طرف ماڈلنگ کے پراجیکٹس تھے تودوسری جانب فوٹوشوٹس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ لیکن مجھے موسیقی سے بے پناہ لگاؤ تھا ۔ میں اکثراپنے قریبی دوستوں کے درمیان اورگھر میں سجنے والی محفلوں میں گایا کرتا تھا اورمستقبل میں میوزک کوہی بطورپروفیشن اپنانا چاہتا تھا۔ میں نے اپنا ایک البم ریکارڈ کیا اوراس کے ویڈیو پرکام شروع کیا۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جب قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے توپھر سب کچھ اچھا ہوجاتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم تھا اورمیرے والدین کی دعائیں تھیں کہ میرا پہلا گیت ''چھنو کی آنکھ'' راتوں رات بے حد مقبول ہوگیا۔ میوزک انڈسٹری میں تواس گیت نے زبردست رسپانس پایا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھرمیں بھی اس کے چرچے ہونے لگے۔ یوں کہئے کہ اس گیت نے مجھے ایک ہی رات میں سپرسٹاربنا دیا۔ یہ وہ پہلا گیت تھا جس نے مجھے پہچان تھی۔ اس گیت کے بعد میوزک کنسرٹس ہونے لگے اورمیں نے بطورپاپ سٹار میوزک کی دنیا میں کام شروع کردیا۔
اس گیت کے بعد دنیا بھرمیں پرفارم کرنے کا موقع ملا اورجہاں بھی میں گیا لوگوں نے بے حد پیارکیا۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ ہاں میں نے ایک درست پروفیشن کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے بعد میوزک کا سلسلہ توجاری تھا اورمیرے گیت لوگوں میں مقبولیت حاصل کررہے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے بالی وڈ سے فلموں میں کام کرنے کی آفرز شروع ہونے لگیں۔ لیکن میں اس بات کوسمجھتا تھا کہ مجھے بالی وڈ میں کام کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا ، جس سے پاکستان کی بدنامی ہو۔ میں نے فلمی دنیا میں انٹری دی اورپہلی ہی فلم کوزبردست رسپانس ملا۔
ایک طرف تومجھے بالی وڈ نے اپنایا تودوسری جانب پاکستان میں بھی میری توقعات سے بڑھ کا چاہت ملی۔ اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے مجھے بالی وڈ کے سب سے بڑے فلمساز ادارے یش راج بینرز اپنی فلم میں سائن کیا، جوبطورپاکستانی اورنوجوان فنکارکے میرے لئے اعزاز کی بات تھی۔
بالی وڈ میں کترینہ کیف اوررنویرسنگھ سمیت بہت سے معروف فنکاروں کے ساتھ کام کیااوریہ تجربہ بہت ہی اچھا رہا۔ بالی وڈ میں ایک طرف تومیرے کام کوپسند کیا جا رہا تھا ، وہیں میوزک کے شعبے میں بھی میری خدمات حاصل کی جارہی تھیں۔ اس دوران مجھے پاکستان میں بننے والی فلموں میں بھی کام کی پیشکش ہونے لگی تھیں لیکن کبھی کسی پراجیکٹ کی کہانی جاندارنہ ہوتی توکبھی کسی میں کردار۔
دوسری جانب بھارتی فلم نگری میں سب اچھا چل رہا تھا کہ پھر اچانک پاکستان اوربھارت کے حالات میں کشیدگی بڑھنے لگی اورمیں نے اپنے زیرتکمیل پراجیکٹس کوتیزی کے ساتھ مکمل کرنے کے بعد دنیا کے بیشترممالک میں منعقدہ میوزک کنسرٹس پرکام کرنے کوترجیح دی۔ میں جب پاکستان پہچنا تویہاں پرایک مرتبہ پھرسے مجھے مختلف فلمساز اداروں کی طرف سے کام کی آفرزہوئیں لیکن میں کچھ ہٹ کراورمنفرد کرنا چاہتا تھا۔ کچھ عرصہ انتظارکیا اورپھر خود سے فلم پروڈیوس کرنے کی ٹھان لی۔
اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میں دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری میں کام کرچکا تھا اوراس دوران میں نے وہاں پربہت کچھ سیکھا بھی تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں کچھ ایسا کام کروں جس سے پاکستان کا نام فلمسازی کے شعبے میں نمایاں ہو اورہم وقت ضائع کئے بغیرہی انٹرنیشنل مارکیٹ کے قریب پہنچ سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں علی ظفرنے کہا کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اب بہت سی مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں۔ پاکستان میں فلمسازی کے شعبے میں بہترین کام کیا جارہا ہے۔ باصلاحیت فنکاراورتکنیکارفارمولا فلموں کی بجائے اب کچھ نئے موضوعات پرکام کررہے ہیں۔ ایک بات جوسب سے اچھی ہے کہ ہرکوئی ایسی فلمیں بنانے کوترجیح دے رہا ہے، جس سے پاکستانی فلم اورسینما کی ترقی ہوسکے۔
اس وقت دنیا بھرمیں بننے والی فلموں کی بڑی تعداد ایسی ہے، جس کا مقصد عوام کوتفریح فراہم کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں بننے والی زیادہ ترفلمیں جوعوام میں مقبول ہوئی ہیں، وہ مزاح سے بھرپوراوررومانٹک ہیں۔ ان فلموں میںبہت سی فلمیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے ذریعے معاشرے کے اہم مسائل کواجاگرکیا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ میرے نزدیک توبہت ہی اچھا ہے۔
اسی طرح سے اب ہمارے ہاں بھی بہت سے اہم مسائل کوفلموں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سے میری پہچان ہے اوراس کا نام روشن کرنا میرے لئے سب سے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اس لئے میں کوشش کروں گا کہ اپنے کام کوہمیشہ ایمانداری سے انجام دوں ، تاکہ دنیا بھرمیں پاکستان کا سافٹ امیج پہنچ سکے۔